مقامی جمہوریت کا نظام اور عدالتی فیصلہ

مقامی جمہوریت کا ایک بنیادی نقطہ ’’ مضبوط اور خود مختار مقامی حکومت ‘‘ کا نظام ہے

salmanabidpk@gmail.com

ISLAMABAD:
مقامی جمہوریت کا ایک بنیادی نقطہ '' مضبوط اور خود مختار مقامی حکومت '' کا نظام ہے ،لیکن ہم مقامی حکومت کے نظام کو اپنی سیاسی ترجیحات میں کوئی بڑی اہمیت نہیں دے سکے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں مقامی جمہوریت کمزور بھی ہے اور عام آدمی کے مفادات کے برعکس بھی ہے ۔جمہوریت اور سیاست سے جڑے وہ افراد جن کی ترجیحات میں مقامی جمہوریت کا نظام ہے ان کو سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں عدالت کی جانب دیکھنا پڑتا ہے ۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر یہ نظام اپنی سیاسی جگہ یا ساکھ قائم کرسکا تو اس میں عدالتوں کے فیصلے زیادہ اہمیت کہ حامل ہوںگے ۔

سندھ میں مقامی حکومت کے نظام کے تناظر میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ یقینی طور پر ایک بڑا فیصلہ ہے ۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے یہ فیصلہ ایم کیو ایم کی درخواست پر سنایا ۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے یہ درخواستیں 2017میں دائر کی تھیں ۔اس مقدمے کا فیصلہ 26اکتوبر 2020کو محفوظ کیا گیا تھا جسے یکم فروری 2022میں سنایا گیا ۔

یعنی پانچ برس بعدیہ فیصلہ سنایا گیا ہے ۔اس فیصلے میں چار بنیادی اصول وضع کیے گئے ہیں ۔اول، سندھ حکومت صوبے میں بااختیار مقامی حکومتوں کے نظا م یا اداروں کو قائم کرنے کی پابند ہے جس کے تحت ان اداروں کو سیاسی ، انتظامی اورمالی اختیارات کی منتقلی شامل ہے اوراس نظام کو اسی شق کی مدد سے تشکیل دیا جائے ۔

دوئم ، سندھ میں مقامی نظام حکومت 2013کی شق74, 75کو کالعدم قرار دیا گیا ہے جس میں صوبے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اس نظام کو کسی بھی وقت ختم یا تحلیل کرسکتی ہے۔ سوئم سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ، کے ڈی اے قوانین کو آئین کے مطابق ڈھالنے ، واٹر بورڈ قانون ، ملیرڈولیپمنٹ اتھارٹی اور حیدرآباد ڈولیپمنٹ اتھارٹی ،سہیون اور لاڑکانہ ڈولیپمنٹ اتھارٹی کے قوانین کو تبدیل کرنے یا ترمیم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔چہارم، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومت کے تحت آنے والا کوئی نیا منصوبہ صوبائی حکومت شروع نہیں کرسکتی، اس کے لیے اسے مقامی حکومتوں سے مشاورت کرنا ضروری ہے ۔

پنجم، شہروں کے ماسٹرز پلان بنانا اور اس پر عملدرآمد مقامی حکومتوں کے اختیارات ہیں جسے صوبائی حکومت سلب نہیں کرسکتی ۔ششم، جہاں صوبائی و مقامی حکومتوں کے اختیارات میں تضاد ہے، ان شقوں میں بھی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ حکومت اس فیصلہ کو بنیاد بنا کر واقعی سندھ میں ایک مضبوط اور خود مختار مقامی حکومت کے نظام کو تشکیل نو میں مثبت کردار اداکرے گی یا عدالتی فیصلے کے برعکس روایتی ، کمزور اور لاغر مقامی نظام کو چلانے پر ہی اکتفا کرے گی۔

لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک کی میں موجود چاروں صوبائی حکومتوں کو پابند کرنے ، ان پر دبا وبڑھانے یا ان کو ایک واضح اور شفاف پالیسی گائیڈ لائن دینے میں معاون ثابت ہوسکے گا؟ کیونکہ مقامی حکومتوں کی خود مختاری ، انتظامی اورمالی اختیارات کا مسئلہ محض سندھ تک محدود نہیں ، یہ قومی مسئلہ ہے اور چاروں صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نظام سے انحراف کی پالیسی یکساں ہے ۔اس وقت چاروں صوبوں کی مقامی حکومتوں کے نظام اور قوانین آئین کی شق140-Aاو ر 32سے انحراف ہے ۔


یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں مقامی جمہوریت کی جنگ سیاسی اور قانونی محاذ سمیت اہل دانش کی سطح پر موجود ہے او ریہ جنگ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔بدقسمتی سے جو فیصلے سیاسی حکومتوں اور پارلیمانی فورمز میں ہونے چاہیے تھے، وہ عدالتوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔

اس حالیہ عدالتی فیصلہ میں سندھ مقامی حکومت کے نظام کی شق74-75کو کالعدم قرار دیا گیا ہے لیکن یہ شق تمام صوبائی نظام میں موجود ہے اور کیا ہر صوبے میں مقامی حکومت کے نظام کی جنگ عدالتی محاذ پر ہی لڑی جائے گی۔ اب واقعی ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبائی حکومتیں مل بیٹھ کر اتفاق رائے کی مدد سے بنیادی اصول اور سیاسی ، انتظامی اورمالی فریم ورک پر متفق ہوں تاکہ ملک میں مضبوط او رمربوط مقامی نظام حکومتوں کی تشکیل ہوسکے ۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے ایک بنیادی نقطہ کی نشاندہی بھی کی ہے کہ صوبہ کے نظام میں جو بھی مسائل مقامی حکومتوں کے نظام سے تضاد رکھتے ہیں یا ٹکراؤ پیدا کرتے ہیں یا مقامی حکومتوں کے مقابلے میں صوبائی حکومت کو زیادہ بااختیار یا مقامی حکومت کے مقابلے میں متبادل سطح کے نظام کو سامنے لاتے ہیں۔

ان میں بنیادی نوعیت کی ترامیم کرنا ہوگی تاکہ صوبائی او رمقامی نظام میںآہم اہنگی اوربہتر ورکنگ تعلقات کو مضبوط بنایاجاسکے ۔ اس وقت واقعی صوبائی او رمقامی نظام میں ایک ٹکراؤ ہے اور صوبائی حکومتیں اس مقامی نظام کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ محسوس کرتی ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ صوبائی ارکان اسمبلی اور مقامی منتخب نمایندوں کے درمیان اختیارات اور ترقیاتی فنڈ ز پر قبضہ کی جنگ بھی ہے ۔جب تک ارکان اسمبلی کو قانون سازی یا نگرانی کے نظام تک محدودکرکے ترقیاتی کام مقامی حکومتوں کے نظام کو منتقل نہیں کیے جائیں گے ، حالات کی درستگی ممکن نہیں ۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے بقول یہ ممکن نہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کردیے جائیں ۔ سوال یہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام کے حق میں نہیں ہیں۔ صوبائی حکومتیں مضبوط نظام تشکیل دیتی ہیں اورنہ ہی تواتر کے ساتھ ان کے انتخابات کو یقینی بناتی ہیں ۔ ان کی اصل ترجیح اس نظام کو کمزور کرناہے ۔حالانکہ 18ویں ترمیم کے مطابق صوبائی حکومتیں ایک مضبوط مقامی نظام حکومت اور اختیارات کی سیاسی ، انتظامی او رمالی تقسیم کو صوبوں سے اضلاع تک منتقل کرنے کی پابند ہیں ۔

اب بھی اگر ملک میں مقامی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنا کر ملک کی حکمرانی او رمحروم طبقات کی سیاست کو شفاف او رمضبوط بنانا ہے تو ہمیں اس نظام میں تسلسل کے لیے وفاق کے کردار کو سامنے لانا ہوگا ۔ کیونکہ محض صوبائی حکومتوں کے رحم وکرم پر اس بنیادی جمہوری اداروں کو چھوڑ کر بحران سے نہیں نمٹ سکیں گے ۔کچھ بنیادی اصول اور فریم ورک وفاقی سطح پر طے کرکے صوبائی نظام کی تشکیل کو یقینی بنائیں ۔ صوبائی سطح پر ہر ایک کا اپنا اپنا نظام بنیادی جمہوریت کے نظام کی کمزوری کا سبب بن رہی ہیں ۔

سپریم کورٹ کی جانب سے سندھ اور پنجاب میں حالیہ فیصلوں سے یقینی طور پر ملک میں مقامی جمہوریت سے وابستہ لوگوں یا اداروں میں امید پیدا ہوئی ہے ۔ عوامی رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے سمیت ملک کے اہل دانش علمی و فکری محاذ پر اس بحث کو مثبت انداز میں آگے بڑھائیں کہ عدالتی فیصلہ کی روشنی میں صرف سندھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں مقامی نظام حکومت کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرسکیں ۔

ہمیں علمی اورفکری بنیادوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر دباؤ کی پالیسی کو مضبوط بنانا ہوگا کہ وہ اپنی سیاسی ، آئینی ذمے داری کا حق ادا کریں اورجو بھی مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی میں سیاسی ، انتظامی ، مالی اور قانونی رکاوٹیں ہیں، ان کو ہر سطح پر دور کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان میں حکمرانی کا روشن مستقبل مضبوط اور مربوط مقامی حکومت کے نظام کا تقاضہ کرتا ہے ۔
Load Next Story