کے الیکٹرک عوام سے اربوں روپے لوٹنے کی نئی چال
کے الیکٹرک اپنے ’قانونی نوٹسز‘ کے ذریعے مختلف عمارتوں اور مکانوں کو ’غیرقانونی‘ قرار دے رہی ہے
BEIRUT:
گزشتہ رات ایک 'قانونی نوٹس' سے معلوم ہوا کہ جس عمارت میں پچھلے 14 سال سے میری رہائش ہے، وہ 'غیر قانونی' ہے کیونکہ وہ تین سال پہلے، سڑک پر نصب کیے گئے کے الیکٹرک ٹرانسفارمر/ پی ایم ٹی سے 'بہت قریب' ہے۔
پہلے اس واقعے کی تفصیل پڑھ لیجیے، اس کے بعد کچھ اور باتیں۔
ہوا کچھ یوں کہ رات ساڑھے دس بجے اچانک گھر کی ڈوربیل بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے میرے ایک بزرگ پڑوسی تھے جو ہماری عمارت ہی میں رہائش پذیر ہیں۔
''علیم بھائی! جلدی باہر آئیے، کے الیکٹرک کی گاڑی آئی ہوئی ہے؛ نوٹس دینے کےلیے،'' پڑوسی نے گھبراہٹ سے مجھے مخاطب کیا۔
میں بھی بلاتاخیر باہر آیا تو دیکھا کہ کے الیکٹرک کی ایک گاڑی تھی جس کے ساتھ ہی ایک نوجوان کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ سفید کاغذات تھے۔
میرے پڑوسی نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ مجھ سے بات کرے۔ قریب پہنچا تو اس نے ایک کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ کے الیکٹرک کی طرف سے 'قانونی نوٹس' تھا جس کی 'سبجیکٹ لائن' میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہماری عمارت 'غیر قانونی' ہے کیونکہ وہ کے الیکٹرک کی پی ایم ٹی/ ٹرانسفارمر کے قریب تعمیر کی گئی ہے۔
بظاہر 'قانونی' دکھائی دینے والے اس 'نوٹس' کی عبارت میں مختلف قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے باور کرایا گیا تھا کہ اگر فوری طور پر 'مناسب' اقدامات نہ کیے گئے تو مذکورہ 'غیر قانونی' عمارت کے خلاف 'قانونی کارروائی' عمل میں لائی جائے گی۔
اگرچہ اس نوٹس پر کوئی مہر، کوئی دستخط اور متعلقہ کے الیکٹرک افسر کا کوئی نام بھی موجود نہیں تھا لیکن اختتام پر ڈپٹی کمشنر اور علاقہ ایس ایچ او تک کو ''سی سی'' کرکے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ جیسے یہ نوٹس مکمل طور پر قانونی ہے اور اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ہمارے علاقے میں کے الیکٹرک کی بیشتر پی ایم ٹیز اور ٹرانسفارمرز سڑک پر کھمبے گاڑ کر نصب کیے گئے ہیں لیکن کسی نامعلوم، پراسرار قانون کے تحت انہیں مقدس قسم کی 'قانونی تنصیبات' کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
وہ قانون کیا ہے؟ اس بارے میں کراچی شہر اور صوبہ سندھ کے 'ٹھیکیدار' جانیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 'اصل مالکان' جانیں یا نیپرا والے جانیں کہ جنہیں عوامی مفاد کے بجائے منافع خور الیکٹرک کمپنیوں کا خیال رہتا ہے... کم از کم میرے علم میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ ایک نجی ادارہ اپنی 'حالیہ تنصیبات' کو جائز قرار دینے کےلیے محض ایک نوٹس کے ذریعے، پہلے سے موجود عمارتوں پر 'غیر قانونی' ہونے کی مہر لگا دے۔
یہ استحقاق ریاست کے زیرِ انتظام کام کرنے والے متعلقہ اداروں کا ہے جیسے کہ ایس بی سی اے اور کے ڈی اے وغیرہ۔ لیکن یہاں تو نوٹس بھیجنے والا 'کے الیکٹرک' تھا، جسے نجی ادارہ بنے ہوئے اب کئی سال ہوچکے ہیں۔
خیر، میں نوٹس لانے والے نوجوان پر شدید غصہ ہوا تو وہ کہنے لگا، ''سر! ابھی ہم نے پورے علاقے میں تقریباً پچاس مکانوں اور عمارتوں والوں کو یہی نوٹس serve کیا ہے، سب نے خاموشی سے لے لیا ہے۔ اگر آپ کو اعتراض ہے تو نہ لیجیے۔ میں تو ملازم ہوں، واپس لے جاؤں گا۔''
''سر! مجھے بھی معلوم ہے کہ آپ کی عمارت سولہ سال پہلے بنی تھی۔ پچھلے گیارہ سال سے اس علاقے میں میری ڈیوٹی ہے اور یہ پی ایم ٹی بھی میرے سامنے، کچھ سال پہلے ہی اس عمارت کے پاس نصب کی گئی ہے۔ اچھا ٹھہریئے! میں اپنے افسر سے آپ کی بات کروا دیتا ہوں،'' یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا موبائل فون نکالا اور دوسری طرف کال اٹینڈ کرنے والے صاحب کو لینڈ لائن سے واپس کال کرنے کو کہا۔
چند لمحوں میں ان صاحب کی کال آگئی جو شاید کے الیکٹرک میں کوئی افسر تھے۔ نوجوان نے میرے ہاتھ میں اپنا موبائل فون پکڑایا اور میں اسے کان سے لگاتے ہی پھٹ پڑا: ''آپ نے کس قانون کے تحت اس عمارت کو غیر قانونی قرار دیا ہے جبکہ آپ کی پی ایم ٹی اس کے پاس صرف تین سال پہلے نصب کی گئی ہے۔''
میری آواز قدرتی طور پر بہت بلند ہے، جو غصے میں اتنی اونچی ہوگئی کہ آس پڑوس کے لوگ اپنی کھڑکیوں سے جھانکنے لگے کہ اتنی رات گئے یہ کون جھگڑ رہا ہے۔
میرے غصیلے لہجے اور بلند آہنگ کا اثر یہ ہوا کہ فون پر بات کرنے والے 'صاحب' خوفزدہ ہوگئے اور نرمی سے مجھے 'سمجھانے' کی کوشش کرنے لگے۔
اسی دوران میں نے انہیں اپنا تعارف کروایا اور 'سینئر جرنلسٹ' ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ انگریزی بھی جھاڑ دی۔ (ویسے پاکستان میں دوسروں کو مرعوب کرنے کا یہ آزمودہ ترین اور سب سے مؤثر حربہ بھی ہے!)
ان 'صاحب' کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے یہ نوٹسز 'حفظِ ماتقدم' کے طور پر، لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جاری کیے گئے ہیں۔
''اگر یہی بات ہے تو نوٹس کی سبجیکٹ لائن میں Illegal Construction کی عبارت کیوں موجود ہے؟ یہاں پر Precautionary Measures جیسا کچھ تذکرہ ہونا چاہیے تھا،'' میرا ذہن اب بھی موصوف کی منطق قبول کرنے کےلیے تیار نہیں تھا۔
اس پر وہ مزید بوکھلا گئے اور بولے، ''سر! آپ یہ نوٹس ریسیو نہ کیجیے۔ ہم اسے درست کرلیں گے،'' اور یہ کہتے ہی انہوں نے لائن کاٹ دی۔
غصے اور حیرت کے مارے میری حالت عجیب تھی۔ بلڈ پریشر ہائی ہوچکا تھا اور دل کی دھڑکنیں مجھے اپنی کنپٹیوں میں صاف محسوس ہورہی تھیں۔
عوام کی قانون سے لاعلمی اور سرمایہ داروں کا فائدہ
پڑوسیوں سے معلوم ہوا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے یہ 'قانونی نوٹس' serve کرنے کی کارروائی پچھلے چند دنوں سے جاری ہے۔ بیشتر عمارتوں کے مکینوں نے اپنی 'غلطی' تسلیم کرتے ہوئے کے الیکٹرک سے 'درخواست' کی ہے کہ کچھ 'جرمانہ' لے کر پی ایم ٹیز/ ٹرانسفارمرز کی جگہ تبدیل کردی جائے تاکہ ان کے گھروں پر 'غیر قانونی عمارت' ہونے کا 'داغ' دھل سکے۔
اس ضمن میں ہر عمارت کے رہائشیوں سے مبینہ طور پر 20 لاکھ روپے کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے اور لوگ اپنی کروڑوں کی پراپرٹی بچانے کےلیے یہ رقم خوشی خوشی ادا کر رہے ہیں۔
یہ جان کر مجھے حیرت سے زیادہ افسوس ہوا کیونکہ ہر معاملے میں عوام کی سہل پسندی سے ظالم سرمایہ دار خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میری رہائش ناظم آباد میں ہے جہاں کی اکثریتی آبادی پڑھی لکھی بلکہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہے۔ اس میں سرکاری ملازمین کی وہ بڑی تعداد بھی شامل ہے جو قانونی موشگافیوں سے بخوبی واقف ہیں۔
ایسے میں درجنوں گھروں کے مکینوں کا بلا چوں و چرا، خاموشی سے یہ نوٹس وصول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی بنیادی قوانین سے لاعلم ہے جس کا فائدہ سرمایہ دار طبقہ بہت بے دردی سے اٹھا رہا ہے۔
میں نے یونہی بیٹھے بیٹھے حساب لگایا کہ اگر 20 لاکھ روپے فی عمارت/ مکان کی شرح سے کراچی کی صرف 1,000 عمارتوں کے مکینوں سے رقم بٹوری جائے تو یہ دو ارب روپے بنتے ہیں۔ اب اگر اسے بھتہ خوری نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟
سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے مہنگی بجلی کراچی والوں کو 'کے الیکٹرک' کے توسط سے فروخت کی جاتی ہے۔ 2005 میں اپنی نجکاری سے لے کر آج تک یہ ادارہ مختلف حیلے بہانوں اور جعلسازیوں سے لوٹ مار میں مصروف ہے۔
آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ آخر اس ادارے کے 'اصل مالکان' کون ہیں اور وہ کون سا قانون ہے جس کے تحت اسے اتنی زیادہ مراعات دیتے ہوئے نجی شعبے کو فروخت کیا گیا ہے؟
اگر کسی صارف سے بل جمع کروانے میں تاخیر ہوجائے تو فوری طور پر جرمانہ (پینالٹی) ٹھونک دیا جاتا ہے لیکن کے الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت ثابت کرنے میں ہمارے نظامِ انصاف کو بہت وقت گزر جاتا ہے۔
لیکن بقول غالب ''ہوِس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا'' کے مصداق، کے الیکٹرک والوں کا لالچ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ پچھلے پندرہ سولہ سال میں اہالیانِ کراچی سے ہزاروں ارب روپے لوٹنے اور بیرونِ ملک منتقل کرنے کے باوجود یہ ادارہ کراچی کے لوگوں سے وقت بے وقت 'پے مور' (Pay More) کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔
کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر تو کبھی بجلی چوری اور 'لائن لاسز' کے نام پر، نہ جانے کن کن طریقوں سے یہ نجی ادارہ اہلِ کراچی سے لوٹ مار میں مصروف ہے لیکن اس کے پیٹ کا جہنم بھرنے میں نہیں آرہا... نتیجتاً اس شہر میں رہنے والوں کی زندگی جہنم بنتی جارہی ہے۔
مجھے پوری طرح احساس ہے کہ 'ریاستِ مدینہ جدید' میں انصاف کی توقع کرنا فضول ہے کیونکہ میں بھی آپ سب کی طرح ایک عام شہری ہوں۔
اس کے باوجود، یہ ساری بپتا محض اس لیے لکھ دی ہے تاکہ یہ واقعہ ریکارڈ پر آجائے اور 'میرے عزیز ہم وطنوں' کو نجی شعبے کے ایک نئے فراڈ کا علم بھی ہوجائے... ایک ایسا فراڈ کہ جو ریاستی اداروں کی سرپرستی کے بغیر ناممکن ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
گزشتہ رات ایک 'قانونی نوٹس' سے معلوم ہوا کہ جس عمارت میں پچھلے 14 سال سے میری رہائش ہے، وہ 'غیر قانونی' ہے کیونکہ وہ تین سال پہلے، سڑک پر نصب کیے گئے کے الیکٹرک ٹرانسفارمر/ پی ایم ٹی سے 'بہت قریب' ہے۔
پہلے اس واقعے کی تفصیل پڑھ لیجیے، اس کے بعد کچھ اور باتیں۔
ہوا کچھ یوں کہ رات ساڑھے دس بجے اچانک گھر کی ڈوربیل بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے میرے ایک بزرگ پڑوسی تھے جو ہماری عمارت ہی میں رہائش پذیر ہیں۔
''علیم بھائی! جلدی باہر آئیے، کے الیکٹرک کی گاڑی آئی ہوئی ہے؛ نوٹس دینے کےلیے،'' پڑوسی نے گھبراہٹ سے مجھے مخاطب کیا۔
میں بھی بلاتاخیر باہر آیا تو دیکھا کہ کے الیکٹرک کی ایک گاڑی تھی جس کے ساتھ ہی ایک نوجوان کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ سفید کاغذات تھے۔
میرے پڑوسی نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ مجھ سے بات کرے۔ قریب پہنچا تو اس نے ایک کاغذ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ یہ کے الیکٹرک کی طرف سے 'قانونی نوٹس' تھا جس کی 'سبجیکٹ لائن' میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہماری عمارت 'غیر قانونی' ہے کیونکہ وہ کے الیکٹرک کی پی ایم ٹی/ ٹرانسفارمر کے قریب تعمیر کی گئی ہے۔
بظاہر 'قانونی' دکھائی دینے والے اس 'نوٹس' کی عبارت میں مختلف قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے باور کرایا گیا تھا کہ اگر فوری طور پر 'مناسب' اقدامات نہ کیے گئے تو مذکورہ 'غیر قانونی' عمارت کے خلاف 'قانونی کارروائی' عمل میں لائی جائے گی۔
اگرچہ اس نوٹس پر کوئی مہر، کوئی دستخط اور متعلقہ کے الیکٹرک افسر کا کوئی نام بھی موجود نہیں تھا لیکن اختتام پر ڈپٹی کمشنر اور علاقہ ایس ایچ او تک کو ''سی سی'' کرکے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ جیسے یہ نوٹس مکمل طور پر قانونی ہے اور اسے سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔
حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ہمارے علاقے میں کے الیکٹرک کی بیشتر پی ایم ٹیز اور ٹرانسفارمرز سڑک پر کھمبے گاڑ کر نصب کیے گئے ہیں لیکن کسی نامعلوم، پراسرار قانون کے تحت انہیں مقدس قسم کی 'قانونی تنصیبات' کا درجہ دے دیا گیا ہے۔
وہ قانون کیا ہے؟ اس بارے میں کراچی شہر اور صوبہ سندھ کے 'ٹھیکیدار' جانیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 'اصل مالکان' جانیں یا نیپرا والے جانیں کہ جنہیں عوامی مفاد کے بجائے منافع خور الیکٹرک کمپنیوں کا خیال رہتا ہے... کم از کم میرے علم میں ایسا کوئی قانون نہیں کہ ایک نجی ادارہ اپنی 'حالیہ تنصیبات' کو جائز قرار دینے کےلیے محض ایک نوٹس کے ذریعے، پہلے سے موجود عمارتوں پر 'غیر قانونی' ہونے کی مہر لگا دے۔
یہ استحقاق ریاست کے زیرِ انتظام کام کرنے والے متعلقہ اداروں کا ہے جیسے کہ ایس بی سی اے اور کے ڈی اے وغیرہ۔ لیکن یہاں تو نوٹس بھیجنے والا 'کے الیکٹرک' تھا، جسے نجی ادارہ بنے ہوئے اب کئی سال ہوچکے ہیں۔
خیر، میں نوٹس لانے والے نوجوان پر شدید غصہ ہوا تو وہ کہنے لگا، ''سر! ابھی ہم نے پورے علاقے میں تقریباً پچاس مکانوں اور عمارتوں والوں کو یہی نوٹس serve کیا ہے، سب نے خاموشی سے لے لیا ہے۔ اگر آپ کو اعتراض ہے تو نہ لیجیے۔ میں تو ملازم ہوں، واپس لے جاؤں گا۔''
''سر! مجھے بھی معلوم ہے کہ آپ کی عمارت سولہ سال پہلے بنی تھی۔ پچھلے گیارہ سال سے اس علاقے میں میری ڈیوٹی ہے اور یہ پی ایم ٹی بھی میرے سامنے، کچھ سال پہلے ہی اس عمارت کے پاس نصب کی گئی ہے۔ اچھا ٹھہریئے! میں اپنے افسر سے آپ کی بات کروا دیتا ہوں،'' یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا موبائل فون نکالا اور دوسری طرف کال اٹینڈ کرنے والے صاحب کو لینڈ لائن سے واپس کال کرنے کو کہا۔
چند لمحوں میں ان صاحب کی کال آگئی جو شاید کے الیکٹرک میں کوئی افسر تھے۔ نوجوان نے میرے ہاتھ میں اپنا موبائل فون پکڑایا اور میں اسے کان سے لگاتے ہی پھٹ پڑا: ''آپ نے کس قانون کے تحت اس عمارت کو غیر قانونی قرار دیا ہے جبکہ آپ کی پی ایم ٹی اس کے پاس صرف تین سال پہلے نصب کی گئی ہے۔''
میری آواز قدرتی طور پر بہت بلند ہے، جو غصے میں اتنی اونچی ہوگئی کہ آس پڑوس کے لوگ اپنی کھڑکیوں سے جھانکنے لگے کہ اتنی رات گئے یہ کون جھگڑ رہا ہے۔
میرے غصیلے لہجے اور بلند آہنگ کا اثر یہ ہوا کہ فون پر بات کرنے والے 'صاحب' خوفزدہ ہوگئے اور نرمی سے مجھے 'سمجھانے' کی کوشش کرنے لگے۔
اسی دوران میں نے انہیں اپنا تعارف کروایا اور 'سینئر جرنلسٹ' ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ انگریزی بھی جھاڑ دی۔ (ویسے پاکستان میں دوسروں کو مرعوب کرنے کا یہ آزمودہ ترین اور سب سے مؤثر حربہ بھی ہے!)
ان 'صاحب' کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے یہ نوٹسز 'حفظِ ماتقدم' کے طور پر، لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جاری کیے گئے ہیں۔
''اگر یہی بات ہے تو نوٹس کی سبجیکٹ لائن میں Illegal Construction کی عبارت کیوں موجود ہے؟ یہاں پر Precautionary Measures جیسا کچھ تذکرہ ہونا چاہیے تھا،'' میرا ذہن اب بھی موصوف کی منطق قبول کرنے کےلیے تیار نہیں تھا۔
اس پر وہ مزید بوکھلا گئے اور بولے، ''سر! آپ یہ نوٹس ریسیو نہ کیجیے۔ ہم اسے درست کرلیں گے،'' اور یہ کہتے ہی انہوں نے لائن کاٹ دی۔
غصے اور حیرت کے مارے میری حالت عجیب تھی۔ بلڈ پریشر ہائی ہوچکا تھا اور دل کی دھڑکنیں مجھے اپنی کنپٹیوں میں صاف محسوس ہورہی تھیں۔
عوام کی قانون سے لاعلمی اور سرمایہ داروں کا فائدہ
پڑوسیوں سے معلوم ہوا کہ کے الیکٹرک کی جانب سے یہ 'قانونی نوٹس' serve کرنے کی کارروائی پچھلے چند دنوں سے جاری ہے۔ بیشتر عمارتوں کے مکینوں نے اپنی 'غلطی' تسلیم کرتے ہوئے کے الیکٹرک سے 'درخواست' کی ہے کہ کچھ 'جرمانہ' لے کر پی ایم ٹیز/ ٹرانسفارمرز کی جگہ تبدیل کردی جائے تاکہ ان کے گھروں پر 'غیر قانونی عمارت' ہونے کا 'داغ' دھل سکے۔
اس ضمن میں ہر عمارت کے رہائشیوں سے مبینہ طور پر 20 لاکھ روپے کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے اور لوگ اپنی کروڑوں کی پراپرٹی بچانے کےلیے یہ رقم خوشی خوشی ادا کر رہے ہیں۔
یہ جان کر مجھے حیرت سے زیادہ افسوس ہوا کیونکہ ہر معاملے میں عوام کی سہل پسندی سے ظالم سرمایہ دار خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میری رہائش ناظم آباد میں ہے جہاں کی اکثریتی آبادی پڑھی لکھی بلکہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہے۔ اس میں سرکاری ملازمین کی وہ بڑی تعداد بھی شامل ہے جو قانونی موشگافیوں سے بخوبی واقف ہیں۔
ایسے میں درجنوں گھروں کے مکینوں کا بلا چوں و چرا، خاموشی سے یہ نوٹس وصول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت آج بھی بنیادی قوانین سے لاعلم ہے جس کا فائدہ سرمایہ دار طبقہ بہت بے دردی سے اٹھا رہا ہے۔
میں نے یونہی بیٹھے بیٹھے حساب لگایا کہ اگر 20 لاکھ روپے فی عمارت/ مکان کی شرح سے کراچی کی صرف 1,000 عمارتوں کے مکینوں سے رقم بٹوری جائے تو یہ دو ارب روپے بنتے ہیں۔ اب اگر اسے بھتہ خوری نہ کہوں تو اور کیا کہوں؟
سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں سب سے مہنگی بجلی کراچی والوں کو 'کے الیکٹرک' کے توسط سے فروخت کی جاتی ہے۔ 2005 میں اپنی نجکاری سے لے کر آج تک یہ ادارہ مختلف حیلے بہانوں اور جعلسازیوں سے لوٹ مار میں مصروف ہے۔
آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ آخر اس ادارے کے 'اصل مالکان' کون ہیں اور وہ کون سا قانون ہے جس کے تحت اسے اتنی زیادہ مراعات دیتے ہوئے نجی شعبے کو فروخت کیا گیا ہے؟
اگر کسی صارف سے بل جمع کروانے میں تاخیر ہوجائے تو فوری طور پر جرمانہ (پینالٹی) ٹھونک دیا جاتا ہے لیکن کے الیکٹرک کی مجرمانہ غفلت ثابت کرنے میں ہمارے نظامِ انصاف کو بہت وقت گزر جاتا ہے۔
لیکن بقول غالب ''ہوِس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا'' کے مصداق، کے الیکٹرک والوں کا لالچ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ پچھلے پندرہ سولہ سال میں اہالیانِ کراچی سے ہزاروں ارب روپے لوٹنے اور بیرونِ ملک منتقل کرنے کے باوجود یہ ادارہ کراچی کے لوگوں سے وقت بے وقت 'پے مور' (Pay More) کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔
کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر تو کبھی بجلی چوری اور 'لائن لاسز' کے نام پر، نہ جانے کن کن طریقوں سے یہ نجی ادارہ اہلِ کراچی سے لوٹ مار میں مصروف ہے لیکن اس کے پیٹ کا جہنم بھرنے میں نہیں آرہا... نتیجتاً اس شہر میں رہنے والوں کی زندگی جہنم بنتی جارہی ہے۔
مجھے پوری طرح احساس ہے کہ 'ریاستِ مدینہ جدید' میں انصاف کی توقع کرنا فضول ہے کیونکہ میں بھی آپ سب کی طرح ایک عام شہری ہوں۔
اس کے باوجود، یہ ساری بپتا محض اس لیے لکھ دی ہے تاکہ یہ واقعہ ریکارڈ پر آجائے اور 'میرے عزیز ہم وطنوں' کو نجی شعبے کے ایک نئے فراڈ کا علم بھی ہوجائے... ایک ایسا فراڈ کہ جو ریاستی اداروں کی سرپرستی کے بغیر ناممکن ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔