اردو ادب کی جدت سے ناآشنائی

اردو ادب میں ابھی تک اتنی وسعت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ جدید دور کی ترقی یافتہ زبانوں کے ادب سے مقابلہ کرسکے

اردو ادب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے۔ (فوٹو: فائل)

ادب کسی بھی قوم یا تہذیب کے تاریخی واقعات اور اہم عوامل کے تحفظ کا بہترین ذریعہ اور بذات خود شاہد ہوتا ہے۔ ادب کے ذریعے سماج میں وقوع پذیر بیش بہا واقعات ایک انمول ورثے کی مانند قوموں میں پہنچتے ہیں، جس سے قوم کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ماضی میں ادب کا دائرہ مخصوص تھا مگر وقت کے ارتقائی عمل نے جدید وقت میں ادب کے دائرے کو بہت وسیع کردیا ہے۔

اگر ماضی میں دیکھیے تو شاعری، افسانہ نگاری، گیت، داستان گوئی اور لوک داستان ادب کا اہم جز ہوا کرتی تھیں۔ جس کی بہترین مثال منظوم عشقیہ داستانیں ہیں، جیسے کہ ہیر رانجھا۔ ہیر رانجھا اور اس جیسے دوسرے ادبی شاہکاروں میں شاعر نے محض ایک قصہ بیان نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ اس وقت کے کلچر، رسومات، رہن سہن، طرز زندگی اور معیار زندگی کو بھی بیان کیا ہے۔ جس سے یہ نہ صرف ادبی شاہکار ہے بلکہ تاریخ اور ثقافت کے طلبا کےلیے بھی مرکز نظر ہے۔

یورپ میں نشاۃ ثانیہ اور اس سے پہلے مسلم ادوار میں ادب میں وسعت پیدا ہوئی۔ اگر مسلم دور کی بات کریں تو اس وقت ادب میں نہ صرف داستان یا شاعری شامل تھی بلکہ یونانی فلسفے کے زندہ رہ جانے والے آثار، فقہ اور دوسرے مذہبی علوم بھی ادب کا حصہ تھے۔ یہ روایت اس کے بعد نشاۃ ثانیہ کے وقت یورپ میں خوب پلی بڑھی جس سے ادب میں مزید مضامین شامل ہوگئے، جیسے جدید فلسفہ، تاریخ، تہذیب و ثقافت، مصوری اور حتیٰ کہ موسیقی وغیرہ بھی۔ اس طرح سے ادب کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔

ادب کا سب سے نمایاں کارنامہ یہ تھا کہ یہ تاریخ کا محافظ بن گیا۔ وہ تاریخ جو کہ مختلف درباروں اور محلات میں شہنشاہوں کی مرضی سے لکھی جاتی تھی اس کو ادیبوں نے اپنے مکالموں، داستانوں اور افسانوں وغیرہ کے ذریعے سے بیان کرکے تاریخ کے عوامی نقطہ نظر کو قائم رکھا۔ جس سے عام لوگوں کا نقطہ نظر تاریخ کے بجائے ادب میں محفوظ رہا۔ اس کے علاوہ ادب کا انتہائی اہم کارنامہ یہ تھا کہ اس میں سیاسی فلسفہ اور نفسیات بھی شامل ہوتے گئے جو بعد میں اپنی وسعت کے پیش نظر الگ الگ مضامین بن گئے۔ چونکہ سیاسیات جیسے علوم کا براہ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے اس لیے سیاست کے موضوع سے ادب کی طرف عام لوگ بھی مائل ہوئے اور عوام میں نہ صرف ادب کا رجحان بڑا بلکہ ادب میں ایک بار پھر سے وسعت پیدا ہوئی۔

سیاسی فلسفے کو جب مختلف افسانوں اور داستانوں کا سہارا لے کر عوام میں پھیلایا گیا تو اس کے شاندار عملی نتائج بھی پیدا ہوئے، جس سے جان لاک، کارل مارکس، والٹیئر، جیرمی بینتھم، لینن اور ٹراٹسکی جیسے بڑے بڑے نام لوگوں کےلیے مثالی شخصیت بن گئے۔ ان عظیم لوگوں کے نظریات نے نہ صرف عوامی مقبولیت حاصل کی بلکہ عملی میدان میں بھی بڑے بڑے کارنامے دکھائے جس کی سب سے بڑی مثال انقلاب فرانس اور انقلاب روس ہیں۔ یہ تھی وہ ایک مختصر بحث جو ادب کی اہمیت اور اس کی وسعت کو اجاگر کرتی ہے۔


اب بات کرتے ہیں اردو ادب کی۔ اردو ادب میں ابھی تک اتنی وسعت پیدا نہیں ہوئی کہ وہ جدید دور کی ترقی یافتہ زبانوں کے ادب سے مقابلہ کرسکے۔ اردو ادب میں ابھی تک اہم ستون وہی ہیں جو ماضی میں تھے، جیسے شاعری، ناول نگاری، داستان گوئی یا افسانہ نگاری وغیرہ۔ اردو ادب میں جدید علوم پر بھی کام ہوا ہے مگر انتہائی چھوٹی سطح پر اور اس سے اردو ادب کا دائرہ ابھی دوسری زبانوں کی نسبت بہت چھوٹا ہے۔

اگر ہم مشرقی سیاست، فلسفہ یا دوسرے نظریات کو دیکھنا چاہیں تو ہمیں مترجم تو بہت ملیں گے مگر خالص اس زبان کا اپنا ادب اور اس کی وسعت کے عناصر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اگر حال ہی میں دیکھا جائے تو ڈرامہ نگاری میں جو نت نئے اور بلا مقصد مختلف تجربات کیے جارہے ہیں وہ شیزا فضا اور دانش مہوش جیسے کرداروں سے خوب جھلکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ادب میں بناوٹی جدت سامنے آرہی ہے بلکہ ادب کا دائرہ وہی عشق، بے وفائی اور زلف یار کے خم تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جدید دور میں ابلاغیات کی عام رسائی سے اردو ادب کا دائرہ وسیع ہوتا، اس میں فلسفیانہ تحاریر اور نفسیاتی تحقیقات سامنے آتیں اور قوم کی بھلائی ہوتی۔ مگر ہو اس کے الٹ رہا ہے کہ اتنے اہم موضوعات پر ہمیں چیدہ چیدہ لکھاری نظر آئیں گے جو کروڑوں لوگوں کی بولے جانے والی زبان کے لحاظ سے بہت کم ہے۔

اگر ہم سیاسیات کے موضوع کو چھیڑیں تو اردو ادب تقریباً بنجر ہے، جس میں بہت کم ایسے نام ملیں گے جنہوں نے اس موضوع کو لے کر سنجیدگی سے کام کیا۔ حمزہ علوی، علی عباس جلال پوری، سیدنا مودودی، جاوید احمد غامدی اور اقبال جیسے چند ایک نام ہی ہیں ہمارے پاس جو واقعی کسی اندھیری رات میں شمع کی مانند چمکے اور اپنے ادب کو وسعت بخشی۔

پاکستانی تناظر میں اردو ادب میں سب سے بڑا ظلم مورخین پر ہوا ہے۔ اگر ہم اس وقت تاریخ پاکستان کا مطالعہ کرنا چاہیں تو اکثر وہ کتابیں ملیں گی جو حاکموں نے خود لکھی ہیں یا اپنی ایما پر لکھوائی ہیں۔ اس کی وجہ سے حقائق عام لوگوں تک ابھی بھی نہیں پہنچ پائے۔ سب سے پہلے پاکستان، ہم وہاں بھی موجود تھے، فرینڈز ناٹ ماسٹرز اور اس جیسی دوسری کتابیں میری بات کی زندہ دلیل ہیں۔

میرا مقصد اردو ادب کی کم نظری پر نوحہ لکھنا نہیں بلکہ یہ باور کروانا ہے کہ ہمارے ادیب شاعری، افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ جدید مضامین اور موضوعات پر بھی لکھیں تاکہ ہمیں اپنی تاریخ انگریزوں سے معلوم نہ کرنی پڑے۔ اردو ادب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے اور اس میں وسعت پیدا کی جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story