ای او بی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں اربوں کی اراضی خلاف ضابطہ خریدنے کا انکشاف
اراضی اشتہار کے بغیر خریدی گئی جس کی پلاننگ بھی نہیں کی گئی، رپورٹ
ای او بی آئی کی جانب سے ڈی ایچ اے اسلام آباد میں15 ارب سے زائد لاگت کی 6 ہزار 426 مرلہ اراضی خلاف ضابطہ خریدنے کا انکشاف ہواہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کنوینئر ریاض فتیانہ کی سربراہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وزارت سمندر پار پاکستانی کے آڈٹ پیراز، ای او بی آئی کی جانب سے ڈی ایچ اے اسلام آباد میں خلاف ضابطہ زمینوں کی خریداری کا معاملہ زیر غور آیا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی نے 24 لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے 15 ارب سے زائد کی اراضی خریدی، جو 6 ہزار 426 مرلہ جگہ تھی، یہ اراضی اشتہار کے بغیر خریدی گئی جس کی پلاننگ بھی نہیں کی گئی، اس اراضی کی خریداری میں مسابقتی عمل بھی نہیں کیا گیا، اور زمین مالکان کو فائدہ پہنچایا گیا، ایف آئی اے حکام نے کہاکہ 2014 میں اس کے خلاف کیس رجسٹرڈ ہوا تھا یہ کیس چل رہا ہے۔
کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ اس کیس میں آپ وزیر اعظم کو سمری بھیجیں اور بڑا وکیل اس کیس کیلئے ہائر کریں، وزارت اورسیز پاکستانی نے کہا کہ ای او بی آئی کی پراپرٹیز کے 18 کیسز ہیں جو ایف آئی اے کے پاس ہیں، کمیٹی نے اگلے اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے کو ای او بی آئی کیسز پر طلب کر لیا، اور وزارت سمندر پار پاکستانی سے ای او بی آئی اراضی کیسز پر ایک ماہ میں تفیصلی رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔
کنوینئر کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 9 سال سے کیسز التوا کا شکار ہیں،اٹارنی جنرل عدالت اعظمی سے ان کیسز کو جلدی نمٹانے کی استدعا کریں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ای او بی آئی کے پاس اس وقت کتنا پیسہ پڑا ہے۔ جس پر ای او بی آئی کے حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی کی اس وقت 400 ارب سے زائد کی انوسمنٹ ہیں، 3.8 ارب ہر ماہ سوا 4 لاکھ پنشنرز کو دیتے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کنوینئر ریاض فتیانہ کی سربراہی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وزارت سمندر پار پاکستانی کے آڈٹ پیراز، ای او بی آئی کی جانب سے ڈی ایچ اے اسلام آباد میں خلاف ضابطہ زمینوں کی خریداری کا معاملہ زیر غور آیا، آڈٹ حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی نے 24 لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے 15 ارب سے زائد کی اراضی خریدی، جو 6 ہزار 426 مرلہ جگہ تھی، یہ اراضی اشتہار کے بغیر خریدی گئی جس کی پلاننگ بھی نہیں کی گئی، اس اراضی کی خریداری میں مسابقتی عمل بھی نہیں کیا گیا، اور زمین مالکان کو فائدہ پہنچایا گیا، ایف آئی اے حکام نے کہاکہ 2014 میں اس کے خلاف کیس رجسٹرڈ ہوا تھا یہ کیس چل رہا ہے۔
کنوینئر کمیٹی نے کہا کہ اس کیس میں آپ وزیر اعظم کو سمری بھیجیں اور بڑا وکیل اس کیس کیلئے ہائر کریں، وزارت اورسیز پاکستانی نے کہا کہ ای او بی آئی کی پراپرٹیز کے 18 کیسز ہیں جو ایف آئی اے کے پاس ہیں، کمیٹی نے اگلے اجلاس میں ڈی جی ایف آئی اے کو ای او بی آئی کیسز پر طلب کر لیا، اور وزارت سمندر پار پاکستانی سے ای او بی آئی اراضی کیسز پر ایک ماہ میں تفیصلی رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔
کنوینئر کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں 9 سال سے کیسز التوا کا شکار ہیں،اٹارنی جنرل عدالت اعظمی سے ان کیسز کو جلدی نمٹانے کی استدعا کریں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ای او بی آئی کے پاس اس وقت کتنا پیسہ پڑا ہے۔ جس پر ای او بی آئی کے حکام نے بتایا کہ ای او بی آئی کی اس وقت 400 ارب سے زائد کی انوسمنٹ ہیں، 3.8 ارب ہر ماہ سوا 4 لاکھ پنشنرز کو دیتے ہیں۔