مفاداتی سیاست
سیاست میں دشمنی تو ہوتی نہیں صرف مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے
ISLAMABAD:
یہ بات تو کئی بار ثابت ہوچکی ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔سیاست میں مفادات کو مدنظر رکھ کر دشمنیاں اور دوستیاں بنائی اور تبدیل کی جاتی ہیں۔ سیاست میں دشمنی تو ہوتی نہیں صرف مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے جو سیاستدان اپنی سیاسی و سماجی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیدا کرتے رہتے ہیں۔
آپس میں جملہ بازی بھی جاری رہتی ہے اور غصے کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے، اسے پاکستان کی سیاست کا حسن کہا جاتا ہے اور اسی حسین اختلاف کے دم سے سیاست میں رونق لگی رہتی ہے۔ سیاست میں کوئی مستقل زبان نہیں ہوتی بلکہ سیاست بے زبانی کا نام ہے اور سیاستدان وہی بولی بولتے ہیں جو ان کے مطلب کی ہوتی ہے ورنہ چپ رہتے ہیں۔
اوریہی کچھ ہم آج کل دیکھ اور سن رہے ہیں۔ شدید سیاسی اختلافِ رائے رکھنے والے شیر و شکر ہو رہے ہیں ،مفادات کے تحفظ کے لیے گلے شکوے دور کر کے ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کی کوشش کی جارہی ہے اور اپوزیشن کی ان کاوشوں کا نشانہ حکومت ہے، وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے لیکن ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہو پارہی۔ اتحادی اور ہم خیال ارکان بھی شکوے شکایات کے باوجود حکومت کاڈٹ کر ساتھ دیتے نظر آتے ہیںاور یوں حکومت کی کشتی اپنے اتحادیوں کے چپوؤں کے سہارے فی الحال کنارے لگی نظر آتی ہے ۔
اپوزیشن کی گہما گہمی کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا کہ لاہور کی سیاسی رونقیں بحال ہو گئی ہیں۔ لاہور جو کبھی قومی سیاست کاگڑھ اور مرکز تھا، ہر سیاسی تحریک کا آغاز اورسیاسی جوڑ توڑلاہور سے شروع ہوتا تھا لیکن گزشتہ کئی برس سے لاہور کی سیاست بانجھ ہو گئی تھی۔ اپوزیشن کی سیاست کا سب سے بڑاڈیرہ نواب زادہ نصر اللہ خان کا ہوتا تھا اور یہ ڈیرہ ان کی وفات کے بعد بند ہو گیا ۔ لاہوری سیاست کا یہ ایک ایسا ڈیرہ تھاجہاں محمود و ایاز سب اکٹھے ہوتے یعنی شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔
سینئر سیاستدانوں کے علاوہ عام سیاسی کارکنوں کی رسائی بھی تھی اور اپوزیشن کی کسی بھی تحریک کا نقطہ آغاز نکلسن روڈ پر نواب صاحب کے گھر سے ہوتا تھا۔ لاہور کی سیاست کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی تھی اور لاہور شہر جس کے حق میں فیصلہ کر دیتا تھا وہی سیاسی جماعت کامیاب تصور کی جاتی تھی۔
لاہوریوں نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو سر پر بٹھایا مگر جب نواز شریف نے لاہور سے قومی سیاست کا آغاز کیا تو لاہور کا ہما ان کے سر پر بیٹھ گیا اور حالات کے گرم و سرد کے باوجود نواز لیگ آج بھی لاہور کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن میاں صاحب نے اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن سے منتقل کر کے لاہور کے مضافات میں بسائی گئی بستی جاتی عمرہ جس کا نام انھوں نے بھارت میں اپنے پرانے گاؤں کی یاد میں رکھا وہاں منتقل ہو گئے جہاں پر سیکیورٹی کی تام جھام کے باعث عام کارکنوں کی رسائی ممکن نہ ہو پائی، اس طرح سے وہ کارکنوں سے دور ہو گئے یا انھوں نے دانستہ دوری اختیار کر لی اور یوں سیاست کا مرکز اسلام آباد منتقل ہو گیا۔
قوم کے لیڈروں نے بابوؤں اور راولپنڈی کی قربت حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد میں ڈیرے لگا لیے۔ لاہور میں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کاسیاسی ڈیرہ آباد ہے اور وہ اپنی روایتی وضع داری کے ساتھ مہمان نوازی نبھا رہے ہیں۔ سیاست کی بدلتی موجودہ صورتحال میں چوہدری براردان کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اپوزیشن اکابرین اس ڈیرے کے چکر لگا رہے ہیں اور چوہدری صاحبان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف بھی کئی برس بعد اپنے پرانے دوستوں کے گھر پہنچے ہیں، ان کو گلے لگایا ہے چوہدری شجاعت کو میاں نواز شریف کی جانب سے پھول پیش کیے ہیں اوراپنے پرانے حلیفوں سے حکومت کے خلاف مدد مانگی ہے لیکن گزشتہ روز مونس الٰہی نے وزیر اعظم کی موجودگی میں ایک تقریب میں تحریک انصاف کے ساتھ تعلق نبھانے کی بات کر کے اپوزیشن کو واضح پیغام دیا ہے کہ چوہدریوں کی سیاست حکومت کے ساتھ وابستہ ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ سیاست میں بہت زیادہ انہونیاں ہو رہی ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ آج کی سیاست میں کوئی انہونی نہیں ہو رہی اور نہ ماضی میںکبھی ہوئی ہے۔ پاکستان میں سیاست برائے عوام نہیں بلکہ سیاست برائے مفادات ہوتی ہے اور ابھی ملکِ پاکستان کی سیاست میں یہی مروجہ طریقہ ہے۔
عوام آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے ہجوم سے اُکتا چکے ہیں کیونکہ عوام نے تو ہمیشہ اسی ہجوم کومنتخب کیا چاہے وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے کسی بھی جماعت کی نمایندگی کر رہے ہوں لیکن اس کے باوجودعوام کو کچھ نہ ملا جس کا وہ اب برملا اظہار کرتے ہیں، وہ اپنے محبوب لیڈر حضرات کو اچھی طرح جان اور پہچان چکے ہیں ۔
موجودہ حکومت سے بھی عوام مایوس ہوئے ہیں کیونکہ مستقبل میںجس خوشحالی کی تصویر دکھائی گئی تھی اس میں رنگ نہیں بھرے جا سکے اور جو رنگ بھرے گئے وہ عوام کی تکالیف اور مصائب کا موجب بن گئے جس کی وجہ سے وہ آج یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کون ہو گا جو اپنے مفادات کو بالاطاق رکھ کر عوام کی بات سنے گا اور ان کی فلاح کا کام کرے گا۔
پنجاب کی حد تک عثمان بزدار نے اپنے تئیں ترقیاتی کاموں کا ڈول ڈالا ہے گو کہ شہد اور دودھ کی نہریں تو نہ بہہ سکے لیکن بہت حد تک ترقیاتی کام پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں جن کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اپوزیشن کی جانب سے برپا کی گئی سیاسی گہما گہمی میں مخصوص مفاداتی گروہ کو ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرتی نظر آرہی ہے اور اس بات کا فیصلہ آیندہ برس انتخابات میں ہی ہو گا کہ عوام اقتدار کس پارٹی کے حوالے کرتے ہیں۔
یہ بات تو کئی بار ثابت ہوچکی ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا۔سیاست میں مفادات کو مدنظر رکھ کر دشمنیاں اور دوستیاں بنائی اور تبدیل کی جاتی ہیں۔ سیاست میں دشمنی تو ہوتی نہیں صرف مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے جو سیاستدان اپنی سیاسی و سماجی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پیدا کرتے رہتے ہیں۔
آپس میں جملہ بازی بھی جاری رہتی ہے اور غصے کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے، اسے پاکستان کی سیاست کا حسن کہا جاتا ہے اور اسی حسین اختلاف کے دم سے سیاست میں رونق لگی رہتی ہے۔ سیاست میں کوئی مستقل زبان نہیں ہوتی بلکہ سیاست بے زبانی کا نام ہے اور سیاستدان وہی بولی بولتے ہیں جو ان کے مطلب کی ہوتی ہے ورنہ چپ رہتے ہیں۔
اوریہی کچھ ہم آج کل دیکھ اور سن رہے ہیں۔ شدید سیاسی اختلافِ رائے رکھنے والے شیر و شکر ہو رہے ہیں ،مفادات کے تحفظ کے لیے گلے شکوے دور کر کے ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کی کوشش کی جارہی ہے اور اپوزیشن کی ان کاوشوں کا نشانہ حکومت ہے، وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے لیکن ابھی تک صورتحال واضح نہیں ہو پارہی۔ اتحادی اور ہم خیال ارکان بھی شکوے شکایات کے باوجود حکومت کاڈٹ کر ساتھ دیتے نظر آتے ہیںاور یوں حکومت کی کشتی اپنے اتحادیوں کے چپوؤں کے سہارے فی الحال کنارے لگی نظر آتی ہے ۔
اپوزیشن کی گہما گہمی کا ایک مثبت پہلو یہ سامنے آیا کہ لاہور کی سیاسی رونقیں بحال ہو گئی ہیں۔ لاہور جو کبھی قومی سیاست کاگڑھ اور مرکز تھا، ہر سیاسی تحریک کا آغاز اورسیاسی جوڑ توڑلاہور سے شروع ہوتا تھا لیکن گزشتہ کئی برس سے لاہور کی سیاست بانجھ ہو گئی تھی۔ اپوزیشن کی سیاست کا سب سے بڑاڈیرہ نواب زادہ نصر اللہ خان کا ہوتا تھا اور یہ ڈیرہ ان کی وفات کے بعد بند ہو گیا ۔ لاہوری سیاست کا یہ ایک ایسا ڈیرہ تھاجہاں محمود و ایاز سب اکٹھے ہوتے یعنی شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔
سینئر سیاستدانوں کے علاوہ عام سیاسی کارکنوں کی رسائی بھی تھی اور اپوزیشن کی کسی بھی تحریک کا نقطہ آغاز نکلسن روڈ پر نواب صاحب کے گھر سے ہوتا تھا۔ لاہور کی سیاست کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی تھی اور لاہور شہر جس کے حق میں فیصلہ کر دیتا تھا وہی سیاسی جماعت کامیاب تصور کی جاتی تھی۔
لاہوریوں نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو سر پر بٹھایا مگر جب نواز شریف نے لاہور سے قومی سیاست کا آغاز کیا تو لاہور کا ہما ان کے سر پر بیٹھ گیا اور حالات کے گرم و سرد کے باوجود نواز لیگ آج بھی لاہور کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن میاں صاحب نے اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن سے منتقل کر کے لاہور کے مضافات میں بسائی گئی بستی جاتی عمرہ جس کا نام انھوں نے بھارت میں اپنے پرانے گاؤں کی یاد میں رکھا وہاں منتقل ہو گئے جہاں پر سیکیورٹی کی تام جھام کے باعث عام کارکنوں کی رسائی ممکن نہ ہو پائی، اس طرح سے وہ کارکنوں سے دور ہو گئے یا انھوں نے دانستہ دوری اختیار کر لی اور یوں سیاست کا مرکز اسلام آباد منتقل ہو گیا۔
قوم کے لیڈروں نے بابوؤں اور راولپنڈی کی قربت حاصل کرنے کے لیے اسلام آباد میں ڈیرے لگا لیے۔ لاہور میں چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کاسیاسی ڈیرہ آباد ہے اور وہ اپنی روایتی وضع داری کے ساتھ مہمان نوازی نبھا رہے ہیں۔ سیاست کی بدلتی موجودہ صورتحال میں چوہدری براردان کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اپوزیشن اکابرین اس ڈیرے کے چکر لگا رہے ہیں اور چوہدری صاحبان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
میاں شہباز شریف بھی کئی برس بعد اپنے پرانے دوستوں کے گھر پہنچے ہیں، ان کو گلے لگایا ہے چوہدری شجاعت کو میاں نواز شریف کی جانب سے پھول پیش کیے ہیں اوراپنے پرانے حلیفوں سے حکومت کے خلاف مدد مانگی ہے لیکن گزشتہ روز مونس الٰہی نے وزیر اعظم کی موجودگی میں ایک تقریب میں تحریک انصاف کے ساتھ تعلق نبھانے کی بات کر کے اپوزیشن کو واضح پیغام دیا ہے کہ چوہدریوں کی سیاست حکومت کے ساتھ وابستہ ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ سیاست میں بہت زیادہ انہونیاں ہو رہی ہیں تو وہ غلطی پر ہے۔ آج کی سیاست میں کوئی انہونی نہیں ہو رہی اور نہ ماضی میںکبھی ہوئی ہے۔ پاکستان میں سیاست برائے عوام نہیں بلکہ سیاست برائے مفادات ہوتی ہے اور ابھی ملکِ پاکستان کی سیاست میں یہی مروجہ طریقہ ہے۔
عوام آزمائے ہوئے سیاستدانوں کے ہجوم سے اُکتا چکے ہیں کیونکہ عوام نے تو ہمیشہ اسی ہجوم کومنتخب کیا چاہے وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے کسی بھی جماعت کی نمایندگی کر رہے ہوں لیکن اس کے باوجودعوام کو کچھ نہ ملا جس کا وہ اب برملا اظہار کرتے ہیں، وہ اپنے محبوب لیڈر حضرات کو اچھی طرح جان اور پہچان چکے ہیں ۔
موجودہ حکومت سے بھی عوام مایوس ہوئے ہیں کیونکہ مستقبل میںجس خوشحالی کی تصویر دکھائی گئی تھی اس میں رنگ نہیں بھرے جا سکے اور جو رنگ بھرے گئے وہ عوام کی تکالیف اور مصائب کا موجب بن گئے جس کی وجہ سے وہ آج یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کون ہو گا جو اپنے مفادات کو بالاطاق رکھ کر عوام کی بات سنے گا اور ان کی فلاح کا کام کرے گا۔
پنجاب کی حد تک عثمان بزدار نے اپنے تئیں ترقیاتی کاموں کا ڈول ڈالا ہے گو کہ شہد اور دودھ کی نہریں تو نہ بہہ سکے لیکن بہت حد تک ترقیاتی کام پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں جن کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ اپوزیشن کی جانب سے برپا کی گئی سیاسی گہما گہمی میں مخصوص مفاداتی گروہ کو ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔حکومت اپنی آئینی مدت مکمل کرتی نظر آرہی ہے اور اس بات کا فیصلہ آیندہ برس انتخابات میں ہی ہو گا کہ عوام اقتدار کس پارٹی کے حوالے کرتے ہیں۔