ٹارگٹڈ آپریشن پر غور و خوض کی ضرورت
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن خامیوں لاپرواہیوں اور جانبداریوں سے مبرا قرار بھی نہیں دیا جا سکتا۔۔۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کو متنازعہ بنانے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہی سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ اگر آپریشن کے خدوخال اور رخ کو صرف مطلوبہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردی میں ملوث افراد و نیٹ ورک کی جانب ہی رکھا جاتا اور ایسے اقدامات سے گریز کیا جاتا کہ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن، جرائم پیشہ عناصر کے بجائے بے گناہ افراد کی جانب موڑا جا چکا ہے۔ بے گناہ افراد کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو یا کسی گروپ کے ساتھ ہمدردی ہو۔ انھیں صرف وابستگی کی بنا پر مورد الزام ٹھہرا کر جیل بھیجنا مناسب پالیسی نہیں قرار دی جا سکتی۔ جس طرح کراچی پولیس اور حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے 16 ہزار سے زائد ملزمان گرفتار کیے، لیکن بات جب اعداد و شمار پر آتی ہے تو سینٹرل جیل اور ڈسٹرکٹ جیل ملیر میں بھیجے جانے والے ملزمان کی تعداد میں 8 ہزار سے زیادہ کم بتائی گئی۔ قیدی اسکینڈل کے حوالے سے دونوں جیل انتظامیہ تفصیلات منظر عام پر لے آئی تھیں اور حکومت سندھ کے دعوؤں کے برعکس 8 ہزار سے زیادہ ملزمان کا فرق سامنے آ چکا تھا، جس کی وضاحت ابھی تک حکومت سندھ کی جانب سے نہیں آ سکی کہ 16 ہزار ملزمان میں کتنے قیدی اس وقت کراچی کی جیلوں میں ہیں اور کتنے ضمانتوں پر ہیں۔ جب کہ ان دونوں جیلوں کی تقریباً تعداد اتنی ہی ہے جتنی پانچ ماہ قبل آپریشن شروع ہونے سے قبل تھی۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج عوام کے سامنے یہ بات آئی کہ رینجرز اور پولیس نے ریکارڈ توڑ چھاپوں میں سیکڑوں محاصرے کر کے ہزاروں ملزمان کو حراست میں لے کر تفتیش کی، پریس کانفرنسیں کیں، ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی آپریشن کو کامیاب قرار دیا لیکن غیر جانبدار حلقوں نے کراچی ٹارگٹڈ آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
دوران آپریشن سیکڑوں پولیس مقابلے ہوئے، جس میں سیکڑوں مبینہ ملزمان ہلاک کرنے کے دعوے کیے گئے، جنھیں بعدازاں ماورائے عدالت قتل قرار دیا گیا اور بعض سیاسی جماعتوں نے اس پر احتجاج و ہڑتالیں بھی کیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس چیف اور ان کی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان پر براہ راست الزامات لگائے گئے اور پورے آپریشن کو سیاسی بنیادوں پر متنازعہ قرار دیا۔ اصل میں دیکھنا یہ ضروری تھا کہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے سے قبل مانیٹرنگ کمیٹی کا مطالبہ پورا کر دیا جاتا تو یقینی طور پر آپریشن کے حوالے سے بعض حلقوں کے تحفظات، خدشات و الزامات کا فوری مداوا ممکن ہو سکتا تھا۔
حکومت پاکستان نے جس طرح طالبان سے مذاکرات کے لیے میڈیا سے وابستہ جید صحافیوں کے کندھوں پر بڑا وزنی پتھر رکھا، اگر مانیٹرنگ ٹیم میں شفاف شہرت کے حامل صحافیوں کو شامل کر لیا جائے اور انھیں یہ ذمے داری دے دی جائے کہ وہ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار اور جرائم پیشہ عناصر و دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی باریک بینی سے نگرانی کریں تو یقینی طور پر پولیس کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا کہ آپریشن کے نام پر ان کے بعض اہلکاروں نے جو لوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بے گناہ عوام کی گردن پر کرپشن کی چھری اور متنازعہ معاملات میں الجھ چکے ہیں۔ ان کے اصل کردار کو میڈیا کے توسط سے بھی منظر عام پر لایا جا چکا ہوتا۔
حیران کن صورت حال یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کا بھی کوئی کردار سامنے نہیں آیا اور ان کی جانب سے بھی گرفتار شدگان سے معلومات حاصل نہیں کی گئیں کہ آیا انھیں کس طرح گرفتار کیا گیا؟ ان پر تشدد کی صورت حال پر ردعمل کیا ہے اور ہزاروں بے گناہوں سے کتنی رشوت لی گئی، یا پھر ایسی کون سی جماعتیں و گروپس ہیں جو جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ جیل میں آنے والے تقریباً سارے قیدی ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ انھیں دشمنی میں گرفتار کیا گیا اور وہ بے گناہ ہیں اور تقریباً ہر ملزم خود کو بے گناہ ہی قرار دیتا ہے۔ لیکن ان کے بیان پر من و عن یقین بھی نہیں کیا جا سکتا۔
پولیس کی ناقص تفتیش سے زیادہ اہم بات وقوعہ کا اصلی ہونا ہوتا ہے کہ آیا واقعی جس ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے وہ اس جرم میں ملوث بھی ہے یا نہیں؟ میرے اپنے ذاتی مشاہدے میں دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پولیس کی زیادہ تر توجہ گرفتاریوں اور ملزمان کو جیل بھیجنے تک محدود رہتی ہے۔ مقدمے کو پایہ انجام تک پہنچانے اور اصلی مقدمات میں ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا رجحان بہت کم ہوتا ہے۔ برسہا برس عدالتوں میں چالان تک پیش نہیں کیے جاتے اور اگر ملزم بے گناہ ہوتا ہے تو اسے ناکردہ گناہوں کی عبرتناک سزا ملتی ہے۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن خامیوں لاپرواہیوں اور جانبداریوں سے مبرا قرار بھی نہیں دیا جا سکتا، لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں کو ان کی خامیوں سے کس طرح آگاہ کیا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا، جس طرح رائی کو پہاڑ بناتا ہے، آپریشن کے معاملات پر اپنی انوسٹی گیشن رپورٹنگ سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور سول سوسائٹیاں اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بیانات پر ٹارگٹڈ آپریشن کے مستقبل کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جس جماعت کے کارکنان گرفتار ہو رہے ہیں ان کی مخالف جماعت ایسے کارکنان کے لیڈروں کو بھی پھانسی پر چڑھانے کی خواہاں نظر آتی ہیں اور جماعتیں آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔ انھیں مطمئن کرنے کے لیے ایسی کوئی کوشش منظر عام پر نہیں ہے۔ حکومت سندھ یا وفاقی وزیر داخلہ کو لازمی طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہیے تھے کہ آپریشن پر اعتراضات یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے زیادتی کے واقعات کو وقت پر کنٹرول کیا جا سکتا۔
بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ ہر حکومت نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ پہلے خوب تواتر سے زیادتیوں کو فروغ دیا جائے اور پھر جب انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں پورا حکومتی نظام مفلوج ہو جائے تو مذاکرات کا ڈرامہ کر کے ہزاروں قیمتی جانوں اور اربوں روپوں کے نقصان پر صبر کر کے عوام پر ہی ٹیکس پر ٹیکس لگاکر انھیں معاشی عدم استحکام کے کچھ اس لیے سزا دی جائے جیسے یہ سب ان کا قصور تھا۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کا رخ منتشر ہو چکا ہے اور اس تمام صورت حال سے وہ خفیہ ہاتھ فائدہ اٹھائے گا جو کراچی کو معاشی کمزور رکھ کر پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے اور اس کے ہاتھ مسلسل پاکستانی شہ رگ کا گلا دبانے میں مصروف ہیں۔ سیاسی عدم برداشت اور متعصبانہ رویوں کے سبب کراچی آپریشن کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ کیونکہ اس متنازعہ آپریشن کو کراچی کی عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے اور جس ادارے کے ساتھ عوام کا ساتھ نہ ہو، اسے حسب منشا کامیابی کے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے اثرات و مضمرات کو باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسے مکمل طور پر غیر سیاسی بنانے کے لیے کراچی فورس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے افسران کا تقرر ہو۔ ان کی سیاسی وابستگیوں کو دیکھا جائے۔ عدلیہ اور حکومتی اداروں کے ساتھ میڈیا سے وابستہ غیر سیاسی افراد کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل مانیٹرنگ ٹیم ہی کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے درست رخ کو بحال کر سکتی ہے۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی رضامندی ظاہر کی تھی اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج عوام کے سامنے یہ بات آئی کہ رینجرز اور پولیس نے ریکارڈ توڑ چھاپوں میں سیکڑوں محاصرے کر کے ہزاروں ملزمان کو حراست میں لے کر تفتیش کی، پریس کانفرنسیں کیں، ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کراچی آپریشن کو کامیاب قرار دیا لیکن غیر جانبدار حلقوں نے کراچی ٹارگٹڈ آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
دوران آپریشن سیکڑوں پولیس مقابلے ہوئے، جس میں سیکڑوں مبینہ ملزمان ہلاک کرنے کے دعوے کیے گئے، جنھیں بعدازاں ماورائے عدالت قتل قرار دیا گیا اور بعض سیاسی جماعتوں نے اس پر احتجاج و ہڑتالیں بھی کیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس چیف اور ان کی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان پر براہ راست الزامات لگائے گئے اور پورے آپریشن کو سیاسی بنیادوں پر متنازعہ قرار دیا۔ اصل میں دیکھنا یہ ضروری تھا کہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے سے قبل مانیٹرنگ کمیٹی کا مطالبہ پورا کر دیا جاتا تو یقینی طور پر آپریشن کے حوالے سے بعض حلقوں کے تحفظات، خدشات و الزامات کا فوری مداوا ممکن ہو سکتا تھا۔
حکومت پاکستان نے جس طرح طالبان سے مذاکرات کے لیے میڈیا سے وابستہ جید صحافیوں کے کندھوں پر بڑا وزنی پتھر رکھا، اگر مانیٹرنگ ٹیم میں شفاف شہرت کے حامل صحافیوں کو شامل کر لیا جائے اور انھیں یہ ذمے داری دے دی جائے کہ وہ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار اور جرائم پیشہ عناصر و دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی باریک بینی سے نگرانی کریں تو یقینی طور پر پولیس کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا کہ آپریشن کے نام پر ان کے بعض اہلکاروں نے جو لوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے اور بے گناہ عوام کی گردن پر کرپشن کی چھری اور متنازعہ معاملات میں الجھ چکے ہیں۔ ان کے اصل کردار کو میڈیا کے توسط سے بھی منظر عام پر لایا جا چکا ہوتا۔
حیران کن صورت حال یہ ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کا بھی کوئی کردار سامنے نہیں آیا اور ان کی جانب سے بھی گرفتار شدگان سے معلومات حاصل نہیں کی گئیں کہ آیا انھیں کس طرح گرفتار کیا گیا؟ ان پر تشدد کی صورت حال پر ردعمل کیا ہے اور ہزاروں بے گناہوں سے کتنی رشوت لی گئی، یا پھر ایسی کون سی جماعتیں و گروپس ہیں جو جرائم پیشہ افراد کی سیاسی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ جیل میں آنے والے تقریباً سارے قیدی ایک بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ انھیں دشمنی میں گرفتار کیا گیا اور وہ بے گناہ ہیں اور تقریباً ہر ملزم خود کو بے گناہ ہی قرار دیتا ہے۔ لیکن ان کے بیان پر من و عن یقین بھی نہیں کیا جا سکتا۔
پولیس کی ناقص تفتیش سے زیادہ اہم بات وقوعہ کا اصلی ہونا ہوتا ہے کہ آیا واقعی جس ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے وہ اس جرم میں ملوث بھی ہے یا نہیں؟ میرے اپنے ذاتی مشاہدے میں دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پولیس کی زیادہ تر توجہ گرفتاریوں اور ملزمان کو جیل بھیجنے تک محدود رہتی ہے۔ مقدمے کو پایہ انجام تک پہنچانے اور اصلی مقدمات میں ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا رجحان بہت کم ہوتا ہے۔ برسہا برس عدالتوں میں چالان تک پیش نہیں کیے جاتے اور اگر ملزم بے گناہ ہوتا ہے تو اسے ناکردہ گناہوں کی عبرتناک سزا ملتی ہے۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن خامیوں لاپرواہیوں اور جانبداریوں سے مبرا قرار بھی نہیں دیا جا سکتا، لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں کو ان کی خامیوں سے کس طرح آگاہ کیا جائے۔ الیکٹرانک میڈیا، جس طرح رائی کو پہاڑ بناتا ہے، آپریشن کے معاملات پر اپنی انوسٹی گیشن رپورٹنگ سے کوسوں دور نظر آتا ہے۔ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اور سول سوسائٹیاں اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے بیانات پر ٹارگٹڈ آپریشن کے مستقبل کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جس جماعت کے کارکنان گرفتار ہو رہے ہیں ان کی مخالف جماعت ایسے کارکنان کے لیڈروں کو بھی پھانسی پر چڑھانے کی خواہاں نظر آتی ہیں اور جماعتیں آپریشن پر تحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔ انھیں مطمئن کرنے کے لیے ایسی کوئی کوشش منظر عام پر نہیں ہے۔ حکومت سندھ یا وفاقی وزیر داخلہ کو لازمی طور پر ایسے اقدامات کرنے چاہیے تھے کہ آپریشن پر اعتراضات یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے زیادتی کے واقعات کو وقت پر کنٹرول کیا جا سکتا۔
بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ ہر حکومت نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ پہلے خوب تواتر سے زیادتیوں کو فروغ دیا جائے اور پھر جب انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں پورا حکومتی نظام مفلوج ہو جائے تو مذاکرات کا ڈرامہ کر کے ہزاروں قیمتی جانوں اور اربوں روپوں کے نقصان پر صبر کر کے عوام پر ہی ٹیکس پر ٹیکس لگاکر انھیں معاشی عدم استحکام کے کچھ اس لیے سزا دی جائے جیسے یہ سب ان کا قصور تھا۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کا رخ منتشر ہو چکا ہے اور اس تمام صورت حال سے وہ خفیہ ہاتھ فائدہ اٹھائے گا جو کراچی کو معاشی کمزور رکھ کر پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے اور اس کے ہاتھ مسلسل پاکستانی شہ رگ کا گلا دبانے میں مصروف ہیں۔ سیاسی عدم برداشت اور متعصبانہ رویوں کے سبب کراچی آپریشن کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں۔ کیونکہ اس متنازعہ آپریشن کو کراچی کی عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے اور جس ادارے کے ساتھ عوام کا ساتھ نہ ہو، اسے حسب منشا کامیابی کے خواب نہیں دیکھنے چاہئیں۔
کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے اثرات و مضمرات کو باریکی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اسے مکمل طور پر غیر سیاسی بنانے کے لیے کراچی فورس میں کراچی سے تعلق رکھنے والے افسران کا تقرر ہو۔ ان کی سیاسی وابستگیوں کو دیکھا جائے۔ عدلیہ اور حکومتی اداروں کے ساتھ میڈیا سے وابستہ غیر سیاسی افراد کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں پر مشتمل مانیٹرنگ ٹیم ہی کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کے درست رخ کو بحال کر سکتی ہے۔