پرویز مشرف غداری کیس میں عدالت کے سامنے پیش فرد جرم عائد نہ ہوسکی
جمعے کوعدالت کےاختیارسےمتعلق درخواست پر فیصلہ سنایا جائے گا جس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ ہوگا، عدالتی ریمارکس
سابق صدر پرویز مشرف سخت سیکیورٹی انتظامات میں اپنے خلاف غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت میں پیش ہوگئے تاہم ان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر عدالت میں مہمند ایجنسی میں ایف سی اہلکاروں کی شہادت پر فاتحہ خوانی کرائی گئی۔ کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس فیصل عرب نے سابق صدر کے وکیل سے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کب پیش ہوں گے، جس پر ان کے وکیل انور منصور نے کہا کہ پرویز مشرف کی عدالت آمد کا درست وقت نہیں بتا سکتے ، ان کی آمد کےبارے میں وقت کا تعین سیکیورٹی حکام کریں گے۔
عدالت میں سابق صدر کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کے لئے درخواست کی سماعت ہوئی تو سابق صدر کے وکیل انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ 1977 میں آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی تھی وہ ابھی تک موثر قانون ہے، جس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر سویلین حکومت آئین کی پامالی کرے تو بھی مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا؟، جواب میں انور منصور نے کہا کہ وہ اس وقت جس کا مقدمہ لڑ رہے ہیں وہ یہ اقدام کرتے وقت فوجی وردی میں تھا تاہم ان کی ذاتی رائے ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت کسی سول شہری کے خلاف بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور غداری ایکٹ کے مطابق جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزائے موت یا عمر قید ہو سکتی ہے، انور منصور کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
وقفے کے بعد عدالت کی جانب سے سابق صدر کی پیشی کے سلسلے میں استفسار پر انور منصور نے کہا کہ پرویز مشرف عدالت میں حاضر ہونے کے لئے اے ایف آئی سی میں اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ایس ایس پی اسلام آباد نے ان کی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں لینے سے انکار کردیا ہے، پرویز مشرف کو لانے کے لئے عدالت پولیس کو ہدایت جاری کرے جس پر وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف زیر حراست نہیں بلکہ آزاد شہری ہیں۔ مسئلہ اے ایف آئی سی کے کمانڈنٹ ہیں وہ کہتے ہیں لکھ کر دیں مشرف کو کون لے جارہا ہے۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف ان کی حراست میں نہیں تو اس صورت میں وہ انہیں وصول بھی نہیں کرسکتی۔ خصوصی عدالت کی جانب سے وزارت داخلہ سے بات کرنے کے بعد سابق صدر کو سخت سیکیورٹی میں اے ایف آئی سی سے خصوصی عدالت میں لایا گیا۔
عدالت کے سامنے پیش ہونے پر جسٹس فیصل عرب نے پرویز مشرف سے کہا کہ قانون کے مطابق ملزم کی موجودگی میں فرد جرم عائد کی جاتی ہے جس پر ان کے وکیل انور منصور نے کہا کہ خصوصی عدالت کے اختیار کار سے متعلق درخواست زیر سماعت ہے اس لئے فیصلے سے قبل فرد جرم نہ سنائی جائے جس پر عدالت نے جمعے تک سماعت ملتوی کردی ۔ اپنے مختصر فیصلے میں عدال؛ت نے کہا ہے کہ فیصلے کے بعد ان پر فرد جرم سنائے جانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر عدالت میں مہمند ایجنسی میں ایف سی اہلکاروں کی شہادت پر فاتحہ خوانی کرائی گئی۔ کیس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس فیصل عرب نے سابق صدر کے وکیل سے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کب پیش ہوں گے، جس پر ان کے وکیل انور منصور نے کہا کہ پرویز مشرف کی عدالت آمد کا درست وقت نہیں بتا سکتے ، ان کی آمد کےبارے میں وقت کا تعین سیکیورٹی حکام کریں گے۔
عدالت میں سابق صدر کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کے لئے درخواست کی سماعت ہوئی تو سابق صدر کے وکیل انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ 1977 میں آرمی ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی تھی وہ ابھی تک موثر قانون ہے، جس پر جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر سویلین حکومت آئین کی پامالی کرے تو بھی مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا؟، جواب میں انور منصور نے کہا کہ وہ اس وقت جس کا مقدمہ لڑ رہے ہیں وہ یہ اقدام کرتے وقت فوجی وردی میں تھا تاہم ان کی ذاتی رائے ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت کسی سول شہری کے خلاف بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور غداری ایکٹ کے مطابق جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزائے موت یا عمر قید ہو سکتی ہے، انور منصور کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
وقفے کے بعد عدالت کی جانب سے سابق صدر کی پیشی کے سلسلے میں استفسار پر انور منصور نے کہا کہ پرویز مشرف عدالت میں حاضر ہونے کے لئے اے ایف آئی سی میں اپنی گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ایس ایس پی اسلام آباد نے ان کی سیکیورٹی کی ذمہ داریاں لینے سے انکار کردیا ہے، پرویز مشرف کو لانے کے لئے عدالت پولیس کو ہدایت جاری کرے جس پر وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف زیر حراست نہیں بلکہ آزاد شہری ہیں۔ مسئلہ اے ایف آئی سی کے کمانڈنٹ ہیں وہ کہتے ہیں لکھ کر دیں مشرف کو کون لے جارہا ہے۔ پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف ان کی حراست میں نہیں تو اس صورت میں وہ انہیں وصول بھی نہیں کرسکتی۔ خصوصی عدالت کی جانب سے وزارت داخلہ سے بات کرنے کے بعد سابق صدر کو سخت سیکیورٹی میں اے ایف آئی سی سے خصوصی عدالت میں لایا گیا۔
عدالت کے سامنے پیش ہونے پر جسٹس فیصل عرب نے پرویز مشرف سے کہا کہ قانون کے مطابق ملزم کی موجودگی میں فرد جرم عائد کی جاتی ہے جس پر ان کے وکیل انور منصور نے کہا کہ خصوصی عدالت کے اختیار کار سے متعلق درخواست زیر سماعت ہے اس لئے فیصلے سے قبل فرد جرم نہ سنائی جائے جس پر عدالت نے جمعے تک سماعت ملتوی کردی ۔ اپنے مختصر فیصلے میں عدال؛ت نے کہا ہے کہ فیصلے کے بعد ان پر فرد جرم سنائے جانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔