سرکاری مداخلت پولٹری انڈسٹری تباہ کردے گی پی پی اے
زورزبردستی سے مزید فارمزبند اورخمیازہ صارفین اور انڈسٹری دونوں کو بھگتنا پڑے گا، پولٹری ایسوسی ایشن کا حکومتوں کو خط
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن نے مارکیٹ مکینزم میں بے جا سرکاری مداخلت کو پولٹری انڈسٹری کیلیے تباہ کن قرار دیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کوایک خط میں ایسوسی ایشن نے خدشہ ظاہر کیا کہ سرکاری اداروں اور حکام کی زور زبردستی مارکیٹ مکینزم کوتباہ کردیگی اور مداخلت کا خمیازہ صارفین و انڈسٹری دونوں کو بھگتنا پڑے گا اور مزید پولٹری فارمز بند ہو جائینگے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق فری مارکیٹ اکانومی ہی وہ داحد ذریعہ ہے جو پروڈیوسرز کو پیداوار بڑھانے یا کم کرنے پر مجبور کرسکتی ہے جس سے قیمتوں کا تعین ہوتا ہے، بہتر منافع پروڈیوسرز کو پیداوار میں اضافے کی جانب راغب کرتا ہے جبکہ اوورسپلائی کی صورت میں قیمت اور منافع میں کمی سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے، ڈیماند اور سپلائی پر مشتمل حقیقی مارکیٹ مکینزم ہی توازن پیداکرنے کا ذریعہ ہے۔
2012 میں کمشنر اینمل ہزبنڈری حکومت نے پشاور ہائیکورٹ میں ایک روز کے چوزے کی قیمت 31.27 روپے پیش کی جبکہ چوزا اس وقت 20 روپے میں فروخت ہورہا تھا، اس طرح صرف ایک روز کے چوزے پر ہی انڈسٹری کو 11.27روپے کے نقصان کا سامنا تھا۔ ایسوسی ایشن کے مطابق اصل لاگت سرکاری تخمینے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ سرکاری تخمینے میں فنانشل کاسٹ، ایڈمن اور اوورہیڈ کاسٹ، بیماریوں اور موسم کی وجہ سے مرغیوں کی ہلاکت سے نقصان کو لاگت میں شامل نہیں کیا گیا، اضافی لاگت کو نظر انداز کرکے قیمت مقرر کیے جانے سے پولٹری انڈسٹری کو فی کلو 12.10روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایسوسی ایشن نے پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے قیمت مقرر کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جسے سپریم کورٹ نے معطل کر دیا جس پر پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ واپس لیا، اس طرح انڈسٹری کو قیمت مسلط کیے جانے کے مسئلے سے نجات مل گئی۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کوایک خط میں ایسوسی ایشن نے خدشہ ظاہر کیا کہ سرکاری اداروں اور حکام کی زور زبردستی مارکیٹ مکینزم کوتباہ کردیگی اور مداخلت کا خمیازہ صارفین و انڈسٹری دونوں کو بھگتنا پڑے گا اور مزید پولٹری فارمز بند ہو جائینگے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق فری مارکیٹ اکانومی ہی وہ داحد ذریعہ ہے جو پروڈیوسرز کو پیداوار بڑھانے یا کم کرنے پر مجبور کرسکتی ہے جس سے قیمتوں کا تعین ہوتا ہے، بہتر منافع پروڈیوسرز کو پیداوار میں اضافے کی جانب راغب کرتا ہے جبکہ اوورسپلائی کی صورت میں قیمت اور منافع میں کمی سے پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے، ڈیماند اور سپلائی پر مشتمل حقیقی مارکیٹ مکینزم ہی توازن پیداکرنے کا ذریعہ ہے۔
2012 میں کمشنر اینمل ہزبنڈری حکومت نے پشاور ہائیکورٹ میں ایک روز کے چوزے کی قیمت 31.27 روپے پیش کی جبکہ چوزا اس وقت 20 روپے میں فروخت ہورہا تھا، اس طرح صرف ایک روز کے چوزے پر ہی انڈسٹری کو 11.27روپے کے نقصان کا سامنا تھا۔ ایسوسی ایشن کے مطابق اصل لاگت سرکاری تخمینے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ سرکاری تخمینے میں فنانشل کاسٹ، ایڈمن اور اوورہیڈ کاسٹ، بیماریوں اور موسم کی وجہ سے مرغیوں کی ہلاکت سے نقصان کو لاگت میں شامل نہیں کیا گیا، اضافی لاگت کو نظر انداز کرکے قیمت مقرر کیے جانے سے پولٹری انڈسٹری کو فی کلو 12.10روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ایسوسی ایشن نے پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے قیمت مقرر کرنے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جسے سپریم کورٹ نے معطل کر دیا جس پر پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ واپس لیا، اس طرح انڈسٹری کو قیمت مسلط کیے جانے کے مسئلے سے نجات مل گئی۔