سندھ میں یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر حملہ

گزشتہ ہفتہ پھر حکومت سندھ نے یونیورسٹی کی خودمختاری پر براہِ راست حملہ کیا

tauceeph@gmail.com

جب سے یونیورسٹیوں کا وجود عمل میں آیا ہے یونیورسٹیوں کے قیام کے ساتھ ہی ادارے سینیٹ، سنڈیکیٹ، اکیڈمک کونسل اور اعلیٰ تحقیق کونسل وغیرہ قائم ہوئے ہیں اور دنیا میں یونیورسٹیاں ان اداروں کے ذریعہ فرائض انجام دیتی ہیں۔

تمام جدید مہذب معاشروں میں ریاست یونیورسٹیوں کی مالیاتی ضروریات کو پورا کرتی ہیں اور یونیورسٹیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت برطانیہ میں اس اصول کے تحت کیمبرج اورآکسفورڈ میں یونیورسٹیاں وجود میں آئیں۔ ان یونیورسٹیوں نے سائنس کی ترقی، جمہوری اداروں کی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق جیسے اہم معاملات پر آگہی اور تربیت جیسے اہم فرائض پورے کیے۔

ہندوستان کے بٹوارہ کے بعد نیا ملک وجود میں آیا۔ انگریزی دورکے قوانین پاکستان میں بھی نافذ ہوئے جن میں شہری آزادیوں پر قدغنیں لگی ہوئی تھیں ، مگر غیر جمہوری حکومتوں نے یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو ختم کرنے کے لیے کچھ نئے قوانین نافذ کیے۔

جنرل ایوب خان کے دورکا 1963کا یونیورسٹی آرڈیننس اس کی بدترین شکل تھا۔ اس قانون کے تحت یونیورسٹیوں میں سرکاری مداخلت کے راستے کھلے۔ یونیورسٹیاں اساتذہ کے تقررکے لیے حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد پر مجبور ہوئی۔ پاکستان 1955 میں معاہدہ بغداد میں شامل ہوا تو امریکا کی امداد اور اثر بڑھ گیا ، یوں پاکستان سرد جنگ کا حصہ بنا۔ برسر اقتدار حکومتوں نے یونیورسٹیوں میں ترقی پسند عناصرکی تطہیر کی پالیسی اختیارکی۔

اساتذہ کا تقرر ریاستی اداروں کے عدم اعتراض کے سرٹیفکیٹ سے مشروط ہوا جس کے نتیجہ میں یونیورسٹیوں میں قابل اور اہل اساتذہ کے تقرر پر قدغن لگی اور یونیورسٹیاں علم و تحقیق کے شعبوں میں بانجھ ہوئیں۔ جنرل ایوب خان کے 10سالہ ترقی کے جشن کے ساتھ ان کے خلاف 1968میں ایک عوامی تحریک شروع ہوئی جس کا اختتام 1969 میں ایوب خان کے اقتدار چھوڑنے پر ہوا۔

یونیورسٹی اساتذہ کے بنیادی مطالبات میں ملک میں جمہوری نظام کے قیام کے ساتھ یونیورسٹیوں کو مکمل خود مختاری بھی شامل تھا۔ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں اساتذہ کے ان مطالبات کو خصوصی اہمیت دی تھی۔ جب 20دسمبر 1971کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرکا عہدہ سنبھالا تو بنیادی اصلاحات کا کام ہوا۔

اس دور میں اپنے وقت کے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر اجمل وزارت تعلیم کے سیکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ شاید پہلی دفعہ ایک استاد کو تعلیم کے تناظر میں ایسے اہم عہدہ پر تعینات کیا گیا، یوں ملک میں تعلیم کے شعبہ میں انقلابی اصلاحات ہوئیں۔ تعلیمی اصلاحات کے تحت یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے پے اسکیل سی ایس پی (C.S.P) افسر کے پے اسکیل کے برابر ہوا۔ اساتذہ کے لیے گریڈ 22 تک جانے کی رکاوٹیں ختم ہوئیں ۔ وائس چانسلر کے لیے خصوصی گریڈ تجویز ہوا جو وفاقی سیکریٹری کے عہدہ کے برابر ہے۔

یونیورسٹی ایکٹ 1973 کے تحت یونیورسٹی میں سینیٹ مکمل خودمختار قرار پائیں۔ سنڈیکیٹ کو مکمل انتظامی اختیارات دیے گئے۔ سینیٹ اور سنڈیکیٹ میں سرکاری افسروں کے علاوہ اساتذہ، طلبہ یونین کے نمایندوں، کالجوں کے اساتذہ اور منتخب اراکین اسمبلی کو نمایندگی دی گئی۔ پہلی دفعہ اساتذہ کو ڈین کے انتخاب کا حق دیا گیا۔ تعلیمی شعبوں کے سربراہ یعنی چیئرمین کے عہدہ کی میعاد تین سال قرار پائی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں یونیورسٹی کے قانون میں من مانی ترامیم کی گئیں۔


2008 میں جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو نوجوان خون اور نئے آئیڈیاز اس کے منشور میں شامل تھے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا تھا مگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل ضیاء الحق حکومت کی روایات کی پیروی شروع کردی۔ سندھ کی سرکاری یونیورسٹیوں کے قانون میں یکطرفہ ترمیم کی گئی۔ یونیورسٹی رجسٹرار اور ڈین کے تقرر کا اختیار حکومت نے سنبھال لیا۔

یونیورسٹی کے بنیادی ادارہ سنڈیکیٹ میں غیر منتخب اراکین بیوروکریسی کی تعداد بڑھادی گئی۔ جب سندھ یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے احتجاجی تحریک شروع کی تو حکومت نے نامناسب رویہ اختیارکیا۔ اس وقت کے اساتذہ نمایندوں کو یقین دلایا کہ یکطرفہ ترامیم منسوخ کی جائیں مگر حکومت نے کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی میں تو فی الحال اس قانون پر عملدرآمد معطل کیا مگر باقی تمام یونیورسٹیوں میں یہ قانون نافذ ہے۔

گزشتہ ہفتہ پھر حکومت سندھ نے یونیورسٹی کی خودمختاری پر براہِ راست حملہ کیا۔ اب سلیکشن بورڈ کی اجازت وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ سے مشروط قرار دی گئی ، سندھ میں عجب دہرا نظام ہے۔ ایک ہائر ایجوکیشن کمیشن موجود ہے جس کا خاصا بجٹ ہے مگر اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹیوں کے معاملات کی نگرانی کے لیے ایک سیکریٹری بورڈ ہے جس کے نگراں ایک وزیر ہیں۔

سیکریٹری یونیورسٹی بورڈ کے اختیارات بقول کچھ صحافیو ں کے وزیر اعلیٰ کے برابر ہیں۔ سیکریٹری صاحب نے ایک مراسلہ کے ذریعہ تمام یونیورسٹیوں کو پابند کیا ہے کہ سلیکشن بورڈ کے انعقاد سے قبل مجاز اتھارٹی سے اجازت حاصل کی جائے۔

انجمنِ اساتذہ کراچی یونیورسٹی نے یونیورسٹی کی خودمختاری کے تحفظ کے لیے ہڑتال کا فیصلہ کیا۔ یہ ہڑتال 10دن تک جاری رہی۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کی انجمنوں پر مشتمل انجمن نے پورے سندھ میں ایک دن ہڑتال کی۔ فپواسا کے صدر ڈاکٹر نیک محمد شیخ کا کہنا ہے کہ سندھ کی تمام یونیورسٹیوں کا انفرااسٹرکچر تباہ ہوچکا ہے اور کئی یونیورسٹیوں میں عارضی وائس چانسلر برسوں سے تعینات ہیں۔

بہرحال متعلقہ وزیر اسماعیل راہو نے اپنی انتہائی مصروفیات میں سے وقت نکالا اور اساتذہ نمایندوں سے مذاکرات ہوئے اور اساتذہ نمایندوں کے سامنے کچھ وضاحتیں پیش کی گئیں۔ فی الحال اساتذہ نے اپنی ہڑتال کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

کورونا کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے تعلیمی عمل بار بار معطل ہوا ہے مگر حکومتِ سندھ اس صورتحال کا ادراک کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 18ویں ترمیم کے بعد حکومت کی آمدنی بڑھ گئی ہے مگر یہ تعلیم کے علاوہ کہاں خرچ ہوتی ہے کوئی جواب دینے والا نہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں 3سال سے مستقل وائس چانسلر کا تقرر نہیں ہوا۔

سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتہ ایک فیصلہ کے تحت قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کے تقررکوکالعدم قرار دیا اور ہدایات جاری کی تھیں کہ یونیورسٹی کے 10سینئر اساتذہ کی فہرست وزیر اعلیٰ کو بھیجی جائے تاکہ وزیر اعلیٰ قائم مقام وائس چانسلر کا تقرر کریں اور سرچ کمیٹی کی تشکیل نو کی جائے اور نئے وائس چانسلر کے تقرر کا عمل فورا شروع کیا جائے ۔ سندھ کی حکومت ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک کراچی یونیورسٹی کے حالات بہتر بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔

مالیاتی بحران نے یونیورسٹی کے انفرا اسٹرکچر کو پوری طرح متاثر کیا ہے۔ اس یونیورسٹی میں اب بھی تمام شعبوں میں جدید اسمارٹ کلاس روم کا تصور عملی حیثیت اختیار نہیں کرسکا۔ اب یونیورسٹی کی بچی کچی خودمختاری کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔ یونیورسٹیاں جمہوری اداروں کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ سندھ کی حکومت یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو پامال کرکے طالع آزما قوتوں کے لیے راستہ ہموار کررہی ہے۔
Load Next Story