غریبوں کا ہمدرد بیوروکریٹ
خاموش دھیمہ لہجہ اورکتابوں کی تلاش کے لیے سرگرداں رہنے والے تسنیم صدیقی ایک ترقی پسند سوچ کے مالک تھے
WUHAN:
تسنیم صدیقی کا شمار سندھ یونیورسٹی کے ہونہار طالب علموں میں ہوتا تھا، وہ ایک ایمانداری اور محنتی افسر ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسے سماجی کارکن تھے ، جن کی خدمات کا اعتراف ملک میں ہی نہیں بیرون ملک بھی کیا گیا۔
خاموش دھیمہ لہجہ اورکتابوں کی تلاش کے لیے سرگرداں رہنے والے تسنیم صدیقی ایک ترقی پسند سوچ کے مالک تھے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے سیاسیات اور انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 1965 میں وہ سپیریئر سروس (C.S.S) کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔
ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (D.M.G) کے حقدار ٹھہرے ، جب 1971 میں فوج نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی شروع کی تو تسنیم صدیقی اس وقت مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں اسسٹنٹ کمشنر اور مجسٹریٹ کے فرائض انجام دے رہے تھے ، جہاں انھوں نے بنگالیوں کی بے بسی اور ان پر ہونے والے مظالم کو دیکھا ، وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ بنگال کے عوام اس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔
ان کا ملک کے بننے کے بعد سے بدترین استحصال ہوا ۔ 1970 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں نوجوانوں میں تشدد کا عنصر پیدا ہوا اور پھر ساری برادری اس تشدد کا شکار ہوئی۔ تسنیم صدیقی نے مارکسزم کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی ان کے ہم عصر تھے۔ جب ڈاکٹر مبارک علی جرمنی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر واپس آئے تو ڈاکٹر مبارک علی نے اس دوران اردو زبان میں عوامی تاریخ لکھنے کی روایت ڈالی اور سندھ کی تاریخ کو مارکسزم کے سائنسی اصولوں کے مطابق تحریر کیا تو تسنیم صدیقی ان کے سب سے بڑے حامیوں میں ایک تھے۔
تسنیم صدیقی نے تعلیم، صحت اور رہائش کے ہر شہری کے بنیادی حق کو تسلیم کیا تو ایک بیوروکریٹ ہونے کے باوجود شہریوں کے ان حقوق کے لیے سرگرداں رہے۔ انھوں نے 1947میں تیار ہونے والے بجٹ سے لے کر اقتصادی پالیسیوں اور مختلف حکومتوں کے نافذ کردہ ترقی کے منصوبوں کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے اس مطالعہ کے دوران یہ محسوس کیا کہ نوزائیدہ ریاست کی ترجیحات میں تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار کوکبھی اولیت نہیں دی گئی۔
تسنیم صاحب نے ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار میں ان ہی موضوعات پر آرٹیکل تحریر کرنا شروع کیے۔ تسنیم صاحب نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ملک کے پہلے بجٹ میں تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش اسی طرح آخری ترجیح تھے جس طرح برطانوی ہند دور حکومت میں تھے۔ ان کا مدعا تھا کہ پہلے بجٹ میں تعلیم و صحت پرکل خام آمدنی (G.D.P) کا ایک فیصد کے قریب رکھا گیا جس میں 75 سال میں معمولی اضافہ ہوا۔
تسنیم صدیقی نے بین الاقوامی شہرت یافتہ اقتصادی اور سماجی ماہر ڈاکٹر اختر حمید خان کے ترقی کے ماڈل کا عمیق مطالعہ کیا ، وہ سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر کومیلا گئے جہاں ڈاکٹر اختر حمید خان نے ترقی کے ماڈل کے غریبوں خاص طور پر خواتین کے حالات کار کو بہتر بنانے میں انقلابی کردار ادا کیا تھا۔ صدیقی صاحب اس ماڈل سے اتنا زیادہ متاثر ہوئے کہ اس ماڈل کو وطن عزیز میں عملدرآمد کا تہیہ کیا۔
تسنیم صدیقی نے ہمیشہ دوران ملازمت ، کچی آبادیوں کو منتقل کرنے کے محکمہ کو ترجیح دی۔ جب وہ حیدرآباد میں کچی آبادی کے شعبہ کے سربراہ تھے تو انھوں نے غریبوں کو مفت پلاٹ فراہم کرنے کے لیے ایک بستی کی منصوبہ بندی کی۔ اس منصوبہ بندی کے تحت '' خدا کی بستی '' کا وجود عمل میں آیا۔
خدا کی بستی میں پہلے بے گھر افراد کو رکھا جاتا تھا۔ پھر انھیں ایک قطعہ اراضی دیا جاتا تھا اور اس قطعہ اراضی پر تعمیر کے لیے تعمیراتی سامان او رقرضہ دیا جاتا تھا جو قابل واپسی تھا ، مگر جس شخص کو پلاٹ اور قرضہ دیا جاتا تھا وہ اس پلاٹ کو فروخت نہیں کرسکتا تھا، یوں بے گھر افراد کے لیے انتہائی بہترین اسکیم تھی۔ تسنیم صدیقی میرٹ پر ہرکام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
ان کے خلاف قوم پرست تنظیموں نے مہم شروع کردی کہ خدا کی بستی بہاریوں کو حیدرآباد میں آباد کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے اور تسنیم صدیقی کا ایک جعلی خط سندھی اخبارات میں شایع ہوا ، یہ خط ایک امریکی سینیٹر کو لکھا گیا تھا۔
حیدرآباد کے مہم جو صحافی حسن مجتبیٰ جو آج کل امریکا کے شہر نیویارک میں مقیم ہیں نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ یہ خط ایک صحافی نے تیار کیا تھاجس کا مقصد تسنیم صاحب کو اس عہدہ سے برطرف کرانا تھا ۔ تسنیم صدیقی نے یہ اسکیم کراچی میں شروع کی۔ ایک زمانہ میں کراچی کی سب سے بڑی آبادی اورنگی ٹاؤن میں غریبوں کے حالات کارکو بہتر بنانے ، پانی اور سیورج کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹر اختر حمید خان نے 1980 میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ شرو ع کیا تھا۔ تسنیم صدیقی اس پروجیکٹ کو منظم کرنے والوں میں شامل ہوئے۔
ڈی ایم جی گروپ کے افسران کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ترقی کرکے صوبہ کے چیف سیکریٹری کسی خود مختار ادارہ کے سربراہ یا کسی وفاقی وزارت کے سیکریٹری بن جائیں۔ تسنیم صدیقی نے کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ انھیں کئی دفعہ سندھ کے چیف سیکریٹری مقررکیا گیا مگر انھوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ کچی آبادیوں کے محکمہ کی ذمے داری ان کے حصہ میں آئے ، جب وہ ریٹائر ہوئے تو انھوں نے اپنی توسیع کے لیے کوشش نہیں کی مگر ریٹائرمنٹ کے بعد غریبوں کو رہائشی سہولتیں دینے کے لیے سرگرداں ایک غیر سرکاری ادارہ سائبان کی سربراہی قبول کی۔
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ جب تسنیم صدیقی حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے تھے ، تو انھوں نے حیدرآباد کی ترقی کے لیے بہت سے منصوبے شروع کیے تھے۔ تسنیم صدیقی نے حیدرآباد کی قدیم عمارتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک منصوبہ شروع کیا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ فلمی ڈائریکٹر مشتاق گزدر سے حیدرآباد کی ان قدیم عمارتوں کی ڈاکیومنٹری تیار کروائی جوکہ بیرونی ممالک میں بہت مقبول ہوئی۔
اسی طرح انھوں نے مکھی ہاؤس کو میوزیم میں تبدیل کرنے کے لیے جستجو کی۔ وہ اپنی ان سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ روشن خیالی کی تحریک کو تقویت دینے میں کوشاں ڈاکٹر مبارک علی کے ساتھ شامل تھے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی قیادت میں تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ قائم ہوا۔ تسنیم صدیقی اس کے روحِ رواں تھے ، انھوں نے اس ٹرسٹ کے تحت کئی بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار اد ا کیا۔ اس ٹرسٹ کے اراکین ڈاکٹر ریاض شیخ ، ڈاکٹر انور شاہین، ڈاکٹر ہما غفار ، ڈاکٹر عرفان عزیز تسنیم کے انتقال پر افسردہ ہیں۔
ان اکابرین کا کہنا ہے کہ تسنیم صدیقی نظم و نسق کے پابند ہیں، یوں اجلاسوں کی کارروائی قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتی تھی او رٹرسٹ کے لیے کوششوں میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسلام آباد کی کچی آبادیوں کو ہٹانے کا منصوبہ پیش ہوا تو معزز عدالت نے تسنیم صدیقی کو عدالت کے مشیرکی حیثیت سے طلب کیا۔
تسنیم صدیقی نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلام آباد کی کچی آبادیو ںکے مکین اسلام آباد کے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ان کی آبادیوں کو منتقل کرنے سے صرف یہ غریب ہی برباد نہیں ہونگے بلکہ اسلام آباد کے شہری بھی متاثر ہونگے۔
تسنیم صدیقی کا شمار سندھ یونیورسٹی کے ہونہار طالب علموں میں ہوتا تھا، وہ ایک ایمانداری اور محنتی افسر ہی نہیں تھے بلکہ ایک ایسے سماجی کارکن تھے ، جن کی خدمات کا اعتراف ملک میں ہی نہیں بیرون ملک بھی کیا گیا۔
خاموش دھیمہ لہجہ اورکتابوں کی تلاش کے لیے سرگرداں رہنے والے تسنیم صدیقی ایک ترقی پسند سوچ کے مالک تھے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے سیاسیات اور انگریزی ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 1965 میں وہ سپیریئر سروس (C.S.S) کے امتحان میں کامیاب ہوئے۔
ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (D.M.G) کے حقدار ٹھہرے ، جب 1971 میں فوج نے مشرقی پاکستان میں فوج کشی شروع کی تو تسنیم صدیقی اس وقت مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں اسسٹنٹ کمشنر اور مجسٹریٹ کے فرائض انجام دے رہے تھے ، جہاں انھوں نے بنگالیوں کی بے بسی اور ان پر ہونے والے مظالم کو دیکھا ، وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ بنگال کے عوام اس ملک کے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔
ان کا ملک کے بننے کے بعد سے بدترین استحصال ہوا ۔ 1970 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کے نتیجہ میں نوجوانوں میں تشدد کا عنصر پیدا ہوا اور پھر ساری برادری اس تشدد کا شکار ہوئی۔ تسنیم صدیقی نے مارکسزم کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔
معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی ان کے ہم عصر تھے۔ جب ڈاکٹر مبارک علی جرمنی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر واپس آئے تو ڈاکٹر مبارک علی نے اس دوران اردو زبان میں عوامی تاریخ لکھنے کی روایت ڈالی اور سندھ کی تاریخ کو مارکسزم کے سائنسی اصولوں کے مطابق تحریر کیا تو تسنیم صدیقی ان کے سب سے بڑے حامیوں میں ایک تھے۔
تسنیم صدیقی نے تعلیم، صحت اور رہائش کے ہر شہری کے بنیادی حق کو تسلیم کیا تو ایک بیوروکریٹ ہونے کے باوجود شہریوں کے ان حقوق کے لیے سرگرداں رہے۔ انھوں نے 1947میں تیار ہونے والے بجٹ سے لے کر اقتصادی پالیسیوں اور مختلف حکومتوں کے نافذ کردہ ترقی کے منصوبوں کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے اس مطالعہ کے دوران یہ محسوس کیا کہ نوزائیدہ ریاست کی ترجیحات میں تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار کوکبھی اولیت نہیں دی گئی۔
تسنیم صاحب نے ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار میں ان ہی موضوعات پر آرٹیکل تحریر کرنا شروع کیے۔ تسنیم صاحب نے ایک آرٹیکل میں لکھا کہ ملک کے پہلے بجٹ میں تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش اسی طرح آخری ترجیح تھے جس طرح برطانوی ہند دور حکومت میں تھے۔ ان کا مدعا تھا کہ پہلے بجٹ میں تعلیم و صحت پرکل خام آمدنی (G.D.P) کا ایک فیصد کے قریب رکھا گیا جس میں 75 سال میں معمولی اضافہ ہوا۔
تسنیم صدیقی نے بین الاقوامی شہرت یافتہ اقتصادی اور سماجی ماہر ڈاکٹر اختر حمید خان کے ترقی کے ماڈل کا عمیق مطالعہ کیا ، وہ سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر کومیلا گئے جہاں ڈاکٹر اختر حمید خان نے ترقی کے ماڈل کے غریبوں خاص طور پر خواتین کے حالات کار کو بہتر بنانے میں انقلابی کردار ادا کیا تھا۔ صدیقی صاحب اس ماڈل سے اتنا زیادہ متاثر ہوئے کہ اس ماڈل کو وطن عزیز میں عملدرآمد کا تہیہ کیا۔
تسنیم صدیقی نے ہمیشہ دوران ملازمت ، کچی آبادیوں کو منتقل کرنے کے محکمہ کو ترجیح دی۔ جب وہ حیدرآباد میں کچی آبادی کے شعبہ کے سربراہ تھے تو انھوں نے غریبوں کو مفت پلاٹ فراہم کرنے کے لیے ایک بستی کی منصوبہ بندی کی۔ اس منصوبہ بندی کے تحت '' خدا کی بستی '' کا وجود عمل میں آیا۔
خدا کی بستی میں پہلے بے گھر افراد کو رکھا جاتا تھا۔ پھر انھیں ایک قطعہ اراضی دیا جاتا تھا اور اس قطعہ اراضی پر تعمیر کے لیے تعمیراتی سامان او رقرضہ دیا جاتا تھا جو قابل واپسی تھا ، مگر جس شخص کو پلاٹ اور قرضہ دیا جاتا تھا وہ اس پلاٹ کو فروخت نہیں کرسکتا تھا، یوں بے گھر افراد کے لیے انتہائی بہترین اسکیم تھی۔ تسنیم صدیقی میرٹ پر ہرکام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
ان کے خلاف قوم پرست تنظیموں نے مہم شروع کردی کہ خدا کی بستی بہاریوں کو حیدرآباد میں آباد کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے اور تسنیم صدیقی کا ایک جعلی خط سندھی اخبارات میں شایع ہوا ، یہ خط ایک امریکی سینیٹر کو لکھا گیا تھا۔
حیدرآباد کے مہم جو صحافی حسن مجتبیٰ جو آج کل امریکا کے شہر نیویارک میں مقیم ہیں نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ یہ خط ایک صحافی نے تیار کیا تھاجس کا مقصد تسنیم صاحب کو اس عہدہ سے برطرف کرانا تھا ۔ تسنیم صدیقی نے یہ اسکیم کراچی میں شروع کی۔ ایک زمانہ میں کراچی کی سب سے بڑی آبادی اورنگی ٹاؤن میں غریبوں کے حالات کارکو بہتر بنانے ، پانی اور سیورج کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ڈاکٹر اختر حمید خان نے 1980 میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ شرو ع کیا تھا۔ تسنیم صدیقی اس پروجیکٹ کو منظم کرنے والوں میں شامل ہوئے۔
ڈی ایم جی گروپ کے افسران کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ترقی کرکے صوبہ کے چیف سیکریٹری کسی خود مختار ادارہ کے سربراہ یا کسی وفاقی وزارت کے سیکریٹری بن جائیں۔ تسنیم صدیقی نے کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ انھیں کئی دفعہ سندھ کے چیف سیکریٹری مقررکیا گیا مگر انھوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ کچی آبادیوں کے محکمہ کی ذمے داری ان کے حصہ میں آئے ، جب وہ ریٹائر ہوئے تو انھوں نے اپنی توسیع کے لیے کوشش نہیں کی مگر ریٹائرمنٹ کے بعد غریبوں کو رہائشی سہولتیں دینے کے لیے سرگرداں ایک غیر سرکاری ادارہ سائبان کی سربراہی قبول کی۔
ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ جب تسنیم صدیقی حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے تھے ، تو انھوں نے حیدرآباد کی ترقی کے لیے بہت سے منصوبے شروع کیے تھے۔ تسنیم صدیقی نے حیدرآباد کی قدیم عمارتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک منصوبہ شروع کیا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ فلمی ڈائریکٹر مشتاق گزدر سے حیدرآباد کی ان قدیم عمارتوں کی ڈاکیومنٹری تیار کروائی جوکہ بیرونی ممالک میں بہت مقبول ہوئی۔
اسی طرح انھوں نے مکھی ہاؤس کو میوزیم میں تبدیل کرنے کے لیے جستجو کی۔ وہ اپنی ان سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ روشن خیالی کی تحریک کو تقویت دینے میں کوشاں ڈاکٹر مبارک علی کے ساتھ شامل تھے۔ ڈاکٹر مبارک علی کی قیادت میں تاریخ فاؤنڈیشن ٹرسٹ قائم ہوا۔ تسنیم صدیقی اس کے روحِ رواں تھے ، انھوں نے اس ٹرسٹ کے تحت کئی بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار اد ا کیا۔ اس ٹرسٹ کے اراکین ڈاکٹر ریاض شیخ ، ڈاکٹر انور شاہین، ڈاکٹر ہما غفار ، ڈاکٹر عرفان عزیز تسنیم کے انتقال پر افسردہ ہیں۔
ان اکابرین کا کہنا ہے کہ تسنیم صدیقی نظم و نسق کے پابند ہیں، یوں اجلاسوں کی کارروائی قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتی تھی او رٹرسٹ کے لیے کوششوں میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے۔ جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں اسلام آباد کی کچی آبادیوں کو ہٹانے کا منصوبہ پیش ہوا تو معزز عدالت نے تسنیم صدیقی کو عدالت کے مشیرکی حیثیت سے طلب کیا۔
تسنیم صدیقی نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلام آباد کی کچی آبادیو ںکے مکین اسلام آباد کے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ ان کی آبادیوں کو منتقل کرنے سے صرف یہ غریب ہی برباد نہیں ہونگے بلکہ اسلام آباد کے شہری بھی متاثر ہونگے۔