نوشکی اور پنجگور میں دہشت گردوں کے حملے
دہشت گردوں کے رابطے بھارت اور افغانستان سے ملتے ہیں
MELBOURNE:
وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں نوشکی اور پنج گور میں 15 دہشت گرد ہلاک اور سیکیورٹی فورسز کے 4 جوان شہید ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے علاقوں پنج گور اور نوشکی میں دہشت گردوں کی کیمپوں پر حملے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے دہشت گردوں کو مقابلے میں ہلاک کردیا ۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نوشکی میں دہشت گردوں نے فرنٹیئر کور (ایف سی) کے کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کا '' فوری جواب '' دیا گیا۔ دہشت گردوں کے رابطے بھارت اور افغانستان سے ملتے ہیں۔
افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، بلوچستان میں پرتشدد واقعات کی بڑی وجہ چین کے اس صوبے میں سرمایہ کاری پر ردعمل کو قرار دیا جاتا ہے۔ چین سی پیک پروجیکٹ کے ذریعے اپنے صوبے سنکیانگ کو صوبہ بلوچستان کے راستے بحیرہ عرب سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔
اس مقصد کے لیے پاکستانی علاقے اور خاص طور پر بلوچستان میں سڑکوں کا نیٹ ورک اور دیگر انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ورکرز پر حملے عام ہیں ، جو سی پیک پروجیکٹ سے جڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔میڈیا کی اطلاع کے مطابق نوشکی اور پنجگور میں دہشت گرد حملوں کی ذمے داری بی ایل اے نے قبول کی ہے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغانستان اور بھارت میں اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے۔
پاکستان بیتی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار انسانی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی گئی اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے اور لڑ رہا ہے، افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے پاکستانی علاقوں میں حملے کر چکی ہے۔ ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان ایک مہینے کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے یہ شدت پسند گروپ کم از کم اٹھارہ حملوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے۔ اب بلوچ گروپ بھی نئے سرے سے سرگرم ہوگیا ہے۔ بی ایل اے اور دیگر مسلح گروپ دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کے لیے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔
بلوچستان پاکستان کا رقبے کے حساب سے سب سے بڑا صوبہ ہے جو داخلی تنازعات کا شکار ہے۔ بی ایل اے ریاست کے خلاف ماضی میں بھی حملے کر چکی ہے۔ اب پنجگور اور نوشکی میں دہشت گردی ہوئی ہے۔ پاکستانی فوج بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں شرپسندوں کے خلاف مسلسل آپریشن میں مصروف ہے لیکن یہ گروپ کسی نہ کسی طرح کارروائی کرہی لیتے ہیں۔
سابقہ فاٹا سے تو پاک فوج نے ٹی ٹی پی کا قلع قمع کردیا تھا لیکن افغانستان ان کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔ بی ایل اے وغیرہ کو بھی افغانستان میں تحفظ حاصل ہے اور وہ بھارت میں بھی اپنا نیٹ ورک بنائے ہوئے ہیں اور بھارت اس تنظیم کی مدد بھی کرتا ہے۔ اس تنظیم کے پاس ایک مرتبہ پھر طاقت ور حملے کرنے کی صلاحیت تو نہیں ہے لیکن یہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دہشت گروں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کو انسداد دہشت گردی کی کامیاب مہم تصور کیا جاتا ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ بھارت کالعدم تنظیموں کو سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔وہ کالعدم تنظیموں کو پاکستان کے عسکری اور سول اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے سرحد پار دہشت گردی کی طرف دھکیل رہا ہے، گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانی جاں بحق یا زخمی ہوئے۔
بھارت نے دہشت گردی کو اپنے تمام پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان اور اپنی مسلمان آبادی کے ساتھ ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہریوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ، ہماری سرحدوں کے باہر موجود دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر عملدرآمد روکنے اور حملوں کے لیے ابھارا اور مالی معاونت کی۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 میں بلوچستان میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے۔ یہاں عسکریت پسندوں کے 104 حملوں میں 177 افراد ہلاک ہوئے۔ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پاکستانی قبائلی ایجنسیوں کا تھا، یہاں 103 حملوں میں 117 افراد ہلاک ہوئے۔
کالعدم دو تنظیموں کو بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے، کئی سال پہلے سی پیک کے منصوبے پر بلوچستان کی ایک سڑک پر کام کرنے والے سندھ کے مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا تھا ، دہشت گردی کی ان وارداتوں کے ڈانڈے بھارت سے ملتے ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ ان تنظیموں کے افراد کو مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ کشمیری رہنما یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ جب بھی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی ہوتی ہے ان دونوں تنظیموں سے وابستہ افراد ایسی کارروائیوں پر کھلم کھلا مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ تنظیمیں بھارتی خفیہ تنظیم ''را'' کے ساتھ مل کر مربوط کارروائیاں کرتی ہیں اور ایسے بھارتی علاقوں میں بھی سرگرم عمل ہیں جہاں مقامی لوگوں نے آزادی کی تحریکیں شروع کر رکھی ہیں، ان دہشت گرد تنظیموں کو ان آزادی پسند گروہوں کے خلاف ''را'' کی نگرانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سب سے بڑی منافقت ہے۔ دہشت گردی میں بھی بھارتی ''را'' کے ملوث ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے ، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے بقول آیندہ دو ماہ میں دہشت گردی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے تو یہ صورتحال ہماری سول اور عسکری قیادتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ دہشت گردوں کو ہمارے سیکیورٹی اداروں میں موجود لیپس سے ہی فائدہ اٹھانے اور کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
کئی دوسر ے ہمسایہ ممالک میں بھی بھارت دہشت گردی کی کارروائیاں اسپانسر کرتا ہے، سری لنکا میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن میں وہ گروہ ملوث پائے گئے جنھیں بھارت کی سرپرستی حاصل ہے، افغانستان میں بھی داعش ، ٹی ٹی پی اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے اپنے نیٹ ورک بنا رکھے ہیں، جہاں سے بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں کارروائیاں کرتے ہیں ، صوبہ خیبرپختونخوا میں بہت سی کارروائیوں میں یہ دہشت گرد گروہ ملوث پائے گئے، باچا خان یونیورسٹی مردان اور اے پی سی پشاور کے واقعات میں تو یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو سہولت کار لے کر آئے اور جو مقامی دہشت گرد بھی ان واقعات میں ملوث پائے گئے، انھیں افغانستان سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
ایسے موبائل فون استعمال کیے جا رہے تھے، جن کی سمیں افغانستان سے جاری کی گئی تھیں۔ یہ سارے گروہ وہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح افغانستان پہنچ کر اپنے آپ کو منظم کر چکے ہیں اور بھارت کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں پاکستانی حکام وقتاً فوقتاً پہلے بھی افغان حکومت کو مطلع کرتے رہے ہیں ۔
پاکستان نے دہشت گردی کے مسئلے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بلاامتیاز عبرتناک سزا ملنی چاہیے کیونکہ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے ، پاکستان میں موجود اپنے سہولت کاروں ، مخبروں اور کیرئیرز کے بغیر یہاں دہشت گردی کی کارروائی نہیں کرسکتے، لہٰذا اگر سہولت کاروں کا سراغ ملے تو ان سے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کو حتمی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ بھارت تو ایک کھلا دشمن ہے لیکن افغانستان بھائی چارے کی آڑ میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں اورافغانستان کو ہمارے ملک میں مخبروںاور سہولت کاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسی طرح بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد گروپ بھارت میں محفوظ ٹھکانے استعمال کرتے ہیں۔انھیں بھی پاکستان میں ہمدرد، مخبر اور سہولت کار وافر تعداد میں میسر ہیں۔ پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد کو ہر صورت میں محفوظ بنانا چاہیے۔ افغانستان اور ایران کے سرحد کو کھلا چھوڑے رکھنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ سرد جنگ کی پالیسی میں یہ ٹھیک تھا مگر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ بنانا انتہائی ضروری ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں نوشکی اور پنج گور میں 15 دہشت گرد ہلاک اور سیکیورٹی فورسز کے 4 جوان شہید ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے علاقوں پنج گور اور نوشکی میں دہشت گردوں کی کیمپوں پر حملے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے دہشت گردوں کو مقابلے میں ہلاک کردیا ۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ نوشکی میں دہشت گردوں نے فرنٹیئر کور (ایف سی) کے کیمپ میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کا '' فوری جواب '' دیا گیا۔ دہشت گردوں کے رابطے بھارت اور افغانستان سے ملتے ہیں۔
افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے، بلوچستان میں پرتشدد واقعات کی بڑی وجہ چین کے اس صوبے میں سرمایہ کاری پر ردعمل کو قرار دیا جاتا ہے۔ چین سی پیک پروجیکٹ کے ذریعے اپنے صوبے سنکیانگ کو صوبہ بلوچستان کے راستے بحیرہ عرب سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔
اس مقصد کے لیے پاکستانی علاقے اور خاص طور پر بلوچستان میں سڑکوں کا نیٹ ورک اور دیگر انفرا اسٹرکچر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ورکرز پر حملے عام ہیں ، جو سی پیک پروجیکٹ سے جڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔میڈیا کی اطلاع کے مطابق نوشکی اور پنجگور میں دہشت گرد حملوں کی ذمے داری بی ایل اے نے قبول کی ہے۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ دہشت گرد افغانستان اور بھارت میں اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے۔
پاکستان بیتی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں، فوجی جوانوں سمیت 70 ہزار انسانی جانوں کا نقصان اٹھایا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی اور خطرناک جنگ لڑی گئی اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اپنے وسائل سے لڑی ہے اور لڑ رہا ہے، افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے پاکستانی علاقوں میں حملے کر چکی ہے۔ ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان ایک مہینے کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے یہ شدت پسند گروپ کم از کم اٹھارہ حملوں کی ذمے داری قبول کر چکا ہے۔ اب بلوچ گروپ بھی نئے سرے سے سرگرم ہوگیا ہے۔ بی ایل اے اور دیگر مسلح گروپ دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں۔اس کا دوسرا مطلب یہی ہے کہ افغانستان کی سرزمین اب بھی پاکستان کے لیے بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے۔
بلوچستان پاکستان کا رقبے کے حساب سے سب سے بڑا صوبہ ہے جو داخلی تنازعات کا شکار ہے۔ بی ایل اے ریاست کے خلاف ماضی میں بھی حملے کر چکی ہے۔ اب پنجگور اور نوشکی میں دہشت گردی ہوئی ہے۔ پاکستانی فوج بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں شرپسندوں کے خلاف مسلسل آپریشن میں مصروف ہے لیکن یہ گروپ کسی نہ کسی طرح کارروائی کرہی لیتے ہیں۔
سابقہ فاٹا سے تو پاک فوج نے ٹی ٹی پی کا قلع قمع کردیا تھا لیکن افغانستان ان کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔ بی ایل اے وغیرہ کو بھی افغانستان میں تحفظ حاصل ہے اور وہ بھارت میں بھی اپنا نیٹ ورک بنائے ہوئے ہیں اور بھارت اس تنظیم کی مدد بھی کرتا ہے۔ اس تنظیم کے پاس ایک مرتبہ پھر طاقت ور حملے کرنے کی صلاحیت تو نہیں ہے لیکن یہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دہشت گروں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کو انسداد دہشت گردی کی کامیاب مہم تصور کیا جاتا ہے۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ بھارت کالعدم تنظیموں کو سرحد پار دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔وہ کالعدم تنظیموں کو پاکستان کے عسکری اور سول اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے سرحد پار دہشت گردی کی طرف دھکیل رہا ہے، گزشتہ ایک عشرے کے دوران بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں پاکستانی جاں بحق یا زخمی ہوئے۔
بھارت نے دہشت گردی کو اپنے تمام پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان اور اپنی مسلمان آبادی کے ساتھ ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہریوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ، ہماری سرحدوں کے باہر موجود دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پر عملدرآمد روکنے اور حملوں کے لیے ابھارا اور مالی معاونت کی۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2021 میں بلوچستان میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے۔ یہاں عسکریت پسندوں کے 104 حملوں میں 177 افراد ہلاک ہوئے۔ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پاکستانی قبائلی ایجنسیوں کا تھا، یہاں 103 حملوں میں 117 افراد ہلاک ہوئے۔
کالعدم دو تنظیموں کو بھارت پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے، کئی سال پہلے سی پیک کے منصوبے پر بلوچستان کی ایک سڑک پر کام کرنے والے سندھ کے مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا تھا ، دہشت گردی کی ان وارداتوں کے ڈانڈے بھارت سے ملتے ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ ان تنظیموں کے افراد کو مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ کشمیری رہنما یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ جب بھی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی ہوتی ہے ان دونوں تنظیموں سے وابستہ افراد ایسی کارروائیوں پر کھلم کھلا مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ تنظیمیں بھارتی خفیہ تنظیم ''را'' کے ساتھ مل کر مربوط کارروائیاں کرتی ہیں اور ایسے بھارتی علاقوں میں بھی سرگرم عمل ہیں جہاں مقامی لوگوں نے آزادی کی تحریکیں شروع کر رکھی ہیں، ان دہشت گرد تنظیموں کو ان آزادی پسند گروہوں کے خلاف ''را'' کی نگرانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سب سے بڑی منافقت ہے۔ دہشت گردی میں بھی بھارتی ''را'' کے ملوث ہونے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ افغان سرزمین اب بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے ، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے بقول آیندہ دو ماہ میں دہشت گردی مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے تو یہ صورتحال ہماری سول اور عسکری قیادتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کیونکہ دہشت گردوں کو ہمارے سیکیورٹی اداروں میں موجود لیپس سے ہی فائدہ اٹھانے اور کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔
کئی دوسر ے ہمسایہ ممالک میں بھی بھارت دہشت گردی کی کارروائیاں اسپانسر کرتا ہے، سری لنکا میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں جن میں وہ گروہ ملوث پائے گئے جنھیں بھارت کی سرپرستی حاصل ہے، افغانستان میں بھی داعش ، ٹی ٹی پی اور دوسری دہشت گرد تنظیموں نے اپنے نیٹ ورک بنا رکھے ہیں، جہاں سے بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں کارروائیاں کرتے ہیں ، صوبہ خیبرپختونخوا میں بہت سی کارروائیوں میں یہ دہشت گرد گروہ ملوث پائے گئے، باچا خان یونیورسٹی مردان اور اے پی سی پشاور کے واقعات میں تو یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کو سہولت کار لے کر آئے اور جو مقامی دہشت گرد بھی ان واقعات میں ملوث پائے گئے، انھیں افغانستان سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
ایسے موبائل فون استعمال کیے جا رہے تھے، جن کی سمیں افغانستان سے جاری کی گئی تھیں۔ یہ سارے گروہ وہ ہیں جو کسی نہ کسی طرح افغانستان پہنچ کر اپنے آپ کو منظم کر چکے ہیں اور بھارت کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں پاکستانی حکام وقتاً فوقتاً پہلے بھی افغان حکومت کو مطلع کرتے رہے ہیں ۔
پاکستان نے دہشت گردی کے مسئلے پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے، دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بلاامتیاز عبرتناک سزا ملنی چاہیے کیونکہ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے ، پاکستان میں موجود اپنے سہولت کاروں ، مخبروں اور کیرئیرز کے بغیر یہاں دہشت گردی کی کارروائی نہیں کرسکتے، لہٰذا اگر سہولت کاروں کا سراغ ملے تو ان سے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کو حتمی فیصلہ کرلینا چاہیے۔ بھارت تو ایک کھلا دشمن ہے لیکن افغانستان بھائی چارے کی آڑ میں پاکستان کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں اورافغانستان کو ہمارے ملک میں مخبروںاور سہولت کاروں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسی طرح بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد گروپ بھارت میں محفوظ ٹھکانے استعمال کرتے ہیں۔انھیں بھی پاکستان میں ہمدرد، مخبر اور سہولت کار وافر تعداد میں میسر ہیں۔ پاکستان کو اپنی شمال مغربی سرحد کو ہر صورت میں محفوظ بنانا چاہیے۔ افغانستان اور ایران کے سرحد کو کھلا چھوڑے رکھنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ سرد جنگ کی پالیسی میں یہ ٹھیک تھا مگر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ بنانا انتہائی ضروری ہے۔