بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

ایک قابل قدر تحقیقی سوانح
حکیم محمد سعید کی سوانح عمری کا ذکر سنتے ہی یہ خیال آتا ہے کہ یہ یقیناً 'ہمدرد فائونڈیشن' نے شایع کی ہوگی، کیوں کہ طباعت واشاعت کے میدان میں 'ہمدرد' کی بڑی خدمات ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے، اور یہ سوانح ان کی تصانیف، انٹرویو اور دیگر مطبوعہ مواد سے بھی ترتیب نہیں دی گئی ہے، بلکہ 'حیات سعید' کے محقق ومرتب ستار طاہر نے یہ کتاب باقاعدہ حکیم محمد سعید سے ملاقاتوں اور تحقیق کے بعد قارئین تک پہنچائی ہے۔۔۔ مصنف کی خواہش تھی کہ کتاب کوئی دوسرا ادارہ شایع کرے، لیکن کتاب کے مندرجات مصدقہ ہوں۔

یہ امر لائق تحسین ہے کہ اس کتاب کی تگ ودو میں مصنف نے دلّی کا سفر بھی کیا۔۔۔ راقم الحروف بہ ذات خود حکیم محمد سعید صاحب کی شخصیت اور ان کے افکار سے ایک خاص تعلق رکھتا ہے، اس کے باوجود کتب کے بہتیرے مقامات پر سِحر انگیزی اپنی گرفت میں لیے جاتی ہے۔



ہم بہت سے واقعات کئی بار ان کے سفرناموں اور دیگر کتب میں پڑھ چکے، لیکن 'حیات سعید' میں اس کے حُسن بیان اور حُسن ترتیب کی داد دینی پڑتی ہے۔ ان کی ذاتی زندگی، تعلیم، ہجرت، زندگی کے دیگر مسئلے مسائل، صحت، کام یابیاں اور مشکلات سے لے کر مختلف شخصیات سے راہ ورسم تک بہت کچھ اس تصنیف میں جمع ہے۔

اِس بار یہ تاریخی کتاب راشد اشرف کے معروف سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت شایع کی گئی ہے، ہماری اور بساط نہیں ہے کہ حکیم سعید جیسی متحرک، پرعزم اور منظم شخصیت کے واسطے مزید کوئی کلام کر سکیں۔ 353 صفحاتی اس دستاویز کی قیمت 500 روپے اور ناشر فضلی بکس (0335-3252374, 021-32629724) ہے۔

عام سی 'وضع داریوں' کی خاص کتاب
آج کے دور میں ایسی بہت سی 'کہانیاں' ہیں، لیکن صاحب، جیسے مُٹھی میں دبی ریت کی طرح وقت نکلے جا رہا ہے، ویسے ہی یہ سارے قصے، آپ بیتیاں، رشتوں ناتوں کی وضع داریاں، وقت کی سادگی اور کلاسیکیت بھی سمجھیے کہ اب دَم رخصت پر ہے۔۔۔ گزرا ہوا وقت ہمیشہ سے پرکشش رہا ہوگا، لیکن مان لیجیے کبھی زمانے کی راہ ایسی بھی ہوتی ہے کہ جب کسی طرح وقت کو ٹھیرا دینا چاہیے۔۔۔! بالکل ایسا ہی یہ آج کا وقت ہے، آج ہمارے خاندانوں میں جو گنے چُنے گھنے پیڑ رہ گئے ہیں۔

ان کے سینوں میں ایسی باتیں اور روایتیں پوشیدہ ہیں کہ جو اس قابل ہیں کہ گھر گھر انھیں قلم بند کیا جائے۔۔۔ بالکل ایسی ہی ایک ضخیم داستاں ثریا خاتون نے رقم کی ہے، جس میں گزرے ہوئے وقت کی وضع داری کی وہ چاشنی گھلی ہوئی ہے کہ فقط محسوس ہی کی جا سکتی ہے۔۔۔



آج کی افراتفری میں اگر ہم پچھلے لوگوں کا طرزِ معاشرت، نشست وبرخاست دیکھنا چاہیں، تو اُس زمانے کی ایک عام خاتون کے قلم سے نکلے ہوئے لفظ بھی بیش بہا محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ بٹوارے کے ہنگام کے بعد کے آٹھویں عشرے میں یہ وہ نایاب ہوتے ہوئے لوگ ہیں۔

جنھوں نے ایسے بزرگوں سے 'گیان' لیا کہ جو ہر ایک اپنے آپ میں اس قابل تھے کہ اُنھیں لفظوں میں مجسم کرکے اپنی تہذیبی تاریخ کر لیا جائے۔۔۔ تو جناب، ثریا خاتون کی یہ 'جیون کتھا' کہہ لیجیے یا ان کی ڈائری کے اوراق، چار آنے کی قلاقند کے بڑے سے میٹھے پان سے کراچی اور قرب وجوار کی ایک ایسی اَن کہی داستان سناتی ہے کہ تاریخ کے طالب علم کان لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں اس کہانی میں سفر بھی ہے اور باہمی میل جول بھی۔۔۔ قصۂ پارینہ بن جانے والے احباب کے قصے بھی ہیں اور ان دیرینہ اور سادہ روایتوں کا بیان بھی۔۔۔ پتا چلتا ہے کہ تہذیب جب انسانی خمیر میں اتری ہوئی ہو تو کیسے اپنے سے جڑے ہوئے ایک ایک فرد کو جوہر بنا دیتی ہے۔ 'جگ بیتی' اپنے باذوق قارئین کو کچھ یہی سیر کراتی ہے۔

لائق تحسین ہیں، وہ لوگ جنھوں نے ثریا خاتون کو اپنی آپ بیتی اور مشاہدات وتجربات محفوظ کر لینے کی طرف راغب کیا۔ 772 صفحات تک وسیع اس 'سوانحی صحیفے' کا نذرانہ 1500 روپے ہے، کتاب فضلی بکس (021-32633887) پر دست یاب ہے۔

''چند مشاہیرِ بُتاں''
آصف جیلانی عہدِحاضر کے ایک معمر اور تجربے کار صحافی ہیں، ان کی صحافتی زندگی اب سات عشروں پرانا قصہ ہونے کو ہے۔۔۔ وہ 1952ء میں اس میدان میں اترے، امروز کا حصہ بنے، پھر 'لیل ونہار' میں آئے اور پھر 'جنگ' کے ہوگئے، اور ان کی جانب سے دلّی میں نامہ نگار مقرر ہوئے، جو کسی بھی اردو روزنامے کی جانب سے بیرون ملک کُل وقتی پہلی تقرری تھی، اس کے بعد 'بی بی سی' اردو سے طویل تاریخی رفاقت ایسی رہی کہ انھیں برطانیہ میں اردو صحافت کے بانیوں میں گِنا جاتا ہے۔



زیرِتبصرہ کتاب اگرچہ راشد اشرف کی 'زندہ کتابیں' کے تحت شایع ہوئی ہے، لیکن پہلی بار منصۂ شہود پر آئی ہے۔ خاکوں اور مضامین پر مشتمل اس کتاب 'نایاب ہیں ہم' میں ہمارے خطے اور دنیا بھر کے 25 مشاہیر کو قلم بند کیا گیا ہے۔۔۔ جن میں مولانا عبید اللہ سندھی سے لے کر راجا صاحب محمود آباد، حسرت موہانی سید سلیمان ندوی، قرۃ العین حیدر، شبلی نعمانی اور اٹل بہاری واچپائی اور کلدیب نیر سے لے کر یاسر عرفات وغیرہ تک شامل ہیں۔ آخری مضمون 'بی بی سی' اردو کے مشہورِ زمانہ پروگرام 'سیر بین' کی وداعی کا احاطہ کرتا ہے۔ صفحات 160 اور قیمت 200 روپے ہے۔ اشاعت کا اہتمام فضلی بکس (021-32633887) نے کیا ہے۔

ہجرتوں کی مسافت
سرور غزالی صاحب کی یہ کہانی زمانے میں ہی سفر نہیں کرتی، بلکہ برصغیر کے جغرافیے سے بھی خوب گزرتی ہے، اور کبھی سمندر پار بھی دکھائی دیتی ہے، یہاں اگر تاریخ کی دھیمی دھیمی چاپ بھی سنائی دیتی ہے، تو وہیں یہ حال کے 'وبائی' زمانے میں 'کورونا' کی بازگشت بھی پہنچاتی ہے۔ کسی بھی کہانی کے لوازم کے طور پر مختلف نشیب وفراز اور زندگی کے روایتی رومان اور اٹھکھلیاں سمیت بہت سی چیزیں اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔۔۔ ناول میں 'فیس بک' بچھڑ جانے والوں کو پھر سے ملانے کا ایک ذریعہ بنتا ہے اور یہ اپنے نام 'شب ہجراں' کی طرح بہت سی 'ہجرتوں' کو اپنے میں سمویا ہوا ہے۔



اس کتاب میں کہانی کے بیان کے ساتھ ساتھ ناول نگار کی نکتہ آفرینی بھی گاہے گاہے جاری رہتی ہے کہ جیسے ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ''انسان نے جتنا مل جل کر لڑنا سیکھا ہے، اتنا مل کر رہنا نہیں سیکھا۔'' سرور غزالی نے اپنے تیسرے ناول اور آٹھویں تصنیف کا انتساب پانچوں بہنوں کے نام کیا ہے۔ مصنف کافی عرصے سے برلن (جرمنی) میں مقیم ہیں، کتاب کی اشاعت کا اہتمام بھی رہبر پبلی کیشنز، برلن نے کیا ہے۔ صفحات کی تعداد 207 اور قیمت 300 روپے ہے۔


'بے لاگ اور بے باک'
'فیس بک' اور مختلف ویب سائٹوں پر کراچی کے سیاسی وسماجی امور پر بہت بے باکی اور جرأت سے اظہار خیال کر دینے والی لکھاری مطربہ شیخ۔۔۔، وہ روزمرہ اور بہت عام سی چیزوں کے گرد کسی گھاگ افسانہ نگار کی طرح اپنی تحریر اس سلیقے سے بُنتی ہیں کہ وہ پھر قاری کے ذہن پر ثبت ہونے لگتی ہے۔ ان کے بیش تر موضوعات بے تکان اور بے باک ہو کر خاص رومانوی، ازدواجی، اور خانگی معاملات کے درمیان بَل کھاتے ہیں اور پھر نجی، فطری اور مخصوص جبلی تقاضوں کے درمیان پروان چڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔



یہ امور کئی جگہوں پر اضافی جزئیات نگاری کے ساتھ بہت زیادہ غالب ہوتے ہوئے بھی محسوس ہوتے ہیں۔ 21 بڑے اور 12 چھوٹے افسانوں پر مشتمل کتاب 'مناط' کے مندرجات میں بہت سے افسانوں کا علامتی اختتام قاری سے کچھ ذہانت کا تقاضا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ مطربہ شیخ کی اولین تصنیف ہونے کے باوجود کسی بھی پیش لفظ، مقدمہ یا ابتدائی اور تعارفی مضمون سے احتراز برتا گیا ہے، البتہ فلیپ پر زیب اذکار، آمنہ مفتی اور اقبال خورشید کی آرا کو جگہ دی گئی ہے، جب کہ 'پسِ ورق' پر مصنفہ کا مختصر تعارف دست یاب ہے۔ 288 صفحاتی مجلد اس افسانوی مجموعے کی اشاعت رواں بکس، کراچی (تقسیم کار 0343-9444888) نے کیا ہے، قیمت 700 روپے رکھی گئی ہے۔

'وسعت داماں'
یہ نصیر سومرو کا اردو میں پہلا شعری مجموعہ ہے، اس سے قبل سندھی میں چار شعری مجموعے اور تین نثر کی کتب لکھ چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی غزلوں، نظموں، ہائیکو وغیرہ کا مجموعہ ہے۔ پروفیسر سحر انصاری رقم طراز ہیں ''اردو شاعری نصیر سومرو کے لیے ایک غیر زبان ہے، جس کے رموز وعلائم سندھی زبان کے رموز وعلائم سے مختلف ہیں، لیکن انھوں نے اردو زبان کی محبت اور اس محبت کے اظہار کے لیے اردو زبان پر کماحقہ دست رَس حاصل کی۔



پروین حیدر لکھتی ہیں ''نصیر نے زندگی اور اس دنیا کی تمام تر گہرائیوں میں ڈوب کر زندگی کی قدروں کو ایک Transvalueدینے کی ایک کاوش کی ہے، جس کی ہمیں پذیرائی کرنی چاہیے۔'' سادہ سرورق سے آراستہ شعری مجموعے کے فلیپ پر مصنف کی گذشتہ تصانیف کے عکس چسپاں ہیں، 134 صفحات کی اس کتاب کی طباعت نذیر بک بینک (0344-2093237) نے کی، جب کہ ناشر بلال پبلی کیشنز ہیں، قیمت 400 روپے ہے۔

'ڈیجیٹل قطعات' کا مجموعہ
اخبارات کے ادارتی صفحے پر روزانہ قطعات کی روایت رئیس امروہوی نے شروع کی تھی، جس کی اِقتدا میں پھر یہ سلسلہ مختلف روزناموں کے ادارتی صفحات کا ایک لازمی جزو بن گیا۔ 'حکایت دوراں' محمد حلیم انصاری کے 'سوشل میڈیا' (سماجی ذرایع اِبلاغ) پر لکھے جانے والے قطعات کا مجموعہ ہے۔ اِن 'ڈیجیٹل قطعات' میں 8 ستمبر 2018ء سے 31 دسمبر 2020ء تک روزمرہ کی خبروں میں در آنے والے مختلف سیاسی وسماجی موضوعات وغیرہ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جب ہم اِن قطعات کو دیکھتے ہیں، تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ انھوں نے بہت آسانی سے کافی تلخ وترش اور بہت سی گہری باتوں کو چار مصرعوں میں منظم کیا ہے، بہت سے قطعات میں عام سی باتوں کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ قارئین کو وہ کافی خاص محسوس ہونے لگتی ہیں۔



ان قطعات میں روز مرہ خبروں میں در آنے والے وزیروں، سیاست دانوں اور دیگر بہت سی شخصیات کے اسمائے گرامی سے لے کر بہت سے انگریزی الفاظ بھی شاعرانہ عروض میں رواں کیے گئے ہیں، جو اس مجموعے کا خاصہ کہے جا سکتے ہیں۔۔۔ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے، اس کے درمیان کچھ صفحات کا آگے پیچھے ہونا بہت کَھلتا ہے، امید ہے کہ آئندہ اشاعت میں اس کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ 423 صفحاتی اِس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے، جو 'الجلیس پاکستانی بکس بپلشنگ سروسز' (0336-9233773) سے شایع کی ہے۔

'تذکرہ رئوسائے جامعہ کراچی' اور 'کراچی کی گلیاں'

بٹوارے کے ہنگام کے بعد کس طرح علی گڑھ کی روایات کو اس شہر خانُماں میں یک جا کرنے کی کوشش کی گئی اور 1950ء میں دستور ساز اسمبلی میں جامعہ کراچی کا مسودۂ قانون پیش کیا گیا، پھر 1951ء میں سول اسپتال کے پار 'پرانے کراچی' کی کچھ قدیمی عمارتوں میں یہ جامعہ سانس لینے لگی۔۔۔ یعنی جامعہ کراچی۔ جب یہ شہر 'جیل' پر ختم ہو جاتا تھا، تب اِسے شہر سے 12 میل پرے 14 سو ایکڑ زمین پر منتقل کیا گیا۔ اس جنگل اور ویرانے میں مادر علمی منتقل کرنے پر ظاہر ہے بہت سوالات اٹھے۔

اس موقع پر کمشنر کراچی اے ٹی نقوی صاحب کا یہ کہنا کہ یونیورسٹی تو بنتے بنتے بنے گی اور تب تک ''شہر یونیورسٹی کو گھیر لے گا!'' ان کے دور اندیشانہ انداز کی خبر دیتا ہے۔ یہاں 1954ء میں جامعہ کا بندوبست شروع ہوا اور پھر 1960ء کی جنوری میں 'بوہرہ پیر' کی عمارتوں سے جامعہ کراچی باقاعدہ طور پر موجودہ جگہ منتقل کی گئی، تب بسیں تھیں اور نہ کوئی آمدورفت کا کوئی بندوبست، یہاں تک کہ پانی بھی موجود نہ تھا۔ جامعہ کراچی کی سابق رئیس کلیہ فنون ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی کتاب 'تذکرہ رئوسائے جامعہ کراچی' میں یہ ساری بازگشت موجود ہے۔

ساتھ ہی 'یومِ جامعہ' سمیت جامعہ کراچی کی مختلف روایات اور سرگرمیوں کا مختصراً احاطہ بھی ہے۔ جامعہ کراچی کے چند نام وَر طلبہ کا تذکرہ چند ناموں تک محدود ہے، ورنہ یہ فہرست تو اتنی طویل ہے کہ اس کے لیے ایک الگ کتاب کا اہتمام کرنا پڑے۔۔۔ 108 صفحاتی اس مختصر کتاب کا اصل موضوع 45 صفحات بعد شروع ہوتا ہے، لیکن مندرجہ بالا حوالہ جاتی اور دل چسپ تاریخی احوال اس تصنیف کی اہمیت میں مزید اضافہ کرتا ہے، جس میں اب تک کے تمام 18 شیوخ الجامعہ کا چند سطری تعارف بھی ہے۔

اس کے بعد پروفیسر ڈاکٹر محمود حسین تا ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ، 26 رئوسا کی فہرست کے بعد ان تمام شخصیات کا باتصویر تعارف شامل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جامعہ کراچی کی تاریخ کے کچھ اہم واقعات کو ایک ایک سطر میں تاریخ وار درج کیا گیا ہے، جو تاریخی شعور رکھنے والے قارئین کو اپنے اندر گویا جکڑے لیتی ہے، کہیں کسی شعبے کا قیام ہے، تو کہیں کسی سنگ میل کی خبر۔۔۔ آخر میں جامعہ کراچی کے لیے محشر بدایونی، رئیس امروہوی اور پروین شاکر کا منظوم کلام موجود ہے، قیمت 400 روپے ہے۔



ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ کی دوسری کتاب بہ یک وقت ان کی دو دل چسپیوں کو سموئے ہوئی ہے، یعنی 'شہرِقائد' اور تحقیق۔ 'شہروں میں شہر کراچی' جیسی کتاب کے بعد انھوں نے ایک ایسے منفرد موضوع کا چنائو کیا ہے، کہ شہر کو بہت جاننے ماننے کا دعویٰ کرنے والے بھی اپنی کم مائیگی کے اعتراف پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس کتاب کا عنوان 'کراچی کی گلیاں' ہے، جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے کہ شہرِقائد کے ایسے خاص کُوچوں کو موضوع کیا گیا ہے، جو اپنی کسی خاص نسبت سے پکارے گئے۔۔۔ کتاب میں شہر کے 18 ٹائون کی مشہور گلیوں کو ترتیب وار جمع کیا گیا ہے اور ایک ہی نام کی کئی گلیاں بھی سامنے آتی ہیں۔۔۔ گویا پوری ایک تہذیب اتری ہوئی ہے۔

کتاب میں گلیوں کے نام، ان کا باقاعدہ تعارف، وجۂ تسیمہ اور دیگر بنیادی معلومات بھی جمع کی گئی ہیں، ذرا سوچیے، تو کراچی میں ہم اکثر کچھی گلی، بوتل گلی، دوپٹہ گلی اور پیتل گلی وغیرہ ہی کا تذکرہ سنتے آئے ہیں، لیکن اِس کتاب کے توسط سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جناب، یہاں تو گلیوں کے ناموں کا پورا ایک جہاں آباد ہے۔۔۔ کوئی گلی اپنی کسی معروف دکان، بیکری، مسجد، مدرسے، مزار، بازار، تھانے اور کسی خاص کام کی وجہ سے مشہور ہوئی، تو کہیں ہجرت کرنے والوں نے ہندوستان میں چھُٹ جانے والے اپنے کوچوں کو یہاں کی گلیوں میں 'زندہ' کیا اور اسی پر قانع ہو گئے۔۔۔ بہاری گلی اور بریلوی گلی اسی کی مثال ہیں اور 'دہلی جامع مسجد والی گلی' تو ہجر کی ایک الگ انتہا ہے، جسے بلدیہ ٹائون کے 'دہلّی محلہ' کے مکینوں نے موسوم کیا ہے۔

'پاپوش نگر' میں 'ابن انشا والی گلی' ہے، تو لیاقت آباد میں 'امجد صابری والی گلی'۔ بلدیہ ٹائون کی ایک گلی 'ایم کیو ایم' کے مقتول کارکن کی نسبت سے 'فاروق دادا والی گلی' بھی کہلاتی ہے۔ اسی کتاب میں یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ جامعہ کراچی میں 'یوٹوپیا' کی طرح افسانوی شہرت رکھنے والی 'پریم گلی' کے علاوہ پاپوش نگر کا ایک کوچہ بھی اسی نام سے موسوم ہے۔ کہیں 'نانی اماں والی گلی' اور کہیں 'گُل چاچا والی گلی' مقامی کرداروں کی محلے داروں سے جُڑت کا پتا دیتی ہے۔ البتہ 168 صفحاتی اِس تہذیبی دستا ویز کے سرورق پر 'سندھ کا نقشہ موضوع سے کچھ لگا نہیں کھاتا، کتاب 500 روپے میں دست یاب ہے۔ دونوں کتب کی طباعت 'شعبۂ تصنیف وتالیف وترجمہ، جامعہ کراچی سے کی گئی ہے۔
Load Next Story