نہ تین نہ تیرہ

فقدان کس چیز کا ہے، ہمارے اندر کے خوف، احساس محرومی، احساس کمتری، کمیونیکیشن، پلاننگ۔۔۔

shehla_ajaz@yahoo.com

کھیل کے میدان جب اس کے چاہنے والوں سے بھرے ہوتے ہیں تو بہت اچھے لگتے ہیں اگرچہ کھیل صحت مند تو ہو لیکن اس صحت مندی کے پیچھے زہریلے عوامل شامل ہوں تو کھیل ایک بھیانک طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے، وہ طوفان بڑی بڑی جنگوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

سننے میں آیا ہے کہ جب جرمنی کی کرکٹ ٹیم بنی اور اس نے پانچ روز کا ٹیسٹ میچ کھیلا یہ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ حسب توقع بغیر کسی نتیجے کے ڈرا ہو گیا گویا پانچ دن بعد بھی اس کا کوئی انجام نہ ہوا نہ تم جیتے نہ ہم ہارے یہ دیکھ کر ہٹلر صاحب چراغ پا ہو گئے اور کرکٹ کے تمام کھلاڑیوں کو گولی مروانے کی خواہش ظاہر کر دی۔ لہٰذا ایک بات تو واضح ہے کہ کھیل کھیل میں خون خرابہ ہونے کے امکانات کو ہرگز رد نہیں کیا جا سکتا، ہو سکتا ہے آج بھی کوئی ہٹلر ہو۔

ان دنوں کرکٹ کے حوالے سے پاکستان میں بڑی صدائیں ابھر رہی ہیں بات کھیل، خسارے، کرپشن اور اسکینڈلز سے نکل کر ملک دشمنی تک پہنچ رہی ہے اگر دیکھا جائے تو لکڑی کا چند فٹا بیٹ جیسے کپڑے دھونے کا ڈنڈا ایک معصوم سی گول سخت بال چند لکڑی کی گول لمبوتری ڈنڈیاں (وکٹیں) ، بس یہ ہے کرکٹ کی بنیاد جس پر بات کروڑوں سے نکل کر اتنی بلند ہو چکی ہے کہ اس سے آگے کی گنتی بھی ہمیں آسانی سے نہیں آتی پہلے یہ محض ممالک کے کرکٹ بورڈز تک محدود تھی پھر کیری پیکر کا جادو چلا یہ 80-70 کے عشرے کی بات ہے کیری پیکر نے ایسا پیسے کا طلسم چلایا کہ ہر ملک کا بڑا ستارہ اس کے سحر سے نہ بچ سکا۔ غالباً کیری پیکر وہ پہلا جادوئی پیکر تھا جس نے کرکٹ کے میدانوں میں اپنی ون ڈے کرکٹ کی سنسنی خیز شاخیں وا کرنے کی کوششیں کی تھیں اس تلاطم سے بڑے بڑے لوگ ادھر سے ادھر ہوئے بڑے بڑے معاوضوں نے اس وقت کے بے تاج شہزادے عمران خان گریٹ بولر کو بھی نہ چھوڑا تھا ، کرکٹ بورڈز میں بڑی بغاوتیں ہوئیں۔ بہرحال وہ ایک ہوا کا جھونکا تھا آیا اور بہت کچھ روندتا ہوا چلا گیا۔


کیری پیکر صاحب کا خواب پوری طرح شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا لوگوں نے مختلف ممالک کے مختلف ستاروں کو ایک ٹیم میں مجتمع دیکھ کر جوش و خروش کا مظاہرہ نہ کیا کیونکہ ان کے دلوں میں کرکٹ اسٹارز کی محبت تو تھی لیکن وہ ان کی جڑوں کے ساتھ ان کے حواسوں پر سوار تھے اور بھلا پھول بھی بِنا جڑوں کے تروتازہ رہتے ہیں چند دنوں میں کملا ہی جاتے ہیں لہٰذا یہ مہنگا ترین پروجیکٹ شور شرابے کے بعد ادھورا رہا، ون ڈے میچز جو اپنی تیز رفتاری کے باعث شائقین کو بہت بھائے، ورلڈ کپ کی شکل میں ایک عرصے تک کالوں کی حدود میں رہے لیکن پھر ویسٹ انڈیز کا سحر بھی کمزور پڑتا گیا اور یوں یہ کھیل پھر سے لوگوں میں جوش و جذبے کی علامت بن گیا کرکٹ کے جوش و خروش، عوام کی بے تحاشہ پسندیدگی اسے دنیا بھر کے لوگوں میں کاروباری حیثیت اختیار کرتی گئی یوں عرب ممالک میں بھی اس کا ڈھنڈورا پٹنے لگا، پاکستان انڈیا کے خلاف ون ڈے میچ میں شارجہ میں جاوید میاں داد کا چھکا ایک تاریخی حیثیت اختیار کر گیا آج بھی وہ چھکا ٹی وی اسکرین پر نظر آتا رہتا ہے۔

کرکٹ کے میدان ہمیشہ شائقین کے لیے دلفریب رہے ہیں، میچ کے نتائج اتنے سنسنی خیز ہوئے کہ بہت سے کم ہمتوں کے دل ہی ڈوب گئے، پھر یہ کھیل اپنی مسافت سے نکل کر سٹے بازوں (بکیز)کے ہتھے چڑھ گیا، بڑے بڑے نام اس فہرست میں نظر آئے کیا وزیر اور کیا سفیر لیکن کرکٹ کا بخار اس وقت ذرا اور سخت ہوا جب پڑوسی ملک کے فلمی ستاروں نے اپنی کمائی کو اس میدان میں اتارا، کھلاڑیوں کی باقاعدہ نیلامی ہوئی بولیاں لگیں اور سودے طے ہوئے کھیل اب بھی جاری تھا نیلامیاں بڑھتی گئیں اثر و رسوخ اوپر کے درجے تک پہنچ چکے تھے یہاں تک کہ ممالک کے درمیان تعلقات بھی اس کھیل کی شریف سی غنڈہ گردیوں تک محدود ہو گئے پاکستان میں لاہور جیسے پر سکون شہر میں سری لنکن ٹیم پر فائرنگ غالباً اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، تم یوں کرو، ورنہ ہم یوں کر دیں گے اور اگر تم نے یوں نہ کیا تو تم آؤٹ ، ان شریف اور غنڈے بچوں کے درمیان جیت کس کی ہوتی ہے یہ ایک سوال ہے کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کوئی فلم یا ڈرامہ نہیں جہاں کسی حادثے یا ڈرامائی سین کے بعد سب کچھ اچھا ہو جاتا ہے خود ہم جب بچے تھے تو شرارتی بچوں کو آتا دیکھ کر اپنے گھر میں دوڑ جاتے تھے نہ کسی نے ان شرارتی بچوں کو پکڑا اور نہ ہم اپنی شکایات اپنے بڑوں تک صحیح انداز سے پہنچا پائے وقت گزرتا گیا وہ بچے بھی بڑے ہوگئے اور ہم بھی پر ادھورا رہ گیا ہمارا کھیل ہماری خواہشات۔ بہرحال وقت گزر ہی جاتا ہے لیکن کرکٹ کے اس کھیل میں اب جو سیاسی چال بازیاں چلی جا رہی ہیں وہ معصوم بچوں کے درمیان نہیں ہیں بلکہ اس میں ممالک ملوث ہیں ملک کا وقار، پیسہ اور کرپشن بہت سے عناصر ہیں جنھیں نظرانداز کر دینا آسان نہیں ہے لیکن ایسا نظر آ رہا ہے کہ ہمارے بچپن کے اس سین میں پاکستان نے ہماری جگہ لے لی ہے۔

کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے گورننگ بورڈ کا اجلاس ہوا تھا قومی اکیڈمی کے ستائیسویں اجلاس میں اراکین نے ذکا اشرف سابق چیف پر اعتماد کا اظہار کیا تھا البتہ اس اجلاس میں کچھ سرکردہ اراکین نے شرکت نہیں کی تھی جو شعلہ تھا وہ آئی سی سی کے حوالے سے لپکا تھا جس میں ذکا اشرف اس سلسلے میں وزیر اعظم کی رہنمائی اور توجہ چاہتے تھے بہرحال آئی سی سی پر جن ممالک کو سانپ بن کر بیٹھنے کا ارمان ہے وہ ایک طویل عرصے سے اپنی کوششوں میں مصروف ہیں یہ بخار چند دنوں، چند مہینوں کا نہیں ہے یہ پورا ایک لائحہ عمل تھا جس پر عمل کر کے جوالا پھوٹا ہے، ہم بارباڈوس کے مقام پر بھی اس شیطانی چرخی کو قابو نہ کر سکے بگ تھری کی صدائیں اب بھی بلند ہو رہی ہیں یہ تین بڑے جن کر کٹ کے زرخیز بیج کو اپنی بوتل میں قید کر دینا چاہتے ہیں اور ہمارے یہاں پی سی بی ایک سردار کے دور میں تین پر ہوتی ہے تو دوسرے سردار کے دور میں تیرہ پر سوار ہو جاتی ہے۔ کل معین خان چیف سلیکٹر تھے پھر باسط علی دوسرے دور میں آ گئے اب پھر سے معین خان کے ستارے عروج پر ہیں ہم آخر کب تک تین تیرہ میں رہیں گے، ہماری اپنی شناخت کیا ہے؟

ذرا غور کریں فقدان کس چیز کا ہے، ہمارے اندر کے خوف، احساس محرومی، احساس کمتری، کمیونیکیشن، پلاننگ اور اپنے موقف کو صحیح انداز میں پیش کرنا، ہم بندر نچانا تو چاہتے ہیں لیکن اس کی ڈور صحیح ہاتھوں میں پکڑانے کی بجائے دروازے کی کنڈی پر باندھ کر بھول جاتے ہیں، ہم دوستی کے چکر میں اکثر اپنے ہی کلیجے کھرچ ڈالتے ہیں کتنے جیتے میچ ہم نے ہارے دوسروں کو خوش کرنے میں ہم اپنا دامن کیوں انگاروں سے بھرتے ہیں کیا ہمیں وہ حقوق حاصل نہیں جو دوسروں کو حاصل ہیں خدارا! اس یتیمی کے ماحول سے نکلیے پاکستان ایک آزاد ملک ہے اس پر ستم رسیدہ پروین کا ٹیگ لگاکر جہنم برد کرنے کی کوشش نہ کریں۔
Load Next Story