پاک بھارت تعلقات
پاکستانی دانشور، صحافی اور امن کے کارکن اس تحریک کو مستحکم کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں
NEW DELHI:
بھگوان کی آواز لتا منگیشکر جسمانی طور پر دنیا سے رخصت ہوئیں مگر ان کی آواز پاکستان ، بھارت، افغانستان، خلیجی ممالک ، یورپ، امریکا اورکینیڈا میں رہنے والے جنوبی ایشیائی ممالک کے باشندوں کے گھروں میں گونج رہی ہے۔
موسیقی کی اہمیت کو سمجھنے والے پاکستانی اخبارات ، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ لتا نے بھجن گائے، مختلف نوعیت کے گانوں کو گا کر انھیں امر کردیا۔ لتا کے سوگ کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے یہ واضح ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کا کلچر ایک ہے۔
ایک جیسے جذبات ہیں اور بقول ماہر سماجیات ڈاکٹر ریاض شیخ بھارت اور پاکستان کے لوگ ایک ہی نسل کے ہیں۔ دونوں طرف نفرت پھیلانے والے عناصر کی مذموم حرکتوں کے باوجود دونوں ممالک کا محبت اور درد کا رشتہ مستحکم ہے۔ لتا منگیشکرکے سوگ کے ساتھ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اب بڑے فنکاروں ، ماہر اقتصادیات اور بین الاقوامی تھنک ٹینک نے بھی رائے دینا شروع کردی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے تین سال قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بھارت کے آئین میں ترمیم کی تھی۔ اس ترمیم کے تحت بھارتی یونین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا گیا تھا ، کشمیر کو دو ڈویژن میں تقسیم کیا گیا تھا۔
یہ ترمیم بھارت کے بانی دانشور وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ذہن کی تخلیق تھی۔ بھارتی حکومت کی اس یکطرفہ کارروائی سے کشمیر کے باشندوں کو ملنے والی خصوصی مراعات ملازمتوں میں کوٹہ اور غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں زمین کی خریداری ممنوع قرار دی گئی۔ بھارتی حکومت کے سخت اقدامات اور فوج کے تشدد کی بناء پر جموں وکشمیر میں احتجاج نہیں ہوسکا تھا۔ امریکا، یورپی اور دیگر مسلم ممالک نے اس مسئلہ سے لاتعلقی اختیارکیے رکھی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھارت سے تمام قسم کے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ دونوں ممالک کے ہائی کمشنر واپس چلے گئے اور دونوں ممالک نے اپنے اپنے بیشتر سفارتی عملہ کو واپس بلایا تھا۔ بھارت سے ریل ، بس اور ہوائی راستے بھی بند ہوئے۔
حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کے نتیجہ میں دونوں ممالک کے تاجر جو تجارت کرتے تھے ، شدید معاشی خسارہ کا شکار ہوئے اور تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ بھارت سے تجارت پر پابندی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ بھارت سے ادویات کا خام مال ، ادویات اور ویکسین درآمد کی جاتی ہیں۔ ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھارت سے سستا خام مال ملتا تھا۔
ادویات تیارکرنے والے ایک کمپنی کے ذریعہ کا کہنا تھا کہ ہماری کمپنیوں کا دارومدار بھارت آنے والے خام مال پر تھا۔ بھارت کا خام مال اب دبئی سے ملک میں آنے لگا۔ اس سے قیمتیں بڑھ گئیں۔ دوسرا کچھ کمپنیاں چین سے خام مال درآمد کرنے پر مجبور ہوئیں۔ اس تجارتی پابندی سے پاکستان میں کھجور پیدا کرنے والے زمیندار براہِ راست متاثر ہوئے۔
سندھ یونیورسٹی، شعبہ میڈیا اسٹڈیزکے سابق سربراہ ڈاکٹر سومرو کا تعلق خیر پور ضلع سے ہے۔ خیرپور ضلع کی معیشت کا انحصارکھجورکی پیداوار سے ہے۔
بھارت کھجور کی تمام اقسام کھجور وغیرہ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ پاکستان کی کھجورکے لیے بھارت ایک پرکشش مارکیٹ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان سے بھارت کیلا برآمد ہوتا تھا۔ بھارت سے ٹیکسٹائل انڈسٹریزکے لیے پرزے آتے تھے۔
پاکستان میں کسی قسم کی ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ سال چین کی مدد سے کورونا کی ویکسین کو پراسس کرنے کے لیے اسلام آباد میں کارخانہ قائم کیا مگر ابھی اس کی پیداوار مارکیٹ میں نہیں ہے۔ بھارت سے کتے کے کاٹنے کے مرض کے تدارک سمیت تمام اقسام کی ویکسین درآمد ہوتی تھیں۔ ادویات کی درآمد پر پابندی ہے، ویکسین کی کمی پیدا ہوئی۔ اندرون سندھ اور پنجاب وغیرہ میں کتے کے کاٹنے سے ویکسین نہ ہونے کی بناء پر Nyprophalic کے مرض میں مبتلا ہو کر کچھ افراد جاں بحق ہوئے۔
حکومت کو گزشتہ سال صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا تو جان بچانے والی ادویات کی درآمد پر عائد پابندی ختم کی گئی ادویات کی صنعت کے بعض ماہرین کا مدعا ہے کہ بھارت پاکستان کی ادویات کی بھی پرکشش مارکیٹ تھا۔
پاکستان میں گزشتہ تین برسوں میں روپے کی قیمت کم ہونے سے ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ادویات تیارکرنے والی کمپنیاں قیمتوں میں اضافہ کے لیے حکومت کو بلیک میل کرتی ہے ، اگر ڈرگ کنٹرول اتھارٹی میں کوئی ایماندار افسر کسی دوا کی قیمت کم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مارکیٹ سے یہ دوا غائب ہوجاتی ہے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بعض ادویات کی نایابی جو بخارکم کرنے کے لیے تجویز کی جاتی ہیں ، اس کی واضح مثال ہے۔ ادویات کی ایک کمپنی کے ایک ڈائریکٹر کا یہ بیانیہ ہے کہ اگر بھارت سے دوائیوں کی درآمد شروع ہوجائے تو ملک میں اس صنعت میں استحکام ہوجائے گا۔ اس حکومت کی عجب پالیسی ہے کہ بھارت سے تجارت پر پابندی ہے مگر افغانستان کو بھارت سے ٹریڈ کی اجازت دی ہوئی ہے۔
ایک ممتاز صنعت کار نے گزشتہ دنوں ملک کی معیشت کی زبوں حالی کے بارے میں لاہور چیمبر کے اراکین کے سامنے اپنا بیانیہ یوں بیان کیا کہ بھارت اور پاکستان کو بھی اپنے عوام کے مفاد میں اچھے فیصلے کرنے ہونگے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری سے اس خطہ میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ مستقل دشمنی کبھی نہیں ہوتی۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ صلح کر کے علاقائی تجارت پرکام کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ دنیا نے دو بڑی جنگیں لڑیں، یورپ نے بڑی جنگ لڑی، بالآخر امن پر اکتفا کیا۔ پاکستان اور بھارت میں تجارت ہونی چاہیے۔ معیشت کی بحالی کے لیے ایک نکاتی معاشی سوچ اپنانا ہوگی۔ یہ صرف ایک صنعتکار کا بیانیہ نہیں ہے بلکہ معیشت سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین کی یہی رائے ہے۔
امریکا میں مقیم ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر نے ایک ٹی وی چینل پر اس موضوع پرگفتگو کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ملک کی معیشت کو اسی طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے کہ بھارت سے تعلقات معمول پر آجائیں۔ امریکا اور یورپی ممالک کی مستقل یہ رائے ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آنے سے خطہ کی صورتحال میں کشیدگی ختم ہوئی۔
بھارت کے معاملات پر نظر رکھنے والے اور بھارت سے دوستی کے بیانیہ کے لیے رائے عامہ کو تیار کرنے والے سوشل ایکٹوسٹ اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں ایک مسلمان لڑکی مذہبی انتہاپسندوں کے سامنے ڈٹ گئی تو ملالہ یوسف زئی، پریانکا گاندھی، ارون دتی رائے اورکئی ہندو لڑکیوں سمیت بھارت کی سول سوسائٹی اب اس مسلمان لڑکی سے یکجہتی کا اظہار کر رہی ہیں ، اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آجائیں تو دونوں ممالک کے عوام کی آمدورفت میں رکاوٹیں ختم ہوجائیں ۔
طلبہ ، اساتذہ ، صحافی ، وکلا ، دانشور اور خواتین کارکن دونوں ممالک میں مشترکہ اجتماعات کریں تو وہاں بھی انتہا پسند عناصرکے عزائم کمزور ہونگے۔ بھارت میں سول سوسائٹی کی مزاحمتی تحریک ابھی تک مستحکم ہے ارون دتی رائے، سعید نقوی، جاوید اختر، شبانہ اعظمی جیسے ادیب، شعراء اور اداکار اس مزاحمتی تحریک کے روحِ رواں ہیں۔
دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آجائیں، ریل ، بس اور ہوائی جہاز سے سفر پر پابندیاں ختم ہوجائیں تو پاکستانی دانشور، صحافی اور امن کے کارکن اس تحریک کو مستحکم کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ کچھ صعنتکار بہت پرامید ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ وزیر اعظم مودی ایک بار پاکستان آئیں گے۔ ان کی یہ پیشگوئی ایک امید ہے۔
پاکستان میں لتا منگیشکر کے انتقال پر ہونے والے سوگ سے انتہا پسندوں کے عزائم پست ہوئے اور امن کی تحریک کو تقویت ملی ہے۔
بھگوان کی آواز لتا منگیشکر جسمانی طور پر دنیا سے رخصت ہوئیں مگر ان کی آواز پاکستان ، بھارت، افغانستان، خلیجی ممالک ، یورپ، امریکا اورکینیڈا میں رہنے والے جنوبی ایشیائی ممالک کے باشندوں کے گھروں میں گونج رہی ہے۔
موسیقی کی اہمیت کو سمجھنے والے پاکستانی اخبارات ، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے دکھ کا اظہار کر رہے ہیں۔ لتا نے بھجن گائے، مختلف نوعیت کے گانوں کو گا کر انھیں امر کردیا۔ لتا کے سوگ کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے یہ واضح ہوا کہ پاکستان اور بھارت کے عوام کا کلچر ایک ہے۔
ایک جیسے جذبات ہیں اور بقول ماہر سماجیات ڈاکٹر ریاض شیخ بھارت اور پاکستان کے لوگ ایک ہی نسل کے ہیں۔ دونوں طرف نفرت پھیلانے والے عناصر کی مذموم حرکتوں کے باوجود دونوں ممالک کا محبت اور درد کا رشتہ مستحکم ہے۔ لتا منگیشکرکے سوگ کے ساتھ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے اب بڑے فنکاروں ، ماہر اقتصادیات اور بین الاقوامی تھنک ٹینک نے بھی رائے دینا شروع کردی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے تین سال قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بھارت کے آئین میں ترمیم کی تھی۔ اس ترمیم کے تحت بھارتی یونین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا گیا تھا ، کشمیر کو دو ڈویژن میں تقسیم کیا گیا تھا۔
یہ ترمیم بھارت کے بانی دانشور وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ذہن کی تخلیق تھی۔ بھارتی حکومت کی اس یکطرفہ کارروائی سے کشمیر کے باشندوں کو ملنے والی خصوصی مراعات ملازمتوں میں کوٹہ اور غیر ریاستی باشندوں کو کشمیر میں زمین کی خریداری ممنوع قرار دی گئی۔ بھارتی حکومت کے سخت اقدامات اور فوج کے تشدد کی بناء پر جموں وکشمیر میں احتجاج نہیں ہوسکا تھا۔ امریکا، یورپی اور دیگر مسلم ممالک نے اس مسئلہ سے لاتعلقی اختیارکیے رکھی تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے بھارت سے تمام قسم کے تعلقات منقطع کر لیے تھے۔ دونوں ممالک کے ہائی کمشنر واپس چلے گئے اور دونوں ممالک نے اپنے اپنے بیشتر سفارتی عملہ کو واپس بلایا تھا۔ بھارت سے ریل ، بس اور ہوائی راستے بھی بند ہوئے۔
حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر پابندی لگا دی۔ اس پابندی کے نتیجہ میں دونوں ممالک کے تاجر جو تجارت کرتے تھے ، شدید معاشی خسارہ کا شکار ہوئے اور تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا تھا۔ بھارت سے تجارت پر پابندی کا زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ بھارت سے ادویات کا خام مال ، ادویات اور ویکسین درآمد کی جاتی ہیں۔ ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کو بھارت سے سستا خام مال ملتا تھا۔
ادویات تیارکرنے والے ایک کمپنی کے ذریعہ کا کہنا تھا کہ ہماری کمپنیوں کا دارومدار بھارت آنے والے خام مال پر تھا۔ بھارت کا خام مال اب دبئی سے ملک میں آنے لگا۔ اس سے قیمتیں بڑھ گئیں۔ دوسرا کچھ کمپنیاں چین سے خام مال درآمد کرنے پر مجبور ہوئیں۔ اس تجارتی پابندی سے پاکستان میں کھجور پیدا کرنے والے زمیندار براہِ راست متاثر ہوئے۔
سندھ یونیورسٹی، شعبہ میڈیا اسٹڈیزکے سابق سربراہ ڈاکٹر سومرو کا تعلق خیر پور ضلع سے ہے۔ خیرپور ضلع کی معیشت کا انحصارکھجورکی پیداوار سے ہے۔
بھارت کھجور کی تمام اقسام کھجور وغیرہ کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ پاکستان کی کھجورکے لیے بھارت ایک پرکشش مارکیٹ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان سے بھارت کیلا برآمد ہوتا تھا۔ بھارت سے ٹیکسٹائل انڈسٹریزکے لیے پرزے آتے تھے۔
پاکستان میں کسی قسم کی ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ موجودہ حکومت نے گزشتہ سال چین کی مدد سے کورونا کی ویکسین کو پراسس کرنے کے لیے اسلام آباد میں کارخانہ قائم کیا مگر ابھی اس کی پیداوار مارکیٹ میں نہیں ہے۔ بھارت سے کتے کے کاٹنے کے مرض کے تدارک سمیت تمام اقسام کی ویکسین درآمد ہوتی تھیں۔ ادویات کی درآمد پر پابندی ہے، ویکسین کی کمی پیدا ہوئی۔ اندرون سندھ اور پنجاب وغیرہ میں کتے کے کاٹنے سے ویکسین نہ ہونے کی بناء پر Nyprophalic کے مرض میں مبتلا ہو کر کچھ افراد جاں بحق ہوئے۔
حکومت کو گزشتہ سال صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوا تو جان بچانے والی ادویات کی درآمد پر عائد پابندی ختم کی گئی ادویات کی صنعت کے بعض ماہرین کا مدعا ہے کہ بھارت پاکستان کی ادویات کی بھی پرکشش مارکیٹ تھا۔
پاکستان میں گزشتہ تین برسوں میں روپے کی قیمت کم ہونے سے ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ ادویات تیارکرنے والی کمپنیاں قیمتوں میں اضافہ کے لیے حکومت کو بلیک میل کرتی ہے ، اگر ڈرگ کنٹرول اتھارٹی میں کوئی ایماندار افسر کسی دوا کی قیمت کم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو مارکیٹ سے یہ دوا غائب ہوجاتی ہے۔
پنجاب اور خیبر پختون خوا میں بعض ادویات کی نایابی جو بخارکم کرنے کے لیے تجویز کی جاتی ہیں ، اس کی واضح مثال ہے۔ ادویات کی ایک کمپنی کے ایک ڈائریکٹر کا یہ بیانیہ ہے کہ اگر بھارت سے دوائیوں کی درآمد شروع ہوجائے تو ملک میں اس صنعت میں استحکام ہوجائے گا۔ اس حکومت کی عجب پالیسی ہے کہ بھارت سے تجارت پر پابندی ہے مگر افغانستان کو بھارت سے ٹریڈ کی اجازت دی ہوئی ہے۔
ایک ممتاز صنعت کار نے گزشتہ دنوں ملک کی معیشت کی زبوں حالی کے بارے میں لاہور چیمبر کے اراکین کے سامنے اپنا بیانیہ یوں بیان کیا کہ بھارت اور پاکستان کو بھی اپنے عوام کے مفاد میں اچھے فیصلے کرنے ہونگے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری سے اس خطہ میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہونگی۔ مستقل دشمنی کبھی نہیں ہوتی۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ صلح کر کے علاقائی تجارت پرکام کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ دنیا نے دو بڑی جنگیں لڑیں، یورپ نے بڑی جنگ لڑی، بالآخر امن پر اکتفا کیا۔ پاکستان اور بھارت میں تجارت ہونی چاہیے۔ معیشت کی بحالی کے لیے ایک نکاتی معاشی سوچ اپنانا ہوگی۔ یہ صرف ایک صنعتکار کا بیانیہ نہیں ہے بلکہ معیشت سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین کی یہی رائے ہے۔
امریکا میں مقیم ایک پاکستانی ماہر ڈاکٹر نے ایک ٹی وی چینل پر اس موضوع پرگفتگو کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ملک کی معیشت کو اسی طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے کہ بھارت سے تعلقات معمول پر آجائیں۔ امریکا اور یورپی ممالک کی مستقل یہ رائے ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آنے سے خطہ کی صورتحال میں کشیدگی ختم ہوئی۔
بھارت کے معاملات پر نظر رکھنے والے اور بھارت سے دوستی کے بیانیہ کے لیے رائے عامہ کو تیار کرنے والے سوشل ایکٹوسٹ اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت میں مذہبی انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔ بھارت میں ایک مسلمان لڑکی مذہبی انتہاپسندوں کے سامنے ڈٹ گئی تو ملالہ یوسف زئی، پریانکا گاندھی، ارون دتی رائے اورکئی ہندو لڑکیوں سمیت بھارت کی سول سوسائٹی اب اس مسلمان لڑکی سے یکجہتی کا اظہار کر رہی ہیں ، اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات معمول پر آجائیں تو دونوں ممالک کے عوام کی آمدورفت میں رکاوٹیں ختم ہوجائیں ۔
طلبہ ، اساتذہ ، صحافی ، وکلا ، دانشور اور خواتین کارکن دونوں ممالک میں مشترکہ اجتماعات کریں تو وہاں بھی انتہا پسند عناصرکے عزائم کمزور ہونگے۔ بھارت میں سول سوسائٹی کی مزاحمتی تحریک ابھی تک مستحکم ہے ارون دتی رائے، سعید نقوی، جاوید اختر، شبانہ اعظمی جیسے ادیب، شعراء اور اداکار اس مزاحمتی تحریک کے روحِ رواں ہیں۔
دونوں ممالک کے تعلقات معمول پر آجائیں، ریل ، بس اور ہوائی جہاز سے سفر پر پابندیاں ختم ہوجائیں تو پاکستانی دانشور، صحافی اور امن کے کارکن اس تحریک کو مستحکم کرنے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ کچھ صعنتکار بہت پرامید ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ وزیر اعظم مودی ایک بار پاکستان آئیں گے۔ ان کی یہ پیشگوئی ایک امید ہے۔
پاکستان میں لتا منگیشکر کے انتقال پر ہونے والے سوگ سے انتہا پسندوں کے عزائم پست ہوئے اور امن کی تحریک کو تقویت ملی ہے۔