پب جی گیم اور وہ لڑکا
علی زین جیسے بے شمار نوجوان پب جی گیم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں
LONDON:
نشہ خواہ دولت کا ہو، شہرت یا اقتدار کا ہو، جسمانی طاقت و بہادری کا ہویا کسی اور قوت کا جب یہ حد سے بڑھ جاتا ہے تب خطرناک اور ہیبت ناک ہو جاتا ہے اور انسان ناصرف دوسروں کا نقصان کر بیٹھتا ہے بلکہ اپنی ذات کو بھی نقصان پہنچا دیتا ہے۔
بعض اوقات یہ نقصان اس قدر زیادہ اور شدید ہوتا ہے کہ پچھتاوا اور افسوس بھی اس کا ازالہ نہیں کر سکتے۔ علی زین بھی پب جی گیم کھیلتے کھیلتے جنون کی حد تک پہنچ گیا تھا ، جنون کی حقیقت یہ ہے جب یہ کسی پر سوار ہوتا ہے تو اس کے شعور کو گہری نیند سلا دیتا ہے وہ عقل و خرد سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
زین میڈیکل کا طالب علم اور لاہورکا رہائشی تھا۔ اس کی والدہ ڈاکٹر اور بہن بھائی اچھے اسکول وکالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ عمر سی عمر نہیں تھی 14 یا 17 سال کا نوجوان تھا۔ وہ پب جی گیم کا عاشق تھا، ساتھ میں نشئی بھی تھا۔ دوسرے والدین کی طرح اس کی والدہ نے بھی اس کے مستقبل کے سنہرے خواب بنے تھے۔ اسے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتی تھیں ، اس مقصد کے لیے انھوں نے 60 لاکھ فیس کی مد میں تعلیمی ادارے کو ادا کیے تھے۔
پب جی گیمر اس کھیل کو کھیلتے ہوئے اس قدر اس میں مگن ہو جاتے ہیںکہ اس کے کرداروں اور ان کے احکامات کو حقیقی سمجھتے ہیںاور ان پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اسے بار بارکھیل کے دوران شکست ہو رہی تھی، لہٰذا وہ مایوس اور پریشان تھا ، ساتھ میں والدہ اور بہن بھائیوں کی نصیحتیں اس سے ہضم نہیں ہو پا رہی تھیں لہٰذا اٹھارہ اور انیس جنوری کی رات اس نے نہایت مہارت سے ایسا کھیل کھیلا جس کے بعد یہی کہنا مناسب ہے کہ ''گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے۔''
اس لڑکے نے اپنی والدہ کی پستول نکالی اور سب سے پہلے اپنی والدہ یعنی اپنی جنت کو ہی آگ لگادی۔ فائرکی آواز نے بہن کو بیدارکر دیا، اس جنونی نو عمر مجرم نے دونوں بہنوں اور اپنے بڑے بھائی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود اس کلینک میں جا کر لیٹ گیا، جس کا راستہ گھر سے کلینک کی طرف جاتا تھا اور یہ کلینک اس کی والدہ کا تھا جس میں وہ خواتین کا علاج و معالجہ کرتی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح بات کھل گئی، راز فاش ہو گیا اور اپنی ہی ماں ، بہن کا قاتل پولیس کی حراست میں آگیا اور جس نے جرم بھی قبول کرلیا۔کس قدر خوب صورت اور قابل تعریف گھرانہ تھا، پیارے پیارے بچے، ان کی تعلیم یافتہ والدہ، ذرا سی دیر میں سب کچھ ختم ہو گیا ، گھرکے چار افراد اپنے ہی خون کے ہاتھوں لہو میں نہا گئے۔ ہنستا بستا گھر برباد ہو گیا ، سب کچھ ختم ہوگیا۔ سوائے ایک قاتل کے کوئی فرد نہ بچا۔
اس بچے زین کی بربادی کی اصل وجہ اس کی نافرمانی، بے جا ضد اور ہٹ دھرمی، اس کے ساتھ والدین کی اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی ہے۔ بے شمار والدین ایسے ہیں جو اولاد کو مکمل اور بے جا آزادی مہیا کرتے ہیں، ہر خواہش کو ماننا اپنا فرض سمجھتے ہیں، خود دونوں میاں بیوی کبھی معاش کے سلسلے میں تو کبھی اپنے شوق اور مشاغل کی تکمیل میں گھر سے باہر رہتے ہیں۔ سیر و تفریح ، فلم بینی اپنے پسندیدہ پروگراموں میں شرکت، مختلف کلبوں میں باقاعدہ داخلہ لے کر ہر شام وہیں گزارتے ہیں۔ سوئمنگ، اسپورٹس، فٹنس اور دوسرے مشغلے اپناتے ہیں، اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملازمت ، اوور ٹائم اور رزق میں وسعت کے لیے پارٹ ٹائم ڈیوٹیاں انجام دینی پڑتی ہیں۔ ان حالات میں بچے نظرانداز ہو جاتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرنے اور تربیت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ ناساز گار ماحول تنہائی اور موبائل کا غیر ضروری استعمال بچوں کی صحت پر نہ صرف یہ کہ اثرانداز ہوتا ہے بلکہ بچے اخلاق رذیلہ کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اللہ کے سامنے بھی روز محشر جواب دینا ہوگا۔ والدہ اگر بچے کا پہلا مدرسہ ہے تو والد صاحب کے ذمے اس کی تربیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تربیت کی ذمے داری باپ کو ہی سونپی ہے۔
والدین کی غیر توجہی اور دینی تعلیم سے آراستہ نہ کرنے کی وجہ سے آج بے شمار نوجوان لڑکے لڑکیوں کا سنہرا مستقبل اندھیروں کی نذر ہو گیا ہے۔ درندہ صفت انسانوں نے ان کی آزادی سے مکمل فائدہ اٹھایا اور ان کی زندگیاں برباد کرکے انھیں قتل کردیا گیا۔ زندگی میں جو بھی کام اعتدال کے ساتھ کیا جاتا ہے اس میں نقصان کے مواقع کم ہی آتے ہیں۔ ایک ترتیب اور منصوبہ بندی زندگی کو سنوار دیتی ہے۔
ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود بھی قرآن پاک ترجمہ سے پڑھتے تھے اور نوجوانوں کو صرف ایک صفحہ ترجمے سے پڑھنے کی تاکید کرتے تھے چونکہ قرآن کی تعلیم آدمی کو بہترین اور ایسا انسان بناتی ہے جس کا نام اور کام پوری دنیا میں جگمگاتا ہے، شیطان اس پر قابض ہونے کی سکت نہیں پاتا ہے لیکن وہ قیامت تک لوگوں کو ورغلاتا رہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دی ہے وہ بار بار وارکرتا ہے ہر روز اپنے قلب کو سیاہ کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ دیکھا جائے توآج کے دور میں جس قدر قتل و غارت ہوئے ہیں، ان کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو وہ جہالت اور گمراہی کی تاریکی میں بھٹکتی نظر آئیں گی۔ گویا زندگی کا مقصد سیر سپاٹے اور ہر لمحے کو اپنی خواہش کے مطابق انجوائے کرنا ہے۔
اگر ہم شہرت اور دولت کے نشے کی بات کریں تو یہ بھی ان لوگوں کے لیے ہے جو شارٹ کٹ راستے کو اپناتے اور حق دار کو اس کے حق سے محروم کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوتا ہے ان کی عزت کو داغ لگ جاتا ہے۔ پیسے کے لالچی اور اس دنیا کو جنت بنانے والے اکثر منہ کے بل گرتے ہیں۔ شہرت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جعلی اور نمبر2 کام کرکے بلندی پر تو چڑھ جاتے ہیں لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو سوائے ذلت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ اللہ کو شیخی باز اور جھوٹے لوگ قطعی طور پر پسند نہیں ہیں وہ بردباری کو پسند فرماتا ہے۔
علی زین جیسے بے شمار نوجوان پب جی گیم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ خطر ناک بات یہ ہے کہ پب جی گیمر ٹاسک مکمل کرنے کے لیے آخری حد تک جاتے ہیں اور اس جنون کی خاطر نہ صرف یہ کہ خود ہلاک ہوتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی ہلاکتوں اور تباہی کے دہانے پر لے جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ اس خونی کھیل پر مکمل طور پر پابندی لگائے اور میڈیا کے ذریعے اس کے نقصانات کے بارے میں آگاہی دے۔
نشہ خواہ دولت کا ہو، شہرت یا اقتدار کا ہو، جسمانی طاقت و بہادری کا ہویا کسی اور قوت کا جب یہ حد سے بڑھ جاتا ہے تب خطرناک اور ہیبت ناک ہو جاتا ہے اور انسان ناصرف دوسروں کا نقصان کر بیٹھتا ہے بلکہ اپنی ذات کو بھی نقصان پہنچا دیتا ہے۔
بعض اوقات یہ نقصان اس قدر زیادہ اور شدید ہوتا ہے کہ پچھتاوا اور افسوس بھی اس کا ازالہ نہیں کر سکتے۔ علی زین بھی پب جی گیم کھیلتے کھیلتے جنون کی حد تک پہنچ گیا تھا ، جنون کی حقیقت یہ ہے جب یہ کسی پر سوار ہوتا ہے تو اس کے شعور کو گہری نیند سلا دیتا ہے وہ عقل و خرد سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
زین میڈیکل کا طالب علم اور لاہورکا رہائشی تھا۔ اس کی والدہ ڈاکٹر اور بہن بھائی اچھے اسکول وکالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ عمر سی عمر نہیں تھی 14 یا 17 سال کا نوجوان تھا۔ وہ پب جی گیم کا عاشق تھا، ساتھ میں نشئی بھی تھا۔ دوسرے والدین کی طرح اس کی والدہ نے بھی اس کے مستقبل کے سنہرے خواب بنے تھے۔ اسے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک بھیجنا چاہتی تھیں ، اس مقصد کے لیے انھوں نے 60 لاکھ فیس کی مد میں تعلیمی ادارے کو ادا کیے تھے۔
پب جی گیمر اس کھیل کو کھیلتے ہوئے اس قدر اس میں مگن ہو جاتے ہیںکہ اس کے کرداروں اور ان کے احکامات کو حقیقی سمجھتے ہیںاور ان پر عمل کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اسے بار بارکھیل کے دوران شکست ہو رہی تھی، لہٰذا وہ مایوس اور پریشان تھا ، ساتھ میں والدہ اور بہن بھائیوں کی نصیحتیں اس سے ہضم نہیں ہو پا رہی تھیں لہٰذا اٹھارہ اور انیس جنوری کی رات اس نے نہایت مہارت سے ایسا کھیل کھیلا جس کے بعد یہی کہنا مناسب ہے کہ ''گھرکو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے۔''
اس لڑکے نے اپنی والدہ کی پستول نکالی اور سب سے پہلے اپنی والدہ یعنی اپنی جنت کو ہی آگ لگادی۔ فائرکی آواز نے بہن کو بیدارکر دیا، اس جنونی نو عمر مجرم نے دونوں بہنوں اور اپنے بڑے بھائی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور خود اس کلینک میں جا کر لیٹ گیا، جس کا راستہ گھر سے کلینک کی طرف جاتا تھا اور یہ کلینک اس کی والدہ کا تھا جس میں وہ خواتین کا علاج و معالجہ کرتی تھیں۔ ہمیشہ کی طرح بات کھل گئی، راز فاش ہو گیا اور اپنی ہی ماں ، بہن کا قاتل پولیس کی حراست میں آگیا اور جس نے جرم بھی قبول کرلیا۔کس قدر خوب صورت اور قابل تعریف گھرانہ تھا، پیارے پیارے بچے، ان کی تعلیم یافتہ والدہ، ذرا سی دیر میں سب کچھ ختم ہو گیا ، گھرکے چار افراد اپنے ہی خون کے ہاتھوں لہو میں نہا گئے۔ ہنستا بستا گھر برباد ہو گیا ، سب کچھ ختم ہوگیا۔ سوائے ایک قاتل کے کوئی فرد نہ بچا۔
اس بچے زین کی بربادی کی اصل وجہ اس کی نافرمانی، بے جا ضد اور ہٹ دھرمی، اس کے ساتھ والدین کی اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی ہے۔ بے شمار والدین ایسے ہیں جو اولاد کو مکمل اور بے جا آزادی مہیا کرتے ہیں، ہر خواہش کو ماننا اپنا فرض سمجھتے ہیں، خود دونوں میاں بیوی کبھی معاش کے سلسلے میں تو کبھی اپنے شوق اور مشاغل کی تکمیل میں گھر سے باہر رہتے ہیں۔ سیر و تفریح ، فلم بینی اپنے پسندیدہ پروگراموں میں شرکت، مختلف کلبوں میں باقاعدہ داخلہ لے کر ہر شام وہیں گزارتے ہیں۔ سوئمنگ، اسپورٹس، فٹنس اور دوسرے مشغلے اپناتے ہیں، اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملازمت ، اوور ٹائم اور رزق میں وسعت کے لیے پارٹ ٹائم ڈیوٹیاں انجام دینی پڑتی ہیں۔ ان حالات میں بچے نظرانداز ہو جاتے ہیں، ان کی دیکھ بھال کرنے اور تربیت دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ ناساز گار ماحول تنہائی اور موبائل کا غیر ضروری استعمال بچوں کی صحت پر نہ صرف یہ کہ اثرانداز ہوتا ہے بلکہ بچے اخلاق رذیلہ کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اللہ کے سامنے بھی روز محشر جواب دینا ہوگا۔ والدہ اگر بچے کا پہلا مدرسہ ہے تو والد صاحب کے ذمے اس کی تربیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تربیت کی ذمے داری باپ کو ہی سونپی ہے۔
والدین کی غیر توجہی اور دینی تعلیم سے آراستہ نہ کرنے کی وجہ سے آج بے شمار نوجوان لڑکے لڑکیوں کا سنہرا مستقبل اندھیروں کی نذر ہو گیا ہے۔ درندہ صفت انسانوں نے ان کی آزادی سے مکمل فائدہ اٹھایا اور ان کی زندگیاں برباد کرکے انھیں قتل کردیا گیا۔ زندگی میں جو بھی کام اعتدال کے ساتھ کیا جاتا ہے اس میں نقصان کے مواقع کم ہی آتے ہیں۔ ایک ترتیب اور منصوبہ بندی زندگی کو سنوار دیتی ہے۔
ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان خود بھی قرآن پاک ترجمہ سے پڑھتے تھے اور نوجوانوں کو صرف ایک صفحہ ترجمے سے پڑھنے کی تاکید کرتے تھے چونکہ قرآن کی تعلیم آدمی کو بہترین اور ایسا انسان بناتی ہے جس کا نام اور کام پوری دنیا میں جگمگاتا ہے، شیطان اس پر قابض ہونے کی سکت نہیں پاتا ہے لیکن وہ قیامت تک لوگوں کو ورغلاتا رہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دی ہے وہ بار بار وارکرتا ہے ہر روز اپنے قلب کو سیاہ کرنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ دیکھا جائے توآج کے دور میں جس قدر قتل و غارت ہوئے ہیں، ان کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو وہ جہالت اور گمراہی کی تاریکی میں بھٹکتی نظر آئیں گی۔ گویا زندگی کا مقصد سیر سپاٹے اور ہر لمحے کو اپنی خواہش کے مطابق انجوائے کرنا ہے۔
اگر ہم شہرت اور دولت کے نشے کی بات کریں تو یہ بھی ان لوگوں کے لیے ہے جو شارٹ کٹ راستے کو اپناتے اور حق دار کو اس کے حق سے محروم کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں ان کا انجام بھی عبرت ناک ہوتا ہے ان کی عزت کو داغ لگ جاتا ہے۔ پیسے کے لالچی اور اس دنیا کو جنت بنانے والے اکثر منہ کے بل گرتے ہیں۔ شہرت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے جعلی اور نمبر2 کام کرکے بلندی پر تو چڑھ جاتے ہیں لیکن جب حقیقت سامنے آتی ہے تو سوائے ذلت کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے۔ اللہ کو شیخی باز اور جھوٹے لوگ قطعی طور پر پسند نہیں ہیں وہ بردباری کو پسند فرماتا ہے۔
علی زین جیسے بے شمار نوجوان پب جی گیم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ خطر ناک بات یہ ہے کہ پب جی گیمر ٹاسک مکمل کرنے کے لیے آخری حد تک جاتے ہیں اور اس جنون کی خاطر نہ صرف یہ کہ خود ہلاک ہوتے ہیں بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی ہلاکتوں اور تباہی کے دہانے پر لے جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ اس خونی کھیل پر مکمل طور پر پابندی لگائے اور میڈیا کے ذریعے اس کے نقصانات کے بارے میں آگاہی دے۔