قابل تعریف 10 وزارتیں
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمران خان نے کس ’’بہتر‘‘ کارکردگی پر 10 وفاقی وزرا کو تعریفی اسناد سے نوازا؟
وزیراعظم آفس میں منعقدہ تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے 10 وفاقی وزرا کو ان کی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر تعریفی اسناد سے نوازا۔ یہ تھی آج کی مزاحیہ اور دلچسپ خبر۔ لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ لطیفہ تو تب دکھائی دیا جب وزیرمواصلات مراد سعید کو اس فہرست میں پہلے نمبر پر رکھا گیا۔
جب وزیر مواصلات مراد سعید پہلے نمبر پر آئے ہیں تو ان کی وزارت اور کارکردگی کا ذکر بھی پہلے ہی ہونا چاہیے۔ تو جناب اکتوبر 2021 کو میں اپنے آبائی شہر جہلم گیا ہوا تھا۔ اتفاق سے ایک ذاتی مسئلہ درپیش ہوا اور مجھے کچھ ضروری ڈاکومنٹس انگلینڈ اپنی ہمشیرہ کو پہنچانے تھے۔ میں نے انتخاب کیا اپنے پیارے سے ادارے پاکستان پوسٹ آفس کا۔ قصہ مختصر کہ وہ ضروری کاغذات آج ساڑھے 4 ماہ گزر جانے کے باوجود بھی متعلقہ جگہ تک نہیں پہنچ سکے۔ تو یہ تھی وزارت مواصلات کی کارکردگی جس کا میں خود متاثر ہوں۔ باقی اگر کسی کو اعتراض ہوتو مجھے صرف اس سوال کا جواب دے دیں کہ اگر ہماری وزارت مواصلات کی کارکردگی اتنی ہی بہترین تھی تو نجی کمپنیاں اتنی کامیاب کیوں ہوگئیں۔ گزشتہ ادوار میں ہر گلی اور محلے میں ایک پوسٹ آفس ہوا کرتا تھا، لیکن آج یہ وقت ہے کہ ڈھونڈنے پر بھی پوسٹ آفس اور ڈاک کا ڈبہ نظر نہیں آتا۔ اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ یار خط و کتابت کا سلسلہ تو اب کم یا تقریباً ختم ہوچکا ہے تو میرا سوال پھر اسی جگہ موجود ہے کہ نجی کوریئر کمپنیاں جگہ جگہ اپنے دفاتر بناکر کیوں اپنا نقصان کررہی ہیں؟
وزارت مواصلات کا ایک اور کام سڑکوں کی تعمیرات ہیں، لیکن وزیر موصوف کو ساڑھے تین سال میں کسی بڑی سڑک کا افتتاح کرتے نہیں دیکھا گیا، بلکہ اس وزارت کے وزیر کی حیثیت تو کسی سرکاری دفتر میں بیٹھے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے والے کلرک جیسی ہے۔
وزارت منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ وہی وزیر موصوف ہیں جن کی اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک تقریر مشہور ہوئی تھی کہ ن لیگ پٹرول کے فی لیٹر پر کتنا ٹیکس لے رہی ہے۔ اور جب انہیں وزیرخزانہ بنایا گیا تو ان کا بیان ہی تبدیل ہوگیا اور ان کی جانب سے بیان آیا کہ پٹرول کی قیمتوں کا تعلق براہ راست حکومت کے بجائے عالمی منڈی سے ہوتا ہے۔ جب کہ خود اپنی وزارت میں صرف 8 ماہ گزار کر کنارہ کرگئے۔ ان کے بعد حفیظ شیخ کو یہ قلمدان سونپا گیا، جو ماضی کی حکومتوں کو خزانہ خالی کرنے کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے دو سال گزار گئے، جب کہ وہ خود ماضی میں پیپلزپارٹی کی جانب سے اسی منصب پر 3 سال تک براجمان رہے۔ اور ان کے بعد اسی وزارت پر پیپلزپارٹی کے ہی ماضی کے 2 سال تک رہنے والے وزیرخزانہ شوکت ترین کو فرائض سونپ دیے گئے۔ جب کہ اسد عمر یہی منصوبہ بندی کرتے دکھائے دیے کہ کب اسکول بند کرنے ہیں اور کب کھولنے ہیں۔
اب آجائیے تیسری وزارت سماجی تحفظ و تخفیفِ غربت کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کی جانب، جنہوں نے اب تک تقاریب کے انعقاد اور وزیراعظم کی تعریفوں کے گلدستے سمیٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ انہوں نے اپنی وزارت کی جانب سے اتنی تقاریب کا انعقاد کیا ہے کہ اگر ان تقاریب پر لگنے والے پیسے جمع کرلیے جائیں تو شاید ایک نیا علاقہ تیار ہوجائے، جہاں ہر قسم کی سہولت بھی میسر ہو۔ جہاں تک رہ گئی ان کی وزارت کی بات تو احساس پروگرام میں شامل ہونے کےلیے میسیج کے ذریعے اندراج کرایا گیا، اور اس میسیج پر 7 روپے سے زائد روپے بٹورے گئے۔ اور کچھ دنوں کے بعد جب رجسٹریشن کروانے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہوگئی تو اس وزارت کو احساس ہوا کہ میسیج کے پیسے لیے جارہے ہیں تو انہوں نے میسیج مفت کردیا۔ مطلب 7 کروڑ روپے سے زائد عوام کی جیبوں سے نکالنے کے بعد انہی کے پیسے قرعہ فال نکلنے والے عوام کو واپس لوٹا دیے گئے۔ اور ایسے افراد کو بھی احساس پروگرام میں سے حصہ ملا جو ہر سال لاکھوں روپے کی زکوٰۃ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسے چند لوگ میرے ذاتی مشاہدے میں بھی ہیں۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ احساس پروگرام کے تحت پیسے لٹانے کےلیے کون سے اعداد و شمار جمع کئے گئے تھے، یا کن بنیادوں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس منصوبے کی رقم اصل مستحق تک ہی پہنچی ہوگی؟
تو جناب چوتھے نمبر پر آنے والی وزارت ہے تعلیم۔ جی ہاں ان کے وزیر شفقت محمود کو دیکھتے ہی طلبا خصوصاً طلبہ کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، یہ وہی وزیر ہیں جنہوں نے دو سال ہاتھ پر ہاتھ رکھے ہوئے بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے والے طلبا کو بغیر کسی محنت کے اے اور اے ون گریڈ سے نوازا۔ گزشتہ دو برس تک ان کی وزارت کا کام بھی صرف اتنا تھا کہ کب اسکول کھولنے ہیں اور کب بند کرکے اگلا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اس دوران اس وزارت نے درجنوں ورچوئل کانفرنسز کا انعقاد کیا، اور اس میں تمام صوبوں کے سیکریٹریز نے شرکت کی۔ یہ ان کی وزارت کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ ان کی وزارت کا دوسرا بڑا کارنامہ یکساں قومی نصاب ہے، جو دراصل 2006 میں مشرف دور حکومت میں پیش کئے گئے قومی نصاب کی بھونڈی نقل ہے، اسی میں چند تبدیلیاں کرکے عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔
پانچویں نمبر پر آئی ہے شیریں مزاری کی وزارت انسانی حقوق۔ اس وزارت کی تعریف سننے کےلیے ہمیں عوام کی جانب جانا پڑے گا۔ لیکن ٹھہریئے! اس سے پہلے ہم چلتے ہیں ہیومن رائٹس کمیشن کی پاکستان کے حوالے سے رپورٹ کی جانب، جس میں کہا گیا ہے 2021 میں پاکستانی حکومت نے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے اوراختلافِ رائے کا گلا دبانے کی کوششوں میں تیزی لائی ہے۔ حکام نے سرکاری عہدیداروں اور پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنانے پر صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنان کو ہراساں کیا اور بعض اوقات حراست میں لیا۔ ذرائع ابلاغ کے لوگوں پر پُرتشدد حملے بھی جاری رہے۔ حکام نے اختلافِ رائے کو دبانے کےلیے غداری اور انسدادِ دہشت گردی قوانین کے اطلاق کا دائرہ وسیع کیا اور حکومتی کارروائیوں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والی سول سوسائٹی تنظیموں پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ حکام نے مخالف سیاسی جماعتوں کے اراکین اور حامیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا۔ لگتا ہے کہ یہ اور ان جیسے ہزاروں پرتشدد اقدامات ریاست مدینہ جدید کے نزدیک قابل تعریف اور لائق انعام ہیں۔ آئے روز ملک میں کاروکاری، عزت اور توہین مذہب کے نام پر قتل میں ہمیں وزارت انسانی حقوق تو کہیں نظر نہیں آئی، لیکن پارلیمنٹ میں اس وزارت کی وزیر شیریں مزاری اپوزیشن کو منہ چڑاتی ہوئی ضرور نظر آئیں، اور سوشل میڈیا پر بے پناہ مقبول ہوئیں۔
اب آئیے چھٹی وزارت صنعت و پیداوار کی طرف، جس کے وزیر خسرو بختیار ہیں۔ ان کی وزارت میں آٹے اور چینی کا ایسا بحران آیا کہ عوام 54 روپے کلو والی چینی 150 روپے میں خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ آٹا نایاب ہوگیا، اور خسرو بختار یہ بیان دیتے دکھائی دیئے کہ بس چند دنوں میں آٹے کی قیمتیں بہتر ہوجائیں گی۔ ان پر الزام ہے کہ ان کے ایک رشتہ دار نے آٹا اور چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گندم بحران کیس میں وزیر موصوف سے اپریل 2020 میں جواب بھی طلب کیا تھا، جب کہ چینی بحران پر بھی ان کا ریکارڈ طلب کیا گیا۔ گزشتہ برس بھی ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق اپیل سپریم کورٹ میں دائر ہوئی ہے۔ تو یہ تھی ہمارے وزیر خسرو بختیار کی کارکردگی، شاید اسی بنیاد پر انہیں بھی بہترین وزیر کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔
اب آئیے وزارت قومی سلامتی کی طرف، جس کے مشیر معید یوسف ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ ان کی وزارت امریکا، سعودی عرب، ایران اور چین کی دوستی کی طلبگار نظر آتی ہے، جب کہ وزیراعظم ہمیشہ یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں امریکا نے ہمیں صرف استعمال کیا اور ہماری قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ دوسری جانب امریکا کے ہوتے ہوئے چین کے ساتھ دوستی کے دعوے کرتے ہوئے واضح نہیں ہورہا کہ پاکستان اصل میں کس کا دوست اور کون پاکستان کا دوست ہے۔ سی پیک کا منصوبہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے رکا ہوا ہے اور بظاہر تو بیانات کے علاوہ کوئی بھی کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ چین سے دوستی کے گیت تو گائے جارہے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ واسو ڈیم سانحے کے بعد چین نے کام کرنے سے ہی انکار کردیا اور اپنے باشندوں کے ورثا کی پوری مالی معاونت وصول کی۔
وزیراعظم کی جانب سے جس وزارت کو آٹھواں درجہ ملا ہے اس کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد ہیں۔ ان کے بیانات آئے روز میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ چونکہ میرا تعلق بھی کراچی کے سے بڑے انڈسریل علاقے سائٹ کے قریب سے ہے، اور بیشتر دوست فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، تو ان کا آنکھوں دیکھا بیان یہ ہے کہ 2007 سے 2013 تک بھتہ خوری اور اغوا کے ڈر سے اتنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں جتنی ان 3 سال میں بند ہوئیں۔ حالات یہ ہیں کہ فیکٹری مالکان نے نقصان سے بچنے کےلیے مزدوروں کو نکالنا شروع کردیا ہے اور بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے بھی فیکٹریوں کو بند کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ٹیکسز کی بہتات کے باعث فیکٹری مالکان اب شپمنٹس بھیجنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔
نویں وزارت کے وزیر شیخ رشید ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ خود دعویٰ کرتے ہیں کہ اس حکومت سے پہلے وہ 15 سے 17 وزارتوں پر اپنے فرائض منصبی انجام دے چکے ہیں، جب کہ ان کی زبان پر ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کے گیت ہی سنائی دیتے ہیں۔ اگر ماضی کی حکومتوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے تو ان کی 15 یا 17 وزارتوں کا کتنا حصہ شامل ہوگا؟ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے ہیں، کیوں کہ ان کو ماضی کی وزارتوں پر نہیں بلکہ موجودہ وزارت داخلہ کی کارکردگی پر اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ تو جناب حالات سب کے سامنے ہیں، ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں لیکن پاک افغان سرحد پر باڑ کا کام مکمل نہیں ہوسکا اور افغانستان میں موجود دہشت گرد ہمارے فورسز کے جوانوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
بم دھماکوں اور دہشت گردانہ کاررائیوں کے علاوہ اسٹریٹ کرائم کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی اس وزارت پر سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں اس وقت وہی حالات پھر سے بن چکے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے نکلنے کے بعد واپس پہنچنے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہتے ہیں۔ ہر گلی اور کوچے میں موبائل اور موٹرسائیکل چھیننے اور مزاحمت پر فائرنگ سے قتل کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان کے حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوچکے ہیں، صوبے میں دہشت گرد ایک بار پھر سر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس طرح کی کارکردگی پر تعریفی اسناد سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر کسی اعزاز اور تمغے کے حق دار ہیں تو وہ شہدا جو وطن کی خاطر جان قربان کردیتے ہیں۔
فخر امام کی نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی وزارت آخری نمبر پر رہی۔ ان کی وزارت میں کھانے پینے کی تمام اشیا شامل ہیں۔ ساڑھے تین سال قبل 140 روپے فی کلو ملنے والا کھانے پکانے کا آئل آج 420 روپے تک کا ہوگیا ہے۔ آٹا 75 سے 80 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ دالیں اڑان بھر کر عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں، اور پنجاب میں گزشتہ دو ماہ سے کھاد نایاب ہوچکی ہے۔ اب کس کارکردگی پر اس وزارت کو تعریفی سند دی گئی یہ تو سند لینے والے یا سند دینے والے ہی بتاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب وزیر مواصلات مراد سعید پہلے نمبر پر آئے ہیں تو ان کی وزارت اور کارکردگی کا ذکر بھی پہلے ہی ہونا چاہیے۔ تو جناب اکتوبر 2021 کو میں اپنے آبائی شہر جہلم گیا ہوا تھا۔ اتفاق سے ایک ذاتی مسئلہ درپیش ہوا اور مجھے کچھ ضروری ڈاکومنٹس انگلینڈ اپنی ہمشیرہ کو پہنچانے تھے۔ میں نے انتخاب کیا اپنے پیارے سے ادارے پاکستان پوسٹ آفس کا۔ قصہ مختصر کہ وہ ضروری کاغذات آج ساڑھے 4 ماہ گزر جانے کے باوجود بھی متعلقہ جگہ تک نہیں پہنچ سکے۔ تو یہ تھی وزارت مواصلات کی کارکردگی جس کا میں خود متاثر ہوں۔ باقی اگر کسی کو اعتراض ہوتو مجھے صرف اس سوال کا جواب دے دیں کہ اگر ہماری وزارت مواصلات کی کارکردگی اتنی ہی بہترین تھی تو نجی کمپنیاں اتنی کامیاب کیوں ہوگئیں۔ گزشتہ ادوار میں ہر گلی اور محلے میں ایک پوسٹ آفس ہوا کرتا تھا، لیکن آج یہ وقت ہے کہ ڈھونڈنے پر بھی پوسٹ آفس اور ڈاک کا ڈبہ نظر نہیں آتا۔ اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ یار خط و کتابت کا سلسلہ تو اب کم یا تقریباً ختم ہوچکا ہے تو میرا سوال پھر اسی جگہ موجود ہے کہ نجی کوریئر کمپنیاں جگہ جگہ اپنے دفاتر بناکر کیوں اپنا نقصان کررہی ہیں؟
وزارت مواصلات کا ایک اور کام سڑکوں کی تعمیرات ہیں، لیکن وزیر موصوف کو ساڑھے تین سال میں کسی بڑی سڑک کا افتتاح کرتے نہیں دیکھا گیا، بلکہ اس وزارت کے وزیر کی حیثیت تو کسی سرکاری دفتر میں بیٹھے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے والے کلرک جیسی ہے۔
وزارت منصوبہ بندی کے وزیر اسد عمر کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ وہی وزیر موصوف ہیں جن کی اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایک تقریر مشہور ہوئی تھی کہ ن لیگ پٹرول کے فی لیٹر پر کتنا ٹیکس لے رہی ہے۔ اور جب انہیں وزیرخزانہ بنایا گیا تو ان کا بیان ہی تبدیل ہوگیا اور ان کی جانب سے بیان آیا کہ پٹرول کی قیمتوں کا تعلق براہ راست حکومت کے بجائے عالمی منڈی سے ہوتا ہے۔ جب کہ خود اپنی وزارت میں صرف 8 ماہ گزار کر کنارہ کرگئے۔ ان کے بعد حفیظ شیخ کو یہ قلمدان سونپا گیا، جو ماضی کی حکومتوں کو خزانہ خالی کرنے کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے دو سال گزار گئے، جب کہ وہ خود ماضی میں پیپلزپارٹی کی جانب سے اسی منصب پر 3 سال تک براجمان رہے۔ اور ان کے بعد اسی وزارت پر پیپلزپارٹی کے ہی ماضی کے 2 سال تک رہنے والے وزیرخزانہ شوکت ترین کو فرائض سونپ دیے گئے۔ جب کہ اسد عمر یہی منصوبہ بندی کرتے دکھائے دیے کہ کب اسکول بند کرنے ہیں اور کب کھولنے ہیں۔
اب آجائیے تیسری وزارت سماجی تحفظ و تخفیفِ غربت کی معاون خصوصی ثانیہ نشتر کی جانب، جنہوں نے اب تک تقاریب کے انعقاد اور وزیراعظم کی تعریفوں کے گلدستے سمیٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ انہوں نے اپنی وزارت کی جانب سے اتنی تقاریب کا انعقاد کیا ہے کہ اگر ان تقاریب پر لگنے والے پیسے جمع کرلیے جائیں تو شاید ایک نیا علاقہ تیار ہوجائے، جہاں ہر قسم کی سہولت بھی میسر ہو۔ جہاں تک رہ گئی ان کی وزارت کی بات تو احساس پروگرام میں شامل ہونے کےلیے میسیج کے ذریعے اندراج کرایا گیا، اور اس میسیج پر 7 روپے سے زائد روپے بٹورے گئے۔ اور کچھ دنوں کے بعد جب رجسٹریشن کروانے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہوگئی تو اس وزارت کو احساس ہوا کہ میسیج کے پیسے لیے جارہے ہیں تو انہوں نے میسیج مفت کردیا۔ مطلب 7 کروڑ روپے سے زائد عوام کی جیبوں سے نکالنے کے بعد انہی کے پیسے قرعہ فال نکلنے والے عوام کو واپس لوٹا دیے گئے۔ اور ایسے افراد کو بھی احساس پروگرام میں سے حصہ ملا جو ہر سال لاکھوں روپے کی زکوٰۃ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایسے چند لوگ میرے ذاتی مشاہدے میں بھی ہیں۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ احساس پروگرام کے تحت پیسے لٹانے کےلیے کون سے اعداد و شمار جمع کئے گئے تھے، یا کن بنیادوں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس منصوبے کی رقم اصل مستحق تک ہی پہنچی ہوگی؟
تو جناب چوتھے نمبر پر آنے والی وزارت ہے تعلیم۔ جی ہاں ان کے وزیر شفقت محمود کو دیکھتے ہی طلبا خصوصاً طلبہ کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، یہ وہی وزیر ہیں جنہوں نے دو سال ہاتھ پر ہاتھ رکھے ہوئے بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے والے طلبا کو بغیر کسی محنت کے اے اور اے ون گریڈ سے نوازا۔ گزشتہ دو برس تک ان کی وزارت کا کام بھی صرف اتنا تھا کہ کب اسکول کھولنے ہیں اور کب بند کرکے اگلا لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ اس دوران اس وزارت نے درجنوں ورچوئل کانفرنسز کا انعقاد کیا، اور اس میں تمام صوبوں کے سیکریٹریز نے شرکت کی۔ یہ ان کی وزارت کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ ان کی وزارت کا دوسرا بڑا کارنامہ یکساں قومی نصاب ہے، جو دراصل 2006 میں مشرف دور حکومت میں پیش کئے گئے قومی نصاب کی بھونڈی نقل ہے، اسی میں چند تبدیلیاں کرکے عوام کے سامنے پیش کردیا گیا۔
پانچویں نمبر پر آئی ہے شیریں مزاری کی وزارت انسانی حقوق۔ اس وزارت کی تعریف سننے کےلیے ہمیں عوام کی جانب جانا پڑے گا۔ لیکن ٹھہریئے! اس سے پہلے ہم چلتے ہیں ہیومن رائٹس کمیشن کی پاکستان کے حوالے سے رپورٹ کی جانب، جس میں کہا گیا ہے 2021 میں پاکستانی حکومت نے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے اوراختلافِ رائے کا گلا دبانے کی کوششوں میں تیزی لائی ہے۔ حکام نے سرکاری عہدیداروں اور پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنانے پر صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنان کو ہراساں کیا اور بعض اوقات حراست میں لیا۔ ذرائع ابلاغ کے لوگوں پر پُرتشدد حملے بھی جاری رہے۔ حکام نے اختلافِ رائے کو دبانے کےلیے غداری اور انسدادِ دہشت گردی قوانین کے اطلاق کا دائرہ وسیع کیا اور حکومتی کارروائیوں اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والی سول سوسائٹی تنظیموں پر سخت پابندیاں عائد کیں۔ حکام نے مخالف سیاسی جماعتوں کے اراکین اور حامیوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا۔ لگتا ہے کہ یہ اور ان جیسے ہزاروں پرتشدد اقدامات ریاست مدینہ جدید کے نزدیک قابل تعریف اور لائق انعام ہیں۔ آئے روز ملک میں کاروکاری، عزت اور توہین مذہب کے نام پر قتل میں ہمیں وزارت انسانی حقوق تو کہیں نظر نہیں آئی، لیکن پارلیمنٹ میں اس وزارت کی وزیر شیریں مزاری اپوزیشن کو منہ چڑاتی ہوئی ضرور نظر آئیں، اور سوشل میڈیا پر بے پناہ مقبول ہوئیں۔
اب آئیے چھٹی وزارت صنعت و پیداوار کی طرف، جس کے وزیر خسرو بختیار ہیں۔ ان کی وزارت میں آٹے اور چینی کا ایسا بحران آیا کہ عوام 54 روپے کلو والی چینی 150 روپے میں خریدنے پر مجبور ہوگئے۔ آٹا نایاب ہوگیا، اور خسرو بختار یہ بیان دیتے دکھائی دیئے کہ بس چند دنوں میں آٹے کی قیمتیں بہتر ہوجائیں گی۔ ان پر الزام ہے کہ ان کے ایک رشتہ دار نے آٹا اور چینی بحران سے 45 کروڑ روپے کمائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گندم بحران کیس میں وزیر موصوف سے اپریل 2020 میں جواب بھی طلب کیا تھا، جب کہ چینی بحران پر بھی ان کا ریکارڈ طلب کیا گیا۔ گزشتہ برس بھی ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق اپیل سپریم کورٹ میں دائر ہوئی ہے۔ تو یہ تھی ہمارے وزیر خسرو بختیار کی کارکردگی، شاید اسی بنیاد پر انہیں بھی بہترین وزیر کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔
اب آئیے وزارت قومی سلامتی کی طرف، جس کے مشیر معید یوسف ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ ان کی وزارت امریکا، سعودی عرب، ایران اور چین کی دوستی کی طلبگار نظر آتی ہے، جب کہ وزیراعظم ہمیشہ یہی کہتے دکھائی دیتے ہیں امریکا نے ہمیں صرف استعمال کیا اور ہماری قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا۔ دوسری جانب امریکا کے ہوتے ہوئے چین کے ساتھ دوستی کے دعوے کرتے ہوئے واضح نہیں ہورہا کہ پاکستان اصل میں کس کا دوست اور کون پاکستان کا دوست ہے۔ سی پیک کا منصوبہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے رکا ہوا ہے اور بظاہر تو بیانات کے علاوہ کوئی بھی کام ہوتا نظر نہیں آرہا۔ چین سے دوستی کے گیت تو گائے جارہے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ واسو ڈیم سانحے کے بعد چین نے کام کرنے سے ہی انکار کردیا اور اپنے باشندوں کے ورثا کی پوری مالی معاونت وصول کی۔
وزیراعظم کی جانب سے جس وزارت کو آٹھواں درجہ ملا ہے اس کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد ہیں۔ ان کے بیانات آئے روز میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ چونکہ میرا تعلق بھی کراچی کے سے بڑے انڈسریل علاقے سائٹ کے قریب سے ہے، اور بیشتر دوست فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں، تو ان کا آنکھوں دیکھا بیان یہ ہے کہ 2007 سے 2013 تک بھتہ خوری اور اغوا کے ڈر سے اتنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں جتنی ان 3 سال میں بند ہوئیں۔ حالات یہ ہیں کہ فیکٹری مالکان نے نقصان سے بچنے کےلیے مزدوروں کو نکالنا شروع کردیا ہے اور بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ جب کہ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ نے بھی فیکٹریوں کو بند کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ ٹیکسز کی بہتات کے باعث فیکٹری مالکان اب شپمنٹس بھیجنے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔
نویں وزارت کے وزیر شیخ رشید ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ خود دعویٰ کرتے ہیں کہ اس حکومت سے پہلے وہ 15 سے 17 وزارتوں پر اپنے فرائض منصبی انجام دے چکے ہیں، جب کہ ان کی زبان پر ماضی کی حکومتوں کی نااہلی کے گیت ہی سنائی دیتے ہیں۔ اگر ماضی کی حکومتوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے تو ان کی 15 یا 17 وزارتوں کا کتنا حصہ شامل ہوگا؟ یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتے ہیں، کیوں کہ ان کو ماضی کی وزارتوں پر نہیں بلکہ موجودہ وزارت داخلہ کی کارکردگی پر اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ تو جناب حالات سب کے سامنے ہیں، ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں لیکن پاک افغان سرحد پر باڑ کا کام مکمل نہیں ہوسکا اور افغانستان میں موجود دہشت گرد ہمارے فورسز کے جوانوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
بم دھماکوں اور دہشت گردانہ کاررائیوں کے علاوہ اسٹریٹ کرائم کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی اس وزارت پر سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں اس وقت وہی حالات پھر سے بن چکے ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے نکلنے کے بعد واپس پہنچنے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہتے ہیں۔ ہر گلی اور کوچے میں موبائل اور موٹرسائیکل چھیننے اور مزاحمت پر فائرنگ سے قتل کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے بلوچستان کے حالات ایک بار پھر کشیدہ ہوچکے ہیں، صوبے میں دہشت گرد ایک بار پھر سر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس طرح کی کارکردگی پر تعریفی اسناد سمجھ سے بالاتر ہے۔ اگر کسی اعزاز اور تمغے کے حق دار ہیں تو وہ شہدا جو وطن کی خاطر جان قربان کردیتے ہیں۔
فخر امام کی نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی وزارت آخری نمبر پر رہی۔ ان کی وزارت میں کھانے پینے کی تمام اشیا شامل ہیں۔ ساڑھے تین سال قبل 140 روپے فی کلو ملنے والا کھانے پکانے کا آئل آج 420 روپے تک کا ہوگیا ہے۔ آٹا 75 سے 80 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ دالیں اڑان بھر کر عوام کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں، اور پنجاب میں گزشتہ دو ماہ سے کھاد نایاب ہوچکی ہے۔ اب کس کارکردگی پر اس وزارت کو تعریفی سند دی گئی یہ تو سند لینے والے یا سند دینے والے ہی بتاسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔