غلاظت اور بدبو

نئی اور بڑی ٹولنٹن مارکیٹ میں نہ دوکانداروں اور نہ ہی کسی سرکاری محکمے نے یہ سوچا تھا کہ صفائی نصف ایمان ہے

h.sethi@hotmail.com

کراچی:
میرا ایک دیہاتی علاقے سے جب کہ ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اپنی موٹر پر گزر ہوا تو ایک جگہ آٹھ دس بچوں کو عام قسم کی چھتریاں سروں پر تانے بیٹھے دیکھا تو ذہن میں آیا کہ وہ کوئی کھیل کھیل رہے ہیں۔

کچھ شک ہوا تو کار کھڑی کر کے بارش میں بھیگتے ہوئے چل کر ان کو قریب پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا جب انھیں کاپیاں پینسلیں لیے بارش سے بچا بچا کر سوال حل کرتے پایا۔ وہ دراصل اپنا اسکول کا کام کر رہے تھے، دریافت کرنے پر معلوم ہو ا کہ ٹیچر کا دیا ہوا کام وہ ایک طرح سے کلاس روم میں بیٹھے کرنے میں مصروف ہیں، میرے لیے یہ حیرت کا مقام تھا۔

پو چھنے پر معلوم ہوا کہ کچھ فاصلے پر ایک کھنڈر عمارت ان کا اسکول ہے جس کا صرف ایک کمرہ محفوظ ہے جو ٹیچر کا کمرہ ہے اور باقی تمام کمرے چھتوں کے بغیر ہیں میں نے بہت سے دیہات کے سرکاری ٹورز کے دوران گائوں کے اسکول برباد حالت میں دیکھے ہوئے تھے اور ان کی حالتِ زاد کی رپورٹ بھی متعلقہ محکمے کو بھجوائی تھی لیکن کسی کھنڈر اسکول کی حالت دو سال گزرنے کے باوجود کھنڈر ہی دیکھی۔

یہاں مجھے اپنے بیٹے سے ملنے دو ہفتے کے لیے استنبول جانے اور وہاں گھومتے پھرتے لاہور کے دن یاد آکر تڑپا گئے۔ میں لوگوں سے پوچھ کر اسکولوں کی طرف گیا اور اجازت لے کر چھوٹی کلاسوں کے کمروں میں جھانکنے کے علاوہ ان کے اندر بھی گھوما ۔ کمرے نہ صرف صاف ستھرے تھے بلکہ ان کے اندر ٹائیلٹ بھی تھے۔

ذکر ہوا ہے ٹائیلٹس کا تو استنبول کی پہاڑیوں پر بنی مساجد کا بھی حوالہ دینا مناسب ہو گا جن کے ڈیزائن تو یکتا ہیں لیکن ان کے طویل و بلند مینار اور گنبد شہر کے ہر موڑ سے دور و نزدیک سے نہ صرف نظرآتے ہیں ہر کسی کے دل و نگاہ کی شگفتگی کا باعث بنتے ہیں، ان مساجد میں اذان ، نماز اور خطبے کے بعد ہماری مساجد کے برعکس لائوڈ اسپیکر بند کر دیے جاتے ہیں۔ وہاں کی مساجد صاف ستھری ہوتی ہیں اور وضو و طہارت کے حصے بھی صاف ہوتے ہیں اور فالتو پانی کسی جگہ گرا ہوا نہیں پایا جاتا۔


ایک نہایت اعلیٰ مسجد کا ٹائیلٹ استعمال کر نے کی ضرورت محسوس ہوئی تو مسجد کے نگران نے بہت تھوڑی فیس طلب کی جو ادا کرنے میں مجھے کوئی دشواری اس لیے نہ ہوئی کہ ایک بار میں اپنے یہاں کے ائیر پورٹ کے ٹائیلٹ میں داخل ہوا تو ایک صاحب کو گونجدار آواز کے ساتھ ناک اور گلا صاف کرتے دیکھ اور سن کر برداشت نہ کر سکا تو ان سے کہا، حضرت آپ تو ناک اور گلا صاف کرتے ہوئے چنگاڑ کر دوسروں کے مزاج پر اثر انداز ہو رہے ہیں جس پر وہ غرائے اور بولے کہ تم دیکھتے نہیں میں عبادت کی تیاری کر رہا ہوں، یہاں میرے لیے خاموشی اور برداشت ہی بہتر حل تھا۔

یہ سطور لکھتے ہوئے مجھے کرناٹک(انڈیا) کے ایک لڑکیوں کے کالج کی طالبہ کی تصویر نظروں کے سامنے گھوم گئی جو بائیک پر سوار حجاب پہنے اپنی Assignment جمع کروانے آئی لیکن حجاب کے مخالفین کا نشانہ بن گئی۔ مخالفین طلبا وغیرہ نے نعرے بازی کی تو شیرنی باحجاب طالبہ نے بھی جواباََ نعرہ تکبیر،اللہ اکبر بلند کر دیا ۔اس بے خوف طالبہ کی باحجاب نعرہ تکبیر والی تصویر البتہ ساری دنیا میں وائرل ہو گئی ۔
صبح پروفیسر ڈاکٹر نصرت اللہ کا فون آیا کہ وہ آدھے گھنٹے میں میری طرف آرہے ہیں تاکہ وہ مجھے جیل روڈ پر بنی نئی ٹولنٹن مارکیٹ دکھائیں۔ میں نے سات آٹھ سال قبل اسی نئی مارکیٹ سے شاپنگ کی تھی جو کافی وسیع ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی مجھے وہاں لے جانے کی خواہش اور وجہ کی سمجھ تو نہ آئی لیکن میں فٹا فٹ تیار ہو گیا، میرا خیال تھا کہ ان کا ارادہ وہاں سے اپنے گھر کی رونق کے لیے طوطے وغیرہ خریدنے اور اپنے پوتے کا دل لبھانے کا انتظام کرنا ہو گااور مجھے محض مشاورت کے لیے ساتھ لے جا رہے ہیں۔

ہم صرف پندرہ منٹ میں دس بارہ سال قبل بنی اس نئی ٹولنٹن پہنچ گئے۔

سیع نئی ٹولنٹن مارکیٹ بمقام جیل روڈ پر ہے، ہلکی بارش میں کار شدید کیچڑ والی جگہ کھٹری کی، شدید بد بو آئی۔ نصرت نے مجھے ما سک کے علاوہ رومال ناک پر رکھنے کے لیے کہا، عمارت کی ہر جانب ذبح شدہ جانوروں کے پربکھرے ہوئے تھے۔ بہت سے قصاب فٹ پاتھ پر پرندہ ذبح کر کے ان کے نا کارہ حصے اور چھیچھڑے وہیں پھینک رہے تھے۔

گاہکوں کا ہجوم تھا اور بد بو آزاد تھی۔ ہم بمشکل عمارت کے اندر پہنچے جہاں غلاظت کم لیکن بد بو موجود تھی۔ اس نئی اور بڑی ٹولنٹن مارکیٹ میں نہ دوکانداروں اور نہ ہی کسی سرکاری محکمے نے یہ سوچا تھا کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ میں نے بعد میں ڈاکٹر کو دیہاتی علاقے کے ملبے کے ڈھیر اسکول اور پھر باحجاب طالبہ کی بہادری کی کہانی سنائی تو وہ بھی افسردہ ہو گیا۔
Load Next Story