فضائی آلودگی خاموش قاتل سماجی رویوں میں تبدیلی سے ماحول کو بچایا جا سکتا ہے
’’لاہور کے ماحولیاتی مسائل اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کے موضع پر منعقدہ ایکسپریس فورم میں ماہرین کی گفتگو
کراچی:
لاہورکوگزشتہ کئی برسوں سے سموگ اورفضائی آلودگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
صوبائی دارالحکومت میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل اورہماری ذمہ داری کی موضوع پرایکسپریس فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین نے اپنے خیالات کااظہارکیا جو نذر قارئین ہے۔
باؤمحمد رضوان
(صوبائی وزیرمحکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب)
فضائی آلودگی ایک خاموش قاتل ہے اور اس سے اسی طرح نپٹنے کی ضرورت ہے جس طرح پوری قوم نے متحدہوکردہشت گردی کیخلاف جنگ جیتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمیں ابھی تک اس سنگین خطرے کا درست ادراک نہیں ہوسکا ہے۔
میں آپ کوبتاؤں کہ محکمہ تحفظ ماحولیات کا بنیادی کام مانیٹرنگ کا ہے۔ 2017ء کی ایک سٹڈی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی میں 15 فیصد حصہ اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والے دھویں کا تھا جس پرتقریبا سو فیصد قابو پایا جاچکا ہے، پنجاب میں تمام بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیے جاچکے ہیں۔
محکمہ زراعت نے ایسی مشینری متعارف کروائی ہے جو فصلوں کونچلی سطح تک کاٹتی ہے ،اس اقدام سے فصلوں کی باقیات لگانے کے جوواقعات تھے اورآلودگی پیداہورہی تھی اس میں تقریبا 37 فیصد تک کمی آئی ہے۔ اسی طرح انڈسٹریل آلودگی کا تناسب 23 فیصد ہے جبکہ سب سے زیادہ آلودگی گاڑیوں سے خارج ہونیوالے زہریلے دھویں سے پیداہورہی ہے جس کی شرح 43 فیصد ہے۔
دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کیخلاف کارروائی ہم محکمہ ٹرانسپورٹ اور پولیس کی مدد سے کرسکتے ہیں، ہم نے محکمہ ٹرانسپورٹ کوتجویزدی ہے کہ وہ جو پرانی ڈیزل گاڑیاں ہیں ان کیلئے لازمی قراردیا جائے کہ وہ کنورٹر استعمال کریں جو ڈیزل کے مضراثرات کوکنٹرول کرتے ہیں ، اب جونئی گاڑیاں آرہی ہیں ان میں تو کمپنیاں کنورٹر لگا رہی ہیں لیکن پرانی گاڑیوں میں یہ لگانے کی ضرورت ہے، تیسری اہم بات یہ کہ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیرکسی گاڑی کو سڑک پرآنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک آلودگی کے خاتمے کے لئے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تووزیراعظم نے کہا تھا آپ صرف لوگوں میں آگاہی پیدا کریں، جب عوام میں شعورپیداہوگا تو پھرمسائل جلد حل ہوں گے۔اس دن سے میں نے اس بات پرفوکس کیا ہواہے۔
ہماری کوشش ہے کہ ہم پرائمری سطح پربچوں میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق آگاہی پیداکریں، ہم نے یہ تجویزدی ہے کہ پانچویں کلاس تک ماحولیات کوبطورمضمون نصاب میں شامل کیاجائے تاکہ بچوں کے اندر ماحول اور اس کے تحفظ سے متعلق آگاہی پیداکی جا سکے۔ ہم نے بنیادی طورپرلوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنا ہے۔ ہم نے شروع سے اس چیزکواس طرح سے لیا ہی نہیں ہے، آج اگر یہ ایشو اجاگر ہوا ہے تواس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران کوجاتا ہے۔
اب پاکستان میں بھی لوگوں نے اس موضوع پر بات کرناشروع کی ہے،میں نے جس دن سے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے ایک دن بھی اپنے آفس سے چھٹی نہیں کی ہے اس کے لئے میں نے اپنی فیملی کے ساتھ کمپرومائزکیاہے، سب سے بڑھ کر میرے حلقے کے عوام جو 2002 سے مجھ پر اعتماد کررہے ہیں اورمیرے لئے میری فیملی سے بڑھ کرہیں،میں اپنے ان محسنوں کی خوشی اورغمی میں شریک نہیں ہوسکا، لیکن جوذمہ داری میرے اوپر ہے یہ حقوق العباد ہے میں نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔
اسی طرح ہم نے ہائر ایجوکیشن اورسکول ایجوکیشن کویہ تجویزدی ہے کہ ڈگری لیول پر طلباو طالبات کواین سی سی طرز پر تحفظ ماحولیات کے لئے ایسی اسائنمنٹس دی جائیں اوراس کے انہیں اضافی 20 نمبر دیئے جائیں، اسی طرح تمام اندسٹری کو پابند کیا ہے کہ وہ ائیر کوالٹی مانیٹرلگائیں گے جس کی براہ راست رسائی ہمارے پاس ہوگی اور ہم اس کو مانیٹر کرسکیں گے۔ ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین نے مقامی سطح پر ائیر کوالٹی مانیٹر تیار کئے ہیں، وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اور انتہائی سستے ہوں گے، تمام فیکٹریوں اور کارخانوں میں ان کی تنصیب ممکن ہوسکے گی۔
ہمیں اپنے لوگوں پر اعتماد کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے رولزاینڈریگولیشن بنائے ہیں۔ ہماری ترجیح اس وقت وہ شعبے ہیں جہاں سے پیدا ہونیوالی آلودگی کینسر جیسے موذی امراض کا سبب بن رہی ہے۔ اب جہاں تک بات ہے کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہرہے تومیں یہ نہیں کہتا کہ یہاں آلودگی نہیں ہے تاہم بعض اداروں نے جو ائیر کوالٹی مانیٹرز لگا رکھے ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی تنصیب درست نہیں کی گئی یاپھرطویل عرصہ سے ان کی رپیئرنگ نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ائیرکوالٹی مانیٹردرست ڈیٹانہیں دیتے ہیں۔
ہم نے ان تمام اداروں کو پیش کش کی ہے کہ محکمہ تحفظ ماحولیات کے ماہرین ان کے مانیٹرز کی رپیئرنگ اور درست تنصیب کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے ایف آئی اے سے بھی کہا کہ ایسے ادارے جو ائیرکوالٹی سے متعلق غلط ڈیٹا دیتے ہیں ان کیخلاف کارروائی کی جائے کیونکہ اس سے ایک محکمہ نہیں بلکہ ہماراملک بدنام ہوتا ہے۔ اس میں بعض مافیاز جن میں ائیر پیور یفائر تیار کرنیوالے ادارے بھی شامل ہیں وہ جان بوجھ کر غلط ڈیٹا دیتے ہیں تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ میں آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ بھارتی شہر لاہور سے زیادہ آلودہ ہیں لیکن بھارتی ادارے ڈیٹا تبدیل کرکے پاکستان سے کم ڈیٹا ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح تمام ٹی وی چینلز ہماری درخواست پر وہ ڈیٹا نشر کرتے ہیں جو ہمارا محکمہ مہیا کرتے ہیں۔
لاہور میں آلودگی خاص طور پر سموگ کی ایک وجہ بھارت سے آنیوالافصلوں کی باقیات کولگائی جانیوالی آگ کادھواں بھی ہوتا ہے جن دنوں لاہورمیں سموگ بڑھتی ہے اسی سیزن میں بھارتی پنجاب میں بڑے پیمانے پرفصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں اوروہ دھواں ہمارے سرحدی علاقوں خاص طورپرلاہورکی فضاکوآلودہ کرتا ہے۔ ہمارا ہمسایہ بڑا تنگ نظر واقع ہوا ہے۔ اسی طرح عوام کو سموگ اورفوگ میں فرق کرنے کی بھی ضرورت ہے، ہمارے یہاں دھند کا تصور ہی ختم کردیا ہے حالانکہ فوگ ایک حقیقت ہے، لاہور میں آلودگی ہے، اس سے انکارنہیں ہے جبکہ دھند بھی ایک حقیقت ہے مگرخدارادھند کوسموگ کانام نہ دیا جائے۔
فوگ ایک خوبصورت موسم ہے ہم اس سے محروم نہیں ہوناچاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے سماجی رویوں کوتبدیل کرناہوگا ہرشہری کو ماحول کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ عوامی رویہ تبدیل کیے بغیرساری دنیاکی حکومتیں مل کربھی آلودگی کاخاتمہ نہیں کرسکتی ہیں۔ ایک وزیرنے بھی اسی فضامیں سانس لینا ہے اورایک عام ریڑھی والے نے بھی یہاں سانس لینی ہے۔
یہاں شاپنگ بیگز کی بات ہوئی تو میں بتاتا چلوں کہ ہم نے شاپربیگ تیار کرنیوالوں سے بات کی وہ اس بات پر تیار ہوگئے تھے کہ پلاسٹک کی موٹائی بڑھائی جائیگی۔ ہم کسی کاروبار کو بند نہیں کرنا چاہتے، کچھ عرصہ قبل ڈسپوزایبل بیگ استعمال ہوئے تھے لیکن وہ پائیدارثابت نہیں ہوئے، اس کا بہترین متبادل کپڑے اور جینز کے بیگ ہیں جنہیں دھو کر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے، یہ معاملہ چونکہ اس وقت عدالت میں بھی ہے توہم نے پلاسٹگ بیگ تیار کرنیوالے کوڈیڑھ سے دوسال کاوقت دینے کی تجویز دی تھی کیونکہ پلاسٹک بیگ ایک سنگین ایشو ہے اس وقت اس کی وجہ سے زمین کے اندرایک آٹھویں تہہ بن چکی ہے۔
پروفیسرڈاکٹرساجد رشید
(سربراہ شعبہ انوائرمنٹل سائنسزپنجاب یونیورسٹی)
پوری دنیااس وقت ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے دوچارہے۔ پاکستان دنیا کے ان ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں جبکہ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنیوالے ممالک کی فہرست میں ہمارانمبر 137 واں ہے۔
کلائمنٹ چینج کی وجہ سے آج امریکا اور کینیڈا میں سمندری طوفان آرہے ہیں، جہاں کبھی اتنے سمندری طوفان نہیں آئے جتنے گزشتہ پانچ برسوں میں ریکارڈ کئے گئے ہیں، مڈل ایسٹ میں خلاف معمول بارشیں ہورہی ہیں۔ تو موسمیاتی تبدیلی صرف ہمارا ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اس وقت گلیشئر پگھل رہے ہیں، پاکستان کے پاس سب سے زیادہ گلیشیئرہیں، اللہ پاک نے ہمیں یہ ایک بہت بڑاخزانہ دیا ہے ، اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہمیں پانی کی قلت کامسئلہ توہے لیکن ہمیں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ توہمیں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پاس جوگلیشیئرزہیں ہم ان کو کس طرح استعمال میں لاسکتے ہیں۔
گلیشیئر کا جو پانی سمندر میں گر کر ضائع ہورہا ہے اسے اگرمحفوظ کرلیں توہمیں آئندہ 100 سال تک پانی کی مشکل نہیں ہوگی۔ جہاں تک بات ہے ہم عوام کی ،کہ ہم کیاکرسکتے ہیں تو ہماری روش یہ ہے کہ ہم ہرکام حکومت پر ڈال دیتے ہیں، حکومت کیا ہے؟ ہم اورآپ ہی تو حکومت ہیں جو حکومت میں بیٹھے ہیں وہ ہمارے ہی تو نمائندے ہیں، اگر ہم خود ٹھیک نہیں ہیں اور حکومت سے امید لگا کر بیٹھ جائیں کہ وہ ٹھیک کر دیں گے توایسا نہیں ہوسکتا۔
حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، ہمیں تنقید کرنی چاہیے مگر تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو ٹیکنیکل باتیں بتانے کی بجائے پیغام دینا ہے کہ برش کرتے وقت پانی کانل بندرکھیں، پودوں کو پینے کاصاف پانی نہ ڈالیں۔
یہ وہ کام ہیں جوہمیں خودکرنے ہیں، ہرشخص کویہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمارے وسائل ہیں جن کوہم ضائع کررہے ہیں۔ آپ مسجدوں اور پبلک مقامات پر لگے نلکوں کو دیکھیں، ٹونٹیاں ٹوٹی ہوتی ہیں پانی ضائع ہوتا ہے۔ آئی سی موڈنیپال نے ایک ویبنارکاانعقادکیا ہے جس کاموضوع تھا دوپنجاب ،ایک مسئلہ ،اس میں بتایا گیا کہ بھارتی پنجاب میں سموگ کنٹرول کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں، وہاں مختلف زون بنائے گئے ہیں، ہمارے یہاں تو پہلے ہی زون بنے ہوئے ہیں جنہیں ہم ٹاؤن کہتے ہیں۔ ہمارے وزیر ماحولیات نے گزشتہ تین برسوں میں بہت سے اچھے اقدامات کئے ہیں۔
اگربلدیاتی نظام دوبارہ فعال ہوجاتا ہے توجوبھی ٹاؤن کاسربراہ ہوگا وہ اپنے ٹاؤن میں ماحول کے تحفظ کا ذمہ دارہوگا۔ حکومت نے قوانین بنادیئے ہیں مگران پرعمل درآمد کامسئلہ ہے، ان پرعمل درآمد میں نے اور آپ نے مل کرکرنا ہے۔ ہم اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے گراس روٹ لیول پر ماحولیاتی مسائل سے نبٹ سکتے ہیں۔ کیونکہ اگرکسی سکول ،کسی گلی اور محلے میں گٹربند ہے تو وہ مقامی نمائندے اس مسلے کوحل کرسکتے ہیں۔ محکمہ ماحولیات نے پہلی بار یونیورسٹیز کے ماہرین کومشاورت میں شامل کیا ہے۔ ایک تجویزیہ ہے کہ جو ویسٹ پیداہوتی ہے اسے کارآمدکیسے بنایاجاسکتا ہے۔
ہم نے تجرباتی طورپر مختلف فصلوں کی ویسٹ جن میں گندم، چاول اوربانس کی باقیات شامل ہیں ان سے گتے بنانے کاکامیاب تجربہ کیا ہے،اب ہم کمرشل بنیادوں پرایسی مشینری تیار کررہے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر فصلوں کی ویسٹ سے گتہ تیارکیا جاسکے گا اس میں ہمیں دوسال لگ سکتے ہیں۔ ہرگاؤں اورتحصیل کی سطح پرایسے یونٹ لگائے جاسکتے ہیں۔ جس کا خرچہ صرف 10 سے 15 لاکھ روپے تک ہوگاتو اس سے مقامی سطح پر لوگوں کوروزگارملے گا، باقیات کوآگ نہ لگانے سے کاشتکاروں کوآمدن ہوگی اورآلودگی کابھی خاتمہ ہوگا۔
یہ ایک منافع بخش منصوبہ ہوگا۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ بھی ایک بڑامسئلہ ہیں، ہماری اس حوالے سے تجویزیہ ہے کہ کسی کا کاروبار بند نہ کیاجائے بلکہ جو شاپر بیگ تیارکئے جاتے ہیں ان کی کوالٹی بہترکردی جائے، باریک کی بجائے موٹاشاپراستعمال کیاجائے تاکہ اس شاپر کو دوبارہ استعمال کیاجاسکے اوراس کے متبادل طریقے بھی اختیارکرنے چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت چار بڑے مسائل ہیں جن پرہم اگر قابو پالیں تو لاہور کو مزید آلودہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
اس میں سب سے پہلامسئلہ زیرزمین پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی سطح ہے، اس سطح کو بلندکرنے کے لئے ہم نے ڈبلیوڈبلیوایف کے ساتھ مل کر چار سال قبل ایک پراجیکٹ شروع کیا تھا کہ وہ مقامات جہاں پانی جمع ہوتا ہے وہاں ڈیڑھ سو سے دوسوفٹ گہرے کنویں کھودے جائیں اور وہ پانی ان میں ڈالاجائے فلٹریشن کے بعد جب وہ پانی زمین میں جذب ہوگا تواس سے زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوگی اس حوالے سے ہم نے اپنے کالج میں ایک کنواں بنایا بھی ہے۔
دوسرا مسئلہ ہے فصلوں اور سبزیوں کی آلودگی، فیکٹریوں اور کارخانوں کا جو زہریلا پانی سیوریج کے ذریعے دریائے راوی اور ڈرین میں جاتا ہے بعض لوگ اس پانی کو زرعی آبپاشی کیلئے استعمال کرتے ہیں، اس زہریلے پانی کے اثرات فصلوں اور سبزیوں میں منتقل ہوتے جنہیں کھانے سے کینسر جیسا مرض پھیل رہا ہے لہذا اس پرپابندی ہونی چاہیے۔
تیسرا مسئلہ ہے صوتی آلودگی، بظاہر اس مسلے کی سنگینی کا ہمیں احساس نہیں ہے تاہم آنیوالے دس برسوں میں یہ بہت سنگین ہوسکتا ہے، گاڑیوں کے ہارن، ٹریفک کے شور سے ہماری قوت سماعت متاثر ہورہی ہے، اس سے ڈپریشن کامرض بڑھتا جارہا ہے۔ چوتھا مسئلہ سموگ کا ہے، بظاہر سموگ صرف تین ماہ کے لئے ہوتی ہے لیکن ہمیں اس کامستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، سموگ صرف سردیوں میں ہی نہیں بلکہ گرمیوں میں بھی ہوتی ہے ، سردیوں میں فضا میں موجود مختلف مالیکول سکڑجاتے ہیں اور دھند میں شامل ہوکرآنکھوں میں چبھن پیداکرتے ہیں لیکن گرمیوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے وہ مالیکیول ایک دوسرے سے دورہوجاتے ہیں اس لئے ہمیں محسوس نہیں ہوتے ہیں۔
اس کیلئے ضروری ہے تمام فیکٹریوں اور کارخانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسا ایندھن اور ٹیکنالوجی استعمال کریں جس سے کم سے کم دھواں پیدا ہو اور وہ دھواں زہریلا نہ ہو، اینٹوں کے بھٹوں پرزگ زیگ ٹیکنالوجی کااستعمال اس کی بہترین مثال ہے اور وہ اس پرحکومت کو مبارکباد دیتے ہیں۔
شاہنوازخان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
لاہور میں جوآلودگی اورسموگ کی صورت ہے اس سے ہرشخص پریشان ہے، یہ ہماری بدقستی ہے کہ لاہور کاشمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے خاص طوپرسموگ کے سیزن میں صورتحال بہت زیادہ تشویش ناک رہی ہے۔
میراتعلق ایک ادارے ایس پی او سے ہے جو گزشتہ 25 سال سے واٹراینڈ سینٹی ٹیشن کے حوالے سے کام کر رہا ہے، موجودہ اسمبلی کے ساتھ بھی ہم نے کام کیا ہے، پنجاب واٹرایکٹ اورآب پاک اتھارٹی کی منظوری کے حوالے سے ہم نے کافی کوشش کی ہے اور یہ ایکٹ موجودہ حکومت نے منظورکئے ہیں۔
اس وقت جو لاہورمیں الودگی کا مسئلہ ہے اس حوالے سے میں سمجھتاہوں۔آلودگی کے خاتمے کے لئے حکومت اورعوام کومل کر کردار اداکرنے کی ضرورت ہے، حکومتی اداروں جن میں واسا، پی ایچ اے، آب پاک اتھارٹی، والڈ سٹی اتھارٹی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، ماحولیات اور سول سوسائٹی ان تمام اداروں کو اپنی کوششوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے صرف لاہور کے ماحولیاتی مسائل کوسامنے رکھتے ہوئے لاہور کی دومختلف یونیورسٹیزکے ساتھ مل کر 45 روزہ آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں طلبا وطالبات چھوٹی، چھوٹی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ یعنی شجرکاری، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے حوالے سے ٹریفک پولیس کے ساتھ مل کر آگاہی، پانی کے ضیاع کوروکنے کی مہم۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہرشخص تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ وہ اپنے گھرسے ماحولیاتی مسائل سے چھٹکارے کے لئے کوششوں کا آغازکرے اگر ہر فرد اپنا کردار ادا کرے گا تو ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔
اس وقت زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے، جس کادل چاہتاہے جتنامرضی پانی نکال رہا ہے توپنجاب واٹرایکٹ کے تحت اب پمپنگ اسٹیشن والوں کوپابندکیاگیا ہے کہ وہ استعمال شدہ پانی کوکس طرح ری سائیکل کرکے دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ایک بہت بڑامسئلہ ہے جو سیوریج کی پائپ لائنوں میں جاکرانہیں بلاک کردیتے ہیں۔
ہم اس 45 روزہ مہم کے دوران یہ آگاہی بھی دیں گے کہ لوگ پلاسٹک بیگز کی بجائے زیادہ سے زیادہ کپڑے کے تھیلے استعمال کریں۔یونیورسٹی اور کالجز میں ڈگری مکمل کرنے والے طلباو طالبات کوسوشل ایکشن کی اسائمنٹس دی جائیں وہ ماحول کے تحفظ کے لئے کوئی چھوٹا سا سوشل ایکشن تیارکریں اوراسے پرعمل درآمدکریں ،اسی طرح سوشل میڈیا کازیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی پوسٹیں تیار کی جائیں جن کے ذریعے سوشل میڈیاصارفین کو ماحول کے تحفظ کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے بارے آگاہی دی جائے۔
لاہورکوگزشتہ کئی برسوں سے سموگ اورفضائی آلودگی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
صوبائی دارالحکومت میں بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل اورہماری ذمہ داری کی موضوع پرایکسپریس فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین نے اپنے خیالات کااظہارکیا جو نذر قارئین ہے۔
باؤمحمد رضوان
(صوبائی وزیرمحکمہ تحفظ ماحولیات پنجاب)
فضائی آلودگی ایک خاموش قاتل ہے اور اس سے اسی طرح نپٹنے کی ضرورت ہے جس طرح پوری قوم نے متحدہوکردہشت گردی کیخلاف جنگ جیتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمیں ابھی تک اس سنگین خطرے کا درست ادراک نہیں ہوسکا ہے۔
میں آپ کوبتاؤں کہ محکمہ تحفظ ماحولیات کا بنیادی کام مانیٹرنگ کا ہے۔ 2017ء کی ایک سٹڈی رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی میں 15 فیصد حصہ اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والے دھویں کا تھا جس پرتقریبا سو فیصد قابو پایا جاچکا ہے، پنجاب میں تمام بھٹے زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیے جاچکے ہیں۔
محکمہ زراعت نے ایسی مشینری متعارف کروائی ہے جو فصلوں کونچلی سطح تک کاٹتی ہے ،اس اقدام سے فصلوں کی باقیات لگانے کے جوواقعات تھے اورآلودگی پیداہورہی تھی اس میں تقریبا 37 فیصد تک کمی آئی ہے۔ اسی طرح انڈسٹریل آلودگی کا تناسب 23 فیصد ہے جبکہ سب سے زیادہ آلودگی گاڑیوں سے خارج ہونیوالے زہریلے دھویں سے پیداہورہی ہے جس کی شرح 43 فیصد ہے۔
دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کیخلاف کارروائی ہم محکمہ ٹرانسپورٹ اور پولیس کی مدد سے کرسکتے ہیں، ہم نے محکمہ ٹرانسپورٹ کوتجویزدی ہے کہ وہ جو پرانی ڈیزل گاڑیاں ہیں ان کیلئے لازمی قراردیا جائے کہ وہ کنورٹر استعمال کریں جو ڈیزل کے مضراثرات کوکنٹرول کرتے ہیں ، اب جونئی گاڑیاں آرہی ہیں ان میں تو کمپنیاں کنورٹر لگا رہی ہیں لیکن پرانی گاڑیوں میں یہ لگانے کی ضرورت ہے، تیسری اہم بات یہ کہ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیرکسی گاڑی کو سڑک پرآنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جہاں تک آلودگی کے خاتمے کے لئے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تووزیراعظم نے کہا تھا آپ صرف لوگوں میں آگاہی پیدا کریں، جب عوام میں شعورپیداہوگا تو پھرمسائل جلد حل ہوں گے۔اس دن سے میں نے اس بات پرفوکس کیا ہواہے۔
ہماری کوشش ہے کہ ہم پرائمری سطح پربچوں میں ماحولیات کے تحفظ سے متعلق آگاہی پیداکریں، ہم نے یہ تجویزدی ہے کہ پانچویں کلاس تک ماحولیات کوبطورمضمون نصاب میں شامل کیاجائے تاکہ بچوں کے اندر ماحول اور اس کے تحفظ سے متعلق آگاہی پیداکی جا سکے۔ ہم نے بنیادی طورپرلوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنا ہے۔ ہم نے شروع سے اس چیزکواس طرح سے لیا ہی نہیں ہے، آج اگر یہ ایشو اجاگر ہوا ہے تواس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران کوجاتا ہے۔
اب پاکستان میں بھی لوگوں نے اس موضوع پر بات کرناشروع کی ہے،میں نے جس دن سے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے ایک دن بھی اپنے آفس سے چھٹی نہیں کی ہے اس کے لئے میں نے اپنی فیملی کے ساتھ کمپرومائزکیاہے، سب سے بڑھ کر میرے حلقے کے عوام جو 2002 سے مجھ پر اعتماد کررہے ہیں اورمیرے لئے میری فیملی سے بڑھ کرہیں،میں اپنے ان محسنوں کی خوشی اورغمی میں شریک نہیں ہوسکا، لیکن جوذمہ داری میرے اوپر ہے یہ حقوق العباد ہے میں نے اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔
اسی طرح ہم نے ہائر ایجوکیشن اورسکول ایجوکیشن کویہ تجویزدی ہے کہ ڈگری لیول پر طلباو طالبات کواین سی سی طرز پر تحفظ ماحولیات کے لئے ایسی اسائنمنٹس دی جائیں اوراس کے انہیں اضافی 20 نمبر دیئے جائیں، اسی طرح تمام اندسٹری کو پابند کیا ہے کہ وہ ائیر کوالٹی مانیٹرلگائیں گے جس کی براہ راست رسائی ہمارے پاس ہوگی اور ہم اس کو مانیٹر کرسکیں گے۔ ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین نے مقامی سطح پر ائیر کوالٹی مانیٹر تیار کئے ہیں، وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق اور انتہائی سستے ہوں گے، تمام فیکٹریوں اور کارخانوں میں ان کی تنصیب ممکن ہوسکے گی۔
ہمیں اپنے لوگوں پر اعتماد کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے رولزاینڈریگولیشن بنائے ہیں۔ ہماری ترجیح اس وقت وہ شعبے ہیں جہاں سے پیدا ہونیوالی آلودگی کینسر جیسے موذی امراض کا سبب بن رہی ہے۔ اب جہاں تک بات ہے کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہرہے تومیں یہ نہیں کہتا کہ یہاں آلودگی نہیں ہے تاہم بعض اداروں نے جو ائیر کوالٹی مانیٹرز لگا رکھے ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی تنصیب درست نہیں کی گئی یاپھرطویل عرصہ سے ان کی رپیئرنگ نہیں ہوئی ہے جس کی وجہ سے وہ ائیرکوالٹی مانیٹردرست ڈیٹانہیں دیتے ہیں۔
ہم نے ان تمام اداروں کو پیش کش کی ہے کہ محکمہ تحفظ ماحولیات کے ماہرین ان کے مانیٹرز کی رپیئرنگ اور درست تنصیب کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے ایف آئی اے سے بھی کہا کہ ایسے ادارے جو ائیرکوالٹی سے متعلق غلط ڈیٹا دیتے ہیں ان کیخلاف کارروائی کی جائے کیونکہ اس سے ایک محکمہ نہیں بلکہ ہماراملک بدنام ہوتا ہے۔ اس میں بعض مافیاز جن میں ائیر پیور یفائر تیار کرنیوالے ادارے بھی شامل ہیں وہ جان بوجھ کر غلط ڈیٹا دیتے ہیں تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ میں آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ بھارتی شہر لاہور سے زیادہ آلودہ ہیں لیکن بھارتی ادارے ڈیٹا تبدیل کرکے پاکستان سے کم ڈیٹا ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح تمام ٹی وی چینلز ہماری درخواست پر وہ ڈیٹا نشر کرتے ہیں جو ہمارا محکمہ مہیا کرتے ہیں۔
لاہور میں آلودگی خاص طور پر سموگ کی ایک وجہ بھارت سے آنیوالافصلوں کی باقیات کولگائی جانیوالی آگ کادھواں بھی ہوتا ہے جن دنوں لاہورمیں سموگ بڑھتی ہے اسی سیزن میں بھارتی پنجاب میں بڑے پیمانے پرفصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں اوروہ دھواں ہمارے سرحدی علاقوں خاص طورپرلاہورکی فضاکوآلودہ کرتا ہے۔ ہمارا ہمسایہ بڑا تنگ نظر واقع ہوا ہے۔ اسی طرح عوام کو سموگ اورفوگ میں فرق کرنے کی بھی ضرورت ہے، ہمارے یہاں دھند کا تصور ہی ختم کردیا ہے حالانکہ فوگ ایک حقیقت ہے، لاہور میں آلودگی ہے، اس سے انکارنہیں ہے جبکہ دھند بھی ایک حقیقت ہے مگرخدارادھند کوسموگ کانام نہ دیا جائے۔
فوگ ایک خوبصورت موسم ہے ہم اس سے محروم نہیں ہوناچاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے سماجی رویوں کوتبدیل کرناہوگا ہرشہری کو ماحول کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ عوامی رویہ تبدیل کیے بغیرساری دنیاکی حکومتیں مل کربھی آلودگی کاخاتمہ نہیں کرسکتی ہیں۔ ایک وزیرنے بھی اسی فضامیں سانس لینا ہے اورایک عام ریڑھی والے نے بھی یہاں سانس لینی ہے۔
یہاں شاپنگ بیگز کی بات ہوئی تو میں بتاتا چلوں کہ ہم نے شاپربیگ تیار کرنیوالوں سے بات کی وہ اس بات پر تیار ہوگئے تھے کہ پلاسٹک کی موٹائی بڑھائی جائیگی۔ ہم کسی کاروبار کو بند نہیں کرنا چاہتے، کچھ عرصہ قبل ڈسپوزایبل بیگ استعمال ہوئے تھے لیکن وہ پائیدارثابت نہیں ہوئے، اس کا بہترین متبادل کپڑے اور جینز کے بیگ ہیں جنہیں دھو کر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے، یہ معاملہ چونکہ اس وقت عدالت میں بھی ہے توہم نے پلاسٹگ بیگ تیار کرنیوالے کوڈیڑھ سے دوسال کاوقت دینے کی تجویز دی تھی کیونکہ پلاسٹک بیگ ایک سنگین ایشو ہے اس وقت اس کی وجہ سے زمین کے اندرایک آٹھویں تہہ بن چکی ہے۔
پروفیسرڈاکٹرساجد رشید
(سربراہ شعبہ انوائرمنٹل سائنسزپنجاب یونیورسٹی)
پوری دنیااس وقت ماحولیاتی آلودگی اور گلوبل وارمنگ سے دوچارہے۔ پاکستان دنیا کے ان ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو ماحولیاتی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہوئے ہیں جبکہ ماحولیاتی آلودگی پیدا کرنیوالے ممالک کی فہرست میں ہمارانمبر 137 واں ہے۔
کلائمنٹ چینج کی وجہ سے آج امریکا اور کینیڈا میں سمندری طوفان آرہے ہیں، جہاں کبھی اتنے سمندری طوفان نہیں آئے جتنے گزشتہ پانچ برسوں میں ریکارڈ کئے گئے ہیں، مڈل ایسٹ میں خلاف معمول بارشیں ہورہی ہیں۔ تو موسمیاتی تبدیلی صرف ہمارا ہی نہیں پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اس وقت گلیشئر پگھل رہے ہیں، پاکستان کے پاس سب سے زیادہ گلیشیئرہیں، اللہ پاک نے ہمیں یہ ایک بہت بڑاخزانہ دیا ہے ، اس لئے میں کہتا ہوں کہ ہمیں پانی کی قلت کامسئلہ توہے لیکن ہمیں پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ توہمیں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پاس جوگلیشیئرزہیں ہم ان کو کس طرح استعمال میں لاسکتے ہیں۔
گلیشیئر کا جو پانی سمندر میں گر کر ضائع ہورہا ہے اسے اگرمحفوظ کرلیں توہمیں آئندہ 100 سال تک پانی کی مشکل نہیں ہوگی۔ جہاں تک بات ہے ہم عوام کی ،کہ ہم کیاکرسکتے ہیں تو ہماری روش یہ ہے کہ ہم ہرکام حکومت پر ڈال دیتے ہیں، حکومت کیا ہے؟ ہم اورآپ ہی تو حکومت ہیں جو حکومت میں بیٹھے ہیں وہ ہمارے ہی تو نمائندے ہیں، اگر ہم خود ٹھیک نہیں ہیں اور حکومت سے امید لگا کر بیٹھ جائیں کہ وہ ٹھیک کر دیں گے توایسا نہیں ہوسکتا۔
حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، ہمیں تنقید کرنی چاہیے مگر تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ ہمیں لوگوں کو ٹیکنیکل باتیں بتانے کی بجائے پیغام دینا ہے کہ برش کرتے وقت پانی کانل بندرکھیں، پودوں کو پینے کاصاف پانی نہ ڈالیں۔
یہ وہ کام ہیں جوہمیں خودکرنے ہیں، ہرشخص کویہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ یہ ہمارے وسائل ہیں جن کوہم ضائع کررہے ہیں۔ آپ مسجدوں اور پبلک مقامات پر لگے نلکوں کو دیکھیں، ٹونٹیاں ٹوٹی ہوتی ہیں پانی ضائع ہوتا ہے۔ آئی سی موڈنیپال نے ایک ویبنارکاانعقادکیا ہے جس کاموضوع تھا دوپنجاب ،ایک مسئلہ ،اس میں بتایا گیا کہ بھارتی پنجاب میں سموگ کنٹرول کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں، وہاں مختلف زون بنائے گئے ہیں، ہمارے یہاں تو پہلے ہی زون بنے ہوئے ہیں جنہیں ہم ٹاؤن کہتے ہیں۔ ہمارے وزیر ماحولیات نے گزشتہ تین برسوں میں بہت سے اچھے اقدامات کئے ہیں۔
اگربلدیاتی نظام دوبارہ فعال ہوجاتا ہے توجوبھی ٹاؤن کاسربراہ ہوگا وہ اپنے ٹاؤن میں ماحول کے تحفظ کا ذمہ دارہوگا۔ حکومت نے قوانین بنادیئے ہیں مگران پرعمل درآمد کامسئلہ ہے، ان پرعمل درآمد میں نے اور آپ نے مل کرکرنا ہے۔ ہم اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے گراس روٹ لیول پر ماحولیاتی مسائل سے نبٹ سکتے ہیں۔ کیونکہ اگرکسی سکول ،کسی گلی اور محلے میں گٹربند ہے تو وہ مقامی نمائندے اس مسلے کوحل کرسکتے ہیں۔ محکمہ ماحولیات نے پہلی بار یونیورسٹیز کے ماہرین کومشاورت میں شامل کیا ہے۔ ایک تجویزیہ ہے کہ جو ویسٹ پیداہوتی ہے اسے کارآمدکیسے بنایاجاسکتا ہے۔
ہم نے تجرباتی طورپر مختلف فصلوں کی ویسٹ جن میں گندم، چاول اوربانس کی باقیات شامل ہیں ان سے گتے بنانے کاکامیاب تجربہ کیا ہے،اب ہم کمرشل بنیادوں پرایسی مشینری تیار کررہے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر فصلوں کی ویسٹ سے گتہ تیارکیا جاسکے گا اس میں ہمیں دوسال لگ سکتے ہیں۔ ہرگاؤں اورتحصیل کی سطح پرایسے یونٹ لگائے جاسکتے ہیں۔ جس کا خرچہ صرف 10 سے 15 لاکھ روپے تک ہوگاتو اس سے مقامی سطح پر لوگوں کوروزگارملے گا، باقیات کوآگ نہ لگانے سے کاشتکاروں کوآمدن ہوگی اورآلودگی کابھی خاتمہ ہوگا۔
یہ ایک منافع بخش منصوبہ ہوگا۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ بھی ایک بڑامسئلہ ہیں، ہماری اس حوالے سے تجویزیہ ہے کہ کسی کا کاروبار بند نہ کیاجائے بلکہ جو شاپر بیگ تیارکئے جاتے ہیں ان کی کوالٹی بہترکردی جائے، باریک کی بجائے موٹاشاپراستعمال کیاجائے تاکہ اس شاپر کو دوبارہ استعمال کیاجاسکے اوراس کے متبادل طریقے بھی اختیارکرنے چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت چار بڑے مسائل ہیں جن پرہم اگر قابو پالیں تو لاہور کو مزید آلودہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
اس میں سب سے پہلامسئلہ زیرزمین پانی کی تیزی سے گرتی ہوئی سطح ہے، اس سطح کو بلندکرنے کے لئے ہم نے ڈبلیوڈبلیوایف کے ساتھ مل کر چار سال قبل ایک پراجیکٹ شروع کیا تھا کہ وہ مقامات جہاں پانی جمع ہوتا ہے وہاں ڈیڑھ سو سے دوسوفٹ گہرے کنویں کھودے جائیں اور وہ پانی ان میں ڈالاجائے فلٹریشن کے بعد جب وہ پانی زمین میں جذب ہوگا تواس سے زیرزمین پانی کی سطح بلند ہوگی اس حوالے سے ہم نے اپنے کالج میں ایک کنواں بنایا بھی ہے۔
دوسرا مسئلہ ہے فصلوں اور سبزیوں کی آلودگی، فیکٹریوں اور کارخانوں کا جو زہریلا پانی سیوریج کے ذریعے دریائے راوی اور ڈرین میں جاتا ہے بعض لوگ اس پانی کو زرعی آبپاشی کیلئے استعمال کرتے ہیں، اس زہریلے پانی کے اثرات فصلوں اور سبزیوں میں منتقل ہوتے جنہیں کھانے سے کینسر جیسا مرض پھیل رہا ہے لہذا اس پرپابندی ہونی چاہیے۔
تیسرا مسئلہ ہے صوتی آلودگی، بظاہر اس مسلے کی سنگینی کا ہمیں احساس نہیں ہے تاہم آنیوالے دس برسوں میں یہ بہت سنگین ہوسکتا ہے، گاڑیوں کے ہارن، ٹریفک کے شور سے ہماری قوت سماعت متاثر ہورہی ہے، اس سے ڈپریشن کامرض بڑھتا جارہا ہے۔ چوتھا مسئلہ سموگ کا ہے، بظاہر سموگ صرف تین ماہ کے لئے ہوتی ہے لیکن ہمیں اس کامستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، سموگ صرف سردیوں میں ہی نہیں بلکہ گرمیوں میں بھی ہوتی ہے ، سردیوں میں فضا میں موجود مختلف مالیکول سکڑجاتے ہیں اور دھند میں شامل ہوکرآنکھوں میں چبھن پیداکرتے ہیں لیکن گرمیوں میں درجہ حرارت بڑھنے سے وہ مالیکیول ایک دوسرے سے دورہوجاتے ہیں اس لئے ہمیں محسوس نہیں ہوتے ہیں۔
اس کیلئے ضروری ہے تمام فیکٹریوں اور کارخانوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ایسا ایندھن اور ٹیکنالوجی استعمال کریں جس سے کم سے کم دھواں پیدا ہو اور وہ دھواں زہریلا نہ ہو، اینٹوں کے بھٹوں پرزگ زیگ ٹیکنالوجی کااستعمال اس کی بہترین مثال ہے اور وہ اس پرحکومت کو مبارکباد دیتے ہیں۔
شاہنوازخان
(نمائندہ سول سوسائٹی)
لاہور میں جوآلودگی اورسموگ کی صورت ہے اس سے ہرشخص پریشان ہے، یہ ہماری بدقستی ہے کہ لاہور کاشمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے خاص طوپرسموگ کے سیزن میں صورتحال بہت زیادہ تشویش ناک رہی ہے۔
میراتعلق ایک ادارے ایس پی او سے ہے جو گزشتہ 25 سال سے واٹراینڈ سینٹی ٹیشن کے حوالے سے کام کر رہا ہے، موجودہ اسمبلی کے ساتھ بھی ہم نے کام کیا ہے، پنجاب واٹرایکٹ اورآب پاک اتھارٹی کی منظوری کے حوالے سے ہم نے کافی کوشش کی ہے اور یہ ایکٹ موجودہ حکومت نے منظورکئے ہیں۔
اس وقت جو لاہورمیں الودگی کا مسئلہ ہے اس حوالے سے میں سمجھتاہوں۔آلودگی کے خاتمے کے لئے حکومت اورعوام کومل کر کردار اداکرنے کی ضرورت ہے، حکومتی اداروں جن میں واسا، پی ایچ اے، آب پاک اتھارٹی، والڈ سٹی اتھارٹی، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، ماحولیات اور سول سوسائٹی ان تمام اداروں کو اپنی کوششوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم نے صرف لاہور کے ماحولیاتی مسائل کوسامنے رکھتے ہوئے لاہور کی دومختلف یونیورسٹیزکے ساتھ مل کر 45 روزہ آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں طلبا وطالبات چھوٹی، چھوٹی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔ یعنی شجرکاری، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے حوالے سے ٹریفک پولیس کے ساتھ مل کر آگاہی، پانی کے ضیاع کوروکنے کی مہم۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہرشخص تک یہ پیغام پہنچایا جائے کہ وہ اپنے گھرسے ماحولیاتی مسائل سے چھٹکارے کے لئے کوششوں کا آغازکرے اگر ہر فرد اپنا کردار ادا کرے گا تو ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔
اس وقت زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہوتی جارہی ہے، جس کادل چاہتاہے جتنامرضی پانی نکال رہا ہے توپنجاب واٹرایکٹ کے تحت اب پمپنگ اسٹیشن والوں کوپابندکیاگیا ہے کہ وہ استعمال شدہ پانی کوکس طرح ری سائیکل کرکے دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں۔ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ایک بہت بڑامسئلہ ہے جو سیوریج کی پائپ لائنوں میں جاکرانہیں بلاک کردیتے ہیں۔
ہم اس 45 روزہ مہم کے دوران یہ آگاہی بھی دیں گے کہ لوگ پلاسٹک بیگز کی بجائے زیادہ سے زیادہ کپڑے کے تھیلے استعمال کریں۔یونیورسٹی اور کالجز میں ڈگری مکمل کرنے والے طلباو طالبات کوسوشل ایکشن کی اسائمنٹس دی جائیں وہ ماحول کے تحفظ کے لئے کوئی چھوٹا سا سوشل ایکشن تیارکریں اوراسے پرعمل درآمدکریں ،اسی طرح سوشل میڈیا کازیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی پوسٹیں تیار کی جائیں جن کے ذریعے سوشل میڈیاصارفین کو ماحول کے تحفظ کے حوالے سے چھوٹے چھوٹے اقدامات کرنے بارے آگاہی دی جائے۔