گال کے اندر چپکائے جانے والے انسولین اسٹیکر
تکلیف دہ انجیکشن کا متبادل، گال کے اندر لگنے والا انسولین اسٹیکرفرانسیسی ماہرین نے تیار کیا ہے
LONDON:
وہ دن دور نہیں جب ذیابیطس کے مریض نسوار کی طرح گال کے اندر اسٹیکر نما پیوند لگا کر انسولین کی مناسب مقدار بدن کے اندر شامل کرکے خون میں گلوکوز کنٹرول کرسکیں گے۔
فی الحال انسولین کی خوراک ٹیکوں یا پمپ سے جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ لیکن اب فرانس کی یونیورسٹی آف لیلے کی پروفیسر سبینے زیونیرائٹس اور دیگر ممالک کے ساتھیوں نے ایک تجرباتی پیوند بنایا ہے۔ اس میں انسولین دوا کے طور پر شامل ہے اور گال کے اندر چپک کر خون میں انسولین داخل کرسکتی ہے۔
یہ نرم پیوند تین اشیا پر مشتمل ہے۔ ایک تو اسے پولی ایکریلک ایسڈ نامی پالیمر کے نینوفائبر سےبنایا گیا ہے۔ پھر اس میں بی ٹا سائیکلو ڈیکسٹرن سالمہ یعنی مالیکیول ملایا گیا ہے اور آخر میں گرافین آکسائیڈ کی کچھ مقدار شامل کی گئی ہے۔
اگلے مرحلے میں اس کے چھوٹے ٹکڑوں کو انسولین محلول میں تین گھنٹے تک ڈبویا گیا۔ اس کے بعد انہیں خنزیروں کے گال کے اندر موجود کھال کی تہوں پر لگایا گیا۔ انفراریڈ لیزر سے انہیں 50 درجے سینٹی گریڈ تک دس منٹ تک گرم کیا گیا۔
سائنسدانوں نے دیکھا کہ انسولین کا اخراج ہوا اور وہ جلد کے اندر جذب ہونے لگے۔ اس کے بعد تین خنزیر ایسے لئے گئے جو ذیابیطس کے مریض تھے۔ پھر پیوند کو بیرونی طور پر دس منٹ تک گرم کیا گیا اور وہ انسولین خارج کرنے لگے۔ ہرجانور کو دس دس منٹ تک پیوند لگایا گیا۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ فوری طور پر ان کے خون میں شکر کی مقدار کم ہونے لگی اس طرح صرف 20 منٹ میں انسولین کی پوری خوراک جسم کے اندر پہنچ گئی۔
گال کے اندر لگائے جانے والے اسٹیکر سے جلد پر کوئی خراش یا منفی اثر نہ ہوا۔ اسی طرح کے فرضی پیوند چھ انسانوں کو دو گھنٹے تک لگائے گئے تو ان کے اندر کوئی منفی اثر نہ ہوا۔
اگلے مرحلے میں منہ کے اندر انسولین پیوند نظام کی مزید آزمائش کی جائے گی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک اسٹیکر میں بار بار انسولین بھری جاسکتی ہے۔
وہ دن دور نہیں جب ذیابیطس کے مریض نسوار کی طرح گال کے اندر اسٹیکر نما پیوند لگا کر انسولین کی مناسب مقدار بدن کے اندر شامل کرکے خون میں گلوکوز کنٹرول کرسکیں گے۔
فی الحال انسولین کی خوراک ٹیکوں یا پمپ سے جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ لیکن اب فرانس کی یونیورسٹی آف لیلے کی پروفیسر سبینے زیونیرائٹس اور دیگر ممالک کے ساتھیوں نے ایک تجرباتی پیوند بنایا ہے۔ اس میں انسولین دوا کے طور پر شامل ہے اور گال کے اندر چپک کر خون میں انسولین داخل کرسکتی ہے۔
یہ نرم پیوند تین اشیا پر مشتمل ہے۔ ایک تو اسے پولی ایکریلک ایسڈ نامی پالیمر کے نینوفائبر سےبنایا گیا ہے۔ پھر اس میں بی ٹا سائیکلو ڈیکسٹرن سالمہ یعنی مالیکیول ملایا گیا ہے اور آخر میں گرافین آکسائیڈ کی کچھ مقدار شامل کی گئی ہے۔
اگلے مرحلے میں اس کے چھوٹے ٹکڑوں کو انسولین محلول میں تین گھنٹے تک ڈبویا گیا۔ اس کے بعد انہیں خنزیروں کے گال کے اندر موجود کھال کی تہوں پر لگایا گیا۔ انفراریڈ لیزر سے انہیں 50 درجے سینٹی گریڈ تک دس منٹ تک گرم کیا گیا۔
سائنسدانوں نے دیکھا کہ انسولین کا اخراج ہوا اور وہ جلد کے اندر جذب ہونے لگے۔ اس کے بعد تین خنزیر ایسے لئے گئے جو ذیابیطس کے مریض تھے۔ پھر پیوند کو بیرونی طور پر دس منٹ تک گرم کیا گیا اور وہ انسولین خارج کرنے لگے۔ ہرجانور کو دس دس منٹ تک پیوند لگایا گیا۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ فوری طور پر ان کے خون میں شکر کی مقدار کم ہونے لگی اس طرح صرف 20 منٹ میں انسولین کی پوری خوراک جسم کے اندر پہنچ گئی۔
گال کے اندر لگائے جانے والے اسٹیکر سے جلد پر کوئی خراش یا منفی اثر نہ ہوا۔ اسی طرح کے فرضی پیوند چھ انسانوں کو دو گھنٹے تک لگائے گئے تو ان کے اندر کوئی منفی اثر نہ ہوا۔
اگلے مرحلے میں منہ کے اندر انسولین پیوند نظام کی مزید آزمائش کی جائے گی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایک اسٹیکر میں بار بار انسولین بھری جاسکتی ہے۔