یوم یکجہتی کشمیر مشاعرہ
تقریباً تمام ہی شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں کشمیر،کشمیریوں اوراُن کی جدوجہد آزادی کے بارے میں بہت اچھا کلام پیش کیا
کراچی:
اکادمی ادبیات کے چیئرمین برادرم ڈاکٹر یوسف خٹک کے آنے سے اکیڈمی ادبیات دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور پاکستانی ادب کی تشہیر اور ترجمانی کا فریضہ بڑے مستحسن انداز میں سرانجام دے رہی ہے کہ کووڈ کی تمام تر جملہ خرابیوں اور رکاوٹوں کے باوجود وہ ہمہ وقت خود کو اور اپنے عملے کو مثبت اور تخلیقی انداز میں مصروف رکھتے ہیں اور یوں ادب اور ادبی برادری کو بھی مہمیز ملتی رہتی ہے۔
بے شمار زبان و ادب سے متعلق پروگراموں سے قطع نظر پاکستانی لکھاریوں کے پہلے ہال آف فیم کا قیام یقیناً ایک بہت ضروری اور تاریخی کارنامہ ہے، آج کل وہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے حوالے سے ایک نیشنل میوزیم کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جو یقیناً بہت دُور رَس اور اعلیٰ نتائج کا حامل ہوگا۔
قومی سطح پر ہونے والی کسی بھی کارروائی میں اگر ادب یا ادیب کا تعلق ہو تو وہ آگے بڑھ کر اکادمی کو اس عمل میں نہ صرف شریک بناتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں جس کاایک مظاہرہ پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ایوان صدر میں ہونے والا ایک مشاعرہ تھا جس میں تمام صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور اسکردو سے بھی شعرا کو منتخب اور مدعو کیا گیا تھا۔
عام طور پر ایوانِ صدر یا وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریبات میں سیکیورٹی پر متعین روبوٹ نما حضرات کی وجہ سے بار بار جانچ پڑتال کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور موبائل فون بھی لے لیے جاتے ہیں اس بار انتظامات بہت بہتر تھے کہ تمام شعرا اکادمی کے دفتر میں جمع ہوئے۔
اپنی اپنی سواریاں وہیں چھوڑیں اور اکادمی کی مہیا کردہ ٹرانسپورٹ میں ایوانِ صدر اس طرح سے پہنچائے گئے کہ سیکیورٹی کلیئرنس کے بہت سے مراحل پہلے سے طے ہوچکے تھے اوریوں شاعر حضرات بہت آسانی سے مشاعرہ گاہ میں پہنچ گئے جو ایوانِ صدر کے ایک باغ میں کُھلے میں سجائی گئی تھی البتہ اُس منظر کا پہلا تاثر کچھ اچھا نہیں تھا کہ شاعروں کے لیے روایتی انداز کی فرشی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا جب کہ آج کل ہر جگہ کرسیوں کا انتظام کیا جاتا ہے کہ فرشی نشست میں مجھ سمیت سینئر بلکہ جونیئر شعراء بھی بہت دِقت محسوس کرتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ٹانگوں میں خون کی روانی سست پڑجاتی ہے، کمزور گھٹنوں یا شوگر وغیرہ کی وجہ سے بیشتر لوگوں سے ٹھیک سے بیٹھا نہیں جاتا اور کئی لوگ ٹانگیں سوجانے کے باعث اُچھلتے ہوئے مائیک کے سامنے پہنچتے ہیں۔
میں نے یوسف خٹک اور یکے از میزبانان مشاعرہ محبوب ظفر سے شکایت کی کہ آپ نے ان لوگوں کو سمجھایا کیوں نہیں، معلوم ہوا کہ اُنہوں نے بتانے کی کوشش کی تھی مگر کسی بڑے صاحب کے خیال میں مشاعرے کی روایت کی پاسداری ضروری تھی، ادب اور ادبی تقریبات کی کمی کی وجہ سے ادب سے براہ راست تعلق نہ رکھنے والے احباب وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہوتے اور بہت سے بے قصور شاعروں کو اپنے ناسٹیلجیا کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
مشاعرے کے مہمانِ خصوصی صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی تھے مگر معلوم ہوا کہ وہ کمانڈر اِن چیف کے ساتھ اسی یکجہتی کے اظہار کے لیے آزاد کشمیر گئے ہیںاور مشاعرے کے درمیان کسی وقت پہنچ جائیں گے اس وقت تک اُن کی بیگم ثمینہ علوی مہمان خصوصی ہوں گی۔
پروگرام کے مطابق23 شاعروں کو کل 45منٹ کا وقت دیا گیا جس کے محرک غالباً PTV کے لوگ تھے جو اُسے اُسی رات ایک گھنٹے والے Spot میں ٹیلی کاسٹ کرنا چاہ رہے تھے۔
اگرچہ موضوعاتی مشاعروں میں داد اور تکرار دونوں کی کمی ہوتی ہے مگر اُس کے باوجود فی شاعر 3منٹ سے کم وقت ایک بہت بڑی غلطی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ کسی شاعری سے مطلقِ نابلد پروڈیوسر نے ایڈیٹنگ کی اور صحیح معنوں میں پُشتوں کے پشتے لگا دیے کہ کوئی بھی شاعر اُن کے خنجرآبدار سے محفوظ نہ رہ سکا۔
خوش قسمتی سے ہمارے گریز کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر مشاعرہ احسان اکبر، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور مجھ سمیت تین لوگوں کو اسٹیج کے بجائے سامعین کی پہلی صف میں بٹھا دیا گیا اور ہم نے مشاعرے کے مائیک کے بجائے تقریروں والے راس راسٹرم پر شعر سنائے۔
آغاز میں ڈاکٹر یوسف خٹک نے بڑے مختصر مگر جامع انداز میں مشاعرے اور یومِ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ادیبوں کے کردار کی وضاحت کی اس کے بعد عنبرین حسیب عنبر اور محبوب ظفر کی مشترکہ نظامت میں مشاعرے کا آغاز ہوا، اسٹیج اور سامعین کے درمیان فاصلے کی زیادتی اور سامعین کی ضرورت سے زیادہ سنجیدگی کے باعث شروع میں بہت اچھے شعروں پر بھی مناسب داد نہ مل سکی لیکن آہستہ آہستہ ماحول بہتر ہونا شرو ع ہوگیا اور اختر عثمان کو ویسی ہی داد ملی جو اچھے مشاعروں کا خاصا سمجھی جاتی ہے۔
دھوپ کچھ دیر بعد پہلے کم اور پھر غائب ہونا شروع ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں ٹمپریچر گرنا اور سردی بڑھنا شروع ہوگئی، ہمارے قریب بیٹھے سید فخرامام کا عملہ اُن کے لیے ایک بھاری کوٹ لے آیا مگر شعرا اور سامعین کے کپڑے بہت تیزی سے معذرت پر اُتر آئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صاحبِ صدر احسان اکبر کا مخصوص جلالی انداز بھی کچھ گہنا سا گیا ۔ اعلان ہوا کہ اب ذیلی کمیٹی برائے کشمیر کی نمایندگی کرتے ہوئے محترمہ نورین افضل خان جو پارلیمانی سیکریٹری بھی ہیں اپنے خیالات کا اظہار کریں گی ۔
اس پر وہی خوش رو اور باوقار سی خاتون اپنی جگہ سے اُٹھیں جنہوں نے شعرا کا بڑے احترام سے استقبال کیا تھا اگر وہ تقریر اُن کی اپنی لکھی ہوئی تھی تو کیا کہنے لیکن اگر وہ اسے صر ف پڑھ رہی تھیں تب بھی وہ سو فیصد نمبروں کی حقدار تھیں کہ اُن کی آواز کانوں کے ساتھ ساتھ ذہن کو بھی بھلی محسوس ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے مخصوص انداز میں روایتی باتیں نسبتاً دلچسپ انداز میںپیش کیں جس میں سردی کی وجہ سے سامعین کے ''منجمد'' ہونے کا ذکر چند لمحوں کے لیے پوری محفل کو گرما گیا۔
پروگرام کے اختتام پر شاعروں کو شیلڈوںکے ساتھ گرم چادریں بھی پیش کی گئیں، گروپ فوٹوز کے بعد بہت دیر تک چائے کی جگہ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر بھلا ہو سیلفیاں بنوانے والے خواتین و حضرات کا کہ اُنہوں نے اُس طرف جانے کا موقع ہی نہیں دیا آخر میں ایک شعر جو وہاں سنانے سے رہ گیا کہ
دنیا کو نظر آتا ہی کشمیر نہیں کیا
اس خواب کی تقدیرمیں تعبیر نہیں کیا؟
اکادمی ادبیات کے چیئرمین برادرم ڈاکٹر یوسف خٹک کے آنے سے اکیڈمی ادبیات دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور پاکستانی ادب کی تشہیر اور ترجمانی کا فریضہ بڑے مستحسن انداز میں سرانجام دے رہی ہے کہ کووڈ کی تمام تر جملہ خرابیوں اور رکاوٹوں کے باوجود وہ ہمہ وقت خود کو اور اپنے عملے کو مثبت اور تخلیقی انداز میں مصروف رکھتے ہیں اور یوں ادب اور ادبی برادری کو بھی مہمیز ملتی رہتی ہے۔
بے شمار زبان و ادب سے متعلق پروگراموں سے قطع نظر پاکستانی لکھاریوں کے پہلے ہال آف فیم کا قیام یقیناً ایک بہت ضروری اور تاریخی کارنامہ ہے، آج کل وہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے حوالے سے ایک نیشنل میوزیم کے پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جو یقیناً بہت دُور رَس اور اعلیٰ نتائج کا حامل ہوگا۔
قومی سطح پر ہونے والی کسی بھی کارروائی میں اگر ادب یا ادیب کا تعلق ہو تو وہ آگے بڑھ کر اکادمی کو اس عمل میں نہ صرف شریک بناتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت کو بھی واضح کرتے ہیں جس کاایک مظاہرہ پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ایوان صدر میں ہونے والا ایک مشاعرہ تھا جس میں تمام صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور اسکردو سے بھی شعرا کو منتخب اور مدعو کیا گیا تھا۔
عام طور پر ایوانِ صدر یا وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریبات میں سیکیورٹی پر متعین روبوٹ نما حضرات کی وجہ سے بار بار جانچ پڑتال کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور موبائل فون بھی لے لیے جاتے ہیں اس بار انتظامات بہت بہتر تھے کہ تمام شعرا اکادمی کے دفتر میں جمع ہوئے۔
اپنی اپنی سواریاں وہیں چھوڑیں اور اکادمی کی مہیا کردہ ٹرانسپورٹ میں ایوانِ صدر اس طرح سے پہنچائے گئے کہ سیکیورٹی کلیئرنس کے بہت سے مراحل پہلے سے طے ہوچکے تھے اوریوں شاعر حضرات بہت آسانی سے مشاعرہ گاہ میں پہنچ گئے جو ایوانِ صدر کے ایک باغ میں کُھلے میں سجائی گئی تھی البتہ اُس منظر کا پہلا تاثر کچھ اچھا نہیں تھا کہ شاعروں کے لیے روایتی انداز کی فرشی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا جب کہ آج کل ہر جگہ کرسیوں کا انتظام کیا جاتا ہے کہ فرشی نشست میں مجھ سمیت سینئر بلکہ جونیئر شعراء بھی بہت دِقت محسوس کرتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ٹانگوں میں خون کی روانی سست پڑجاتی ہے، کمزور گھٹنوں یا شوگر وغیرہ کی وجہ سے بیشتر لوگوں سے ٹھیک سے بیٹھا نہیں جاتا اور کئی لوگ ٹانگیں سوجانے کے باعث اُچھلتے ہوئے مائیک کے سامنے پہنچتے ہیں۔
میں نے یوسف خٹک اور یکے از میزبانان مشاعرہ محبوب ظفر سے شکایت کی کہ آپ نے ان لوگوں کو سمجھایا کیوں نہیں، معلوم ہوا کہ اُنہوں نے بتانے کی کوشش کی تھی مگر کسی بڑے صاحب کے خیال میں مشاعرے کی روایت کی پاسداری ضروری تھی، ادب اور ادبی تقریبات کی کمی کی وجہ سے ادب سے براہ راست تعلق نہ رکھنے والے احباب وقت کے ساتھ ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ نہیں ہوتے اور بہت سے بے قصور شاعروں کو اپنے ناسٹیلجیا کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
مشاعرے کے مہمانِ خصوصی صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی تھے مگر معلوم ہوا کہ وہ کمانڈر اِن چیف کے ساتھ اسی یکجہتی کے اظہار کے لیے آزاد کشمیر گئے ہیںاور مشاعرے کے درمیان کسی وقت پہنچ جائیں گے اس وقت تک اُن کی بیگم ثمینہ علوی مہمان خصوصی ہوں گی۔
پروگرام کے مطابق23 شاعروں کو کل 45منٹ کا وقت دیا گیا جس کے محرک غالباً PTV کے لوگ تھے جو اُسے اُسی رات ایک گھنٹے والے Spot میں ٹیلی کاسٹ کرنا چاہ رہے تھے۔
اگرچہ موضوعاتی مشاعروں میں داد اور تکرار دونوں کی کمی ہوتی ہے مگر اُس کے باوجود فی شاعر 3منٹ سے کم وقت ایک بہت بڑی غلطی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ کسی شاعری سے مطلقِ نابلد پروڈیوسر نے ایڈیٹنگ کی اور صحیح معنوں میں پُشتوں کے پشتے لگا دیے کہ کوئی بھی شاعر اُن کے خنجرآبدار سے محفوظ نہ رہ سکا۔
خوش قسمتی سے ہمارے گریز کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر مشاعرہ احسان اکبر، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم اور مجھ سمیت تین لوگوں کو اسٹیج کے بجائے سامعین کی پہلی صف میں بٹھا دیا گیا اور ہم نے مشاعرے کے مائیک کے بجائے تقریروں والے راس راسٹرم پر شعر سنائے۔
آغاز میں ڈاکٹر یوسف خٹک نے بڑے مختصر مگر جامع انداز میں مشاعرے اور یومِ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ادیبوں کے کردار کی وضاحت کی اس کے بعد عنبرین حسیب عنبر اور محبوب ظفر کی مشترکہ نظامت میں مشاعرے کا آغاز ہوا، اسٹیج اور سامعین کے درمیان فاصلے کی زیادتی اور سامعین کی ضرورت سے زیادہ سنجیدگی کے باعث شروع میں بہت اچھے شعروں پر بھی مناسب داد نہ مل سکی لیکن آہستہ آہستہ ماحول بہتر ہونا شرو ع ہوگیا اور اختر عثمان کو ویسی ہی داد ملی جو اچھے مشاعروں کا خاصا سمجھی جاتی ہے۔
تقریباً تمام ہی شاعروں نے اپنے اپنے انداز میں کشمیر، کشمیریوں اور اُن کی جدوجہد آزادی کے بارے میں بہت اچھا کلام پیش کیا، پشاور کے شاعر ڈاکٹر نذیر تبسم کی نظم کے درمیان سامعین کے بجائے کہیں پیچھے سے ایک شور بلند ہونا شروع ہوا جو بڑھتا ہی گیا پتہ چلا کہ صدر صاحب تشریف لے آئے ہیں۔
دھوپ کچھ دیر بعد پہلے کم اور پھر غائب ہونا شروع ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں ٹمپریچر گرنا اور سردی بڑھنا شروع ہوگئی، ہمارے قریب بیٹھے سید فخرامام کا عملہ اُن کے لیے ایک بھاری کوٹ لے آیا مگر شعرا اور سامعین کے کپڑے بہت تیزی سے معذرت پر اُتر آئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صاحبِ صدر احسان اکبر کا مخصوص جلالی انداز بھی کچھ گہنا سا گیا ۔ اعلان ہوا کہ اب ذیلی کمیٹی برائے کشمیر کی نمایندگی کرتے ہوئے محترمہ نورین افضل خان جو پارلیمانی سیکریٹری بھی ہیں اپنے خیالات کا اظہار کریں گی ۔
اس پر وہی خوش رو اور باوقار سی خاتون اپنی جگہ سے اُٹھیں جنہوں نے شعرا کا بڑے احترام سے استقبال کیا تھا اگر وہ تقریر اُن کی اپنی لکھی ہوئی تھی تو کیا کہنے لیکن اگر وہ اسے صر ف پڑھ رہی تھیں تب بھی وہ سو فیصد نمبروں کی حقدار تھیں کہ اُن کی آواز کانوں کے ساتھ ساتھ ذہن کو بھی بھلی محسوس ہو رہی تھی۔
ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے مخصوص انداز میں روایتی باتیں نسبتاً دلچسپ انداز میںپیش کیں جس میں سردی کی وجہ سے سامعین کے ''منجمد'' ہونے کا ذکر چند لمحوں کے لیے پوری محفل کو گرما گیا۔
پروگرام کے اختتام پر شاعروں کو شیلڈوںکے ساتھ گرم چادریں بھی پیش کی گئیں، گروپ فوٹوز کے بعد بہت دیر تک چائے کی جگہ تک پہنچنے کی کوشش کی مگر بھلا ہو سیلفیاں بنوانے والے خواتین و حضرات کا کہ اُنہوں نے اُس طرف جانے کا موقع ہی نہیں دیا آخر میں ایک شعر جو وہاں سنانے سے رہ گیا کہ
دنیا کو نظر آتا ہی کشمیر نہیں کیا
اس خواب کی تقدیرمیں تعبیر نہیں کیا؟