عقل کے دشمن
جمہوریت اور اشتراکیت نے جنم لیا ہے، عورت کو آزادی حاصل ہوئی ہے، پرانے اخلاقی نظام شکستہ ہوگئے ہیں
LONDON:
قدیم زمانے سے لے کر اب تک تمام فلسفی اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ عقل کے بغیر زندگی بے کار ہے ، اس کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں۔یہ عقل ہی ہے جو زندگی کے کرداروں کا تعین کرتی ہے اور زندگی کے سفر کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔
قدرت نے عقل سلیم انسان کو عطا کی ہے اور جانور وں اور پرندوں کو بھی اپنے اپنے ماحول کے مطابق عقل عطا کی تاکہ وہ زندگی گزارنے کے طریقے سیکھ سکیں۔ قید خانے میں سقراط بن کے رہنا ، اس سے بہتر ہے کہ ہم تخت پرکیلیان بن کر رہیں۔ یہ عقل ہی تھی جس سے ڈیکارٹ کو محبت ہوگئی تھی ، کیونکہ اسے یہ معلوم ہو گیا تھاکہ عقل ہی زندگی کے تمام رازوں سے پردہ فاش کرتی ہے۔ سپنبوزا نے اس کے لیے فاقے کیے ، برونو اس کی خاطر زندہ جلا دیا گیا۔
انقلاب فرانس نے عقل کی حسین دیوی کی پرستش کے لیے کئی صنم کدے تعمیر کیے۔ سقراط نے اس کی خاطر زہر کا پیالہ پیا ، ابن رشد اس کی خاطر جلا وطن ہوا ، ژان دارک اسی کی خاطر ''ملحدہ'' کہلائی گئی اور رون کے بازار میں زندہ جلا دی گئی۔ گیلیگو کے زندگی کے آخری دس سال اسی کی وجہ سے جیل میں بسر ہوئے ، لیکن اس نے جہالت قبول نہیں کی اور عقل کے راستے ہی کو اولین ترجیح دی ۔ سر وتیس بھی اسی کی خاطر اپنی کتابوں کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا۔
مادام رولاں اسی کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکائی گئی ، اگر علم و دانش کے یہ علم بردار تلواروں ، زہر کے پیالوں ،آگ اور تختہ دار سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا ؟ شاید انسان آج بھی جہالت کے اندھیروں میںہاتھ پاؤں مار رہا ہوتا لیکن علم وحکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے بجھانے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں ، کیونکہ ان کے خیالات کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا اور انسانی غور و فکر کو زنجیروں میں نہ جکڑا جاسکا۔
ان دانشوروں اور فلسفیوںکی قربانیوں نے علم و حکمت کے موتی بکھیر ے اور یہ ثابت کیا کہ خواہ زندگی کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے جہالت کا راستہ کبھی اختیار نہ کیا جائے اور عقل کا دامن تھام کر زندگی کے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ جسم جل گئے لیکن ذہن زندہ رہے ، جرم و سزا کے اس دورکے بعد ان کے خیالات باقی رہے ،کیونکہ خیال نہیں مٹایا جاسکتا۔ انسان آتے رہے اور جاتے رہے لیکن عقل کا سفر جاری رہا۔
آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسی کی پوجا کی جاتی ہے کیونکہ اسی کی ہی مدد سے انسان اپنے دکھ کم کرتا جا رہا ہے ، اسی کی وجہ ہی سے اس کی بے سکونی ختم ہوئی ، اسی کی وجہ سے اس کی دہشت اور خوف ختم ہوا ، لیکن دنیا بھرکے بالکل برعکس ہم اس کی وجہ ہی سے بے سکونی میں ہیں ، اسی کی وجہ سے دہشت زدہ اور غمگین ہیں ، اسی کی وجہ سے دکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟
آئیں ! اس کی وجوہات کو تلا ش کرتے ہیں، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں جس سرعت سے طرح طرح کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں ، حتی کہ پیریکلین کے عہد میں بھی نہیں ہوئیں۔ ہر چیز بدل گئی ہے فکر کو آزادی نصیب ہوئی ، زراعت سے صنعت ، دیہات سے قصبہ اور قصبے سے شہرکے ارتقا نے سائنس کے مقام کو بلند ترکر دیا ہے۔
جمہوریت اور اشتراکیت نے جنم لیا ہے، عورت کو آزادی حاصل ہوئی ہے، پرانے اخلاقی نظام شکستہ ہوگئے ہیں۔ زندگی آسان سے آسان تر ہوگئی ہے ، لیکن ہمارے ہاں آج پھر سقراط کا زمانہ ہے ، ہماری اخلاقی زندگی خطرے میںہے ، ہم انسانیت کے صرف چیتھڑے ہیں ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔
ہم ہر شعبے میں ماہرین سے خائف ہیں، ایمانداری سے ہمیں ڈر لگتا ہے مساوات ، برداشت، عدل و انصاف سے ہم خوفزدہ رہتے ہیں۔ جہالت کی چادر اوڑھ کر ہمیں سکون ملتا ہے ، غور و فکر سے ہمیں نفرت ہے۔ سچائی اور دیانت سے ہمیں گھن آتی ہے۔ سوچنے سے ہماری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے ، جو سماج کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے ہم مل کر اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اپنے بوسیدہ عقائد کو اپنے اوپر زنجیروں میں ہر وقت جکڑنے رہنے سے ہمیں خوشی ملتی ہے اختلاف ہمیں برداشت نہیں ہوتا۔
بے شرمی ، بے حسی اور بے حیائی ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔ جہالت سے ہمیں محبت ہے جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں سے ہم سکون حاصل کرتے ہیں اپنے حکمرانوں کی نالائقی، لاعلمی ،کرپشن ، لوٹ مار ان کی عیاشیوں ، نااہلی پر ہمیں ان پر پیار آتا ہے۔ ان کے کینسر زدہ فیصلوں، اقدامات اور عملوں پر دل کھول کر انھیں داد دیتے پھرتے ہیں ، جہالوں کے غول کے غول سماج میں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں، انھیں روکنے اور ٹوکنے ولا کوئی نہیں ہے۔ ہم سب کی زندگی بے معنی ہوچکی ہے اب ہم وحشی جانوروں کے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں۔
زندگی کے ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے۔ ان ہی وجوہات نے ہماری فکر کو کھوکھلا بنا دیا ہے وہ شخص جسے اپنے ضمیر پر اعتماد نہیں ہوتا ، وہ زندگی کے اہم مسائل سے گریز کرتا ہے کیونکہ کسی وقت بھی زندگی کی یہ وسیع وعریض تجربہ گاہ اس کے حقیر جھوٹ کو بے نقاب کرسکتی ہے ، کسی وقت بھی وہ حقیقت کے سامنے برہنہ ہوکر لرزہ بر اندام ہو سکتا ہے۔ اس لیے وہ مسائل اور سچائی سے دور بھاگتا ہے وہ سچائی اور مسائل سے خوف زدہ رہتا ہے وہ اوراق الفاظ کے تہوں کے نیچے زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈتا ہے ، اگر ہمارے سماج میں عقل ہی مرجائے تو ہم کتنے سکون میں آجائیں گے، وہ ہی سکون جس کے لیے سارتر کی ماں ہر رات دعا مانگا کرتی تھی۔
جب عقل ہی نہیں ہوگی تو ہمیں کوئی اذیت ، اذیت نہیں لگے گی۔ ہم کسی ناانصافی ، ظلم و زیادتی پر آہ و بکائیں کریں گے، نہ کسی عدم مساوات پر چیخ و پکارکریں گے ، نہ کسی بااختیار اور امرا کی گالیوں اور ذلت پر ماتم نہیں کریں گے نہ ہی اپنی فاقوں ، غربت و افلاس ، بیماریوں ، بے روزگاری ، مہنگائی پر روئیں گے ۔ نہ ہی سچائی سے دور بھاگیں گے نہ ہی زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈیں گے۔ نہ ہی کسی کے جھنجھوڑے پر خو ف زدہ ہونگے۔ اسی لیے ، آئیں! مل کر دعا مانگتے ہیںکہ خدا ہمارے سماج میں عقل کو مار دے تا کہ 22کروڑ انسانوں کو سکون مل سکے۔
قدیم زمانے سے لے کر اب تک تمام فلسفی اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ عقل کے بغیر زندگی بے کار ہے ، اس کے کوئی معنیٰ نہیں ہیں۔یہ عقل ہی ہے جو زندگی کے کرداروں کا تعین کرتی ہے اور زندگی کے سفر کو کامیابی سے آگے بڑھانے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔
قدرت نے عقل سلیم انسان کو عطا کی ہے اور جانور وں اور پرندوں کو بھی اپنے اپنے ماحول کے مطابق عقل عطا کی تاکہ وہ زندگی گزارنے کے طریقے سیکھ سکیں۔ قید خانے میں سقراط بن کے رہنا ، اس سے بہتر ہے کہ ہم تخت پرکیلیان بن کر رہیں۔ یہ عقل ہی تھی جس سے ڈیکارٹ کو محبت ہوگئی تھی ، کیونکہ اسے یہ معلوم ہو گیا تھاکہ عقل ہی زندگی کے تمام رازوں سے پردہ فاش کرتی ہے۔ سپنبوزا نے اس کے لیے فاقے کیے ، برونو اس کی خاطر زندہ جلا دیا گیا۔
انقلاب فرانس نے عقل کی حسین دیوی کی پرستش کے لیے کئی صنم کدے تعمیر کیے۔ سقراط نے اس کی خاطر زہر کا پیالہ پیا ، ابن رشد اس کی خاطر جلا وطن ہوا ، ژان دارک اسی کی خاطر ''ملحدہ'' کہلائی گئی اور رون کے بازار میں زندہ جلا دی گئی۔ گیلیگو کے زندگی کے آخری دس سال اسی کی وجہ سے جیل میں بسر ہوئے ، لیکن اس نے جہالت قبول نہیں کی اور عقل کے راستے ہی کو اولین ترجیح دی ۔ سر وتیس بھی اسی کی خاطر اپنی کتابوں کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا۔
مادام رولاں اسی کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکائی گئی ، اگر علم و دانش کے یہ علم بردار تلواروں ، زہر کے پیالوں ،آگ اور تختہ دار سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا ؟ شاید انسان آج بھی جہالت کے اندھیروں میںہاتھ پاؤں مار رہا ہوتا لیکن علم وحکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے بجھانے کی ساری کوششیں ناکام ہوگئیں ، کیونکہ ان کے خیالات کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا اور انسانی غور و فکر کو زنجیروں میں نہ جکڑا جاسکا۔
ان دانشوروں اور فلسفیوںکی قربانیوں نے علم و حکمت کے موتی بکھیر ے اور یہ ثابت کیا کہ خواہ زندگی کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑ جائے جہالت کا راستہ کبھی اختیار نہ کیا جائے اور عقل کا دامن تھام کر زندگی کے سفر کو آگے بڑھایا جائے۔ جسم جل گئے لیکن ذہن زندہ رہے ، جرم و سزا کے اس دورکے بعد ان کے خیالات باقی رہے ،کیونکہ خیال نہیں مٹایا جاسکتا۔ انسان آتے رہے اور جاتے رہے لیکن عقل کا سفر جاری رہا۔
آج دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسی کی پوجا کی جاتی ہے کیونکہ اسی کی ہی مدد سے انسان اپنے دکھ کم کرتا جا رہا ہے ، اسی کی وجہ ہی سے اس کی بے سکونی ختم ہوئی ، اسی کی وجہ سے اس کی دہشت اور خوف ختم ہوا ، لیکن دنیا بھرکے بالکل برعکس ہم اس کی وجہ ہی سے بے سکونی میں ہیں ، اسی کی وجہ سے دہشت زدہ اور غمگین ہیں ، اسی کی وجہ سے دکھی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟
آئیں ! اس کی وجوہات کو تلا ش کرتے ہیں، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے زمانے میں جس سرعت سے طرح طرح کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئیں ، حتی کہ پیریکلین کے عہد میں بھی نہیں ہوئیں۔ ہر چیز بدل گئی ہے فکر کو آزادی نصیب ہوئی ، زراعت سے صنعت ، دیہات سے قصبہ اور قصبے سے شہرکے ارتقا نے سائنس کے مقام کو بلند ترکر دیا ہے۔
جمہوریت اور اشتراکیت نے جنم لیا ہے، عورت کو آزادی حاصل ہوئی ہے، پرانے اخلاقی نظام شکستہ ہوگئے ہیں۔ زندگی آسان سے آسان تر ہوگئی ہے ، لیکن ہمارے ہاں آج پھر سقراط کا زمانہ ہے ، ہماری اخلاقی زندگی خطرے میںہے ، ہم انسانیت کے صرف چیتھڑے ہیں ، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔
ہم ہر شعبے میں ماہرین سے خائف ہیں، ایمانداری سے ہمیں ڈر لگتا ہے مساوات ، برداشت، عدل و انصاف سے ہم خوفزدہ رہتے ہیں۔ جہالت کی چادر اوڑھ کر ہمیں سکون ملتا ہے ، غور و فکر سے ہمیں نفرت ہے۔ سچائی اور دیانت سے ہمیں گھن آتی ہے۔ سوچنے سے ہماری طبیعت خراب ہونے لگتی ہے ، جو سماج کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے ہم مل کر اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ اپنے بوسیدہ عقائد کو اپنے اوپر زنجیروں میں ہر وقت جکڑنے رہنے سے ہمیں خوشی ملتی ہے اختلاف ہمیں برداشت نہیں ہوتا۔
بے شرمی ، بے حسی اور بے حیائی ہمارے خون میں رچ بس گئی ہے۔ جہالت سے ہمیں محبت ہے جسمانی اور ذہنی بیماریوں میں سے ہم سکون حاصل کرتے ہیں اپنے حکمرانوں کی نالائقی، لاعلمی ،کرپشن ، لوٹ مار ان کی عیاشیوں ، نااہلی پر ہمیں ان پر پیار آتا ہے۔ ان کے کینسر زدہ فیصلوں، اقدامات اور عملوں پر دل کھول کر انھیں داد دیتے پھرتے ہیں ، جہالوں کے غول کے غول سماج میں آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں، انھیں روکنے اور ٹوکنے ولا کوئی نہیں ہے۔ ہم سب کی زندگی بے معنی ہوچکی ہے اب ہم وحشی جانوروں کے علاوہ اورکچھ نہیں ہیں۔
زندگی کے ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے۔ ان ہی وجوہات نے ہماری فکر کو کھوکھلا بنا دیا ہے وہ شخص جسے اپنے ضمیر پر اعتماد نہیں ہوتا ، وہ زندگی کے اہم مسائل سے گریز کرتا ہے کیونکہ کسی وقت بھی زندگی کی یہ وسیع وعریض تجربہ گاہ اس کے حقیر جھوٹ کو بے نقاب کرسکتی ہے ، کسی وقت بھی وہ حقیقت کے سامنے برہنہ ہوکر لرزہ بر اندام ہو سکتا ہے۔ اس لیے وہ مسائل اور سچائی سے دور بھاگتا ہے وہ سچائی اور مسائل سے خوف زدہ رہتا ہے وہ اوراق الفاظ کے تہوں کے نیچے زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈتا ہے ، اگر ہمارے سماج میں عقل ہی مرجائے تو ہم کتنے سکون میں آجائیں گے، وہ ہی سکون جس کے لیے سارتر کی ماں ہر رات دعا مانگا کرتی تھی۔
جب عقل ہی نہیں ہوگی تو ہمیں کوئی اذیت ، اذیت نہیں لگے گی۔ ہم کسی ناانصافی ، ظلم و زیادتی پر آہ و بکائیں کریں گے، نہ کسی عدم مساوات پر چیخ و پکارکریں گے ، نہ کسی بااختیار اور امرا کی گالیوں اور ذلت پر ماتم نہیں کریں گے نہ ہی اپنی فاقوں ، غربت و افلاس ، بیماریوں ، بے روزگاری ، مہنگائی پر روئیں گے ۔ نہ ہی سچائی سے دور بھاگیں گے نہ ہی زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈیں گے۔ نہ ہی کسی کے جھنجھوڑے پر خو ف زدہ ہونگے۔ اسی لیے ، آئیں! مل کر دعا مانگتے ہیںکہ خدا ہمارے سماج میں عقل کو مار دے تا کہ 22کروڑ انسانوں کو سکون مل سکے۔