میدانِ سیاست میں عدم برداشت کا رویّہ
ایم کیو ایم کی احتجاجی سرگرمیاں جاری
پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر جام خان شورو اور وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی عبدالجبار خان نے پیپلز سیکریٹریٹ میں کارکنان کے مسائل سننے اور ان کے فوری حل کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن عبدالجبار خان کے اس سلسلے میں اجلاس کے دوران مار پیٹ کا واقعہ پیش آگیا۔
پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کی تنظیموں کے عہدے داران کی بلدیاتی اداروں کے افسران سے تعارفی ملاقات کے لیے عبدالجبار خان نے خصوصی اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس میں قاسم آباد کی تنظیم سے کے دو اہم راہ نماؤں نے پی پی پی کے ضلعی ڈپٹی سیکریٹری روشن سولنگی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا، جس پر سب حیران رہ گئے۔ اس سلسلے میں سابق ضلعی ناظم سیکریٹریٹ میں ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا، جس میں پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر زاہد بھرگڑی، سینئر نائب صدر امان اﷲ سیال، روشن سولنگی، پاشا قاضی، پیپلز یوتھ کے ڈویژنل صدر احسان ابڑو، پیپلز پارٹی کی تنظیموں کے عہدے داران، اسسٹنٹ کمشنر لطیف آباد عطاء اﷲ، میونسپل کمشنر زاہد حسین کھمیٹو اور دیگر موجود تھے۔ اس موقع پر عہدے داروں نے اپنے اپنے علاقوں اور حیدرآباد و قاسم آباد کے بلدیاتی مسائل بیان کیے۔
اجلاس میں موجود پارٹی کے راہ نما نے روشن سولنگی کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی تفصیلات بتائیں کہ ایک مرحلے پر روشن سولنگی نے اپنے خطاب میں ہالا ناکہ پر تجاوزات کا ذکر کیا اور کہاکہ متعلقہ اداروں نے وہاں سابق ضلعی حکومت کے محترمہ بے نظیر بھٹو فلائی اوور کے منصوبے کو بھی مکمل نہیں کیا۔ اسی طرح انہوں نے قاسم آباد کے مسائل بیان کرتے ہوئے خاکروبوں کا ذکر آیا تو پی پی پی قاسم آباد کے قائم مقام سینئر نائب صدر برکت ببر نے مداخلت کرتے ہوئے قاسم آباد میونسپلٹی کے چیف افسر حاتم ملاح کو مخاطب کر کے کہا کہ روشن سولنگی کوئی نواب ہے، جو اسے گھر کی صفائی کے لیے آٹھ، آٹھ خاکروب دیے ہوئے تھے۔ اس پر ان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور برکت ببر نے پانی کی بوتل روشن سولنگی کو دے ماری۔ برکت ببر کا مؤقف تھاکہ روشن سولنگی اپنے گھر کے مسئلے بیان کر رہے ہیں، انہیں قاسم آباد کی بات کرنی تھی۔ بات مزید بڑھی اور برکت ببر کے ساتھ موجود ایک عہدے دار نوید میمن نے روشن سولنگی کو گالیاں دینا شروع کر دیں، جنہیں خاموش کروا دیا گیا۔ تاہم تقریب کے اختتام پر پھر روشن سولنگی کو گالیاں دینے کے ساتھ مار پیٹ کی گئی، جنہیں دوسروں نے بڑی مشکل سے پٹنے سے بچایا۔
ضلعی قیادت کی موجودگی میں ہونے والے اس واقعے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس سے قبل اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں نے واسا اور بلدیاتی افسران کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے۔ ضلعی راہ نما پاشا قاضی نے اجلاس میں کہا کہ بلدیاتی اداروں کو فنڈز پورے نہیں دیے جا رہے، اسٹاف کی کمی ہے۔ حیدرآباد ہم سب کا ہے اور اقتدار میں ہونے کے باوجود یہاں کے مسائل حل نہیں کرائے تو عوام ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ جینیدو سومرو نے سڑکوں کی مرمت اور سیوریج کا مسئلہ سامنے رکھا۔ لعل بخش کلہوڑو نے ایچ ڈی اے کے خلاف شکایت کی اور یہ بھی کہا کہ بلدیہ اعلی حیدرآباد کے ایڈمنسٹریٹر، میونسپل کمشنر سمیت کوئی بھی افسر پی پی پی کے راہ نماؤں کی ٹیلی فون کال نہیں اٹھاتا۔ ادھر روشن سولنگی نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر کہا کہ یہ بہت زیادتی ہوئی ہے اور تاحال کسی بھی راہ نما نے ان سے اظہار ہم دردی نہیں کیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے بھی ایک سینئر کارکن کو صحافیوں کی موجودگی میں تھپڑ مارے گئے۔ حیدرآباد پریس کلب میں حیدرآباد مسلم لیگ یوتھ کے کنونشن کے اختتام پر کارکن اقبال رحمان نے سابق ایم این اے شبیر حسین انصاری سے کہا کہ وہ کس حیثیت سے عہدوں کی بندر بانٹ کر رہے ہیں جب کہ ان کے پاس خود کوئی عہدہ نہیں ہے۔ اس پر پریس کلب کے باہر شبیر حسین انصاری کے حامیوں ایوب راجپوت سمیت دیگر نے اقبال رحمان پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی۔ ہنگامہ شروع ہوتے ہی شبیر انصاری اپنی گاڑی میں سوار ہوکر چلے گئے۔
اس واقعے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کا اجلاس ضلعی صدر حنیف صدیقی کے زیر صدارت لطیف آباد میں منعقد کیا گیا، جس میں وارث مغل، ایاز رحیم، سہیل علوی احمد حیدر، رئیس خان راجہ سمیت دیگر نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مسلم لیگی راہ نما پر حملے کی مذمت کی گئی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ایوب راجپوت اب کسی عہدے پر فائز نہیں، شبیر انصاری اور ایوب راجپوت کی جانب سے مختلف افراد میں عہدوں کی تقسیم کی پارٹی آئین کے مطابق کوئی حیثیت نہیں ہے۔
جمیعت علمائے پاکستان دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طرف مرکزی صدر صاحب زادہ ابوالخیر محمد زبیر ہیں اور دوسرے دھڑے کی قیادت شاہ اویس نورانی کریں گے۔ وہ پہلے پارٹی میں سینئر نائب صدر کے عہدے پر موجود تھے۔ صاحب زادہ زبیر نے جے یو پی کے اپنے دھڑے کو نورانی کا نام دے کر تنظیم سازی کی تو اویس میاں کی جانب سے کہا گیا کہ وہ زبیری یا الوری گروپ تو بنا سکتے ہیں، لیکن نورانی نہیں۔ بہرحال، حیدرآباد میں جے یو پی (نورانی) کے صوبائی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں مفتی عبدالنبی لانگا بلا مقابلہ سندھ کے صدر منتخب ہوگئے، مولانا معشوق علی کو سینئر نائب صدر، سید عقیل انجم جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے جب کہ جے یو پی کے مرکزی عہدے داروں کا انتخاب لاہور میں کیا جائے گا۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کا الزام ہے کہ ان کے کارکنان کا ماورائے عدالت قتل، گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور متعدد کارکنان لاپتہ ہیں، جن کی بازیابی کے لیے حیدرآباد میں پارٹی کی جانب سے مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرے میں زونل انچارج نوید شمسی و اراکین زونل کمیٹی، حق پرست اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ مختلف شعبہ جات کے ذمہ داران، کارکنان اور شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر نوید شمسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد تحریک الطاف حسین نے ٹارگیٹڈ آپریشن کی حمایت، دہشت گردی اور جرائم پیشہ افرادکے خاتمے کے لیے کی تھی، لیکن ایک منظم سازش کے تحت اس آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی طرف کر دیا گیا، جس میں کارکنان کا ماوارئے عدالت قتل کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کی جا رہی ہے، لیکن آپریشن کرنے والی طاقتیں سن لیں کہ طاقت سے حق کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔
پچھلے دنوں قومی عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو نے بھی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو کسی بھی قانون کے تحت طالبان سے مذاکرات کرنے کا کوئی اختیار نہیں، ہم پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی قائد اعظم کے تصور اور قرارداد پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت کرنا چاہے تو ضرور کرنی چاہیے۔ اس ملک کو دہشت گردوں اور امریکا کی غلامی میں دینے کے لیے بات چیت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اس موقع پر قومی عوامی تحریک کے مرکزی راہ نما عبدالقادر رانٹو، گل حسن، نور احمد کاتیار اور ایاز کھوسو بھی موجود تھے۔
پچھلے دنوں پیپلز پارٹی کی تنظیموں کے عہدے داران کی بلدیاتی اداروں کے افسران سے تعارفی ملاقات کے لیے عبدالجبار خان نے خصوصی اجلاس منعقد کیا تھا۔ اس میں قاسم آباد کی تنظیم سے کے دو اہم راہ نماؤں نے پی پی پی کے ضلعی ڈپٹی سیکریٹری روشن سولنگی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا، جس پر سب حیران رہ گئے۔ اس سلسلے میں سابق ضلعی ناظم سیکریٹریٹ میں ایک غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا، جس میں پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر زاہد بھرگڑی، سینئر نائب صدر امان اﷲ سیال، روشن سولنگی، پاشا قاضی، پیپلز یوتھ کے ڈویژنل صدر احسان ابڑو، پیپلز پارٹی کی تنظیموں کے عہدے داران، اسسٹنٹ کمشنر لطیف آباد عطاء اﷲ، میونسپل کمشنر زاہد حسین کھمیٹو اور دیگر موجود تھے۔ اس موقع پر عہدے داروں نے اپنے اپنے علاقوں اور حیدرآباد و قاسم آباد کے بلدیاتی مسائل بیان کیے۔
اجلاس میں موجود پارٹی کے راہ نما نے روشن سولنگی کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی تفصیلات بتائیں کہ ایک مرحلے پر روشن سولنگی نے اپنے خطاب میں ہالا ناکہ پر تجاوزات کا ذکر کیا اور کہاکہ متعلقہ اداروں نے وہاں سابق ضلعی حکومت کے محترمہ بے نظیر بھٹو فلائی اوور کے منصوبے کو بھی مکمل نہیں کیا۔ اسی طرح انہوں نے قاسم آباد کے مسائل بیان کرتے ہوئے خاکروبوں کا ذکر آیا تو پی پی پی قاسم آباد کے قائم مقام سینئر نائب صدر برکت ببر نے مداخلت کرتے ہوئے قاسم آباد میونسپلٹی کے چیف افسر حاتم ملاح کو مخاطب کر کے کہا کہ روشن سولنگی کوئی نواب ہے، جو اسے گھر کی صفائی کے لیے آٹھ، آٹھ خاکروب دیے ہوئے تھے۔ اس پر ان کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا اور برکت ببر نے پانی کی بوتل روشن سولنگی کو دے ماری۔ برکت ببر کا مؤقف تھاکہ روشن سولنگی اپنے گھر کے مسئلے بیان کر رہے ہیں، انہیں قاسم آباد کی بات کرنی تھی۔ بات مزید بڑھی اور برکت ببر کے ساتھ موجود ایک عہدے دار نوید میمن نے روشن سولنگی کو گالیاں دینا شروع کر دیں، جنہیں خاموش کروا دیا گیا۔ تاہم تقریب کے اختتام پر پھر روشن سولنگی کو گالیاں دینے کے ساتھ مار پیٹ کی گئی، جنہیں دوسروں نے بڑی مشکل سے پٹنے سے بچایا۔
ضلعی قیادت کی موجودگی میں ہونے والے اس واقعے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس سے قبل اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں نے واسا اور بلدیاتی افسران کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے۔ ضلعی راہ نما پاشا قاضی نے اجلاس میں کہا کہ بلدیاتی اداروں کو فنڈز پورے نہیں دیے جا رہے، اسٹاف کی کمی ہے۔ حیدرآباد ہم سب کا ہے اور اقتدار میں ہونے کے باوجود یہاں کے مسائل حل نہیں کرائے تو عوام ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ جینیدو سومرو نے سڑکوں کی مرمت اور سیوریج کا مسئلہ سامنے رکھا۔ لعل بخش کلہوڑو نے ایچ ڈی اے کے خلاف شکایت کی اور یہ بھی کہا کہ بلدیہ اعلی حیدرآباد کے ایڈمنسٹریٹر، میونسپل کمشنر سمیت کوئی بھی افسر پی پی پی کے راہ نماؤں کی ٹیلی فون کال نہیں اٹھاتا۔ ادھر روشن سولنگی نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر کہا کہ یہ بہت زیادتی ہوئی ہے اور تاحال کسی بھی راہ نما نے ان سے اظہار ہم دردی نہیں کیا ہے۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے بھی ایک سینئر کارکن کو صحافیوں کی موجودگی میں تھپڑ مارے گئے۔ حیدرآباد پریس کلب میں حیدرآباد مسلم لیگ یوتھ کے کنونشن کے اختتام پر کارکن اقبال رحمان نے سابق ایم این اے شبیر حسین انصاری سے کہا کہ وہ کس حیثیت سے عہدوں کی بندر بانٹ کر رہے ہیں جب کہ ان کے پاس خود کوئی عہدہ نہیں ہے۔ اس پر پریس کلب کے باہر شبیر حسین انصاری کے حامیوں ایوب راجپوت سمیت دیگر نے اقبال رحمان پر گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی۔ ہنگامہ شروع ہوتے ہی شبیر انصاری اپنی گاڑی میں سوار ہوکر چلے گئے۔
اس واقعے کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کا اجلاس ضلعی صدر حنیف صدیقی کے زیر صدارت لطیف آباد میں منعقد کیا گیا، جس میں وارث مغل، ایاز رحیم، سہیل علوی احمد حیدر، رئیس خان راجہ سمیت دیگر نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں مسلم لیگی راہ نما پر حملے کی مذمت کی گئی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ایوب راجپوت اب کسی عہدے پر فائز نہیں، شبیر انصاری اور ایوب راجپوت کی جانب سے مختلف افراد میں عہدوں کی تقسیم کی پارٹی آئین کے مطابق کوئی حیثیت نہیں ہے۔
جمیعت علمائے پاکستان دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک طرف مرکزی صدر صاحب زادہ ابوالخیر محمد زبیر ہیں اور دوسرے دھڑے کی قیادت شاہ اویس نورانی کریں گے۔ وہ پہلے پارٹی میں سینئر نائب صدر کے عہدے پر موجود تھے۔ صاحب زادہ زبیر نے جے یو پی کے اپنے دھڑے کو نورانی کا نام دے کر تنظیم سازی کی تو اویس میاں کی جانب سے کہا گیا کہ وہ زبیری یا الوری گروپ تو بنا سکتے ہیں، لیکن نورانی نہیں۔ بہرحال، حیدرآباد میں جے یو پی (نورانی) کے صوبائی مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں مفتی عبدالنبی لانگا بلا مقابلہ سندھ کے صدر منتخب ہوگئے، مولانا معشوق علی کو سینئر نائب صدر، سید عقیل انجم جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے جب کہ جے یو پی کے مرکزی عہدے داروں کا انتخاب لاہور میں کیا جائے گا۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کا الزام ہے کہ ان کے کارکنان کا ماورائے عدالت قتل، گرفتاریاں کی جارہی ہیں اور متعدد کارکنان لاپتہ ہیں، جن کی بازیابی کے لیے حیدرآباد میں پارٹی کی جانب سے مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرے میں زونل انچارج نوید شمسی و اراکین زونل کمیٹی، حق پرست اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے ساتھ مختلف شعبہ جات کے ذمہ داران، کارکنان اور شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر نوید شمسی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد تحریک الطاف حسین نے ٹارگیٹڈ آپریشن کی حمایت، دہشت گردی اور جرائم پیشہ افرادکے خاتمے کے لیے کی تھی، لیکن ایک منظم سازش کے تحت اس آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی طرف کر دیا گیا، جس میں کارکنان کا ماوارئے عدالت قتل کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اردو بولنے والوں کو دیوار سے لگانے کی سازش کی جا رہی ہے، لیکن آپریشن کرنے والی طاقتیں سن لیں کہ طاقت سے حق کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔
پچھلے دنوں قومی عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو نے بھی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کو کسی بھی قانون کے تحت طالبان سے مذاکرات کرنے کا کوئی اختیار نہیں، ہم پاکستان کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی قائد اعظم کے تصور اور قرارداد پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے بات چیت کرنا چاہے تو ضرور کرنی چاہیے۔ اس ملک کو دہشت گردوں اور امریکا کی غلامی میں دینے کے لیے بات چیت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اس موقع پر قومی عوامی تحریک کے مرکزی راہ نما عبدالقادر رانٹو، گل حسن، نور احمد کاتیار اور ایاز کھوسو بھی موجود تھے۔