مالم جبہ اسکینڈل

پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے درمیان جو ’’پیار بھری باتیں‘‘ہوئیں، ان کا سب کو علم ہو چکا ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

تبدیلی سرکار دنیا کی واحد سرکار ہوگی جسے ترقی کے گراف پر سفر نصیب نہ ہوسکا بلکہ روز اول سے ہی تنزلی کی جانب جس سفر آغاز ہوا تھا، اس کی رفتاراب مزید تیزہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے پہل تو صرف مخالفین ہی تبدیلی سرکار کو آڑے ہاتھ لیتے تھے اب تو اپنوں کے ہاتھوں میں بھی نشتر دکھائی دے رہے ہیں۔

میڈیا کے اس دور میں خبریں چھپائے نہیں چھپتیں۔ پرویز خٹک اور وزیر اعظم کے درمیان جو ''پیار بھری باتیں''ہوئیں، ان کا سب کو علم ہو چکا ہے۔ تبدیلی سرکار کی ناکامیوں کی فہرست کو دیکھ کر اپنے بھی بول پڑے کہ اﷲ کے واسطے کچھ تو ایسا کریں کہ ہم قوم اور اپنے ووٹرز کو منہ دکھانے کے قابل ہوجائیں۔ اپوزیشن تو روز اول سے اعلان کر رہی ہے کہ تبدیلی سرکار ناجائز ہونے کے ساتھ ساتھ نااہل اور نالائق بھی ہے مگر اب تو عمران خان کے دست راست بھی ساڑھے تین سال کی مسلسل ناکامیوں پر بول پڑے ہیں۔

تبدیلی سرکار کے طرز حکمرانی پر تو بہت سارے قلمکاروں کی طرح میں بھی کئی بار لکھ چکا ہوں مگر سانحہ مری کے بعد تو مجھے یقین ہی نہیں آرہا کہ نا اہلی اس لیول پر پہنچ گئی کہ ''ملکہ کوہسار مری'' جیسا سیاحتی مقام بھی ان کے لیے طعنہ بن گیا۔ میں سیاح نہیں ہوں مگر اپنے وطن خصوصاً خیبر پختونخوا کے سیاحتی مقامات کو اپنی چھوٹی سی دنیا کا سوئٹزرلینڈ سمجھتا ہو۔ مری میں تبدیلی سرکار کی ''کارکردگی'' نے مجھے زبان زد عام مالم جبہ اسکینڈل کی طرف متوجہ کیا۔

دوسرے پاکستانیوں کی طرح میں بھی کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عمران خان کے چاہنے والوں میں شامل رہا اور شوکت خانم اسپتال کی کامیابی کے بعد مزید متاثر ہوا۔ مگر جس دن انھوں نے سیاست میں ٹانگ اڑائی میں پریشان ہوگیا تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ عمران خان کو عبد الستار ایدھی کی طرح اپنی توانائیاں سوشل ویلفیئر پر صرف کرنی چاہیے۔

سیاست میں مسلسل ناکامیوں کے بعد اچانک جب وہ2011ء میں سیاسی افق پر نمودار ہوئے تو سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے دوسرے ہم وطنوں کی طرح میری پریشانی مزید بڑھ گئی کیونکہ میری دانست کے مطابق کھیل، فلاحی کام اور حکمرانی مختلف چیز ہیں اور خان صاحب حکمرانی کے معاملے میں نابلد ہیں۔

مگر اس کے باوجود میرا خیال تھا کہ صحت اور تعلیم میں وہ بہتر پرفارم کر یںگے مگر دونوں شعبوں میں تباہی خبیرپختونخوا کے باشندے کی حیثیت سے کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ لی ہے۔

تعلیم اور صحت کے بعد سیاحت کا شعبہ ایسا تھاجس کے لیے مجھے وہ موزوں لگے، عمران خان نے قوم کو سیاحت کو ایک صنعت کے طور پر پروان چڑھانے کی امید دلائی جس کی وجہ سے دوسرے شعبوں سے وابستہ سرمایہ کار سیاحت کی طرف متوجہ ہوئے مگر جو حشر اس شعبے کا ہوا ہے۔

وہ بھی کسی کو بتانے کی ضرورت ہے کیونکہ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔ پاکستان کے ایک کاروباری گروپ نے سیاحتی صنعت میں قسمت آزمائی کا فیصلہ، تبدیلی سرکار کے سبز باغ دکھانے پر کیا اور اس شعبے میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کی۔کے پی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا اور مالم جبہ کے سیاحتی مقام پر 275 ایکڑ کا رقبہ لیز پر لیا، اربوں روپے انویسٹمینٹ کے ساتھ مالم جبہ کو جدید سہولتوں سے آراستہ ایک پر کشش ریزورٹ بنایا۔ یہ سو فیصد ایک نجی پراجیکٹ ہے مگر اس کا کریڈٹ تبدیلی سرکارخود لیتی رہی۔ جیسے یہ حکومتی پروجیکٹ اور انوسیمنٹ ہو۔


سرکار نے اس منصوبے پر خرچ تو کیا کرنا تھا ، الٹا وزرا اور حکومتی عہدیدار کرپشن کے الزامات کی زد میں ہیں اور اسی وجہ سے مالم جبہ اسکینڈل کہلایا۔ مالم جبہ کے پروجیکٹ میں مرکزی اور خیبر پختونخوا حکومت کے کچھ کرداروں نے مال کمایا یا نہیں کمایا، اسے الگ رکھتے ہیں لیکن سرکار کی جو ذمے داری بنتی ہے، اسے بھی نہیں نبھایا گیا اور سرمایہ کاری کرنے والے گروپ کی کمر توڑنے کے ساتھ ساتھ سوات خصوصاََ مالم جبہ کے عوام کے روزگار اور کاروبار کے ساتھ نوزائیدہ سیاحتی صنعت کی بنیادوں میں بھی بارودی سرنگیں بچھانے کا پورا اہتمام کردیا ۔

سیاحتی مقامات پر اگر حالات پرسکون، امن و امان بے مثال، سہولیات معیاری نہ ہوں تو غیرملکی سیاح تو دور کی بات، عام پاکستانی بھی ان مقامات پر جانے کا رسک نہیں لیں گے۔ مالم جبہ ایک شاندار منصوبہ ہے یہاں پر قدرتی طور پر عالمی معیار کے برفانی کھیلوں کے مواقعے موجود ہیں اور اس پر بھرپور کام بھی کیا گیا ہے اور سہولیات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے پر خطیر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

عوام کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری حکومت وقت اور ریاست کی ہوتی ہے، اسی اصول کے تحت سیاحوں اور سرمایہ کاروں کی جان، مال کا تحفظ اور حفاظت بھی ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے، جو حفاظتی باڑ اور چاردیواری کے بغیر ممکن نہیں۔ حکومت نے ریزورٹ کے گرد حفاظتی باڑ لگانے کی اجازت دے دی۔

مگر مختلف سرکاری ڈیپارٹمنٹس کے افسران اور مقامی مافیا کی مداخلت کی وجہ سے باڑ نہ لگ سی، یوں عملاً یہ پروجیکٹ ابتدا میں ہی خسارے کا سودا بن گیا اور خیبرپختونخوا میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمندبھی پریشان ہیں۔ مالم جبہ اسکینڈل کے بارے میں تو سب نے سنا مگر اس اسکینڈل کے اندر مخفی اسکینڈل بھی موجود ہے مگر ابھی تک عوام اور عدالت دونوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ تبدیلی سرکار کی سرپرستی میں پورا ایک جتھہ اندروں خانہ رہ کر کام کر رہا ہے اور مقامی سادہ لوح عوام اور کچھ شرپسندوں کی مدد سے انتشار پھیلانے کا کام کر رہا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے کام میں مداخلت کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بسا اوقات سیکیورٹی خدشات بھی جنم لیتے ہیں۔

اس مافیا نے سرمایہ کار کو یہاں سے بھگانے کے لیے بہت حربے استعمال کئے مثلا جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا، حفاظتی مقاصد کے لیے ریزورٹ کے داخلی گیٹ کو توڑنا ، پی سی مالم جبہ کو پانی کی ترسیل روکنا، پانی کی مسلسل ترسیل کے بدلے ماہانہ بھتے کا مطالبہ کرنا، ریزورٹ میں داخلے کے لیے جعلی ٹکٹوں کی پرنٹنگ اور فروخت، ریزورٹ سے چوری، ریزورٹ سے منسلک جنگلاتی زمین پر غیر قانونی تعمیرات، ریزورٹ کی طرف آنے والی سڑک کو تجاوزات کے ذریعے بند کرنا اور ریزورٹ سے 2 کلومیٹر پہلے تعمیر شدہ ایک لش گرین منصوبہ بھی محفوظ نہ رہ سکا، حفاظتی دیواروں، واچ ٹاورز اور ایکو ڈومز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔

حکومت کو اگر سوات کے عوام، سیاحت کے فروغ اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی سے کوئی دلچسپی ہوتی تو وہ مقامی وصوبائی انتظامیہ یا پھر فوج کی نگرانی میں یہ حفاظتی باڑ اور دیوار کی تعمیر کراتی اور فول پروف سیکیورٹی کا بندوبست کرکے یہاں آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور مقامی اور بین الاقوامی برفانی کھلاڑیوں کو تحفظ فراہم کرتی ۔اگر ایسی دلچسپی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا تو شاید سیاحتی صنعت حالت نزغ سے واپس زندگی کی طرف لوٹ آتی۔ امن و امان قائم رکھنا اور سیاحوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ، سرمایہ کاروں کی حقوق اور پراپرٹی کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔

مالم جبہ پروجیکٹ وزیراعلیٰ خیبر پختونخواکے حلقہ انتخاب میں ہے، اگر وہ چاہیں تو مقامی لوگوں اور انتظامیہ کے درمیان معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ مقامی لوگوں یہ باتیں کرتے ہیں کہ کوئی بااثر گروپ مالم جبہ ریزورٹ پر خود قابض ہونا چاہتا ہے۔ مالم جبہ جیسے پروجیکٹس نہ صرف سوات بلکہ پاکستانی سیاحتی صنعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کو ہر صورت سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ سرمایہ کاروں کے تحفظ کے معاملے سے مرکزی اور صوبائی حکومت لاتعلق ہوگئی ہیں۔ اسی وجہ سے عوام میں حکومتی نااہلی کا تاثر گہرا ہورہا ہے۔

ریاستی اداروں کو مالم جبہ اسکینڈل کے اندر مخفی اسکینڈل کا بھی نوٹس لینا چاہیے اور آرمی کی نگرانی میں حفاظتی باڑ اور سیکیورٹی کا مستقل بندوبست کرکے اس سیاحتی مرکزکو جلد از جلد سیاحوں کے کھولنے کا اہتمام کرے۔
Load Next Story