بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
محسن عالمین ﷺ
مرتب : عبدالاحد حقانی، قیمت : 500روپے،ناشر : المجاہد پبلشرز
ایم بلاک ٹرسٹ پلازہ گوجرانوالہ، رابطہ نمبر : 03006450283
اسلام دین فطرت و رحمت ہے۔ حضور ﷺ رحمۃ اللعالمین اور خاتم النبیین ہیں۔ ان کی حیات مبارکہ کو خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں دنیا کے تمام انسانوں کے لئے بہترین اسوہ قرار دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا کو تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی جتنی زیادہ ضرورت ہے، شاید کبھی نہ تھی۔ ٹوٹی پھوٹی دنیا ، غموں سے چور دنیا، مسائل کے انبار تلے دبی ہوئی دنیا ۔ پریشان حال دنیا۔
زیرنظر کتاب مذکورہ بالا مقصد کے پیش نظر ہی لکھی گئی ہے۔ یہ دراصل مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان مضامین میں جدت بھی ہے اور تنوع بھی۔ ان مضامین کو جمع کیا گیا تو وہ تین حصوں میں تقسیم ہوکر سامنے آئے۔ پہلے حصے میں سیرت طیبہ کے کئی اہم گوشے دل کش اسلوب بیان میں قلم بند کیے گئے ہیں ۔
چند ایک موضوعات درج ذیل ہیں : ماہ ربیع الاول اور ولادت نبوی ﷺ کا پیغام ۔ سرکار دو عالم ﷺ کی آمد اور اسوہ نبویﷺ کا پیغام ۔ میلاد النبی ﷺ اور اس کے تقاضے ۔ اصحاب محمدﷺ اور اصحاب مسیح علیہ السلام ، ایک تقابلی جائزہ ۔ اسلام سے وابستگی اور اس کے بنیادی تقاضے ، عصر حاضر کے حوالے سے ایک جائزہ ۔ حکمت معراج النبی ﷺ ۔
مفاہمت اور اتحاد و یگانگت کی ضرورت و اہمیت ، سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں ۔ تعلیمات نبوی ﷺ اور عصرحاضر میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل ۔ تعلیمات نبوی ﷺ میں دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی اور عصر حاضر میں اس کی ضرورت و اہمیت ۔ سیدالمرسلین ﷺ کے پیغام کی آفاقیت اور عدل اجتماعی اور سیرت رسولﷺ ۔ دوسرا حصہ ' عدل نامہ رسولﷺ ' ہے۔ یہ منظوم نثریہ کلام ہے۔ اس میں انوکھے انداز میں تعلیمات نبوی ﷺ کو پیش کیا گیا ہے ۔
تیسرے حصے میں رسول اللہ ﷺ کے اہم معاہدات کا متن مع ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ مثلا ً متن میثاق مدینہ ، متن صلح حدیبیہ، نصاریٰ نجران کے ساتھ معاہدہ کا متن اور متن خطبہ حجۃ الوداع ۔ ان معاہدات کی شمولیت سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے ۔ امید ہے کہ اس کتاب سے ایک دنیا استفادہ کرے گی ۔
100 انسانی تہذیب کے معمار
مصنف : ول ڈیورانٹ ،قیمت : 1500 روپے
ناشر : بک کارنر ، جہلم ، (واٹس ایپ نمبر : 03215440882 )
زیر نظر کتاب دراصل معروف امریکی فلسفی، تاریخ دان اور مورخ ول جیمز ڈیورانٹ کی مشہور کتاب ' دی سٹوری آف سویلائزیشن' سے ماخوذ ہے۔ ول ڈیورانٹ نے یہ کتاب اپنی اہلیہ ایرئیل ڈیورانٹ کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھی تھی۔ اصل کتاب گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتاب چارعشروں میں مکمل ہوئی۔ برسوں تک یہ تیزی سے فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل رہی۔ دنیا کی 9 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ اب تک 20لاکھ سے زائد جلدیں فروخت ہوئیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ نسل انسانی کی متحدہ تاریخ ہے۔ یہ تہذیب کی سوانح ہے جس میں نسل انسانی پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کرنے والی مندرجہ ذیل شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے:
حمورابی ، سولون ، زرتشت ، گوتم بدھ ، کنفیوشس ، لائوتزو ، پیریکلیز ، یوری پیڈیز، سقراط، افلاطون اور ارسطو، بقراط، سکندر اعظم، چندرگپت موریہ، اشوک اعظم، سیزراعظم، آگسٹس، یسوع مسیح ، مارکس آریلیئس، حضرت محمد ﷺ ، لی پو، شارلیمان، ہارون الرشید ، ابن سینا ، ولیم فاتح ، عمرخیام ، ابن رشد ، موززمیمونائیڈز ، صلاح الدین ایوبی، سعدی شیرازی ، دانتے، حافظ شیرازی ، کرسٹوفر کولمبس ، لیونارڈ دوانچی، میکیا ویلی، ڈیسیڈرئیس ایراسمس ، نکولاس کاپرنیکس ، مائیکل اینجلو، ٹامس مور، رافیل، مارٹن لوتھر، سلیمان عالیشان، ملکہ ایلزبتھ ، اکبر اعظم ، فرانسس بیکن ، ولیم شیکسپئیر ، گلیلیو گلیلی ،
جوہانس کپلر ، جان ڈن ، روبنز ، شاہ عباس الاعظم ، ٹامس ہوبز ، رینے ڈیکارٹ ، ریمبرانت ، جان ملٹن ، مولیئخ ، بلیز پاسکل ، جان ڈرائیڈن ، باروک ڈی سپنوزا، جان لاک ، آئزک نیوٹن ، ولہلم لائبنز ، پئیربیل ، ڈینئیل ڈیفو ، جوناتھن سوئفٹ ، یوہان سباسٹیئن باخ ، جارج برکلی ، الیگزئینڈر پوپ ، وولٹئیر ، پیٹراعظم ، سیموئیل جانسن ، ڈیوڈ ہیوم ، ژاں ژاکس روسو ،
فریڈرک اعظم ، ڈینی دیدرو، ہیلویٹیئس ، ایمانوئیل کانٹ ، موززمینڈل سوہن ، کیتھرین اعظم ، جوزف پریسٹلے ، ایڈورڈگبن ، ٹامس پین ، ولیم ہرشیل ، انٹوائن لوائزیے ، لیمارک ، ڈی گویا ، اماڈیوس موتزارٹ ، جیریمی بینتھم ، لاپلیس ، وولف گینگ گوئٹے ، ولیم بلیک ، میری وولسٹون کرافٹ ، نپولین بوناپارٹ ، بیتھوون ، ولہلم ہیگل ، ولیم ورڈز ورتھ ، سیموئیل ٹیلر کولرج ، لارڈ بائرن ، پی بی شیلی اور موہن داس گاندھی ہیں۔
زیر نظر کتاب میں شخصیات کی ترتیب ان کے سن اعتبار سے کی گئی ہے۔ امید واثق ہے کہ انسانی تہذیب کے معماروں ، اہم نظریات اور واقعات کا یہ مفصل جائزہ تاریخ اور سوانح سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے شاندار تحفہ ثابت ہوگی۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ عام قارئین کے لئے تاریخی صداقت کا اس سے بہتر بیان شاید ہی کوئی ہو۔
چراغِ مصطفویﷺ
مصنف: عتیق الرحمن صدیقی،قیمت: 350 روپے، ناشر: ادارہ الخدمت 5A 54/ کینال سٹی (ریل ٹائون) ، نزد ای ایم ای، لاہور 0334-4191850
سیرتِ نبویؐ کا موضوع اپنے اندر مسلمانوں کے لیے غیرمعمولی کشش اور جذبہ عمل رکھتا ہے۔ چنانچہ یہ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے سب سے محبوب و دل پسند موضوع ہے۔ اس موضوع پر لکھنا اور پڑھنا ہر مسلمان اپنے لیے باعث فلاح و سعادت اخروی تصور کرتا ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب کے مصنف عتیق الرحمن صدیقی اپنے وقت کے مستند عالم دین مولانا حیدر زمان صدیقی کے فرزند تھے۔ نبی کریم ؐاور دین اسلام سے محبت انھیں اپنے والد سے ملی ۔ ان کی زیرِ تبصرہ کتاب میں مختلف عنوانات پر بیس مضامین شامل ہیں ۔ چند عنوانات درج ذیل ہیں:
''چراغ، مصطفویؐ، اللہ تعالی غالب اور کلیم، نبی رحمتؐ، محسن انسانیتؐ ، قرآن کلیم اللہ کا دل نشین و دلآویز پیغام، اللہ پر ایمان تین اہم مطالبات'' وغیرہ ۔
عتیق الرحمن صدیقی نے بہت قیمتی اور عمدہ باتیں تحریر کر کے امت مسلمہ کو جذبہ عمل پر ابھارنے کی کوشش کی ہے ، مثلاً لکھتے ہیں'' انسانوںکا وضع کردہ کوئی بھی نظام خرابیوں اور خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتا ، اس لیے کہ انسان جب تک انسان ہے، خود غرضی، نفسانیت ، لالچ ، تعصب اور جذباتی رضا و غضب سے اس کا بالا تر ہونا ناممکن ہے۔ ''
''محسن اعظم کا نوع بشری پر ایک عظیم احسان یہ ہے کہ آپ ؐ نے دین ودنیا کی وحدت کا تصور پیش کیا اور دونوں کو ایک اکائی قرار دیتے ہوئے مغائرت کی نفی کی۔''
'' قرآن و سنت کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز نفس کے تزکیہ و تصفیہ، تحسینِ ذات، روح کی بالیدگی اور نشوو ارتقا کے لیے نہایت ہی مفید ، موخر اور کارگر نسخہ ہے۔
متخالف و متبارز اور نامساعد حالات میں عزیمت واستقامت اور صبرو ثبات کے ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں تعلق باللہ کا توانا اور مضبوط ہونا ناگزیر ہے، آہ سحر گاہی کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ راہ کے سنگ ہائے گراں کو فرشِ قدم بنایا جا سکے۔ ''کتاب میں شامل ہر مضمون قاری کے علم وعمل میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ قاری کو جذبہ عمل کی طرف بھی راغب کرتا ہے۔ کتاب انتہائی خوب صورت اور دل کش انداز میں شائع کی گئی ہے ۔
سفر داستان
مصنف: رانا عثمان،پبلشر: دربان کتابیں، کراچی
صفحات: 252،قیمت: 1000 روپے
کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو رانا عثمان کی فوٹوگرافی نے تو متاثر کیا ہی، توجہ کا مرکز رانا عثمان کے وہ احساسات بنے جن کو اس نے الفاظ کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ آخر کچھ تو وجہ تھی کہ معروف سفر نامہ نگار، ناول نگار جناب مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ ''رانا عثمان میرے قبیلے کا ہے۔
وہ شاہ گوریوں کا عاشق ہے '' تارڑ صاحب کے یہ الفاظ کہ '' رانا عثمان نے کہانیاں لکھنے کا ایک الگ راستہ اختیار کیا ہے '' ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں کہ رانا عثمان کی یہ کتاب مستند ادبی حلقوں میں اپنا مقام بنا چکی ہے ۔ حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی رانا محمد عثمان کی کتاب ''سفر داستان''ہے جسے شائع کرنے کی سعادت'' دربان کتابیں'' کے حصے میں آئی ہے۔
سفر داستان ایسی سترہ داستانیں ہیں جن میں مصنف خود نہیں ہے ۔ یہ سترہ داستانیں آپ کی ہیں، میری ہیں، ہم سب کی ہیں اور ان سب کے بعد مصنف کی ہیں۔ آپ ''سفر داستان '' کا پہلا سفر ''جلتا ہوا نانگا پربت'' پڑھنا شروع کریں تو آپ کو گمان گزرے گا کہ بادلوں کے بیچوں بیچ نانگا پربت آپ کے سامنے جل رہا ہے اور وہ جو جلتے ہوئے نانگا پربت کی تصویر کتاب میں موجود ہے، وہ تصویر رانا عثمان نے نہیں بلکہ آپ نے خود بنائی ہے ۔
ان اسفار کو پڑھتے ہوئے کبھی آپ براؤن بیئر سے ملاقات کریں گے اور کبھی آپ چھوٹے سے بحری جہاز پر بیٹھ کر منگلا ڈیم کے عین وسط میں بنے قلعہ رام کوٹ کی فصیلوں کو دیکھ رہے ہوں گئے ۔
کبھی آپ کا سفر تخت بھائی میں موجود بُدھا کے کھنڈرات کہ جانب ہو گا تو کبھی آپ دریائے راوی کے کنارے بیٹھے ہوں گے۔کبھی آپ شمال میں اپنے آپ کو گوجال میں پائیں گے تو کبھی آپ چٹا کٹھا اور کٹورہ جھیل کے کنارے ایک خیمہ لگا کر اس میں ایک رات بسر کر رہے ہوں گے۔کبھی آپ پنجاب کی خوبصورت وادی، وادیِ سون کی جادوئی جھیل اوچھالی پر اترتے ہوئے سائبیرین پرندوں کو دیکھیں گے تو کہیں آپ کو پنجاب کی قدیم تہذیبیں پھر سے زندہ ہوتی ہوئی اس کتاب میں محسوس ہوں گی۔
اسی کتاب کو پڑھتے ہوئے کبھی آپ اپنے آپ کو ایک کان پھٹا جوگی تصور کرینگے جو ٹلہ جوگیاں پر جوگ کے واسطے موجود ہو گا تو کبھی آپ اپنے آپ کو ہندوؤں کے مقدس مقامات کٹاس راج پر ایک یاتری کی حیثیت سے موجود پائیں گے ۔
پنجاب کی لوک داستان مرزا صاحباں بھی ایک بار پھر سے زندہ ہوتی ہوئی آپ کو اسی کتاب میں ملے گی اور پوٹھوہار کے سارے رنگ بھی ۔ ان سارے اسفار کو پڑھ کر آپ بھی یہی کہیں گے کہ یہ سارے سفر رانا عثمان نے نہیں بلکہ آپ نے کئے ہیں اور یہ داستانیں رانا عثمان کی نہیں بلکہ آپ کی داستانیں ہیں۔ رانا عثمان نے تو فقط ان کو بیان کیا ہے۔
تبصرہ نگار: لبنیٰ مقبول
یرغمالِ خاک
شاعر: طاہر حنفی
معروف شاعر طاہرحنفی صاحب کا چوتھا شعری مجموعہ یرغمالِ خاک گزشتہ سال جب موصول ہوا تو ایک عمدہ شعری مجموعہ ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار حیرت کا سامنا بھی ہوا کیوں کہ طاہر حنفی صاحب نے اپنی عمرِ عزیز کے چھیاسٹھویں برس میں داخل ہونے کی خوشی کو ایک منفرد انداز سے یادگار بنایا اور اپنے باذوق قارئین کی خدمت میں اپنے ان 66 برسوں کے نشیب و فراز اور تجربات و مشاہدات کا نچوڑ اپنے شعری مجموعہ کلام یرغمالِ خاک میں اپنی 66 شاندار غزلوں، 66 فکر انگیز نظموں اور 66 ہی متنوع موضوعاتی اشعار کی صورت میں پیش کیا۔
216 صفحات پر مشتمل کتاب کا سرورق نہایت دیدہ زیب ہے اور ابتدا میں ہی معتبر ادبی شخصیات ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ڈاکٹر محمد افتخار الحق اور خاور اعجاز صاحب کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں طاہر حنفی صاحب نے "مقامِ شکر" میں اپنے ان تمام دوستوں، ساتھیوں اور خیر خواہوں کے نام شامل کر کے ایک نئی روایت رقم کی ہے جو کتاب کی تکمیلیت تک کسی نہ کسی مرحلے پر ان کے ساتھ جڑے رہے۔ اس فہرستِ دوستاں میں راقم الحروف اپنا نام شامل کیے جانے پر طاہر حنفی صاحب کی تہِ دل سے ممنون ہے۔
طاہر حنفی صاحب کی شاعری محض روایتی شاعری نہیں۔ یرغمالِ خاک طاہر حنفی صاحب کی پر اعتماد اور طاقتور شعری صلاحیتوں کا اظہاریہ ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ طاہر حنفی نے جو کچھ کہا وہ شعورِ حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہا۔
حَرف و صَوت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہا۔ کلاسیکی مطالعہ وسیع رکھنے کے باوجود روایتی اور تقلیدی شاعری سے ہٹ کر جدیدیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا۔ اپنے لہجے کی ندرت کو برقرار رکھتے ہوئے جدت پسندی سے کہا۔
طاہر حنفی کی شاعری جمالیات و سماجیات کے بنیادی ستونوں پر پوری شان و شوکت سے کھڑی نظر آتی ہے جس کی مضبوط بنیاد، محسوسات، تصورات، تجربات و مشاہدات پر ہے۔ اپنے مخصوص طرزِ اظہار کے ساتھ منفرد ردیف و قافیے کا استعمال اور کمال مہارت کے ساتھ استعارات و تشبیہات کا استعمال شعری میدان میں ان کی مہم جو طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک حساس شاعر کا ادبی سفر آسان نہیں ہوتا۔ ذاتی زندگی کی مصروفیات کے ساتھ معاشرے کے بیمار ذہنوں کا علاج کرنا، دکھی دلوں کی داد رسی کرنا، رِستے زخموں پر مرہم رکھنا، اور مایوسی کے اندھیروں میں امید کی شمع روشن کرنا خراج مانگتا ہے اور یہ اپنی ہستی کو خاک کر دینے کے مترادف ہے اور طاہر حنفی صاحب اپنی پوری لگن اور توانائیوں کے ساتھ محوِ سفر ہیں۔
"شہرِ نارسا"، "گونگی ہجرت"، "خانہ بدوش آنکھیں" اور اب چوتھے شعری مجموعے یرغمالِ خاک کے ساتھ اپنے اس سفرِ مسلسل میں طاہر حنفی صاحب انسانی سوچ و فکر کی بالیدگی، شعوری ارتقاء اور اعلٰی اقدار کے فروغ میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں اور اس بے لوث خدمت کے صلے میں اپنے دوستوں اور خیر خواہوں سے فقط ان کی اپنائیت اور محبتوں کے حصول کی طلب کا اظہار کرتے ہیں۔
کچھ نہیں چاہیے اور احباب سے
مجھ کو بس ان کی طاہر دعا چاہیے
تبصرہ نگار: پروفیسر شازیہ ناز عروج
آئینہ اظہار
مصنف : پروفیسر اظہار حیدری،صفحات : 500
ناشر الجلیس انٹرنیشنل پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز
پروفیسر اظہار حیدری نصف صدی تک صحافت وادب سے وابستہ رہے۔ اب ان کے صاحبزادے ہاشم اعظم اور صاحبزادی صدف بنت اظہارحیدری نے ان کی مختلف مطبوعہ و غیر مطبوعہ نگارشات کا انتخاب کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری کی مذکورہ کتاب 'آئینہ اظہار' کا پیش لفظ محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان و کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قلم کا شاہکار ہے اور مقدمہ محمود شام نے لکھا ہے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پیش لفظ میں رقم طراز ہیں۔'' معروف ادیب، شاعر، صحافی اور مورخ مرحوم پروفیسر اظہار حیدری کی کتاب'' آئینہ اظہار'' جس کو ہاشم الاعظم نے مرتب کیا ہے اور اسے جلیس انٹرنیشنل پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز نے شائع کیا ہے۔ اس کی نگارشات کو مختلف عنوانات کے نام سے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ ابواب ( نمبرا) تاریخ ساز شخصیات ( 2) مضامین : تاریخی واہم شخصیات : ( نمبر 3) خاکے تعلیمی ، سیاسی ،ادبی ، سائنسی صحافتی ، ( نمبر 4 ) مضامین صحافت و ادب ، ( نمبر 5 سیاسی کالمز۔ ''
میں نے پروفیسر اظہار حیدری کی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کتاب کی تمام نگارشات خواہ وہ ادبی ہوں تعلیمی، سیاسی یا صحافتی، یہ تاریخ کے تناظر میں لکھی گئی ہیں، اس کا انداز تحریر ادیبانہ، خیالات مومنانہ، لہجہ جرأت مندانہ اور بیش بہا معلومات کا خزانہ ہے۔ مرحوم اظہار حیدری قومی، بین الاقوامی اور اسلامی امور پر کافی دسترس رکھتے ہیں جس میں انھوں نے بہت سے ایسے انکشافات کیے ہیں جس سے عام قاری نابلد ہیں اور وہ محب وطن پاکستانیوں اور دین اسلام سے محبت کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہیں۔ ایسی نگارشات میں غیر مسلموں بالخصوص امریکی و بھارتی حکمرانوں کی سازشوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔''آئینہ اظہار'' تاریخ کی اہم کتابوں میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ تاریخ کے طلبہ کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس کتاب میں بین الاقوامی وقومی سیاسی ، تاریخ ،ادبی وصحافی شخصیات کے دلچسپ انداز میں خاکے بھی لکھے گئے ہیں۔ جن میں بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح، فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، پیر صاحب پگارا، ڈاکٹر امیرحسین صدیقی، مشفق خواجہ، شوکت صدیقی، جوش ملیح آبادی ، رتی جناح ، جون ایلیا، عبدالستار ایدھی اور جلیس سلاسل شامل ہیں جبکہ طویل خاکہ جلیس سلاسل کا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کتابوں پر بھی بھر پور تبصرے کیے ہیں۔ ان میں زاہد ملک کی ''ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم کے تین حصے ، آسیہ سحر کی وجہ تخلیق کائنات، بلقیس راحت ایڈوکیٹ کی جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ۔ پس آئینہ، ڈاکٹر معین الدین احمد کی 'رخش خیال'، ڈاکٹر نزہت عباسی افسانوی ادب میں انسانی لب ولہجہ ، اختر جونا گڑھی کی آج کا بھارت، مجاز دہلوی کی 'شب تاب' اور محمدعلیم انصاری کی 'سیاست دوران' قابل ذکر ہیں۔ جبکہ دیگراہم نگارشات میں 'ٹیپوسلطان شہید اور امریکہ'، 'قائد اعظم اور کھوٹے سکے'، 'بیسویں صدی کا رچرڈ شیر دل'، ''اسرائیل کی مذمت کے خلاف امریکہ کا تنہاووٹ، صیہونیت کا تکیہ اور رچرڈ نکسن کا بخیہ شامل ہیں۔ طباعت آفسٹ پیپر پر عمدہ کی گئی ہے۔
مرتب : عبدالاحد حقانی، قیمت : 500روپے،ناشر : المجاہد پبلشرز
ایم بلاک ٹرسٹ پلازہ گوجرانوالہ، رابطہ نمبر : 03006450283
اسلام دین فطرت و رحمت ہے۔ حضور ﷺ رحمۃ اللعالمین اور خاتم النبیین ہیں۔ ان کی حیات مبارکہ کو خالق کائنات نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں دنیا کے تمام انسانوں کے لئے بہترین اسوہ قرار دیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت دنیا کو تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی جتنی زیادہ ضرورت ہے، شاید کبھی نہ تھی۔ ٹوٹی پھوٹی دنیا ، غموں سے چور دنیا، مسائل کے انبار تلے دبی ہوئی دنیا ۔ پریشان حال دنیا۔
زیرنظر کتاب مذکورہ بالا مقصد کے پیش نظر ہی لکھی گئی ہے۔ یہ دراصل مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان مضامین میں جدت بھی ہے اور تنوع بھی۔ ان مضامین کو جمع کیا گیا تو وہ تین حصوں میں تقسیم ہوکر سامنے آئے۔ پہلے حصے میں سیرت طیبہ کے کئی اہم گوشے دل کش اسلوب بیان میں قلم بند کیے گئے ہیں ۔
چند ایک موضوعات درج ذیل ہیں : ماہ ربیع الاول اور ولادت نبوی ﷺ کا پیغام ۔ سرکار دو عالم ﷺ کی آمد اور اسوہ نبویﷺ کا پیغام ۔ میلاد النبی ﷺ اور اس کے تقاضے ۔ اصحاب محمدﷺ اور اصحاب مسیح علیہ السلام ، ایک تقابلی جائزہ ۔ اسلام سے وابستگی اور اس کے بنیادی تقاضے ، عصر حاضر کے حوالے سے ایک جائزہ ۔ حکمت معراج النبی ﷺ ۔
مفاہمت اور اتحاد و یگانگت کی ضرورت و اہمیت ، سیرت رسول ﷺ کی روشنی میں ۔ تعلیمات نبوی ﷺ اور عصرحاضر میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا حل ۔ تعلیمات نبوی ﷺ میں دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی اور عصر حاضر میں اس کی ضرورت و اہمیت ۔ سیدالمرسلین ﷺ کے پیغام کی آفاقیت اور عدل اجتماعی اور سیرت رسولﷺ ۔ دوسرا حصہ ' عدل نامہ رسولﷺ ' ہے۔ یہ منظوم نثریہ کلام ہے۔ اس میں انوکھے انداز میں تعلیمات نبوی ﷺ کو پیش کیا گیا ہے ۔
تیسرے حصے میں رسول اللہ ﷺ کے اہم معاہدات کا متن مع ترجمہ شامل کیا گیا ہے۔ مثلا ً متن میثاق مدینہ ، متن صلح حدیبیہ، نصاریٰ نجران کے ساتھ معاہدہ کا متن اور متن خطبہ حجۃ الوداع ۔ ان معاہدات کی شمولیت سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے ۔ امید ہے کہ اس کتاب سے ایک دنیا استفادہ کرے گی ۔
100 انسانی تہذیب کے معمار
مصنف : ول ڈیورانٹ ،قیمت : 1500 روپے
ناشر : بک کارنر ، جہلم ، (واٹس ایپ نمبر : 03215440882 )
زیر نظر کتاب دراصل معروف امریکی فلسفی، تاریخ دان اور مورخ ول جیمز ڈیورانٹ کی مشہور کتاب ' دی سٹوری آف سویلائزیشن' سے ماخوذ ہے۔ ول ڈیورانٹ نے یہ کتاب اپنی اہلیہ ایرئیل ڈیورانٹ کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھی تھی۔ اصل کتاب گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتاب چارعشروں میں مکمل ہوئی۔ برسوں تک یہ تیزی سے فروخت ہونے والی کتابوں میں شامل رہی۔ دنیا کی 9 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے۔ اب تک 20لاکھ سے زائد جلدیں فروخت ہوئیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ نسل انسانی کی متحدہ تاریخ ہے۔ یہ تہذیب کی سوانح ہے جس میں نسل انسانی پر سب سے زیادہ اثرات مرتب کرنے والی مندرجہ ذیل شخصیات کا تذکرہ کیا گیا ہے:
حمورابی ، سولون ، زرتشت ، گوتم بدھ ، کنفیوشس ، لائوتزو ، پیریکلیز ، یوری پیڈیز، سقراط، افلاطون اور ارسطو، بقراط، سکندر اعظم، چندرگپت موریہ، اشوک اعظم، سیزراعظم، آگسٹس، یسوع مسیح ، مارکس آریلیئس، حضرت محمد ﷺ ، لی پو، شارلیمان، ہارون الرشید ، ابن سینا ، ولیم فاتح ، عمرخیام ، ابن رشد ، موززمیمونائیڈز ، صلاح الدین ایوبی، سعدی شیرازی ، دانتے، حافظ شیرازی ، کرسٹوفر کولمبس ، لیونارڈ دوانچی، میکیا ویلی، ڈیسیڈرئیس ایراسمس ، نکولاس کاپرنیکس ، مائیکل اینجلو، ٹامس مور، رافیل، مارٹن لوتھر، سلیمان عالیشان، ملکہ ایلزبتھ ، اکبر اعظم ، فرانسس بیکن ، ولیم شیکسپئیر ، گلیلیو گلیلی ،
جوہانس کپلر ، جان ڈن ، روبنز ، شاہ عباس الاعظم ، ٹامس ہوبز ، رینے ڈیکارٹ ، ریمبرانت ، جان ملٹن ، مولیئخ ، بلیز پاسکل ، جان ڈرائیڈن ، باروک ڈی سپنوزا، جان لاک ، آئزک نیوٹن ، ولہلم لائبنز ، پئیربیل ، ڈینئیل ڈیفو ، جوناتھن سوئفٹ ، یوہان سباسٹیئن باخ ، جارج برکلی ، الیگزئینڈر پوپ ، وولٹئیر ، پیٹراعظم ، سیموئیل جانسن ، ڈیوڈ ہیوم ، ژاں ژاکس روسو ،
فریڈرک اعظم ، ڈینی دیدرو، ہیلویٹیئس ، ایمانوئیل کانٹ ، موززمینڈل سوہن ، کیتھرین اعظم ، جوزف پریسٹلے ، ایڈورڈگبن ، ٹامس پین ، ولیم ہرشیل ، انٹوائن لوائزیے ، لیمارک ، ڈی گویا ، اماڈیوس موتزارٹ ، جیریمی بینتھم ، لاپلیس ، وولف گینگ گوئٹے ، ولیم بلیک ، میری وولسٹون کرافٹ ، نپولین بوناپارٹ ، بیتھوون ، ولہلم ہیگل ، ولیم ورڈز ورتھ ، سیموئیل ٹیلر کولرج ، لارڈ بائرن ، پی بی شیلی اور موہن داس گاندھی ہیں۔
زیر نظر کتاب میں شخصیات کی ترتیب ان کے سن اعتبار سے کی گئی ہے۔ امید واثق ہے کہ انسانی تہذیب کے معماروں ، اہم نظریات اور واقعات کا یہ مفصل جائزہ تاریخ اور سوانح سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے شاندار تحفہ ثابت ہوگی۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ عام قارئین کے لئے تاریخی صداقت کا اس سے بہتر بیان شاید ہی کوئی ہو۔
چراغِ مصطفویﷺ
مصنف: عتیق الرحمن صدیقی،قیمت: 350 روپے، ناشر: ادارہ الخدمت 5A 54/ کینال سٹی (ریل ٹائون) ، نزد ای ایم ای، لاہور 0334-4191850
سیرتِ نبویؐ کا موضوع اپنے اندر مسلمانوں کے لیے غیرمعمولی کشش اور جذبہ عمل رکھتا ہے۔ چنانچہ یہ آج دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے سب سے محبوب و دل پسند موضوع ہے۔ اس موضوع پر لکھنا اور پڑھنا ہر مسلمان اپنے لیے باعث فلاح و سعادت اخروی تصور کرتا ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب کے مصنف عتیق الرحمن صدیقی اپنے وقت کے مستند عالم دین مولانا حیدر زمان صدیقی کے فرزند تھے۔ نبی کریم ؐاور دین اسلام سے محبت انھیں اپنے والد سے ملی ۔ ان کی زیرِ تبصرہ کتاب میں مختلف عنوانات پر بیس مضامین شامل ہیں ۔ چند عنوانات درج ذیل ہیں:
''چراغ، مصطفویؐ، اللہ تعالی غالب اور کلیم، نبی رحمتؐ، محسن انسانیتؐ ، قرآن کلیم اللہ کا دل نشین و دلآویز پیغام، اللہ پر ایمان تین اہم مطالبات'' وغیرہ ۔
عتیق الرحمن صدیقی نے بہت قیمتی اور عمدہ باتیں تحریر کر کے امت مسلمہ کو جذبہ عمل پر ابھارنے کی کوشش کی ہے ، مثلاً لکھتے ہیں'' انسانوںکا وضع کردہ کوئی بھی نظام خرابیوں اور خامیوں سے پاک نہیں ہو سکتا ، اس لیے کہ انسان جب تک انسان ہے، خود غرضی، نفسانیت ، لالچ ، تعصب اور جذباتی رضا و غضب سے اس کا بالا تر ہونا ناممکن ہے۔ ''
''محسن اعظم کا نوع بشری پر ایک عظیم احسان یہ ہے کہ آپ ؐ نے دین ودنیا کی وحدت کا تصور پیش کیا اور دونوں کو ایک اکائی قرار دیتے ہوئے مغائرت کی نفی کی۔''
'' قرآن و سنت کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ تہجد کی نماز نفس کے تزکیہ و تصفیہ، تحسینِ ذات، روح کی بالیدگی اور نشوو ارتقا کے لیے نہایت ہی مفید ، موخر اور کارگر نسخہ ہے۔
متخالف و متبارز اور نامساعد حالات میں عزیمت واستقامت اور صبرو ثبات کے ساتھ اقامت دین کی جدوجہد میں تعلق باللہ کا توانا اور مضبوط ہونا ناگزیر ہے، آہ سحر گاہی کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں کہ راہ کے سنگ ہائے گراں کو فرشِ قدم بنایا جا سکے۔ ''کتاب میں شامل ہر مضمون قاری کے علم وعمل میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ قاری کو جذبہ عمل کی طرف بھی راغب کرتا ہے۔ کتاب انتہائی خوب صورت اور دل کش انداز میں شائع کی گئی ہے ۔
سفر داستان
مصنف: رانا عثمان،پبلشر: دربان کتابیں، کراچی
صفحات: 252،قیمت: 1000 روپے
کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو رانا عثمان کی فوٹوگرافی نے تو متاثر کیا ہی، توجہ کا مرکز رانا عثمان کے وہ احساسات بنے جن کو اس نے الفاظ کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ آخر کچھ تو وجہ تھی کہ معروف سفر نامہ نگار، ناول نگار جناب مستنصر حسین تارڑ نے کہا ہے کہ ''رانا عثمان میرے قبیلے کا ہے۔
وہ شاہ گوریوں کا عاشق ہے '' تارڑ صاحب کے یہ الفاظ کہ '' رانا عثمان نے کہانیاں لکھنے کا ایک الگ راستہ اختیار کیا ہے '' ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں کہ رانا عثمان کی یہ کتاب مستند ادبی حلقوں میں اپنا مقام بنا چکی ہے ۔ حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی رانا محمد عثمان کی کتاب ''سفر داستان''ہے جسے شائع کرنے کی سعادت'' دربان کتابیں'' کے حصے میں آئی ہے۔
سفر داستان ایسی سترہ داستانیں ہیں جن میں مصنف خود نہیں ہے ۔ یہ سترہ داستانیں آپ کی ہیں، میری ہیں، ہم سب کی ہیں اور ان سب کے بعد مصنف کی ہیں۔ آپ ''سفر داستان '' کا پہلا سفر ''جلتا ہوا نانگا پربت'' پڑھنا شروع کریں تو آپ کو گمان گزرے گا کہ بادلوں کے بیچوں بیچ نانگا پربت آپ کے سامنے جل رہا ہے اور وہ جو جلتے ہوئے نانگا پربت کی تصویر کتاب میں موجود ہے، وہ تصویر رانا عثمان نے نہیں بلکہ آپ نے خود بنائی ہے ۔
ان اسفار کو پڑھتے ہوئے کبھی آپ براؤن بیئر سے ملاقات کریں گے اور کبھی آپ چھوٹے سے بحری جہاز پر بیٹھ کر منگلا ڈیم کے عین وسط میں بنے قلعہ رام کوٹ کی فصیلوں کو دیکھ رہے ہوں گئے ۔
کبھی آپ کا سفر تخت بھائی میں موجود بُدھا کے کھنڈرات کہ جانب ہو گا تو کبھی آپ دریائے راوی کے کنارے بیٹھے ہوں گے۔کبھی آپ شمال میں اپنے آپ کو گوجال میں پائیں گے تو کبھی آپ چٹا کٹھا اور کٹورہ جھیل کے کنارے ایک خیمہ لگا کر اس میں ایک رات بسر کر رہے ہوں گے۔کبھی آپ پنجاب کی خوبصورت وادی، وادیِ سون کی جادوئی جھیل اوچھالی پر اترتے ہوئے سائبیرین پرندوں کو دیکھیں گے تو کہیں آپ کو پنجاب کی قدیم تہذیبیں پھر سے زندہ ہوتی ہوئی اس کتاب میں محسوس ہوں گی۔
اسی کتاب کو پڑھتے ہوئے کبھی آپ اپنے آپ کو ایک کان پھٹا جوگی تصور کرینگے جو ٹلہ جوگیاں پر جوگ کے واسطے موجود ہو گا تو کبھی آپ اپنے آپ کو ہندوؤں کے مقدس مقامات کٹاس راج پر ایک یاتری کی حیثیت سے موجود پائیں گے ۔
پنجاب کی لوک داستان مرزا صاحباں بھی ایک بار پھر سے زندہ ہوتی ہوئی آپ کو اسی کتاب میں ملے گی اور پوٹھوہار کے سارے رنگ بھی ۔ ان سارے اسفار کو پڑھ کر آپ بھی یہی کہیں گے کہ یہ سارے سفر رانا عثمان نے نہیں بلکہ آپ نے کئے ہیں اور یہ داستانیں رانا عثمان کی نہیں بلکہ آپ کی داستانیں ہیں۔ رانا عثمان نے تو فقط ان کو بیان کیا ہے۔
تبصرہ نگار: لبنیٰ مقبول
یرغمالِ خاک
شاعر: طاہر حنفی
معروف شاعر طاہرحنفی صاحب کا چوتھا شعری مجموعہ یرغمالِ خاک گزشتہ سال جب موصول ہوا تو ایک عمدہ شعری مجموعہ ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار حیرت کا سامنا بھی ہوا کیوں کہ طاہر حنفی صاحب نے اپنی عمرِ عزیز کے چھیاسٹھویں برس میں داخل ہونے کی خوشی کو ایک منفرد انداز سے یادگار بنایا اور اپنے باذوق قارئین کی خدمت میں اپنے ان 66 برسوں کے نشیب و فراز اور تجربات و مشاہدات کا نچوڑ اپنے شعری مجموعہ کلام یرغمالِ خاک میں اپنی 66 شاندار غزلوں، 66 فکر انگیز نظموں اور 66 ہی متنوع موضوعاتی اشعار کی صورت میں پیش کیا۔
216 صفحات پر مشتمل کتاب کا سرورق نہایت دیدہ زیب ہے اور ابتدا میں ہی معتبر ادبی شخصیات ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، ڈاکٹر محمد افتخار الحق اور خاور اعجاز صاحب کے تاثرات بھی شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں طاہر حنفی صاحب نے "مقامِ شکر" میں اپنے ان تمام دوستوں، ساتھیوں اور خیر خواہوں کے نام شامل کر کے ایک نئی روایت رقم کی ہے جو کتاب کی تکمیلیت تک کسی نہ کسی مرحلے پر ان کے ساتھ جڑے رہے۔ اس فہرستِ دوستاں میں راقم الحروف اپنا نام شامل کیے جانے پر طاہر حنفی صاحب کی تہِ دل سے ممنون ہے۔
طاہر حنفی صاحب کی شاعری محض روایتی شاعری نہیں۔ یرغمالِ خاک طاہر حنفی صاحب کی پر اعتماد اور طاقتور شعری صلاحیتوں کا اظہاریہ ہے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ طاہر حنفی نے جو کچھ کہا وہ شعورِ حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہا۔
حَرف و صَوت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہا۔ کلاسیکی مطالعہ وسیع رکھنے کے باوجود روایتی اور تقلیدی شاعری سے ہٹ کر جدیدیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا۔ اپنے لہجے کی ندرت کو برقرار رکھتے ہوئے جدت پسندی سے کہا۔
طاہر حنفی کی شاعری جمالیات و سماجیات کے بنیادی ستونوں پر پوری شان و شوکت سے کھڑی نظر آتی ہے جس کی مضبوط بنیاد، محسوسات، تصورات، تجربات و مشاہدات پر ہے۔ اپنے مخصوص طرزِ اظہار کے ساتھ منفرد ردیف و قافیے کا استعمال اور کمال مہارت کے ساتھ استعارات و تشبیہات کا استعمال شعری میدان میں ان کی مہم جو طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک حساس شاعر کا ادبی سفر آسان نہیں ہوتا۔ ذاتی زندگی کی مصروفیات کے ساتھ معاشرے کے بیمار ذہنوں کا علاج کرنا، دکھی دلوں کی داد رسی کرنا، رِستے زخموں پر مرہم رکھنا، اور مایوسی کے اندھیروں میں امید کی شمع روشن کرنا خراج مانگتا ہے اور یہ اپنی ہستی کو خاک کر دینے کے مترادف ہے اور طاہر حنفی صاحب اپنی پوری لگن اور توانائیوں کے ساتھ محوِ سفر ہیں۔
"شہرِ نارسا"، "گونگی ہجرت"، "خانہ بدوش آنکھیں" اور اب چوتھے شعری مجموعے یرغمالِ خاک کے ساتھ اپنے اس سفرِ مسلسل میں طاہر حنفی صاحب انسانی سوچ و فکر کی بالیدگی، شعوری ارتقاء اور اعلٰی اقدار کے فروغ میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں اور اس بے لوث خدمت کے صلے میں اپنے دوستوں اور خیر خواہوں سے فقط ان کی اپنائیت اور محبتوں کے حصول کی طلب کا اظہار کرتے ہیں۔
کچھ نہیں چاہیے اور احباب سے
مجھ کو بس ان کی طاہر دعا چاہیے
تبصرہ نگار: پروفیسر شازیہ ناز عروج
آئینہ اظہار
مصنف : پروفیسر اظہار حیدری،صفحات : 500
ناشر الجلیس انٹرنیشنل پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز
پروفیسر اظہار حیدری نصف صدی تک صحافت وادب سے وابستہ رہے۔ اب ان کے صاحبزادے ہاشم اعظم اور صاحبزادی صدف بنت اظہارحیدری نے ان کی مختلف مطبوعہ و غیر مطبوعہ نگارشات کا انتخاب کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ پروفیسر اظہار حیدری کی مذکورہ کتاب 'آئینہ اظہار' کا پیش لفظ محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان و کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے قلم کا شاہکار ہے اور مقدمہ محمود شام نے لکھا ہے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پیش لفظ میں رقم طراز ہیں۔'' معروف ادیب، شاعر، صحافی اور مورخ مرحوم پروفیسر اظہار حیدری کی کتاب'' آئینہ اظہار'' جس کو ہاشم الاعظم نے مرتب کیا ہے اور اسے جلیس انٹرنیشنل پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز نے شائع کیا ہے۔ اس کی نگارشات کو مختلف عنوانات کے نام سے آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ ابواب ( نمبرا) تاریخ ساز شخصیات ( 2) مضامین : تاریخی واہم شخصیات : ( نمبر 3) خاکے تعلیمی ، سیاسی ،ادبی ، سائنسی صحافتی ، ( نمبر 4 ) مضامین صحافت و ادب ، ( نمبر 5 سیاسی کالمز۔ ''
میں نے پروفیسر اظہار حیدری کی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس کتاب کی تمام نگارشات خواہ وہ ادبی ہوں تعلیمی، سیاسی یا صحافتی، یہ تاریخ کے تناظر میں لکھی گئی ہیں، اس کا انداز تحریر ادیبانہ، خیالات مومنانہ، لہجہ جرأت مندانہ اور بیش بہا معلومات کا خزانہ ہے۔ مرحوم اظہار حیدری قومی، بین الاقوامی اور اسلامی امور پر کافی دسترس رکھتے ہیں جس میں انھوں نے بہت سے ایسے انکشافات کیے ہیں جس سے عام قاری نابلد ہیں اور وہ محب وطن پاکستانیوں اور دین اسلام سے محبت کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہیں۔ ایسی نگارشات میں غیر مسلموں بالخصوص امریکی و بھارتی حکمرانوں کی سازشوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔''آئینہ اظہار'' تاریخ کی اہم کتابوں میں ایک خوب صورت اضافہ ہے۔ تاریخ کے طلبہ کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس کتاب میں بین الاقوامی وقومی سیاسی ، تاریخ ،ادبی وصحافی شخصیات کے دلچسپ انداز میں خاکے بھی لکھے گئے ہیں۔ جن میں بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح، فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، پیر صاحب پگارا، ڈاکٹر امیرحسین صدیقی، مشفق خواجہ، شوکت صدیقی، جوش ملیح آبادی ، رتی جناح ، جون ایلیا، عبدالستار ایدھی اور جلیس سلاسل شامل ہیں جبکہ طویل خاکہ جلیس سلاسل کا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف کتابوں پر بھی بھر پور تبصرے کیے ہیں۔ ان میں زاہد ملک کی ''ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اسلامی بم کے تین حصے ، آسیہ سحر کی وجہ تخلیق کائنات، بلقیس راحت ایڈوکیٹ کی جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ۔ پس آئینہ، ڈاکٹر معین الدین احمد کی 'رخش خیال'، ڈاکٹر نزہت عباسی افسانوی ادب میں انسانی لب ولہجہ ، اختر جونا گڑھی کی آج کا بھارت، مجاز دہلوی کی 'شب تاب' اور محمدعلیم انصاری کی 'سیاست دوران' قابل ذکر ہیں۔ جبکہ دیگراہم نگارشات میں 'ٹیپوسلطان شہید اور امریکہ'، 'قائد اعظم اور کھوٹے سکے'، 'بیسویں صدی کا رچرڈ شیر دل'، ''اسرائیل کی مذمت کے خلاف امریکہ کا تنہاووٹ، صیہونیت کا تکیہ اور رچرڈ نکسن کا بخیہ شامل ہیں۔ طباعت آفسٹ پیپر پر عمدہ کی گئی ہے۔