شفاف حلقہ بندیوں کے بغیر غیر جانبدارانہ انتخابات ممکن نہیں چیف جسٹس

بلدیاتی الیکشن پرآئین کی ذیلی شقوں میں ابہام نظرآرہاہے، ایک طرف سارا اختیار حکومت، دوسری طرف الیکشن کمیشن کو دیا گیا

حدبندیوں میں غلطی سے قانون غلط ثابت نہیں ہوتا، فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کے بارے میں آئینی شق کی ذیلی شقوں میں تضاد نظر آرہا ہے۔


عدالت نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ وہ آرٹیکل 140Aکی ذیلی شق ایک اور دو میں موجود تضاد پر عدالت کی معاونت کریں۔گزشتہ روز سندھ بلدیاتی آرڈیننس میں ترامیم کو کالعدم کرنے کے سندھ ہائی کورٹ اور حلقہ بندیوں کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس تصدق جیلانی نے قرار دیا کہ آرٹیکل 140A میں ایک طرف بلدیاتی الیکشن کا سارا اختیار صوبائی حکومت کودیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اختیار دیا گیا ہے جس سے ابہام پیدا ہو رہا ہے، شفاف حلقہ بندیوں کے بغیر شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن پہلے جاری ہوا اور قانون بعد میں بنایا گیا، اس کی مثال تویہ ہے کہ بچہ پہلے پیدا ہوا اور والدین کانکاح بعد میں ہوا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حدبندیوں میں غلطی کا مطلب قوانین کا غلط ہونا نہیں بلکہ یہ انتظامی غلطی ہے۔

عدالت نے خواجہ حارث سے کہاہے کہ وہ اس نکتے پر معاونت کریں کہ اگر قانون سازی اور حد بندیوں سمیت بلدیاتی الیکشن سے متعلق سارا کام صوبائی حکومتوں نے کرنا ہے تو آئین میں بلدیاتی الیکشن سے متعلق آرٹیکل 140Aشامل کیوں کیا گیا ، اس کے علاوہ اگر حد بندیاں صوبائی حکومت نے کرنی ہیں اور انتخابات الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں تو کیا یہ تضاد نہیں ،خواجہ حارث کو اس ضمن میں بھارتی بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے قوانین کا جائزہ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی، اٹارنی جنرل نے نے 1956اور1962کے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ دونوں آئینوں میں بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی نہیں تھی جبکہ 1973کے آئین کے آرٹیکل 219میں حد بندیوں کا ذکر نہیں ،آرٹیکل 222میں حد بندیوں کا ذکر آیا ہے مگر یہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے متعلق ہے، مزید سماعت آج ہوگی۔
Load Next Story