شیشے کا مرتبان

آج پاکستان دنیا میں ایک بھکاری ملک بن کر رہ گیا ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

لاہور:
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبدیلی سرکار اس قوم کے لیے ناسور بن چکی ہے، درد سے کراہتی ہوئی قوم جب پیچھے دیکھتی ہے کہ ہم کیسے اور کیوں پھنسے تو پیچھے صرف شیشے کا وہ مرتبان نظر آتا ہے جو عمران خان 1992 میں لے کر آیا تھا، مجھ سمیت پاکستانی قوم اس جیت کا جشن بشمول اس وقت کے حکمرانوں نے بھی اس انداز میں منایا جیسے عمران خان کشمیر فتح کر کے آیا ہو۔

شیشے کا جو مرتبان جو انضمام الحق، وسیم اکرم اور عمران خان سمیت دیگر 8 کھلاڑیوں نے ساتھ مل کر جیتا تھا وہ عمران خان کے کھاتے میں ایسے ڈالا گیا جیسے اس نے کوئی تیراکی یا تیر اندازی کا مقابلہ جیتا ہو۔

حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ نے شیشے کے مرتبان کے جیتنے کے کچھ عرصہ بعد ایک کالم لکھا تھا جس میں اس نے قوم اور ریاست کو خبردار کیا تھا کہ شیشے کے مرتبان اور شوکت خانم اسپتال کی آڑ میں حکمران ساز فیکٹری میں پاکستان کے لیے ایک نیا حکمران بنایا جا رہا ہے مگر کسی نے توجہ نہ دی اور یہ روگ اس قوم کے گلے لگ گیا۔

اب قوم کی حالت ایسی ہوگئی کہ جب بھی ٹیم کھیلنے جاتی ہے تو جیت کے لیے دعائیں تو کرتی ہے مگر دل لرزتا رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی دوسرا مرتبان گلے پڑ جائے۔

اب اس قوم کا مسئلہ یہ نہیں رہا کہ یہ کیوں اور کیسے آیا بلکہ پوری قوم حیران اس بات پر ہے کہ یہ کر کیا رہا ہے۔کوئی ٹیم لیڈر ایسا بھی ہو سکتا ہے جو صبح سے شام تک اپنی تعریف اور دوسروں پر کیچڑ اچھالے؟ خان اعظم نے مخالفین کو تو پہلے دن کرپٹ اور بدعنوان کہہ کر ان سے ہاتھ ملانے سے بھی انکار کردیا مگر اپنوں کو بھی نااہل قرار دینے کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا۔

میں حیران تھا کہ وہ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ چند دن پہلے ایک بہت بڑے ماہر نفسیات سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے نفسیات کے حوالے سے کچھ انکشاف کیے تو یقین کریں میرا مسئلہ حل ہو گیا۔ مجھے اس کے پیچھے بھی وہی شیشے کا مرتبان اور پھر شوکت خانم اسپتال نظر آیا۔ مگر اس کے انجام سے خوف آیا ۔

جناب وزیراعظم اور ان کی ٹیم اپوزیشن کو کرپٹ اور بد عنوان ثابت کرنے اور حکومت کی ہر ناکامی کو گزشتہ حکمرانوں کے کھاتے میں ڈال کر پوری قوم کو صرف بابا رحمتے کا دیا ہوا صادق و امین کا سرٹیفکیٹ دکھاتے ہوئے تو پونے چار سال گزر گئے مگر جو کام چند دن پہلے سزا اور جزا کے نام پر کیا گیا ہے اسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ خان صاحب نے وزرا کی اہلیت کی بنیاد پر جزا کے طور پر سرٹیفکیٹ بانٹے،کسی نے یہ نہیں سوچا کہ 10وزراء کو بہترین قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ باقی تمام نااہل اورنالائق ہیں۔

مگر کسی نے کپتان کی اس بات پر توجہ نہیں دی ۔ یہ سند یافتہ وزراء کے علاوہ سب کے لیے بہت گہری اورخطرناک بات ہے۔ جزاء تو دس وزراء کو مل گئی اب باقی رہ گیا سزا کا عمل۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے والے جو وزراء جزا پانے والوں کی فہرست میں شامل نہ ہوسکے انھیں اب سزا کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی ایک کونے سے دوسرے کونے تک، پوری دنیا میں کشکول اٹھائے صدائیں لگاتے رہے ''دے جا سکھیا راہِ خدا''، '' جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا''۔ پونے چار سال کی یہ انتھک مشقیں بھی انھیں کپتان کی گڈ بک میں نہ لاسکیں۔ اس وقت وہ بھی سزا کے مستحق وزراء کی فہرست میں شامل ہیں۔ فہرست میں پرویز خٹک، شوکت ترین، فواد چوہدری اور دیگر بیسیوں وزرا شامل ہیں اب پریشان ہونے کی بجائے دعا کرنی چاہیے کہ سزا قابل برداشت ہو۔


اگر سزا ٹالنی ہو تو قابل سزا قرار دیے جانے والے وزراء اور مشیروں کو مل کر اپنے خان کو سمجھانا چاہیے کہ جس طرح 92 کے ورلڈ کپ کا آخری میچ پوری ٹیم نے جیتا مگر شیشے کے مرتبان کا پورا کریڈٹ خان کے کھاتے میں ڈالا گیا کیوں کہ وہ کپتان تھے تو بالکل اسی طرح آج اگر وزراء اور مشیروں کی فوج ظفر موج میں صرف 10 اپنی اہلیت ثابت کر گئے'باقی نوے فیصد نااہل اور نالائق ہیں تو درحقیقت یہ نااہلی اور نالائقی بھی ٹیم کے کپتان کے کھاتے میں لکھی جائے گی۔ اگر یہ بات سمجھ میں آجائے تو شاید سزا کا فیصلہ موخر ہو جائے۔

اب ہم آتے ہیں ''جزا یافتہ'' وزراء کی طرف، ان وزراء میں وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، احساس پروگرام کی چیئرپرسن ثانیہ نشتر، وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار، مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف، مشیر تجارت رزاق داؤد، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ سید فخر امام شامل ہیں۔ ان میں سے شاید ہی کوئی وزیر یا مشیر ایسا ہو جس کا ایک یا ایک سے زائد بار قلمدان تبدیل نہ کیا گیا ہو۔

قلمدان تبدیل کرنے کا مطلب بری کارکردگی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے لیکن یہی وزراء بہترین کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک قومی شاہراہیں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں، بعض سڑکیں تو ایسی ہیں جن پر رات کی تاریکی میں سفر کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چاند پر گاڑی چل رہی ہو۔ گزشتہ تین برسوں میں ٹول ٹیکس کی مد میں عوام کی جیبوں پر جو ڈاکہ ڈالا جارہا ہے یہ بھی کارکردگی کا کارنامہ ہے۔

ہر ضلع کی تبدیلی پر ٹیکس، موٹر وے اور ہائی وے کے ٹیکس میں کئی گنا اضافہ، لاہور رنگ روڈ کی پرچی دس روپے سے پچاس روپے پر چلی گئی۔ لیکن مواصلات کے وزیر جناب مراد سعید ٹاپ ٹین کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہیں۔

فوڈ سیکیورٹی کا یہ حال ہے کہ کپتان جس چیز کا نام لیتے ہیں وہ مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہے۔ کبھی آٹا بحران تو کبھی چینی بحران۔ لیکن فوڈ سیکیورٹی کے وزیر جنھیں اس وزارت کا قلمدان سنبھالے چند ماہ ہوئے ہیں کپتان نے انھیں بھی سند برائے حسن کارکردگی سے نواز ڈالا۔

شیخ رشید نے وزرات ریلوے کا بیڑا غرق کرنے کے بعد جب سے انھوں نے وزارت داخلہ کا قلم دان سنبھالا ہے ملک میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوگئی ہے۔ نہ یہ پولیس کو تحفظ دے سکے نہ عوام کو، اور ان کی غیر محتاط گفتگو جس کے وہ ٹاک شوز میں عادی ہیں نے کئی مرتبہ ملک کو بحران میں ڈالا۔ جس کو سنبھالنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔

میرے خیال میں وزیر اعظم نے انھیں بھی تعریفی سند اور انعام دے کر ان شہیدوں کے پسماندگان کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔ جو ریلوے حادثو ں اور حالیہ دہشت گردی میں مارے گئے تھے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کو شائد قوم کے غریبوں کو بھکاری بنانے کے عوض انعام و اکرام سے نوازا گیا۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے یکساں نصاب کی آڑ میں نصاب سے اسلامی مواد نکالنے کی کوشش کی، لگتا ہے انھیں ایسی ہی خدمات کے عوض حسن کارکردگی کی سند اور انعام سے نوازا گیا۔ اسد عمر ہوں، معید یوسف ہوں ، رزاق داؤد یا پھر فخر امام، سبھی کابینہ کے گوہرِ نایاب ہیں۔ انھیں وزراء کی ''اعلیٰ'' کارکردگی نے ملک کو معاشی اور معاشرتی تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا ہے۔

آج پاکستان دنیا میں ایک بھکاری ملک بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان کی معیشت اور ادارے آئی ایم ایف کے آگے گروی رکھ دیے گئے ہیں۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے کاروباری سرگرمیوں کو بریک لگا دی ہے۔ لوگ بلبلا رہے ہیں لیکن بے حس تبدیلی سرکار کبوتر کی طرح بدترین حالات سے آنکھیں چرائے بیٹھی ہے۔

قوم اس بات کی منتظرہے کہ تقریب تقسیم اسناد و انعامات تو ہوچکی مگر نااہلی اورنالائقی کی سزا کے لیے عوامی عدالت کب لگے گی، مگر تبدیلی سرکار کے تمام ذمے داران کو یہ بات اب ذہن نشین کرنی چاہیے کہ عوامی عدالت کی سزا بہت عبرتناک ہوگی کیونکہ شیشے کے مرتبان کا سحر ختم ہو چکا ہے بلکہ مستقبل میں بھی کوئی کپتان شیشے کا مرتبان جیت کر پاکستان آیا تو عوام اسے ہیرو کا درجہ نہیں دیں گے بلکہ گھبرا کردور بھاگ جائیں گے۔
Load Next Story