چائلڈ لیبر کا بڑھتا رحجان اور ہمارا رویہ
ہم نے یقینی طور پر بہت سے ایسے معصوم سے چہرے دیکھے ہونگے جو کبھی آتش ِ آفتاب کی تاب میں، تو کبھی شام پڑے۔۔۔
ہم نے یقینی طور پر بہت سے ایسے معصوم سے چہرے دیکھے ہونگے جو کبھی آتش ِ آفتاب کی تاب میں، تو کبھی شام پڑے سڑک کناروں پراشیاء کو فروخت کرتے تو کبھی سگنل پر کھڑی گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے نظر آتے ہوں گے ۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ اس مشقت کی انہیںاجرت دی جاتی ہے جو بہت ہی قلیل رقم ہوگی۔ لیکن پس پردہ اس کے عوض انہیں اپنی ساری حسرتیں، تمام تر خواہشات وہ تمام امیدیں جوانہوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے سوچیں ہونگی انہیں دائو پر لگا دیتے ہیں۔
مسکراتے ہوئے ان معصوم نوعمر چہروں کے پیچھے نہ جانے کتنی ہی درد ناک کہانیاں ہوتی ہیں جس کا ہم صرف گمان ہی کر سکتے ہیں۔ آج بھی جب ہماری گاڑی کسی بھی سگنل پر کھڑی ہوتی ہے تو بہت سے ایسے چہرے الگ الگ روپ میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے کتنے لوگ ہی سوچتے ہونگے۔۔؟ یہ میں بھی نہیں جانتی تھی، لیکن چائلڈ لیبرکے حوالے سے ایک بہت ہی محترم استادسے مباحثے نے بھی مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔آج جس مقام پر وہ ہیں اس کے پیچھے 8 سالہ بچے کی محنت و مشقت ہے۔جس نے کبھی انہیں اخبار فروش بیرا تو کھبی لوہے پرصبح و شام ہتھوڑاچلانے والا بنایا، تو کبھی معمولی سے کلینک میں ایک عام سے کمپائوڈرکی ماہانہ 60 روپے کی تنخواہ وصول کرنے والابنایا،یہ شخص اب ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی یعنی جامعہ کراچی کے انتہائی قابل احترام اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے شاید نو عمری میں پیٹ بھرنے اور جوانی میں بہترین تعلیم کے حصول کے لئے اپنا سارا بچپن گوا دیا۔
چائلڈ لیبر ایک ایسی لعنت ہےجو ہمارےمعاشرے میں بری طرح سے سرائیت کر چکی ہے ۔ صرف چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبر آٓرگنائزیشن کےتحت ایک رپوٹ شائع کی گئی ہے جس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جہاںچائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے ۔ جس میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ رپورٹ میں پاکستا ن کا ساتواں نمبر تھا ۔ایک سروے کے مطابق حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے کہ 2008 سے چائلڈ لیبر کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔جو اب ایسی خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے کہ اسے کنٹرول کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ رپورٹ پاکستانی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔شاید ہمارا میڈیا 21 جون کا انتظار کر رہا ہے کہ جب پوری دنیا میں چائلڈ لیبر کے خلاف دن منایا جاتا ہے اورہر چینل کی اسکرین پر چائلڈ لیبر کی مخالفت میں ایسے کلمات ہوں گے جو ان کی اسکرین کی زینت میں اضافہ کریں گے ۔شاید کہ ہمارا معاشرہ اس بات کو قبول کر چکا ہے کہ ایسے تمام نو عمر بچوں کا مقدر تعلیم و تربیت کے بغیر احساس کمتری اور عزت نفس مار کر ہی جینا ہے۔ کیاہمیں یہ خیال بلکل ہی پریشان نہیں کرتا کہ ایسے حالات سے ابھر کر ایک اچھا انسان بننا تودور یہ بچے ایک پاکستانی بھی بن سکے گا؟ ایک ایسا بچہ جو بہت سی محرومیوں کے ساتھ پرورش پائے تو اس کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشان کس معاشرے کی عکاسی کرتا ہے؟وہ معاشرہ کہ جہاں 21 ملین بچے ناہمواریوں،دشواریوں اور ظلم وستم کو خالی پیٹ برداشت کریں تو کیا ان سے مہذب و محب وطن ہونے کی امید رکھنا کیا جائز ہے ؟
حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں 21 ملین ایسے بچے ہیں جو کم عمری میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں ۔اس تعداد کا 27 فیصد حصہ بچیوں پر مشتمل ہیں ۔اگرچہ ہم صرف روشنیوں کے شہر کراچی کی بات کریں تو 2 لاکھ کے قریب بچے صرف کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں۔جبکہ اخبارفروشی ،سرجیکل آلات کی صنعت،ہوٹل پر کام کرنے والے ، گھریلو ملازم اور اس جیسے دیگر کاموں سے منسلک بچوں کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے۔جبکہ اس کا دوسرا رخ بہت ہی دردناک ہے کہ جس میں تشدد کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔جس میں معصوم نو عمر بچوں کو صحیح طور پر کام نہ کرنے پر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔
جس کے نتیجے میں وہ کئی کئی دنوں تک سرکاری ہسپتالوں میںاپنے دردوں کی دواؤں کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں یا پھر ان کی آہیں اور سسکیاں ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجاتی ہیں اور اس عمل میں آئے روز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سال کے ابتدائی دنوں میں ہی 5 گھریلو خاتون ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا ۔ہمارے معاشرے کی بس نصیبی کہیں یا بے حسی میری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پاکستان میں قانون تو موجود ہیںمگر عملدرآمد کی جب بات آتی ہے تواس حوالے سے بہت ہی پریشان کن صورتحال کا سامناکرناپڑ تا ہے ۔
چائلڈلیبر کے حوالے سے 14 سال پہلے ہی قانون بن چکا ہے مگر اس کے مطابق کتنے ہی کیس فائل ہوئے اوراس پر پیشرفت کیا ہوئی خود ایک اہم سوال ہے۔فکر اس وقت لاحق ہوتی ہے جب اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کیسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میںاس اہم نکتے کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے ا ور نہ ہی حکومتی جماعت اس مسئلے پر توجہ دے رہی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ اس جانب توجہ دے اور ٹھوس اقدام کریں تاکہ اس میں کمی واقع ہوسکے۔
میرے نزدیک اس حوالے سے سب سے اہم کام آگاہی کا ہوسکتا ہے جس میں سب سے پہلے ہم لوگوں میں اس بات کا شعور اجاگر کریں کہ چائلڈ لیبر سے سخت مشقت اور کم سے کم اجرت میں کام لیا جاتا ہے کیونکہ ایسے تمام بچوں میں موجود تمام صلاحتیں دم توڑ دیتی ہیں اور وہ اپنی نا سمجھی اور کم عقلی کی وجہ سے معاشرے میں برائیوں کو جلد اپنا لیتے ہیں۔ اس مسئلے میں کمی لانے کے لئے ایسی معاشی پالیسی بنائے جن میں اس حوالے سے خاص توجہ دی جائے اور روزگار کی ایسی اسکیمیں نکالیں جائیں جن میں صرف غریب خاندانوں کو ہی آگے بڑھنے کے مواقع دیا جائے اور انہیں تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کیا جائے، تاہم حکومت کو بھی چاہئے کہ اس طرف توجہ بڑھائے تاکہ کچھ بہتری کی ابتداء ہو سکے ۔ اس لعنت کو روکنا یا مکمل طور پر ختم کرنا آسان نہیں ہے۔لیکن اگر ہم سب مل کراس لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں تو یہ یقینا معاشرے میں تبدیلی کی نئی ابتدا ہوگی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مسکراتے ہوئے ان معصوم نوعمر چہروں کے پیچھے نہ جانے کتنی ہی درد ناک کہانیاں ہوتی ہیں جس کا ہم صرف گمان ہی کر سکتے ہیں۔ آج بھی جب ہماری گاڑی کسی بھی سگنل پر کھڑی ہوتی ہے تو بہت سے ایسے چہرے الگ الگ روپ میں ہمیں نظر آتے ہیں۔ مگر اس حوالے سے کتنے لوگ ہی سوچتے ہونگے۔۔؟ یہ میں بھی نہیں جانتی تھی، لیکن چائلڈ لیبرکے حوالے سے ایک بہت ہی محترم استادسے مباحثے نے بھی مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔آج جس مقام پر وہ ہیں اس کے پیچھے 8 سالہ بچے کی محنت و مشقت ہے۔جس نے کبھی انہیں اخبار فروش بیرا تو کھبی لوہے پرصبح و شام ہتھوڑاچلانے والا بنایا، تو کبھی معمولی سے کلینک میں ایک عام سے کمپائوڈرکی ماہانہ 60 روپے کی تنخواہ وصول کرنے والابنایا،یہ شخص اب ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی یعنی جامعہ کراچی کے انتہائی قابل احترام اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے شاید نو عمری میں پیٹ بھرنے اور جوانی میں بہترین تعلیم کے حصول کے لئے اپنا سارا بچپن گوا دیا۔
چائلڈ لیبر ایک ایسی لعنت ہےجو ہمارےمعاشرے میں بری طرح سے سرائیت کر چکی ہے ۔ صرف چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبر آٓرگنائزیشن کےتحت ایک رپوٹ شائع کی گئی ہے جس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے جہاںچائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے ۔ جس میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ رپورٹ میں پاکستا ن کا ساتواں نمبر تھا ۔ایک سروے کے مطابق حیرت انگیز بات سامنے آئی ہے کہ 2008 سے چائلڈ لیبر کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔جو اب ایسی خطرناک صورتحال اختیار کر چکا ہے کہ اسے کنٹرول کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ رپورٹ پاکستانی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔شاید ہمارا میڈیا 21 جون کا انتظار کر رہا ہے کہ جب پوری دنیا میں چائلڈ لیبر کے خلاف دن منایا جاتا ہے اورہر چینل کی اسکرین پر چائلڈ لیبر کی مخالفت میں ایسے کلمات ہوں گے جو ان کی اسکرین کی زینت میں اضافہ کریں گے ۔شاید کہ ہمارا معاشرہ اس بات کو قبول کر چکا ہے کہ ایسے تمام نو عمر بچوں کا مقدر تعلیم و تربیت کے بغیر احساس کمتری اور عزت نفس مار کر ہی جینا ہے۔ کیاہمیں یہ خیال بلکل ہی پریشان نہیں کرتا کہ ایسے حالات سے ابھر کر ایک اچھا انسان بننا تودور یہ بچے ایک پاکستانی بھی بن سکے گا؟ ایک ایسا بچہ جو بہت سی محرومیوں کے ساتھ پرورش پائے تو اس کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشان کس معاشرے کی عکاسی کرتا ہے؟وہ معاشرہ کہ جہاں 21 ملین بچے ناہمواریوں،دشواریوں اور ظلم وستم کو خالی پیٹ برداشت کریں تو کیا ان سے مہذب و محب وطن ہونے کی امید رکھنا کیا جائز ہے ؟
حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں 21 ملین ایسے بچے ہیں جو کم عمری میں مشقت کرنے پر مجبور ہیں ۔اس تعداد کا 27 فیصد حصہ بچیوں پر مشتمل ہیں ۔اگرچہ ہم صرف روشنیوں کے شہر کراچی کی بات کریں تو 2 لاکھ کے قریب بچے صرف کوڑا کرکٹ اٹھاتے ہیں۔جبکہ اخبارفروشی ،سرجیکل آلات کی صنعت،ہوٹل پر کام کرنے والے ، گھریلو ملازم اور اس جیسے دیگر کاموں سے منسلک بچوں کی تعداد بھی کم و بیش اتنی ہی ہے۔جبکہ اس کا دوسرا رخ بہت ہی دردناک ہے کہ جس میں تشدد کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔جس میں معصوم نو عمر بچوں کو صحیح طور پر کام نہ کرنے پر بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔
جس کے نتیجے میں وہ کئی کئی دنوں تک سرکاری ہسپتالوں میںاپنے دردوں کی دواؤں کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں یا پھر ان کی آہیں اور سسکیاں ہمیشہ کے لئے خاموش ہوجاتی ہیں اور اس عمل میں آئے روز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ جس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ سال کے ابتدائی دنوں میں ہی 5 گھریلو خاتون ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کیا گیا ۔ہمارے معاشرے کی بس نصیبی کہیں یا بے حسی میری سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ پاکستان میں قانون تو موجود ہیںمگر عملدرآمد کی جب بات آتی ہے تواس حوالے سے بہت ہی پریشان کن صورتحال کا سامناکرناپڑ تا ہے ۔
چائلڈلیبر کے حوالے سے 14 سال پہلے ہی قانون بن چکا ہے مگر اس کے مطابق کتنے ہی کیس فائل ہوئے اوراس پر پیشرفت کیا ہوئی خود ایک اہم سوال ہے۔فکر اس وقت لاحق ہوتی ہے جب اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کیسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میںاس اہم نکتے کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے ا ور نہ ہی حکومتی جماعت اس مسئلے پر توجہ دے رہی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ اس جانب توجہ دے اور ٹھوس اقدام کریں تاکہ اس میں کمی واقع ہوسکے۔
میرے نزدیک اس حوالے سے سب سے اہم کام آگاہی کا ہوسکتا ہے جس میں سب سے پہلے ہم لوگوں میں اس بات کا شعور اجاگر کریں کہ چائلڈ لیبر سے سخت مشقت اور کم سے کم اجرت میں کام لیا جاتا ہے کیونکہ ایسے تمام بچوں میں موجود تمام صلاحتیں دم توڑ دیتی ہیں اور وہ اپنی نا سمجھی اور کم عقلی کی وجہ سے معاشرے میں برائیوں کو جلد اپنا لیتے ہیں۔ اس مسئلے میں کمی لانے کے لئے ایسی معاشی پالیسی بنائے جن میں اس حوالے سے خاص توجہ دی جائے اور روزگار کی ایسی اسکیمیں نکالیں جائیں جن میں صرف غریب خاندانوں کو ہی آگے بڑھنے کے مواقع دیا جائے اور انہیں تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کیا جائے، تاہم حکومت کو بھی چاہئے کہ اس طرف توجہ بڑھائے تاکہ کچھ بہتری کی ابتداء ہو سکے ۔ اس لعنت کو روکنا یا مکمل طور پر ختم کرنا آسان نہیں ہے۔لیکن اگر ہم سب مل کراس لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں تو یہ یقینا معاشرے میں تبدیلی کی نئی ابتدا ہوگی۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔