5 رشتے جنھیں وقت دینا نہایت ضروری ہے
ذہنی تناؤ ، بلند فشارِ خون ، مایوسی جیسے مسائل کی ایک بنیادی وجہ مل جل کر وقت نہ گزارنا ہے
ISLAMABAD:
مشہور کہاوت ہے کہ کسی کو سب سے بہترین چیز جو ہم دے سکتے ہیں، وہ وقت ہے۔
ایسی باتیں ہم عموماً سنتے ہیں اور نظر انداز کر دیتے ہیں، کیونکہ فی زمانہ ہر شخص کی ترجیحات بدل چکی ہیں ۔ نام نہاد ترقی کی جس دوڑ میں ہم اندھا دھند بھاگ رہے ہیں ، اس نے سب سے پہلا وار اسی بیش قیمت چیز یعنی وقت پر کیا ہے۔ ترقی کی صفِ اول میں جگہ پانے کے لئے ہم میں سے ہر فرد کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔
اس کے عوض جو بھی ادائیگی کرنا پڑے ، بلا تامل اور بلا تاخیر کرنے پر خود کو تیار پاتے ہیں۔ یہ سوچے، سمجھے اور جانے بغیر کہ اتنی بڑی قیمت کی ادائیگی کے بعد ملنے والی چیز کیا اس قدر اہم ہے؟یہاں سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ترقی سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی ہو سکتی ہے اور اس کی ادائیگی میں کوئی فرد جھجک سکتا ہے؟
فی زمانہ سب سے اہم ترقی یافتہ ہونا ہے ، اندھا دھند دوڑتے لوگوں کے ساتھ بغیر کسی سود و زیاں کے حساب کے بس دوڑتے چلے جانا ہے۔ ترقی کا یہ تصور آیا کہاں سے ہے اور اس کے فوائد و ثمرات معاشرے اور افراد پر کس طرح بارش بن کر برس رہے ہیں ؟
اس کا حساب کون لگائے گا اور ریت کی طرح پھسلتے وقت کی نازک اور نایاب گھڑیوں کو کون لوٹائے گا ؟کیا ہم تھوڑی دیر کے لئے اس ترقی یافتہ ہونے کے سفر کو روک کر سوچ سکتے ہیں کہ اس کے لئے جو ادائیگی ہم کر رہے ہیں ،کہیں وہ دائمی خسارے کا سودا تو نہیں ہے ؟ بزرگوں کے اقوال جو ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہیں ، ان کی صداقت پر کیسے شک کیا جا سکتا ہے ؟ اگر انہوں نے کسی کو دینے کے لئے سب سے قیمتی تحفہ وقت کو قرار دیا ہے تو یقیناً سب سے بیش قیمت چیز یہی ہو گی۔
معاشرہ اور افراد آج کل سب سے زیادہ جس چیز کی کمی کا شکار ہیں اور جس معاملے میں شکوہ کناں رہتے ہیں ، وہ وقت کی کمی ہی ہے۔ جسے دیکھیں وہی وقت نہ ہونے کا رونا رو رہا ہے ، ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے رات دن کے اوقات چوبیس کی بجائے بارہ گھنٹوں کے ہو گئے ہیں اور لوگ بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ آخر وقت جا کہاں رہا ہے ،ہماری ہر کوشش بجائے اس میں اضافہ کرنے کے اس کو کم کرتی جا رہی ہے۔
یہ تو حقیقت ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے ہیں ، جیسے ہمیشہ سے تھے اور رہیں گے، پھر ہمارے پاس اس کی کمی کیسے ہوگئی ہے؟ ہمارے اوقات سے وہ برکت کیسے غائب ہو گئی ہے جو ہمارے بزرگوں کو ایک نعمت کی صورت نہ صرف دستیاب تھی بلکہ وہ مکمل فراخ دلی سے اسے تقسیم بھی کرتے تھے۔
کہتے ہیں کہ جس چیز کو تقسیم کیا جائے ، اس میں اضافہ ہوتا ہے ، دوسروں کے ساتھ بانٹ لینا کسی بھی نعمت میں برکت شامل کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس وقت اس لئے نہیں ہے کیونکہ ہم دوسروں کو دے نہیں رہے ، بانٹ نہیں رہے ، کسی کے ساتھ اس کو تقسیم نہیں کر رہے ، سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں اور معلومات سے آگاہی رکھتے ہیں اور اردگرد کا ہوش نہیں ہے۔
ہاتھوں میں پکڑے چھوٹے چھوٹے آلات نے جدید اور ترقی یافتہ ہونے کے نام پر ہمارے وقت کو نگل لیا ہے اور ہمیں اس عظیم خسارے کا احساس تک نہیں ہو رہا ۔ ہمارے اذہان میں یہ راسخ کر دیا گیا ہے کہ ہمیں خود اور اعزہ و اقارب کے لئے آسائشات اور تعیشات کے انبار لگانے ہیں ، تب ہی اس دنیا اور اس کی زندگی کا لطف دوبالا ہو سکتا ہے۔ ہم یہ فراموش کر چکے ہیں کہ دو عشرے قبل تک ، جب دنیا ہاتھ میں پکڑے موبائل فونز کے ذریعے باہم رابطے میں نہیں آئی تھی ، تب تک کے لوگوں کے پاس بھی وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوا کرتا تھا۔
اس تیز رفتار اور مشینی تبدیلی نے ہم سے یہ نعمت دور کی ہے ، جتنا ہماری زندگیوں میں سکرین کا عمل دخل زیادہ ہو رہا ہے ، اتنا ہی ہمارے پاس ایک دوسرے کے دکھ سکھ ، خوشی غمی بانٹنے کا وقت سکڑ رہا ہے۔ آج بھی دیہات میں جہاں ابھی موبائل اور انٹر نیٹ سے دور نسل موجود ہے۔
ان کے پاس ایک دوسرے کے لئے بہت سا وقت ہے ، مرد و خواتین روزانہ کی بنیاد پر مل بیٹھتے ہیں اور ، باہم حالات سے آگاہ رہتے ہیں اور خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے۔ انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا انسانی ذہن اور دل کی صحت کے لئے سب سے اہم ہے۔ ذہنی تناؤ ، بلند فشارِ خون ، مایوسی جیسے مسائل جو بے تحاشا بڑھ رہے ہیں ، ان کی ایک بنیادی وجہ مل جل کر وقت نہ گزارنا ہے۔ کچھ رشتے ، تعلق جو ایک ہی لفظ '' خ '' سے شروع ہوتے ہیں ، ان کو وقت دینا بے حد ضروری ہے تاکہ آپ زندگی اور اس کی نعمتوں سے حقیقی لطف اٹھا سکیں۔
٭خالق کو وقت دیں
تخلیق کرنے والے ، آپ کو زندگی ، صحت اور اس سے متعلق تمام تر نعمتیں دینے والے کا حق ہے کہ آپ اس کے لئے وقت نکالیں۔ آپ کی زندگی اور اس کے اوقات پر سب سے پہلا حق اسی کا ہے۔ اس حق کی وصولی کے لئے اس نے آپ پر رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت خود کو یاد کرنا فرض کیا ہے۔
اس پانچ وقت یاد کرنے میں چوبیس گھنٹوں میں سے مشکل سے ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ یہ ایک گھنٹہ اس کو دینا آپ کا فرض ہے اور آپ یہ نہیں کرتے تو اپنے فرض کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور نتیجتاً آپ کی زندگی اور وقت سے برکت اور سکون کا عنصر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جب خالق نے بتا دیا کہ سکون اسے یاد کرنے میں ہے اور یاد کرنے کے لئے کیا چاہیئے؟ وقت ۔۔ اگر آپ اس کی یاد کے لئے وقت نہیں نکالتے تو آپ بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں ، جس سے آپ کی ذہنی اور جسمانی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور آپ رفتہ رفتہ مختلف مسائل کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ترجیحی بنیادوں پر خالق کے لئے وقت نکالیں۔ ایک گھنٹے کے فرض وقت کے علاوہ بھی کوشش کریں کہ روزانہ کچھ زائد وقت اس کی یاد میں گزاریں۔
٭خود کے لئے وقت نکالیں
خالق نے فرمایا کہ تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اپنی جان کا حق مقدم ہے اور اس مقدم حق کی ادائیگی کے لئے سب سے اہم چیز وقت ہے۔ ہمارے پاس ہر مصروفیت اور سرگرمی کے لئے وقت ہوتا ہے، نہیں ہوتا تو اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتا یا یوں کہیں کہ خود کو نظر انداز کر کے وہ وقت بھی ہم کہیں اور استعمال کر لیتے ہیں۔ خود کو وقت دینا کیا ہے؟
ساری بھاگ دوڑ اور کوشش کا محور و مرکز تو اپنی ذات ہوتی ہے، پھر اس کے لئے وقت نکالنا چہ معنی دارد؟ خود کو وقت دینے سے مراد یہ ہے کہ اپنے ذہنی اور جسمانی آرام کے لئے ذرا رک کر سانس ہموار کر لیں ، ٹھہر جائیں، لمبے سانس لیں اور تازہ دم ہو کر پھر سے اس دوڑ کا حصہ بن جائیں۔ اپنی دلچسپی کے کام کریں ، سیر و تفریح کا وقت نکالیں ، کام سے وقفہ لے کر خود کو آرام کا موقع دیں۔ تفریح اور آرام بہت ضروری ہے ، اس لئے خود کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وقت دیں۔
٭خاندان بھی وقت چاہتا ہے
آپ اپنے متعلقین کو سب سے بہترین تحفہ جو دے سکتے ہیں ، وہ وقت ہے۔ یقیناً ضروریاتِ زندگی کی فراہمی بھی ان کا حق ہے اور اس کے لئے آپ کو بہت محنت اور کوشش کرنا ہوتی ہے اور وقت بھی صرف کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف ضروریات اور سہولیات فراہم کرنے سے حق ادا نہیں ہو سکتا۔
رشتوں کے لئے 'ساتھ' کہیں زیادہ اہم ہے اور اس ساتھ کو مضبوط کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا بہت ضروری ہے۔ آپ بھلے ہی کتنے مصروف ہوں ، زندگی کی جدوجہد میں کتنا ہی مشکل اور کٹھن وقت گزار رہے ہوں، خود پر لازم کریں کہ ہفتے میں کم از کم ایک دن اپنے پیاروں کے لئے اپنا سارا وقت مختص کریں۔ آپ کے پاس ہونے کا احساس، ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کہنے سننے سے جو اپنائیت اور گرم جوشی آپ کی زندگی میں آئے گی ، وہ انمول ہے اور یہ انمول خوشی محض ایک معمولی عمل یعنی وقت کی قربانی سے آپ کو حاصل ہو سکتا ہے۔
٭خلق کے لئے بھی وقت مختص کریں
مخلوق کے لئے بھی صرف وقت دے کر آپ بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ اپنے دوست احبا ب ، اعزہ و اقارب اور اہلِ محلہ کے لئے بھی لازمی وقت نکالیں ۔ یہ اس دور کا المیہ ہے کہ ہمیں ہزاروں لاکھوں میل دور بیٹھے لوگوں اور ان کے حالات سے تو آگاہی ہوتی ہے ، لیکن اپنے اردگرد کے لوگوں کے مسائل اور ضروریات سے ہم لاعلم ہوتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہی وقت کی عدم دستیابی ہے ، ہم نے خود کو یہ یقین دلا لیا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے اس لئے آس پاس کے حالات سے آگاہ رہنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔
انسان کو ہر معاملے میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے، آپ اکیلے کوئی خوشی، کوئی غم نہیں گزار سکتے۔ اس لئے بجائے خود کو یہ تسلی دینے کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہے ، خود کو اکسائیں کہ آپ نے ان تمام لوگوں کے لئے وقت نکالنا ہے ، ان کے حالات سے آگاہ رہنا ہے اور ضرورت پڑنے پر بھرپور ساتھ دینا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی مسئلے میں ہی ان رشتوں کے لئے وقت نکالیں ، بلکہ روزمرہ کی بنیادوں پر ان سے رابطے میں رہیں ، مل بیٹھنے کے مواقع نکالیں اور کم از کم ہفتہ وار ملاقاتوں کا ضرور اہتمام کریں۔
٭خدمت کے لئے بھی وقت درکار ہے
کسی نے کہا تھا ... ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ زندگی اور اس سے متعلق تمام تر کوشش صرف اپنے لئے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی حصہ دار بنائیں۔ صدقہ کرنے کے بہت سارے طریقوں میں سے ایک اہم اور آسان طریقہ اپنا وقت عطیہ کرنا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے اوقات میں سے خدمت خلق کے لئے بھی وقت مخصوص کریں۔ روزانہ آدھا گھنٹہ ہی سہی لیکن رفاہ عامہ کے کسی نہ کسی کام میں بھی وقت صرف کرنے کی عادت اختیار کریں۔ اس سے نہ صرف آپ کے وقت میں برکت ہوگی بلکہ آپ کو اپنے وقت کے نفع بخش ہونے کا بھی احساس ہوگا۔
زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور اس نعمت نے اپنے وقت مقررہ پر ختم ہو جانا ہے۔ اس سارے عمل میں سب سے اہم چیز وقت ہے اور آخرت میں جوابدہی بھی اسی کی ہونی ہے کہ ہم نے اپنا وقت کہاں کہاں خرچ کر کے اسے ختم کیا ؟ وقت کو منظم اور بامقصد انداز میں گزارنا ہی کا میاب زندگی کی ضمانت ہے ، وقت کو منظم اور تعمیری بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی اہمیت کو جانتے ہوئے اپنے اوقات کار کو مناسب انداز میں تقسیم کریں اور اسے ضائع کرنے کی بجائے خود کے لئے اور دوسروں کے لئے نفع بخش بنائیں تاکہ ہماری دنیا و آخرت دونوں کامیاب ہوں۔
مشہور کہاوت ہے کہ کسی کو سب سے بہترین چیز جو ہم دے سکتے ہیں، وہ وقت ہے۔
ایسی باتیں ہم عموماً سنتے ہیں اور نظر انداز کر دیتے ہیں، کیونکہ فی زمانہ ہر شخص کی ترجیحات بدل چکی ہیں ۔ نام نہاد ترقی کی جس دوڑ میں ہم اندھا دھند بھاگ رہے ہیں ، اس نے سب سے پہلا وار اسی بیش قیمت چیز یعنی وقت پر کیا ہے۔ ترقی کی صفِ اول میں جگہ پانے کے لئے ہم میں سے ہر فرد کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔
اس کے عوض جو بھی ادائیگی کرنا پڑے ، بلا تامل اور بلا تاخیر کرنے پر خود کو تیار پاتے ہیں۔ یہ سوچے، سمجھے اور جانے بغیر کہ اتنی بڑی قیمت کی ادائیگی کے بعد ملنے والی چیز کیا اس قدر اہم ہے؟یہاں سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ترقی سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی ہو سکتی ہے اور اس کی ادائیگی میں کوئی فرد جھجک سکتا ہے؟
فی زمانہ سب سے اہم ترقی یافتہ ہونا ہے ، اندھا دھند دوڑتے لوگوں کے ساتھ بغیر کسی سود و زیاں کے حساب کے بس دوڑتے چلے جانا ہے۔ ترقی کا یہ تصور آیا کہاں سے ہے اور اس کے فوائد و ثمرات معاشرے اور افراد پر کس طرح بارش بن کر برس رہے ہیں ؟
اس کا حساب کون لگائے گا اور ریت کی طرح پھسلتے وقت کی نازک اور نایاب گھڑیوں کو کون لوٹائے گا ؟کیا ہم تھوڑی دیر کے لئے اس ترقی یافتہ ہونے کے سفر کو روک کر سوچ سکتے ہیں کہ اس کے لئے جو ادائیگی ہم کر رہے ہیں ،کہیں وہ دائمی خسارے کا سودا تو نہیں ہے ؟ بزرگوں کے اقوال جو ان کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہیں ، ان کی صداقت پر کیسے شک کیا جا سکتا ہے ؟ اگر انہوں نے کسی کو دینے کے لئے سب سے قیمتی تحفہ وقت کو قرار دیا ہے تو یقیناً سب سے بیش قیمت چیز یہی ہو گی۔
معاشرہ اور افراد آج کل سب سے زیادہ جس چیز کی کمی کا شکار ہیں اور جس معاملے میں شکوہ کناں رہتے ہیں ، وہ وقت کی کمی ہی ہے۔ جسے دیکھیں وہی وقت نہ ہونے کا رونا رو رہا ہے ، ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے رات دن کے اوقات چوبیس کی بجائے بارہ گھنٹوں کے ہو گئے ہیں اور لوگ بھاگ بھاگ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ آخر وقت جا کہاں رہا ہے ،ہماری ہر کوشش بجائے اس میں اضافہ کرنے کے اس کو کم کرتی جا رہی ہے۔
یہ تو حقیقت ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹے ہیں ، جیسے ہمیشہ سے تھے اور رہیں گے، پھر ہمارے پاس اس کی کمی کیسے ہوگئی ہے؟ ہمارے اوقات سے وہ برکت کیسے غائب ہو گئی ہے جو ہمارے بزرگوں کو ایک نعمت کی صورت نہ صرف دستیاب تھی بلکہ وہ مکمل فراخ دلی سے اسے تقسیم بھی کرتے تھے۔
کہتے ہیں کہ جس چیز کو تقسیم کیا جائے ، اس میں اضافہ ہوتا ہے ، دوسروں کے ساتھ بانٹ لینا کسی بھی نعمت میں برکت شامل کر دیتا ہے۔ ہمارے پاس وقت اس لئے نہیں ہے کیونکہ ہم دوسروں کو دے نہیں رہے ، بانٹ نہیں رہے ، کسی کے ساتھ اس کو تقسیم نہیں کر رہے ، سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں اور معلومات سے آگاہی رکھتے ہیں اور اردگرد کا ہوش نہیں ہے۔
ہاتھوں میں پکڑے چھوٹے چھوٹے آلات نے جدید اور ترقی یافتہ ہونے کے نام پر ہمارے وقت کو نگل لیا ہے اور ہمیں اس عظیم خسارے کا احساس تک نہیں ہو رہا ۔ ہمارے اذہان میں یہ راسخ کر دیا گیا ہے کہ ہمیں خود اور اعزہ و اقارب کے لئے آسائشات اور تعیشات کے انبار لگانے ہیں ، تب ہی اس دنیا اور اس کی زندگی کا لطف دوبالا ہو سکتا ہے۔ ہم یہ فراموش کر چکے ہیں کہ دو عشرے قبل تک ، جب دنیا ہاتھ میں پکڑے موبائل فونز کے ذریعے باہم رابطے میں نہیں آئی تھی ، تب تک کے لوگوں کے پاس بھی وقت کی کمی کا شکوہ نہیں ہوا کرتا تھا۔
اس تیز رفتار اور مشینی تبدیلی نے ہم سے یہ نعمت دور کی ہے ، جتنا ہماری زندگیوں میں سکرین کا عمل دخل زیادہ ہو رہا ہے ، اتنا ہی ہمارے پاس ایک دوسرے کے دکھ سکھ ، خوشی غمی بانٹنے کا وقت سکڑ رہا ہے۔ آج بھی دیہات میں جہاں ابھی موبائل اور انٹر نیٹ سے دور نسل موجود ہے۔
ان کے پاس ایک دوسرے کے لئے بہت سا وقت ہے ، مرد و خواتین روزانہ کی بنیاد پر مل بیٹھتے ہیں اور ، باہم حالات سے آگاہ رہتے ہیں اور خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے۔ انسانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا انسانی ذہن اور دل کی صحت کے لئے سب سے اہم ہے۔ ذہنی تناؤ ، بلند فشارِ خون ، مایوسی جیسے مسائل جو بے تحاشا بڑھ رہے ہیں ، ان کی ایک بنیادی وجہ مل جل کر وقت نہ گزارنا ہے۔ کچھ رشتے ، تعلق جو ایک ہی لفظ '' خ '' سے شروع ہوتے ہیں ، ان کو وقت دینا بے حد ضروری ہے تاکہ آپ زندگی اور اس کی نعمتوں سے حقیقی لطف اٹھا سکیں۔
٭خالق کو وقت دیں
تخلیق کرنے والے ، آپ کو زندگی ، صحت اور اس سے متعلق تمام تر نعمتیں دینے والے کا حق ہے کہ آپ اس کے لئے وقت نکالیں۔ آپ کی زندگی اور اس کے اوقات پر سب سے پہلا حق اسی کا ہے۔ اس حق کی وصولی کے لئے اس نے آپ پر رات دن کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ وقت خود کو یاد کرنا فرض کیا ہے۔
اس پانچ وقت یاد کرنے میں چوبیس گھنٹوں میں سے مشکل سے ایک گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔ یہ ایک گھنٹہ اس کو دینا آپ کا فرض ہے اور آپ یہ نہیں کرتے تو اپنے فرض کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور نتیجتاً آپ کی زندگی اور وقت سے برکت اور سکون کا عنصر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جب خالق نے بتا دیا کہ سکون اسے یاد کرنے میں ہے اور یاد کرنے کے لئے کیا چاہیئے؟ وقت ۔۔ اگر آپ اس کی یاد کے لئے وقت نہیں نکالتے تو آپ بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں ، جس سے آپ کی ذہنی اور جسمانی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور آپ رفتہ رفتہ مختلف مسائل کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے ترجیحی بنیادوں پر خالق کے لئے وقت نکالیں۔ ایک گھنٹے کے فرض وقت کے علاوہ بھی کوشش کریں کہ روزانہ کچھ زائد وقت اس کی یاد میں گزاریں۔
٭خود کے لئے وقت نکالیں
خالق نے فرمایا کہ تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے۔ اپنی جان کا حق مقدم ہے اور اس مقدم حق کی ادائیگی کے لئے سب سے اہم چیز وقت ہے۔ ہمارے پاس ہر مصروفیت اور سرگرمی کے لئے وقت ہوتا ہے، نہیں ہوتا تو اپنی ذات کے لئے نہیں ہوتا یا یوں کہیں کہ خود کو نظر انداز کر کے وہ وقت بھی ہم کہیں اور استعمال کر لیتے ہیں۔ خود کو وقت دینا کیا ہے؟
ساری بھاگ دوڑ اور کوشش کا محور و مرکز تو اپنی ذات ہوتی ہے، پھر اس کے لئے وقت نکالنا چہ معنی دارد؟ خود کو وقت دینے سے مراد یہ ہے کہ اپنے ذہنی اور جسمانی آرام کے لئے ذرا رک کر سانس ہموار کر لیں ، ٹھہر جائیں، لمبے سانس لیں اور تازہ دم ہو کر پھر سے اس دوڑ کا حصہ بن جائیں۔ اپنی دلچسپی کے کام کریں ، سیر و تفریح کا وقت نکالیں ، کام سے وقفہ لے کر خود کو آرام کا موقع دیں۔ تفریح اور آرام بہت ضروری ہے ، اس لئے خود کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وقت دیں۔
٭خاندان بھی وقت چاہتا ہے
آپ اپنے متعلقین کو سب سے بہترین تحفہ جو دے سکتے ہیں ، وہ وقت ہے۔ یقیناً ضروریاتِ زندگی کی فراہمی بھی ان کا حق ہے اور اس کے لئے آپ کو بہت محنت اور کوشش کرنا ہوتی ہے اور وقت بھی صرف کرنا ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف ضروریات اور سہولیات فراہم کرنے سے حق ادا نہیں ہو سکتا۔
رشتوں کے لئے 'ساتھ' کہیں زیادہ اہم ہے اور اس ساتھ کو مضبوط کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا بہت ضروری ہے۔ آپ بھلے ہی کتنے مصروف ہوں ، زندگی کی جدوجہد میں کتنا ہی مشکل اور کٹھن وقت گزار رہے ہوں، خود پر لازم کریں کہ ہفتے میں کم از کم ایک دن اپنے پیاروں کے لئے اپنا سارا وقت مختص کریں۔ آپ کے پاس ہونے کا احساس، ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کہنے سننے سے جو اپنائیت اور گرم جوشی آپ کی زندگی میں آئے گی ، وہ انمول ہے اور یہ انمول خوشی محض ایک معمولی عمل یعنی وقت کی قربانی سے آپ کو حاصل ہو سکتا ہے۔
٭خلق کے لئے بھی وقت مختص کریں
مخلوق کے لئے بھی صرف وقت دے کر آپ بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں ۔ اپنے دوست احبا ب ، اعزہ و اقارب اور اہلِ محلہ کے لئے بھی لازمی وقت نکالیں ۔ یہ اس دور کا المیہ ہے کہ ہمیں ہزاروں لاکھوں میل دور بیٹھے لوگوں اور ان کے حالات سے تو آگاہی ہوتی ہے ، لیکن اپنے اردگرد کے لوگوں کے مسائل اور ضروریات سے ہم لاعلم ہوتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہی وقت کی عدم دستیابی ہے ، ہم نے خود کو یہ یقین دلا لیا ہے کہ چونکہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے اس لئے آس پاس کے حالات سے آگاہ رہنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔
انسان کو ہر معاملے میں اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے، آپ اکیلے کوئی خوشی، کوئی غم نہیں گزار سکتے۔ اس لئے بجائے خود کو یہ تسلی دینے کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہے ، خود کو اکسائیں کہ آپ نے ان تمام لوگوں کے لئے وقت نکالنا ہے ، ان کے حالات سے آگاہ رہنا ہے اور ضرورت پڑنے پر بھرپور ساتھ دینا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی مسئلے میں ہی ان رشتوں کے لئے وقت نکالیں ، بلکہ روزمرہ کی بنیادوں پر ان سے رابطے میں رہیں ، مل بیٹھنے کے مواقع نکالیں اور کم از کم ہفتہ وار ملاقاتوں کا ضرور اہتمام کریں۔
٭خدمت کے لئے بھی وقت درکار ہے
کسی نے کہا تھا ... ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ زندگی اور اس سے متعلق تمام تر کوشش صرف اپنے لئے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی حصہ دار بنائیں۔ صدقہ کرنے کے بہت سارے طریقوں میں سے ایک اہم اور آسان طریقہ اپنا وقت عطیہ کرنا ہے۔ کوشش کریں کہ اپنے اوقات میں سے خدمت خلق کے لئے بھی وقت مخصوص کریں۔ روزانہ آدھا گھنٹہ ہی سہی لیکن رفاہ عامہ کے کسی نہ کسی کام میں بھی وقت صرف کرنے کی عادت اختیار کریں۔ اس سے نہ صرف آپ کے وقت میں برکت ہوگی بلکہ آپ کو اپنے وقت کے نفع بخش ہونے کا بھی احساس ہوگا۔
زندگی اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت ہے اور اس نعمت نے اپنے وقت مقررہ پر ختم ہو جانا ہے۔ اس سارے عمل میں سب سے اہم چیز وقت ہے اور آخرت میں جوابدہی بھی اسی کی ہونی ہے کہ ہم نے اپنا وقت کہاں کہاں خرچ کر کے اسے ختم کیا ؟ وقت کو منظم اور بامقصد انداز میں گزارنا ہی کا میاب زندگی کی ضمانت ہے ، وقت کو منظم اور تعمیری بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی اہمیت کو جانتے ہوئے اپنے اوقات کار کو مناسب انداز میں تقسیم کریں اور اسے ضائع کرنے کی بجائے خود کے لئے اور دوسروں کے لئے نفع بخش بنائیں تاکہ ہماری دنیا و آخرت دونوں کامیاب ہوں۔