’ایم کیو ایم‘ پر ایک متوازن تجزیے کی ضرورت ہے

حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والی متنازع ’سیاسی قوت‘ کا تنقیدی جائزہ ملکی سیاست کی بہت سی گتھیاں سلجھا سکے گا

حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والی متنازع ’سیاسی قوت‘ کا تنقیدی جائزہ ملکی سیاست کی بہت سی گتھیاں سلجھا سکے گا۔ فوٹو: فائل

'ایم کیو ایم' کہیے یا 'متحدہ قومی موومنٹ'۔ ملکی تاریخ کا لگ بھگ نصف حصہ اس سیاسی جماعت کے کسی نہ کسی کردار سے ضرور جڑا ہوا ہے۔۔۔

اپنے میں ایک انفرادیت رکھنے والی سیاسی جماعت بارہا سنگین بحرانوں اور الزامات کی زد میں رہی ہے۔۔۔ اور تنازعات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے، ایسے میں سیاسیات اور تاریخ کے طالب علم ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ سیاہ وسفید حقائق کے ساتھ ساتھ کچھ 'گِرے' سرمئی یا ملے جلے حقائق کے متعلق بھی جان سکیں، لیکن معاملہ یہ ہے کہ آج ہمیں اس موضوع پر کوئی بھی متوازن تجزیہ یا تبصرہ ذرا کم ہی دکھائی دیتا ہے، جب بھی کوئی چیز سامنے آتی ہے، وہ ہر دو انتہائوں کا شکار ہوتی ہے، وہ یک سر اور قطعی طور پر ایک ہی جانب کی بات کرتی ہے، جب کہ سیاست کے طالب علم اور قارئین غیر جانب دارانہ اور غیر متعصبانہ تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں۔

اگر پہلے یہ شکایت رہی کہ 'ایم کیو ایم' کا جبر تنقید یا دوسرا رخ سامنے نہیں لانے دیتا تو اب یہ صورت حال اسی طرح بالکل الٹ چکی ہے۔ جیسے گذشتہ دنوں یکم جنوری 2022ء آئی، جب متحدہ کے بانی کی طویل جلا وطنی کو تین عشرے پورے ہوگئے۔ آج سے پورے 30 برس قبل کراچی میں ایک قاتلانہ حملے کے بعد وہ دسمبر 1991ء میں عمرے کے لیے سعودی عرب گئے اور پھر یکم جنوری 1992ء کو وہاں سے لندن پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دائر کر دی۔ ایم کیو ایم کو ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت قومی تاریخ کا ایک اہم باب ہے اور کراچی، سندھ اور مہاجروں کی سیاسی تاریخ اِس تذکرے کا کلیدی طور پر احاطہ کیے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔

1990ء کی دہائی سے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک ملکی سیاست کا مستقل طور پر ایک اہم کردار رہنے والے 'بانی متحدہ' ہماری سیاسی تاریخ کا اہم ترین حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ آج کی سیاست میں بھی پابندیوں کے باوجود کہیں نہ کہیں 'موجود' ہیں۔۔۔! ہم کہہ سکتے ہیں کہ 22 اگست 2016ء کے ناخوش گوار واقعے کے بعد سے جب الطاف حسین اور ان سے جڑی ہوئی سیاست پر پاکستان میں باضابطہ طور پر پابندی ہوتی چلی گئی۔

اس وقت اگر ملکی سیاست میں ان کی موجودگی 'مسئلہ' تھی، تو آج اِن کی 'عدم موجودگی' بھی ایک 'مسئلہ' ہی بنی ہوئی ہے، کیوں کہ ان کے سیاسی مخالفین کو بھی یہ اعتراف ہے کہ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے شہری علاقوں میں 1987ء سے انھیں حاصل حمایت کا سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی طور پر موجود ہے۔ اسی سیاسی 'خلا' کو پاٹنے کے لیے آئے روز مختلف 'اتحاد' قائم کرنے کی بازگشت اس کا ایک واضح ثبوت ہے۔

ہماری ملکی تاریخ میں اتنا طویل سیاسی کردار اور کیریئر شاید ہی کسی اور شخصیت کے حصے میں آیا ہو۔۔۔ ہر چند کہ 68 سالہ الطاف حسین اپنی کردہ اور ناکردہ کی ایک ایسی سزا بھگت رہے ہیں کہ جس کا کبھی کوئی انت ہوگا بھی؟ اس کی کوئی ضمانت موجود نہیں، لیکن جو تاریخ گزر چکی ہے، اس ماضی کو اب چاہے، ہم پسند کریں یا ناپسند، تاریخ میں اُن کا اچھا یا برا، ذکر ضرور بالضرور ہوگا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ 'ایم کیو ایم' کے موضوع پر اکثر گفتگو اِس کے مجرمانہ کردار، تشدد، بھتّا، غنڈہ گردی، زور زبردستی اور جعلی ووٹ بھگتانے وغیرہ کے الزامات سے آگے بڑھ ہی نہیں پاتی اور کچھ آگے بڑھی تو 'را' سے تعلق اور ملک دشمنی کا غبار اس قدر بڑھ گیا کہ کسی نے بھی کھل کر اور غیرمتعصبانہ انداز میں اس سیاست کا تجزیہ اور جواب دہی کرنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ اب خود الطاف حسین اور 'لندن' والوں نے بھی ان الزام کو سچا ثابت کرنے کے لیے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔!

آج ہم بھی یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ 30 برس میں 'ایم کیو ایم' نے اپنی قوم کو کیا دیا۔۔۔؟ یہ بہت بنیادی سا سوال ہے، جو بہت متوازن اور تفصیلی جواب کا تقاضا کرتا ہے۔ بات بالکل درست ہے کہ تین آپریشنوں اور دو، دو سال کی چار حکومتوں میں کچھ کچھ عرصے شمولیت کے باوجود وہ شہر پر 'راج' تو مسلسل کر ہی رہے تھے۔۔۔ اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب انھیں پہلی بار بھرپور اور سب سے زیادہ مدت کے لیے اختیارات ملے، اس دوران ایسی کیا 'مجبوریاں' لاحق تھیں، جو وہ مہاجروں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے کوئی دیرپا اور بڑا انقلابی قدم نہ اٹھا سکے۔۔۔؟

کیا اِس دوران 'متحدہ' کی سیاست پر زیادہ مرکوز ہونا اس کا سبب رہا۔۔۔؟ پھر 2011ء کے زمانے کے بعد کئی بار اپنے الگ صوبے کی بات بھی کی گئی، کبھی شہری سندھ، کبھی 'کراچی صوبہ' تو کبھی سندھ ون اور سندھ ٹو کہہ کر۔۔۔! کہاں اس سے پہلے خود کو 'متحدہ' کہتے ہوئے سب سے زیادہ 'اردو بولنے والے سندھی' اور 'نئے سندھی' کہہ کر ایک شناخت بنانا شروع کی اور 'مہاجر' سیاست ترک کرنے پر 'حقیقی' کی طویل خوں ریز 'بغاوت' سہی۔ اب خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔۔؟

ان تمام باتوں کا جواب تو ضرور طلب کیا جانا چاہیے، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست میں کسی بھی 'قائد' سے لے کر عہدے دار، کارکن اور ذمہ دار تک کوئی بھی فرشتہ ہوتا ہے اور نہ ہی غلطیوں سے مبرا۔۔۔ اور نہ ہی کسی بھی قسم کی تنقید سے آزاد۔ اس لیے کھل کر اور بالکل بے خوفی سے ہر ایک سے اور ہر طرح کا سوال پوچھا جانا چاہیے۔

ایسے میں بانی متحدہ کی طرف سے 'سندھو دیش' کے 'اندھے کنویں' کی تو خیر کیا ہی بات کیجیے گا، تاہم یہ دریافت کیا جانا ضروری ہے کہ 'مہاجر' کو 'متحدہ' کرنے کی طرف قدم مجموعی طور پر کیسا رہا۔۔۔؟ آیا یہ فیصلہ کسی 'ادارے' کے دبائو میں کیا یا اس کا محرک واقعی سیاسی طور پر آگے بڑھنا تھا۔۔۔؟

ساتھ ہی 'مہاجر' اور 'متحدہ' سیاست کی آنکھ مچولی میں پیش آنے والے عوامل کا بھی تجزیہ کیا جائے، یعنی 1992ء کا فوجی آپریشن، 'جناح پور' بنانے کا متنازع الزام، الطاف حسین کی جلاوطنی اور 12 مئی 2007ء کے بعد کراچی میں دوبارہ سے لسانیت کی بڑھتی ہوئی آگ۔۔۔ اگر یہ سارے عوامل نہ ہوتے اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف یہ غیرموروثی 'تحریک' پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں سرائیت کر جاتی، تو آج قومی سیاسی منظر نامہ کیا ہوتا۔۔۔؟

کیا یہ بات درست ہے کہ ملک میں 'متوسط طبقے کی حکم رانی' سے خوف زدہ ہونے والوں نے 'ایم کیو ایم' کو کراچی اور حیدرآباد میں 'پریشان' کر کے دوبارہ محدود ہونے اور سمٹنے پر مجبور کیا۔۔۔؟ کیا یہ بات درست ہے کہ ہمارے سیاسی نظام میں لسانی سیاست کی گنجائش تو موجود ہے، لیکن نظام کو بدلنے والے کسی طور اور طریقے کی کوئی جگہ نہیں۔۔۔؟


ہر چند کہ 'ایم کیو ایم' سے جڑا ہوا تشدد بھی ایک حقیقت ہے، وہ چاہے براہ راست کارکن نہ کرتے ہوں، لیکن فوجی نظم وضبط لی ہوئی جماعت کا نام لے کر شہریوں سے زور زبردستی ہو اور وہ تنظیم اتنی آسانی سے اَن جان بنی رہے۔۔۔؟ نہیں۔۔۔! ایسا ممکن نہیں ہے صاحب، اس لیے کہیں نہ کہیں اس جرم اور غفلت میں حصے داری تو لازمی تسلیم کرنی ہی پڑے گی۔۔۔ اس لیے یہ سوال پوچھا جائے کہ سب سے زیادہ پڑھی لکھی سیاسی جماعت میں یہ 'تشدد' کا ماجرا درحقیقت تھا کیا۔۔۔؟

اِس تشدد سے قوم کا جو نقصان ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔۔۔؟ مختلف 'یونٹ' اور 'سیکٹر' دفاتر کی سطح سے ہونے والے اس کھلے تشدد اور زور زبردستی سے آنکھیں کیوں موندے رکھی گئیں۔۔۔؟ بہت سے مضبوط ترین حلقوں میں ووٹروں کی اس شکایت کا علاج کیوں نہیں کیا گیا کہ انتخابات کے روز اِن کے ووٹ پہلے سے ڈال دیے جاتے تھے۔۔۔؟

(ہر چند کہ کڑی نگرانی میں ان جعلی ووٹوں کے بغیر بھی اکثر ایم کیو ایم ہی جیتتی) آخر ''جو قائد کا غدار، موت کا حق دار'' اور اپنے کارکنوں سے لے کر راہ نمائوں تک کو خود ہی قتل کرنے کے الزامات کا اصل ماجرا کیا ہے۔۔۔؟ اور 'مہاجر حقوق' کے وہ کون سے مراحل تھے، جہاں قوم کے بہت سے مسئلے حل ہو سکتے تھے، لیکن وہ حل نہیں کیے گئے۔۔۔کیوں؟

ایم کیو ایم پاکستان کی روایتی موروثیت، بیٹی، بھائی، بھانجے، بھتیجے وغیرہ کو عہدے دینے اور اسمبلیوں میں بھیجنے کے چلن سے خاصی پرے ہے۔ کبھی اس پر بات نہیں ہوتی کہ الطاف حسین کی جائیداد کتنی ہے۔۔۔؟ ان دنوں 'ایم کیو ایم' (بہادر آباد) نے لندن میں موجود تنظیمی اثاثوں کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے ایک مقدمہ دائر کیا ہوا ہے، جس میں الطاف حسین کے گھر کی ملکیت بھی مانگی گئی ہے۔۔۔

کیا واقعی، تین عشروں تک اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے والا شخص اور ملک کی تیسری بڑی جماعت کا قائد اپنے سر پر ایک چھت تک نہ کر سکا۔۔۔؟ جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے نام پر اسمبلیوں میں پہنچنے والے بہت سے افراد آج کراچی اور دنیا کے مختلف حصوں میں عالی شان زندگیاں گزار رہے ہیں، ورنہ اس سے پہلے وہ بہت معمولی حیثیت کے حامل ہوتے تھے۔

یہاں ہمارا مقصد کسی کی بھی وکالت یا صفائی پیش کرنا ہر گز نہیں، یہ صرف کچھ بنیادی سے سیاسی سوالات اور تصویر کے دونوں رخ ہیں، کہ ملک کی ابھرتی ہوئی ایک مختلف سیاسی قوت کیسے متنازع اور مسائل کا شکار ہوگئی۔ اپنے قیام (1984ء) کے محض تین برس بعد 25، 30سال کے نچلے اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی اس نئی سیاسی جماعت نے کس طرح 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد میں جھاڑو پھیر دیا۔۔۔؟

ملکی تاریخ میں دور دور تک ایسی کسی سیاسی جماعت کی کوئی نظیر نہیں ملتی، ذوالفقار علی بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی، تو اُن کی عمر بھی تقریباً 40 سال تھی، تاہم ان کو جنرل ایوب خان کی حکومت میں وزیرخارجہ رہنے کا بھی موقع مل چکا تھا، لیکن 'ایم کیو ایم' یک سر نئے لڑکوں کی سیاسی تنظیم تھی، جس نے جماعت اسلامی کی طرح اپنے نچلے اور متوسط طبقے کے امیدواروں کے سارے انتخابی اخراجات خود اٹھائے، بلکہ ملک بھر میں اعلانیہ جاگیردارانہ اور وڈیرانہ نظام کے خلاف جنگ کا بگل بجاتے ہوئے، ملک بھر کے عوام کو متوسط طبقے کا یہ نظام اپنانے کی دعوت دی۔

جماعت اسلامی اور 'ایم کیو ایم' کے طریقے میں بنیادی فرق یہ تھا کہ جماعت اسلامی نے غیر طبقاتی کے بہ جائے 'اسلامی نظام' کو بنیادی منشور رکھا اور وڈیروں اور جاگیرداروں کے نظام کے خلاف کھل کر آگے آنے سے گریز کیا۔ جب کہ 'ایم کیو ایم' نے پہلے عام انتخابات جیتنے کے بعد ہی ملک بھر میں 'متوسط طبقے' کی حکم رانی کا عَلم بلند کرنا شروع کر دیا۔ تاہم 'مورثی' قیادت سے دوری 'جماعت اسلامی' اور اب تک کی 'ایم کیو ایم' کی قدر مشترک رہی۔

آج سیاست کے طالب علموں کے لیے کھل کر یہ جاننا ضروری ہے کہ 'ایم کیو ایم' کا ہماری سیاست میں کیا مقام ہے اور اس پر الزامات میں کتنی صداقت ہے؟ اس سے کون کون سی غلطیاں ہوئیں؟ اور کہاں پر اُن کے ساتھ زیادتی کی گئی۔۔۔، آخر وہ کون سی منزلوں کے 'سراب' ہیں، جس کے پیچھے بھٹکنے کی ایک ناکام سی اداکاری کر کے مسلسل اپنے ہی حامیوں کا تماشا بنایا جا رہا ہے۔۔۔؟

اشتعال ایک وقت ہوتا ہے، دو وقت ہوتا ہے، لیکن پانچ سال بعد بدترین صورت حال میں بھی وہی مشکلات کا باعث بننے والی غلطیاں دُہرانا کسی بھی زبان میں غلطی نہیں رہتی، بلکہ ایک سنگین جرم بن جاتا ہے۔۔۔! اِس کے جواب میں یقیناً ریاستی جبر کا عذر دیا جائے گا، لیکن اس کے باوجود بھی 'سندھو دیش' اور 'ملک دشمنی' کی راہ کی کوئی بنیاد بنتی ہی نہیں ہے۔۔۔!

اس لیے پتا تو چلے آخر یہ بے تکے اور بے منطقی طریقے سے 'لندن' کی 'ایم کیو ایم' کیوں بار بار دیوار سے سر ٹکرا کر اپنی سیاست کے لیے سارے دروازے بند کیے جا رہی ہے؟ کیا واقعی اب وہ خود بھی پاکستان میں سیاست نہیں کرنا چاہتے۔۔۔؟ اگر ایسا ہے تو ایسا کیوں۔۔۔؟

ان سب سوالات کے جواب کا تعین اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب کسی کو بھی تنقید سے مبرا نہ سمجھا جائے اور ہر ایک سے ہر طرح کے سوال کا آزادانہ حق حاصل ہو۔۔۔ تاکہ کراچی کی سیاسی تاریخ کے طالب علموں کو یہ پتا چل سکے کہ اس کے فسوں خیز سیاسی ماضی میں کون کون سے ناگفتہ بہ حقائق پنہاں ہیں۔

اچھا یا برا، اور تاریخ میں تو اِن دو سے بھی زیادہ رنگ ہوتے ہیں۔ کبھی کسی اچھے میں بھی برائیاں نکلتی ہیں اور کبھی کسی برے کی اچھائیاں بھی سامنے آجاتی ہیں۔ اس لیے طالب علمانہ سوچ رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اس پر بات کی جائے، جب سوال اٹھتے ہیں، تبھی کھرا اور کھوٹا کھل کر سامنے آتا ہے اور یہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔

rizwan.tahir@express.com.pk
Load Next Story