حکومت طالبان مذاکرات میں تعطل اب کیا ہوگا

اس سارے عمل میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں

اس صورت حال میں وہ افراد جو پارٹی عہدوں کے حصول کے خواہش مند ہیں انھیں بھی اپنی جان لڑانا ہوگی تب ہی جاکر انھیں پارٹی عہدے نصیب ہوں گے۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
مرکزی حکومت اور طالبان کے درمیان جب سے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تب سے ہی اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ مذاکرات کے دوران ایسے کئی موڑ آئیں گے کہ جن کی وجہ سے مذاکراتی عمل کو بریک لگیں گے۔

حسب توقع پشاور کے دو سینماؤں میں بم دھماکوں کے بعد کراچی میں پولیس اہلکاروں کی بس پر حملہ اور اب ایف سی کے 23 جوانوں کا قتل ، یہ ایسے دو خطرناک موڑ آئے ہیں کہ جن کی وجہ سے مذاکراتی عمل خطرناک جگہ پر پہنچ گیا ہے کیونکہ کراچی کے واقعہ کے حوالے سے ہی حکومت پر شدید دباؤ تھا کہ وہ مذاکراتی عمل روکتے ہوئے آپریشن شروع کر دے اور ان جذبات کا اظہارحکومت کی جانب سے بھی یہ کہہ کر کیا گیا کہ ''مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے'' جبکہ اب ایف سی کے تئیس جوانوں کو قتل کرنے کے واقعہ نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جس کی وجہ سے حکومت اب جو بھی فیصلہ کرے گی وہ نہایت ہی سوچ بچار کے بعد ہی کرے گی کیونکہ جن ایف سی اہلکاروں کو قتل کیا گیا ہے وہ گزشتہ تین، چار سالوں سے طالبان کے پاس تھے تاہم انھیں ایسے موقع پر قتل کیا گیا ہے کہ جبکہ حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیاں گفت وشنید کا سلسلہ لے کر آگے بڑھ رہی تھیں اور نظر یہ آرہا تھا کہ شاید جلد ہی جنگ بندی بھی ہو جائے اور معاملات سہولت کے ساتھ آگے بڑھ پائیں البتہ اب شاید وہ موڑ آگیا ہے کہ حکومت مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنے کے سلسلے میں لازمی مشاورت ضرور کرے گی۔

اس سارے عمل میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ طالبان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ حکومت ان کے زیر حراست ساتھیوں کو مار رہی ہے جس کا بدلہ وہ اپنے پاس موجود سکیورٹی اہلکاروں اور دیگر مغویوں کے قتل کے ذریعے لے رہے ہیں، یہی اعتماد قائم کرنے کے لیے جنگ بندی کی طرف معاملات کو لے جانے کی کوشش کی جارہی تھی تاہم جنگ بندی کے اعلان سے قبل ہی حالات خرابی کی طرف چل نکلے ہیں اور ان حالات میں جہاں ایک طرف طالبان کو یہ خدشہ ہے کہ سکیورٹی ادارے ان کے مزید زیر حراست ساتھیوں کو بھی ہلاک کر دیں گے تو دوسری جانب حکومت کو بھی یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کئی ہائی ویلیو افراد جو طالبان کی حراست میں ہیں ان کا اب کیا بنے گا؟

حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر آتے ہوئے بڑا وقت لگا اور کئی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے دونوں اس مقام پر پہنچے ہیں جہاں سے اگر دونوں پلٹ گئے تو شاید ہی پھر ایسا ماحول بن پائے کہ جس میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کر سکیں اس لیے اس نازک موڑ پر دونوں جانب کی مذاکراتی کمیٹیوں کو اصل کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وہ ایسا ماحول فراہم کرسکیں کہ جس میں حکومت اور طالبان اپنی پوزیشنوں سے پیچھے ہٹنے کی بجائے معاملات کو سنبھالتے ہوئے آگے کی طرف بڑھ سکیں اور مسائل کا حل نکالا جا سکے بصورت دیگر اب تو یہ بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ ناکام ہوا تو پھر وہ آپریشن ضرور ہوگا جس سے بچنے کے لیے مذاکرات کی بساط بچھائی گئی تھی۔


اقتدار کا حسن جب اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوے بکھیر رہا تھا تو اس وقت صرف ڈیڑھ، دو سال قبل عوامی نیشنل پارٹی کی رکنیت سازی مہم کے دوران پارٹی کی رکنیت لینے والوں کی تعداد 23 لاکھ تک چلی گئی تھی ، تاہم عام انتخابات میں اے این پی کے ساتھ جو ہوا اس کے بعد وہ میک اپ بھی اتر گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب جبکہ اے این پی کی رکنیت سازی مہم ساڑھے چار ماہ تک جاری رہی تو اس دوران صرف آٹھ لاکھ افراد ہی اے این پی کے رکن بنے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب سیاسی پارٹیاں اقتدار میں ہوتی ہیں تو یہ کس طریقہ سے یرغمال بنی ہوتی ہیں اور اے این پی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا، یہی وجہ ہے کہ اے این پی کے ساتھ شامل ہونے والوں کی علیحٰدگی کے بعد اب اے این پی کے ٹکٹ پر 2008 کے انتخابات میں حصہ لینے والوں نے دوسری پارٹیوں میں شمولیت کی راہ پر چلنا شروع کردیا ہے جس کا آغاز ڈاکٹر حیدر علی کی تحریک انصاف میں شمولیت سے ہوگیا ہے اوراب یہ سلسلہ آگے چلے گا۔

عوامی نیشنل پارٹی میں پہلی مرتبہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے پارٹی عہدیداروں کا انتخاب ہونے جا رہا ہے جبکہ اس سے قبل متعلقہ کونسلوں کے اجلاسوں میں کوئی ایک کونسل رکن کسی بھی عہدہ کے لیے کسی کا نام تجویز کردیا کرتا تھا جبکہ دوسرا کوئی اس کی تائید کردیتا تھا جس کے بعد ہاؤس کے پاس اس بات کی گنجائش نہیں ہوتی تھی کہ وہ تائید پانے والے ان مجوزہ ناموں کی مخالفت کرے کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو نام تجویز ہوتے تھے اور جن کی فوری طور پر تائید کردی جاتی تھی وہ سب کن کے اشاروں پر ہوتا تھا، تاہم اب اگر پارٹی میں پہلی مرتبہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے عہدیداروں کا انتخاب کیاجاتا ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ شاید ہی بڑے پیمانے پر پارٹی بڑوں کی مرضی کے خلاف نتائج آئیں تاہم کسی نہ کسی حد تک ایسا ضرور ہوگا کہ پارٹی ورکر اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق عہدیداروں کا انتخاب کرسکیں گے۔

اس صورت حال میں وہ افراد جو پارٹی عہدوں کے حصول کے خواہش مند ہیں انھیں بھی اپنی جان لڑانا ہوگی تب ہی جاکر انھیں پارٹی عہدے نصیب ہوں گے۔ ایک طرف تو اے این پی میں یہ صورت حال جاری ہے تو دوسری جانب بیگم نسیم ولی خان نے سیاست کی جو ہنڈیا چولہے پر چڑھا رکھی تھی وہ اب ابل پڑی ہے اور اور بیگم نسیم ولی خان اپنی پارٹی کے قیام کا اعلان کرنے جا رہی ہیں جس کے لیے انہوں نے الیکشن کمیشن سے بھی رجوع کر لیا ہے کیونکہ وہ بلدیاتی انتخابات میں اپنی پارٹی کے نام اور نشان کے ساتھ میدان میں اترنا چاہتی ہیں تاہم ان کی پارٹی کے قیام کے حوالے سے اصل معاملہ فرید طوفان کا ان کے ساتھ شامل ہونا ہے جو اس وقت مسلم لیگ(ن) کا حصہ ہیں اور امیر مقام گروپ جو صاحبان اقتدار کے نزدیک سمجھا جاتا ہے اس میں شامل سمجھتے جاتے ہیں، تاہم وہ ایک مرتبہ پھر اپنا راستہ تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔

سب کی نظریں فرید طوفان پر ہی لگی ہوئی ہیں کہ اب وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں جنہوں نے بیگم نسیم ولی خان کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ پارٹی قیادت بھی کسی اور کے نہیں بلکہ فرید طوفان ہی کے ہاتھوں میں ہو کیونکہ بیگم نسیم ولی خان پیرانہ سالی کی وجہ سے پارٹی کو نہیں چلاسکتیں اس لیے زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ بیگم نسیم ولی خان خود رہبربن کر صرف ہدایات دیں جبکہ میدان میں پارٹی کی بھاگ دوڑ فرید طوفان سنبھالیں، اگر ایسا ہوتا ہے تو ممکنہ طور پر آنے والے وقتوں میں بیگم نسیم اور فرید طوفان کی پارٹی آفتاب احمد شیر پاؤ کی قومی وطن پارٹی کی ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائے تاکہ اے این پی کی قوم پرستانہ سیاست کا توڑ قوم پرستانہ سیاست ہی کے ذریعے کیا جاسکے، تاہم دوسری جانب تحریک انصاف سمیت وہ تمام قوتیں جو اے این پی کے خلاف ہیں ان کی طرف بھی ''نسیم طوفان'' پارٹی دست تعاون بڑھا سکتی ہے۔
Load Next Story