ہائبرڈ جمہوریت

عمران خان سسٹم کو مفلوج کرانے والے کرداروں کو تلاش کرنے پر آج تک تیار نہیں ہیں

tauceeph@gmail.com

وزیر اعظم عمران خان نے جس دن بہترین کارکردگی پر اپنے 10وزرا کو ایوارڈ دیے، اسی دن بین الاقوامی جریدہ اکانومسٹ نے ایک تحقیقی رپورٹ میں اس حقیقت کو آشکار کیا کہ پاکستان میں نیم جمہوریت کا راج ہے۔

75 سال بعد بھی پاکستان میں مکمل جمہوریت ہے نہ مکمل آمریت۔ اس رپورٹ میں بنگلہ دیش اور بھارت کو پاکستان سے بہتر جمہوریت کے قریب قرار دیا گیا۔ دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارہ انٹیلی جنس پوسٹ نے نئے جمہوریت انڈکس 2021 کا اجرا کیا ہے۔

اس جمہوریت انڈیکس Democracy Index میں پاکستان میں جمہوریت کو ہائبرڈ (Hybrid)جمہوریت کا خطاب دیا ہے۔ پاکستان کو جمہوریت انڈکس میں 167 ممالک میں 104واں نمبر حاصل ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں بھارت 46 ویں اور بنگلہ دیش 75 ویں نمبر پر فائز ہے۔

انڈکس میں پہلے نمبر پر یورپی ملک ناروے اور آخری نمبر پر افغانستان ہے۔ رپورٹ مرتب کرنے والے ماہرین کا بیانیہ ہے کہ پاکستان میں 2016 سے جمہوریت زوال پذیر ہے۔ پاکستان کو ہائبرڈ نظام والے ممالک میں اس لیے شامل کیا گیا ہے کہ یہاں نہ مکمل جمہوریت ہے نہ ہی آمریت۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا میں صرف 3 ممالک جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان مکمل جمہوری ملک کہلانے کے حقدار ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو ووٹ کے تقدس کی بنا پر وجود میں آئے۔ 1947 میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد نیا ملک دنیا کے نقشہ پر ابھرا تو بانی پاکستان نے 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی میں اپنی اساسی تقریر میں ریاست کے خدوخال بیان کیے۔ پہلی آئین ساز اسمبلی نے انسانی حقوق کے چارٹر کو مجوزہ آئین میں شامل کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی مگربانی پاکستان کے انتقال کے بعد یہ کمیٹی اپنا کام نہ کر سکی۔

پھر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے کمزور اقتدار کو استحکام دینے کے لیے قرار داد مقاصد آئین ساز اسمبلی سے منظور کرائی۔ قرار داد مقاصد بانی پاکستان کی 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن ایک پالیسی تقریر کی تھی۔ یہ تقریر نئے آئین کا خدوخال تھی۔ قرار داد مقاصد قائد کے اس وژن کے منافی تھی۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملک کے مستقبل میں ہونے والے حالات کو محسوس کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی بیماری کی حالت میں جون 1947 میں اسٹاف کالج کوئٹہ کا دورہ کیا اور فوجی افسروں سے خطاب کیا تھا۔ جناح صاحب نے اپنی تقریر میں کہا تھا :

"I should like you to study the constitution, which is in force in Pakistan at present and understand its true constitutional and legal implications when you say that you will be faithful to the constitution of the Dominion."

کہا جاتا ہے کہ 1946 کے اختتامی مہینوں میں محسوس ہوتا تھا کہ انگریز مسلم لیگ کے پاکستان کے مطالبہ کو بہتر مانیں گے۔ بعض مسلمان افسروں نے دہلی میں قائد سے ملاقات کی اور ان سے اجازت طلب کی تھی۔


یہ مسلمان افسران ان علاقوں کو جو مجوزہ ملک میں شامل ہوں گے، طاقت سے آزاد کرائیں۔ قائد ان افسروں کی اس تجویز پر ناراض ہوئے اور سختی سے کہا کہ آئینی اور قانونی راستہ کے علاوہ مسلم لیگ دوسرا راستہ اختیار نہیں کرے گی مگر پاکستان میں طویل عرصہ تک فوجی آمریتیں قائم رہیں جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان اوربلوچستان میں شدید احساس محرومی پیدا ہوا۔ پختونستان اور سندھو دیش کے نعرے بلند ہوئے۔

بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے 1973 کے متفقہ آئین پر اتفاق کا اظہار کیا مگر پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ملک کو حقیقی جمہوری وفاقی نظام بنانے کے بجائے دیگر معاملات میں الجھ گئے، بلوچستان جیسے مسائل پر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرکزیت پسند قوتوں سے ڈکٹیشن لینے لگے جس کی بنا پر ان قوتوں کو جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے کا موقعہ ملا۔

پھر 1988 سے 1999 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دو دفعہ برسر اقتدار رہیں مگر آسمانوں سے بجلی گرانے والی قوتوں کے غضب کا شکار ہوئیں اور کوئی بھی حکومت اپنی آئینی معیادکو پورا نہیں کرسکی۔ وکلاء کی تحریک کے نتیجہ میں جنرل پرویز مشرف فوج کے سربراہ کی حیثیت سے دوسری دفعہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا معاملہ عدالتی جنگ بن گیا مگر 2008 میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ نے مواخذہ کا فیصلہ کیا تو وہ مستعفی ہوگئے۔

2005 میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت ہوااور تمام سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کیا ۔ 2010 میں آئین میں 18ویں ترمیم ہوئی۔ 2013 کے انتخابات میں وفاق میں مسلم لیگ (ن)، بلوچستان میں نیشنل پارٹی، خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومتیں قائم رہیں۔

اس سیاسی کلچر کے ارتقا سے حقیقی جمہوری وفاقی ریاست کی عملی شکل نظر آنے لگی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے آزاد پالیسیاں اختیار کیں۔ خاص طور پر بھارت اور افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک سے اچھے تعلقات کی خارجہ پالیسی سے پاکستان کا دنیا میں امیج بہتر ہوا۔ مگر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ان پالیسیوں کا صلہ مل گیا اور دونوں وزرائے اعظم اپنی آئینی مدت پوری کیے بغیر رخصت ہوئے۔

تحریک انصاف اس دوران ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہوئی۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے بہت سے رہنما ہجرت کر کے تحریک انصاف میں شامل ہونے لگے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور منظور وٹو سمیت کئی رہنما اس فہرست کا حصہ ہیں۔

2018 کے انتخابات سے پہلے ہی مقتدر قوتوں کا کردار نمایاں ہوا۔ پنجاب اسمبلی کے موجودہ اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی اس صورتحال سے سب سے زیادہ شاکی ہوئے اور انھوں نیایک بیان دیا تھا کہ ان کی جماعت سے منتخب اراکین کی ہجرت اور تحریک انصاف میں ان کی شمولیت کرانا مناسب نہیں ہے ۔ یوں 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف اکثریتی پارٹی کے طور پر ابھری مگر 2018 کے انتخابات تاریخ میں متنازعہ کہلائے کیونکہ پریزائیڈنگ افسروں کو فوری طور پر نتائج کی ترسیل کے لیے دیا جانے والا نظام RTS مفلوج کردیا گیا ۔

عمران خان جو انتخابی دھاندلیوں کے خاتمے کے بیانیے پر مقبول ہوتے تھے ، سسٹم کو مفلوج کرانے والے کرداروں کو تلاش کرنے پر آج تک تیار نہیں ہیں ۔ موجودہ حکومت سیاسی اور اقتصادی بحران کو کم کرنے میں ناکام ہے۔ حکومت ایف اے ٹی ایف کی عائد کردہ پابندیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط مزید سخت ہوگئی ہیں۔ بلوچستان میں حالات معمول پر نہیں ہیں۔

پاکستان دنیا میں طالبان حکومت کا واحد حامی ملک ہے جب کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں پر کریک ڈاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان مستقل سرحد تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔دنیا میں پاکستان کا امیج پھر متاثر ہو رہا ہے۔ اب عالمی سطح پر پاکستان کو ہائبرڈ جمہوریت قرار دیا جا رہا ہے۔
Load Next Story