چین ایک مخلص اور دانا دوست
آج تک جس طرح چین نے یہ دوستی نبھائی ہے وہ ملکوں کی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے
کراچی:
ہمارے وزیر اعظم چین کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین اور پاکستان کی دوستی لازم و ملزوم اور کسی اگر مگر سے پاک ہے۔ آج تک جس طرح چین نے یہ دوستی نبھائی ہے وہ ملکوں کی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے، اس عجوبے کی سلامتی میں پاکستانی کی سلامتی ہے۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹوکہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو بھی بتا کر جانا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے چین سے دوستی ہر حال میں قائم رکھنی ہے ۔ پاکستان کے لیے چین کی دوستی اس کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔
بھارت سے بھی چین نے دوستی کا تجربہ کیا اور ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بھی بلند ہوا تھا لیکن یہ تعلق زیادہ دیر نہ چل سکا جب کہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ چین کی دوستی نے دوملکوں کے تعلقات کی ایک نئی مثال پیش کی۔ نظام حکومت اور مذہب و ثقافت کے مکمل اختلافات اور دوری کے باوجود مسلمانوں اور کیمونسٹوں کی یہ دوستی دور جدید کا ایک عجوبہ ہے۔
مغربی دنیا اور امریکا کی مسلسل مداخلت کے باجود دوستی کا یہ سفر جاری ہے اور اگر پاکستانی حکمران عقلمند فیصلے کرتے رہے تو یہ سفر بڑا طویل رہے گا۔چین اب وہ پرانا چین نہیں رہا۔
دنیا میں کیمونسٹ انقلاب کا بانی سوویت یونین کئی دہائیاں قبل ختم ہو گیا مگر چین زندہ سلامت ہی نہیں دنیا کی ایک ایسی زبردست طاقت ہے،آج کا چین خوشحال ہے اور یہ خوشحالی کسی ورلڈبینک یا امریکا کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ چینیوں کی اپنی ہے،اس ترقی کا سب سے بڑا راز ان کا قومی ڈسپلن ہے۔ اس کی سیاسی قیادت نے ڈسپلن کی پابندیوں سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھا ۔
موجودہ دور میں چین کی عالمی سیاست اور اقتصادیات کی کئی مجبوریاں اور مصلحتیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ بدلے ہوئے چین کو اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے مزید منڈیاں درکار ہیں، اس ضرورت کے لیے وہ دنیا سے جڑا رہنا چاہتے ہیں۔
جدید دنیا چین کی مصنوعات کی منڈی بن چکی ہے اورمغرب اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان اور خوفزدہ ہے کیونکہ چین کی کم قیمت مصنوعات نے دنیا میں تباہی مچارکھی ہے خاص طور پرپاکستان کے ساتھ سی پیک کا معاہدہ دنیا کی نظروں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اورچین مخالف قوتوں کی یہ کوشش ہے کہ اس اقتصادی راہداری میں جس قدر ممکن ہو سکے تاخیر ہو کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یہ راہداری نامکمل رہ جائے البتہ ا س میں تاخیرکی صورت میں مخالف قوتوں کو کچھ اضافی وقت ضرور مل سکتا ہے جس میں وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔
ماضی ہو یا حال ہو چینی قیادت ایک بات پر بہت زیادہ اور خصوصی زور دیتی ہے کہ چین اور پاکستان کی دوستی دونوں ملکوں کے عوام کی دوستی بھی ہے بلکہ سچ پوچھیں تو یہی عوام کی دوستی دونوں حکومتوں کی دوستی کو سہارا دیے ہوئے ہے اور پاکستان کے بعض نالائق حکمرانوں کو بھی حوصلہ دیتی ہے۔ چینی ہمارے حکمرانوں کو خوب سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔
ایک مخلص اور دانا دوست کی طرح چینی پاکستانیوں کو مشورے بھی دیتے رہتے ہیں کیونکہ کوئی دوست یہ نہیں چاہتا کہ اس کا دوست کمزور ہو۔ چینی پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کے میزائلوں سے بہت خوش ہیں کیونکہ یہ ان کے دوست کی مضبوط دفاعی طاقت ہے مگر وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بغیر وہ پاکستانی حکمرانوں کی نادانیوں پر ایک دوست کی طرح ناخوش ہوتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے لیکن وہ مطمئن ہیں کہ پاکستان بھارت کے لیے ترنوالہ ہر گز نہیں ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے پاکستان کے عوام کے رہنما پاکستان کی سبکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور حکمرانوں کے دوست ملک چین کے دوروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔پاکستانی قوم کے رہنماؤں کو کم ازکم چین کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے۔
ہمارے وزیر اعظم چین کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ چین اور پاکستان کی دوستی لازم و ملزوم اور کسی اگر مگر سے پاک ہے۔ آج تک جس طرح چین نے یہ دوستی نبھائی ہے وہ ملکوں کی تاریخ کا ایک عجوبہ ہے، اس عجوبے کی سلامتی میں پاکستانی کی سلامتی ہے۔
مرحوم ذوالفقار علی بھٹوکہا کرتے تھے کہ ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کو بھی بتا کر جانا ہے کہ کچھ بھی ہوجائے چین سے دوستی ہر حال میں قائم رکھنی ہے ۔ پاکستان کے لیے چین کی دوستی اس کے تحفظ کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔
بھارت سے بھی چین نے دوستی کا تجربہ کیا اور ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ بھی بلند ہوا تھا لیکن یہ تعلق زیادہ دیر نہ چل سکا جب کہ پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ چین کی دوستی نے دوملکوں کے تعلقات کی ایک نئی مثال پیش کی۔ نظام حکومت اور مذہب و ثقافت کے مکمل اختلافات اور دوری کے باوجود مسلمانوں اور کیمونسٹوں کی یہ دوستی دور جدید کا ایک عجوبہ ہے۔
مغربی دنیا اور امریکا کی مسلسل مداخلت کے باجود دوستی کا یہ سفر جاری ہے اور اگر پاکستانی حکمران عقلمند فیصلے کرتے رہے تو یہ سفر بڑا طویل رہے گا۔چین اب وہ پرانا چین نہیں رہا۔
دنیا میں کیمونسٹ انقلاب کا بانی سوویت یونین کئی دہائیاں قبل ختم ہو گیا مگر چین زندہ سلامت ہی نہیں دنیا کی ایک ایسی زبردست طاقت ہے،آج کا چین خوشحال ہے اور یہ خوشحالی کسی ورلڈبینک یا امریکا کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ چینیوں کی اپنی ہے،اس ترقی کا سب سے بڑا راز ان کا قومی ڈسپلن ہے۔ اس کی سیاسی قیادت نے ڈسپلن کی پابندیوں سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھا ۔
موجودہ دور میں چین کی عالمی سیاست اور اقتصادیات کی کئی مجبوریاں اور مصلحتیں بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ بدلے ہوئے چین کو اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے مزید منڈیاں درکار ہیں، اس ضرورت کے لیے وہ دنیا سے جڑا رہنا چاہتے ہیں۔
جدید دنیا چین کی مصنوعات کی منڈی بن چکی ہے اورمغرب اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان اور خوفزدہ ہے کیونکہ چین کی کم قیمت مصنوعات نے دنیا میں تباہی مچارکھی ہے خاص طور پرپاکستان کے ساتھ سی پیک کا معاہدہ دنیا کی نظروں میں بری طرح کھٹک رہا ہے اورچین مخالف قوتوں کی یہ کوشش ہے کہ اس اقتصادی راہداری میں جس قدر ممکن ہو سکے تاخیر ہو کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یہ راہداری نامکمل رہ جائے البتہ ا س میں تاخیرکی صورت میں مخالف قوتوں کو کچھ اضافی وقت ضرور مل سکتا ہے جس میں وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔
ماضی ہو یا حال ہو چینی قیادت ایک بات پر بہت زیادہ اور خصوصی زور دیتی ہے کہ چین اور پاکستان کی دوستی دونوں ملکوں کے عوام کی دوستی بھی ہے بلکہ سچ پوچھیں تو یہی عوام کی دوستی دونوں حکومتوں کی دوستی کو سہارا دیے ہوئے ہے اور پاکستان کے بعض نالائق حکمرانوں کو بھی حوصلہ دیتی ہے۔ چینی ہمارے حکمرانوں کو خوب سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پاکستان کے ساتھ دوستی کو کمزور نہیں ہونے دیتے۔
ایک مخلص اور دانا دوست کی طرح چینی پاکستانیوں کو مشورے بھی دیتے رہتے ہیں کیونکہ کوئی دوست یہ نہیں چاہتا کہ اس کا دوست کمزور ہو۔ چینی پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اس کے میزائلوں سے بہت خوش ہیں کیونکہ یہ ان کے دوست کی مضبوط دفاعی طاقت ہے مگر وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے بغیر وہ پاکستانی حکمرانوں کی نادانیوں پر ایک دوست کی طرح ناخوش ہوتے ہیں اور یہ ان کا حق ہے لیکن وہ مطمئن ہیں کہ پاکستان بھارت کے لیے ترنوالہ ہر گز نہیں ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے پاکستان کے عوام کے رہنما پاکستان کی سبکی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور حکمرانوں کے دوست ملک چین کے دوروں کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔پاکستانی قوم کے رہنماؤں کو کم ازکم چین کے معاملے میں محتاط رہنا چاہیے۔