پی ٹی آئی کا سندھ خواب

کراچی سمیت سندھ کو وفاقی حکومت نے مکمل نظراندازکر رکھا ہے

m_saeedarain@hotmail.com

GWADAR:
وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر نے کہا ہے کہ سندھ پر 14 سال سے ڈاکو قابض ہیں ، آزادی دلوائیں گے۔ 2023 میں سندھ میں تحریک انصاف حکومت بنائے گی۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک اور عوامی رابطہ مہم چلانے کا بھی اعلان کیا۔

اسد عمر کا تعلق کراچی سے ہے اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر وہ اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور واحد وفاقی وزیر ہیں جنھوں نے اندرون سندھ کے سب سے زیادہ دورے کیے ہیں۔

سندھ میں آیندہ ہی نہیں بلکہ موجودہ دور میں بھی پی پی کی حکومت ختم کرا کر پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے دعوے تو تین سال قبل حکومت بناتے ہی وفاقی وزرا نے شروع کردیے تھے اور سندھ میں گورنر راج لگوا کر پی ٹی آئی حکومت قائم کرنے کے بلند و بانگ دعوے شروع کردیے گئے تھے اور سندھ کی اپوزیشن وفاقی حکومت سے ایسے مطالبے بھی کرتی رہی مگر سندھ حکومت پیپلز پارٹی نے اپنی واضح اکثریت کے باعث قائم رکھی۔

پی پی نے لاڑکانہ کے سوا سندھ میں تمام ضمنی انتخابات ہی نہیں جیتے بلکہ کراچی سے پی ٹی آئی کی فیصل واؤڈا کی قومی اسمبلی کی نشست بھی بڑی اکثریت سے جیتی اور پی ٹی آئی نے پانچویں نمبر پر آ کر شکست کھائی تھی۔

کراچی سے پی ٹی آئی کے تین وفاقی اور جیکب آباد سے محمد میاں سومرو ، اندرون سندھ سے منتخب واحد وزیر تھے۔ کراچی کی نشست پی ٹی آئی ہار گئی تھی اور فیصل واؤڈا کی وزارت گئی جس کے حصول کی عامر لیاقت حسین نے بہت کوشش کی مگر وزیر اعظم نے فیصل واؤڈا کو سینیٹر بنا کر دوبارہ وزیر نہیں بنایا اور عامر لیاقت پی ٹی آئی سے تعلق کے باوجود وزیر نہیں بنائے گئے جب کہ ایم کیو ایم نے انھیں اپنے دور میں وزیر مملکت بنایا تھا۔


ممکن ہے انھیں ایم کیو ایم نے وزیر نہ بننے دیا ہو۔ عامر لیاقت حسین اسمبلی رکنیت سے مستعفی بھی ہوئے مگر وزیر اعظم نے ان کا استعفیٰ قبول کیا نہ انھیں وزیر بنایا کیونکہ وہ عامر لیاقت حسین کی نشست ہروانا نہیں چاہتے۔

پی ٹی آئی اس ماہ گھوٹکی تا کراچی لانگ مارچ کا اعلان بھی کرچکی ہے۔ کراچی سے باہر پی ٹی آئی کی محمد میاں سومرو کی جو نشست قومی اسمبلی کی ہے وہ عمران خان کے نام پر نہیں بلکہ سومرو گروپ نے جیکب آباد سے اپنی آبائی خاندانی طاقت سے جیتی تھی اور سندھ کے اندرونی علاقوں سے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب دو ارکان سندھ اسمبلی پہلے ہی پی ٹی آئی چھوڑ کر سندھ حکومت کے ساتھ اسمبلی میں بیٹھ رہے ہیں اور پی ٹی آئی ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی بھی نہیں کرسکی۔

یہ ارکان شہریار شر اور اسلم ابڑو تھے جو سندھ کو نظرانداز کرنے پر پی ٹی آئی چھوڑ گئے تھے اور اب پی پی حکومت کے ساتھ ہیں۔ گھوٹکی سے پی ٹی آئی جو مارچ کرنے جا رہی ہے اس کی ضلع میں کوئی اہم شخصیت حامی نہیں۔ پی ٹی آئی ضلع گھوٹکی کے سابق صدر افتخار لوند ہیں جو مہنگائی اور بے روزگاری پر اپنی ہی پارٹی کے خلاف بولتے ہیں۔ گھوٹکی ضلع کی اہم سیاسی شخصیات جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں اور اندرون سندھ کی کوئی قابل ذکر یا عوام میں مقبولیت کی حامل سیاسی شخصیت پی ٹی آئی میں نہیں ہے۔ گھوٹکی، شکارپور سے جو ارکان اسمبلی ہیں وہ جی ڈی اے کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے وہ اسی باعث وفاقی حکومت میں حلیف ہیں۔

بدین ضلع سے وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا اور ان کے صاحبزادے بھی جی ڈی اے کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے اور حیدرآباد سے منتخب بعض ارکان کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے نہ جانے پی ٹی آئی اپنے کسی اتحادی کی مدد لیے بغیر کس آسرے پر تنہا گھوٹکی سے کراچی مارچ کرے گی یا کورونا کے باعث مارچ ملتوی کردے گی۔

کراچی سمیت سندھ کو وفاقی حکومت نے مکمل نظراندازکر رکھا ہے کبھی وزیر اعظم نے اندرون سندھ کا تفصیلی دورہ کیا نہ اندرون سندھ کوئی ترقیاتی پیکیج دیا، نہ کراچی کے لیے اعلان کردہ گیارہ سو ارب روپے کے پیکیج پر عمل شروع ہوا اور سندھ بھر کے لوگ پی ٹی آئی سے ناراض اور خود پی ٹی آئی رہنما مایوس ہیں۔

پی ٹی آئی سندھ کے نئے صدر علی زیدی کی اندرون سندھ یا کراچی میں سیاسی اہمیت نہیں وہ وفاقی وزیر ضرور ہیں اور اسد عمر کے ساتھ سندھ میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے دعوے کر رہے ہیں جو پی ٹی آئی کا خواب تو ہو سکتا ہے عملی طور پر سندھ میں جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) سے بھی پیچھے ہے اور پی پی نے سندھ میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑ رکھے ہیں۔
Load Next Story