دہشت گردی اور پاک فوج کا عزم

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل سفر طے کیا ہے

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل سفر طے کیا ہے

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل سفر طے کیا ہے ، دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی ، دہشت گردوں کی باقیات ، ان کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کا ہر قیمت پر خاتمہ کیا جائے گا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت 247 ویں کور کمانڈر کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوئی ، جس میں ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال بالخصوص بلوچستان میں حالیہ واقعات سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ کانفرنس میں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات سے بھی آگاہ کیا گیا ، کور کمانڈر کانفرنس میں ملک کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اپنی سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ایک طویل ترین جنگ میں افواج پاکستان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ وطن عزیزکو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے لیے دہشت گردوں اور شر پسندوںکو شہ دی جارہی ہے اور اس ملک کو میدان جنگ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جنگ کے اس آخری راؤنڈ میں بھی پاکستان کے دشمنوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کورکمانڈرکانفرنس کے مندرجات ، اقدامات اور حکمت عملی کا تعین کرنا صائب ہے۔ پاکستان کے امن کو تہہ وبالا کرنے کے لیے سازشیں ایک بار پھر زور پکڑگئی ہیں۔ پاکستان اس وقت سخت تکلیف دہ صورتحال سے گزر رہا ہے مگر یہ سب کچھ وقتی ہے ، کیونکہ افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے ، دہشت گردی کے حالیہ واقعات پریشان کن ضرور ہیں لیکن ان پر بہت جلد قابو پانے کی صلاحیت ہماری افواج میں ہے۔

افغانستان اور پاکستان کی سرحد پر حفاظتی باڑکا برقرار رہنا ملک کے دفاع کے لیے انتہائی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے ، اس طرح دہشت گردوں کی افغانستان اور پاکستان میں آزادانہ نقل و حرکت پرقابو پانے میں خاطر خواہ کامیابی ملی ہے۔اگرچہ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملوں میں اضافہ کیا ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے درمیان اتحاد ہورہا ہے اور یہ مل کر پاکستان میں کارروائیاں کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دونوں گروپ زیادہ تر سرحدی علاقے میں متحرک ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں جہاں سے ان کا صفایا کیا جا چکا تھا وہ وہاں دوبارہ متحرک ہونے کی کوشش میں ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کی صلاحیت اب پہلے جیسی نہیں ہے ، یہی حال بی ایل اے کا ہے، لیکن یہ اب بھی وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کے در پر ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کی کارروائی کو انسداد دہشت گردی کی کامیاب مہم تصور کیا جاتا ہے۔

امریکی افواج کا افغانستان سے انخلا بھی پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوا ، جس میں پاکستان ، طالبان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرکے انھیں مذاکرات کی میز پر لایا۔ کچھ عرصہ قبل امریکا نے ایک حساس نوعیت کا معاہدہ بھارت سے کیا ہے۔

چین کے مفادات پاکستان میں سی پیک راہداری کے ساتھ ہیں، سی پیک کا بڑا حصہ بلوچستان میں ہے اور بھارت کو امریکا کی جانب سے اجازت مل گئی ہے کہ وہ چین کو نقصان پہنچانے کے نام پر پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کرے، کیونکہ بھارت اور امریکا میں یہ معاہدہ ہوا ہے کہ بھارت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو کم کرے گا۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے ، اسی پس منظر میں امریکی ذرایع ابلاغ کو اب بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نظر آنے لگی ہے اور دہشت گردی کے تازہ ترین واقعات میں افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔


اس لیے پاکستانی سپاہیوں کی شہادت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ فارکانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیزکی رپورٹ کے مطابق 2021 میں بلوچستان میں سب سے زیادہ حملے کیے گئے۔ یہاں عسکریت پسندوں کے 104 حملوں میں 177 افراد ہلاک ہوئے۔ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پاکستانی قبائلی ایجنسیوں کا تھا۔ یہاں 103 حملوں میں 117 افراد ہلاک ہوئے ، جب کہ چند پیشتر بھی بلوچستان کے علاقوں پنجگور اورنوشگی میں دہشت گردوں نے بڑے حملے کیے ۔

بھارت کی سرحدیں پاکستان کے صوبے بلوچستان سے نہیں ملتیں لیکن افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ۔ بھارت کی بھی خواہش ہے کہ بلوچستان میں حالات خراب رہیں، مقبوضہ کشمیرکی تحریک آزادی کی آواز کو دبایا جاسکے ۔

بھارت کی نظریں قیام پاکستان کے وقت ہی سے بلوچستان پر ہیں لیکن امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ نے بھارت کے اس مقصد کو مزید ہوا دے دی ہے۔ نومبر 2020 کی بات ہے ، جب خطے میں ایک ایسی ڈویلپمنٹ نظروں سے اوجھل رہی جس کا تعلق پاکستان کی سلامتی سے تھا۔ یہ ڈویلپمنٹ امریکا اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدے کی صورت میں امریکی صدارتی الیکشن سے کچھ روز قبل پراسرار طریقے سے ہوئی جس پر دستخط کے لیے امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع اچانک بھارت گئے اور''بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ معاہدے پر دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع نے دستخط کیے۔

معاہدے کے تحت امریکا، بھارت کو جیو اسپیشل انٹیلی جنس یعنی سیٹلائٹ کے ذریعے حاصل کی جانے والی خفیہ جغرافیائی معلومات فراہم کرے گا۔ اس طرح اِن حساس سیٹلائٹ معلومات کے بعد بھارت کے پاس پاکستان کے تمام حساس مقامات کی معلومات آجائیں گی جس سے ہمارے بیلسٹک میزائل سمیت تمام خفیہ تنصیبات کا پتا چلایا جاسکے گا۔

بھارت کو فراہم کیے گئے امریکی سیٹلائٹ ڈیٹا کی معلومات سے بھارت کو خودکار میزائل اور مسلح ڈرون کو درست مقامات پر نشانہ لگانے میں مدد ملے گی جس کے ذریعے بھارت، پاکستان کی میزائل تنصیبات کو باآسانی نشانہ بناسکتا ہے۔ یہ امریکی انتظامیہ کی اْن کوششوں کا حصہ ہے جس کے ذریعے امریکا اپنے اتحادیوں کو چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھارت سے معاہدے کرنا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکا بھارت کو خطے کا چوہدری دیکھنا چاہتا ہے۔

امریکا کی خواہش ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان جنگی صورتحال پیدا کی جائے تاکہ چین کو جنگ میں الجھا کرکمزورکیا جاسکے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ بھارت اس سے قبل بھی امریکا کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرچکا ہے جس کی رو سے دونوں ممالک ایک دوسرے کے دفاعی اڈوں کو استعمال کرسکیں گے۔ امریکا، بھارت حساس نوعیت کے دفاعی معاہدے پر چین شدید تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے لیے نقصان دہ اور بھارت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ معاہدے کے تحت بھارت کو امریکی فوجی ہارڈویئر، ٹیکنالوجیز اور معلومات کی فراہمی علاقائی استحکام بالخصوص پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ پاکستان نے جس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا اور نائن الیون کے بعد پاکستان، امریکا کو دہشت گردوں سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل قربانیاں دیتا رہا ہے جس میں پاکستان کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ امریکا سمیت عالمی دنیا افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کرے تاکہ افغان عوام کسی بڑے المیے یا انسانی بحران سے بچ سکیں ، وزیراعظم عمران خان متعدد بار عالمی برادری کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروا چکے ہیں ، لیکن تاحال صورتحال میں خاص بہتری نہیں آئی ہے ۔

پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑی ہے ، یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے ، بلکہ جاری ہے ،کیونکہ بد قسمتی سے ہمارے میں ابھی تک غیرملکی دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آپس کے اختلافات کو بھلا کر ملی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور دشمن کے خلاف ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں ، تاکہ وہ اپنے عزائم میں ناکام و نامراد رہے۔
Load Next Story