مودی سرکار دوگدھوں کی سیاست سے خائف
مودی جی کی سرکار تو بس دو گدھوں کی سیاست سے خائف ہے
کراچی:
بی جے پی کی سرکار جب پہلی بار 2014 میں الیکشن جیت کر بھارت میں آئی تھی ، اس وقت سے لے کر دوسری بار کے چناؤ کے بعد بھی آج تک مودی سرکار اور ان کے چاہنے والوں کی سیاست کا زیادہ تر دار و مدار مذہبی شدت پسندی پر ہی ہے اس کی زد میں دوسرے مذاہب کے لوگ چاہے صدیوں سے رہ رہے ہوں بری طرح آ رہے ہیں۔
یہ ایک بڑی تشویش ناک صورت حال ہے کہ جس نے دنیا بھر میں رہنے والے مختلف ممالک کے ہندوؤں کو الجھن میں ڈال دیا ہے کیونکہ بھارت کا نام اب ہندو شدت پسندوں کے ساتھ نتھی ہو گیا ہے سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ اب ہوا ہو چکا ہے، یہاں تک کہ عام عوام بھی جو سیاسی طور پر باشعور نہیں ہے ان کی مذہبی پکار کو سمجھتے ہوئے ان پر تنقید کرتی نظر آتی ہے لیکن مودی خود اس قدر بے لگام ہو چکے ہیں کہ وہ ببانگ دہل اپنے سیاسی بڑے حریفوں کو دو گدھے کہہ کر مخاطب کرتے ہیں یہ دو گدھے کون ہیں؟ آپ سمجھ ہی چکے ہوں گے۔
کہا جاتا رہا ہے کہ ماضی میں مسلمانوں نے غیر منقسم ہندوستان میں اپنی وفاداری اور ملک سے محبت کا اس قدر ان گنت بار ثبوت دیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی جس میں خاص کر حیدرآباد دکن کے نواب میر عثمان علی خان بہادر جنھوں نے 1918 میں جامعہ عثمانیہ قائم کی جہاں انجینئرنگ اور میڈیسن کے ساتھ قانون کی تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ وہاں دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا جہاں انگریزی کتب کے ترجمے اردو زبان میں ہوتے تھے تاکہ طالب علموں کے لیے جدید تعلیم کے حصول میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے مذہب سے بالاتر ہو کر مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کو تعلیمی امداد سے نوازا جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونی ورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور، آندھرا یونیورسٹی، بھنڈارکر ریسرچ انسٹیٹیوٹ پونا، انڈین اکیڈمی آف سائنس بنگلور قابل ذکر ہیں۔
1857 میں جنگ آزادی کے شہیدوں میں ان گنت مسلمانوں کا خون شامل ہے جس میں اول درجے پر علما شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دلی کے ہر درخت پر ایک عالم کی لاش لٹکائی گئی تھی تاکہ دوسرے لوگوں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔
وہ وقت تھا جب ہر تعصب سے بالاتر ہو کر سرزمین ہند کو آزاد کرانے کے درپے سارے ہی شامل تھے کیا ہندو کیا مسلم اور کیا سکھ۔ لیکن آج کے بھارت میں یہ وبا عام کرانے میں مودی سرکار لگی ہوئی ہے کہ ہندو خطرے میں ہیں لیکن کہاں بھارت میں۔ یہ ایک مضحکہ خیز سی بات ہے لیکن مزے کی بات یہ بھی ہے کہ سادہ لوح اور مذہب کے پیچھے آنکھ بند کرکے چلنے والے بھگت اسی بات کو سچ مان رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو خطرے میں ہے کیونکہ یہ نعرہ تو مودی سرکار کا ہے اور اسی بل بوتے پر وہ تمام قوانین جو ہندوستان کی زمین پر دوسرے مذاہب سے بسنے والوں کو ہندوستانی قرار دیتی ہے اسے جڑ سے ختم کرنے کے درپے ہیں۔
ابھی کچھ وقت پہلے کی بات ہے جب مودی سرکار نے سب سے پہلے اپنے ہندو دھرم کے ماننے والوں میں اس بات کا واویلا شروع کیا تھا کہ ''گھونگھٹ ہٹاؤ'' یہ دراصل وہی تحریک تھی جو آج کے مسلمانوں میں حجاب ہٹاؤ اور یونیفارم میں آجاؤ والی تحریک ہے۔ گھونگھٹ گاڑھے کا عمل بہت سے ہندو گھرانوں میں صدیوں سے رائج ہے خاص کر راجستھان میں ایک لڑکی جو میڈیسن کی تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے تو اپنی روایت کا خاص خیال رکھے گی یعنی گھونگھٹ میں رہے گی، صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ایسے بہت سے قبائل ہیں جو اسی طرز پر قائم ہیں۔
ہندو برادری میں گھونگھٹ کی قدیم روایت مسلمانوں کی مانند الگ تو نہیں ہے لیکن ہر اس ریت رواج کو موجودہ بھارتی سرکار مسخ کردینا چاہتی ہے جس کا اثر بھی مسلمانوں سے چھو کر گزرا ہو۔ ان کی اسی طرح کی حاسدانہ حرکتوں سے بھارت میں طبقات اس نظریے پر متحد ہو رہے ہیں کہ یہ صورتحال ایک اور آزادی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اسے سکھوں کے خالصتان کی آزادی کہیں یا ہماچل کے مزاحمت کاروں کی آزادی کشمیر کی آزادی یا حالیہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی۔
یہ الگ بات ہے کہ 1947 کے بعد سے ہی ہندوستان میں ہندو مسلم تعصب صاف نظر آتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اصل جنگ مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ تخریب کی ہے روٹی کی ہے اس بات پر بھی ہندو مسلم تعصب کا نظر آنا کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ حالیہ صورتحال میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہندوستان میں مودی سرکار نے اپنے دو دفعہ کے پھیروں میں حکومتی اعتبار سے کچھ کیا ہو لیکن عوامی لحاظ سے کچھ نہ کیا بلکہ ہندو مسلم تعصب کو اس حد تک ہوا دی کہ ایک چھوٹی سی معصوم بچی مسکان خان دنیا بھر میں ہندو ازم کے اعلیٰ عروج کے زوال کا نشان بن گئی۔
مسکان خان کے ذکر سے ڈاکٹر عابد حسین مرحوم کی یاد آگئی۔ نواب محسن الملک کے پڑپوتے جن کا خاندانی پس منظر کسی تعارف کا محتاج نہیں ایک بھارتی مسلمان بیورو کریٹ جن کی اہلیہ بھی ہندو ہی تھیں، انتہائی پڑھے لکھے بے باک سفارت کار تھے کہنے کو وہ مغربی انداز کے سیکولر انسان تھے لیکن ہندو کمیونٹی ان سے کبھی خوش نہ رہی جب وہ امریکا میں بھارت کے سفیر تھے بھارت میں کسی مسلمان کا اس وقت اتنے بڑے عہدے پر پہنچنا بڑی بات تھا۔
بھارتی وزارت خارجہ بخوبی ان کی علمی قابلیت اور تجربے سے واقف تھا لیکن ہندو مسلم کا فرق ڈاکٹر عابد حسین کی ساری قابلیت پر پانی پھیر گیا اور انھیں اپنی مدت سے پہلے ہی اس رتبہ سے ہٹا دیا گیا اس وقت بھی باتیں بنائی گئی تھیں کہ وہ تو کامرس منسٹری کے آدمی ہیں اور سفارتی تعلقات میں ان کا کیا کام؟ جب کہ یہ وہی دور تھا جب پاکستان میں کمپیوٹر کے بارے میں کتابوں میں ہی پڑھا جاتا تھا اور ڈاکٹر عابد حسین نے اس میدان میں بھارتی امریکی تعاون میں اضافہ کیا اور سیکڑوں امریکی کمپنیاں اپنے کنٹریکٹ بھارتی چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کو دے رہی تھیں یہ معاہدے کروڑوں ڈالرز کے تھے یوں امریکا میں موجود بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے بھی مواقع پیدا ہوئے جو نہایت کامیاب ثابت ہوئے یہاں تک کہ کویت کی تعمیر نو کے متعدد ٹھیکے امریکا میں موجود بھارتی کمپنیوں کو ملے جب کہ ڈاکٹر عابد حسین پھر بھی مسلمان اور اچھے ذمے دار منتظم نظر ہی نہ آئے۔
اور اپنی مقررہ مدت سے پہلے ہی رخصت کردیے گئے۔ بہرحال حالیہ ہندوستان میں بھی مسلمان، سکھ، عیسائی اور پارسی مذاہب سے تعلق رکھنے والے اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن مودی جی کی سرکار تو بس دو گدھوں کی سیاست سے خائف ہے کہ گدھوں کے ساتھ تو اور جماعتیں بھی تیار ہیں اب کی بار دیکھتے ہیں کہ وقت کیا دکھاتا ہے۔
بی جے پی کی سرکار جب پہلی بار 2014 میں الیکشن جیت کر بھارت میں آئی تھی ، اس وقت سے لے کر دوسری بار کے چناؤ کے بعد بھی آج تک مودی سرکار اور ان کے چاہنے والوں کی سیاست کا زیادہ تر دار و مدار مذہبی شدت پسندی پر ہی ہے اس کی زد میں دوسرے مذاہب کے لوگ چاہے صدیوں سے رہ رہے ہوں بری طرح آ رہے ہیں۔
یہ ایک بڑی تشویش ناک صورت حال ہے کہ جس نے دنیا بھر میں رہنے والے مختلف ممالک کے ہندوؤں کو الجھن میں ڈال دیا ہے کیونکہ بھارت کا نام اب ہندو شدت پسندوں کے ساتھ نتھی ہو گیا ہے سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ اب ہوا ہو چکا ہے، یہاں تک کہ عام عوام بھی جو سیاسی طور پر باشعور نہیں ہے ان کی مذہبی پکار کو سمجھتے ہوئے ان پر تنقید کرتی نظر آتی ہے لیکن مودی خود اس قدر بے لگام ہو چکے ہیں کہ وہ ببانگ دہل اپنے سیاسی بڑے حریفوں کو دو گدھے کہہ کر مخاطب کرتے ہیں یہ دو گدھے کون ہیں؟ آپ سمجھ ہی چکے ہوں گے۔
کہا جاتا رہا ہے کہ ماضی میں مسلمانوں نے غیر منقسم ہندوستان میں اپنی وفاداری اور ملک سے محبت کا اس قدر ان گنت بار ثبوت دیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی جس میں خاص کر حیدرآباد دکن کے نواب میر عثمان علی خان بہادر جنھوں نے 1918 میں جامعہ عثمانیہ قائم کی جہاں انجینئرنگ اور میڈیسن کے ساتھ قانون کی تعلیم بھی اردو زبان میں دی جاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ وہاں دارالترجمہ کا قیام عمل میں آیا جہاں انگریزی کتب کے ترجمے اردو زبان میں ہوتے تھے تاکہ طالب علموں کے لیے جدید تعلیم کے حصول میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے مذہب سے بالاتر ہو کر مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کو تعلیمی امداد سے نوازا جن میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونی ورسٹی، اسلامیہ کالج پشاور، آندھرا یونیورسٹی، بھنڈارکر ریسرچ انسٹیٹیوٹ پونا، انڈین اکیڈمی آف سائنس بنگلور قابل ذکر ہیں۔
1857 میں جنگ آزادی کے شہیدوں میں ان گنت مسلمانوں کا خون شامل ہے جس میں اول درجے پر علما شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دلی کے ہر درخت پر ایک عالم کی لاش لٹکائی گئی تھی تاکہ دوسرے لوگوں کو اس سے عبرت حاصل ہو۔
وہ وقت تھا جب ہر تعصب سے بالاتر ہو کر سرزمین ہند کو آزاد کرانے کے درپے سارے ہی شامل تھے کیا ہندو کیا مسلم اور کیا سکھ۔ لیکن آج کے بھارت میں یہ وبا عام کرانے میں مودی سرکار لگی ہوئی ہے کہ ہندو خطرے میں ہیں لیکن کہاں بھارت میں۔ یہ ایک مضحکہ خیز سی بات ہے لیکن مزے کی بات یہ بھی ہے کہ سادہ لوح اور مذہب کے پیچھے آنکھ بند کرکے چلنے والے بھگت اسی بات کو سچ مان رہے ہیں کہ بھارت میں ہندو خطرے میں ہے کیونکہ یہ نعرہ تو مودی سرکار کا ہے اور اسی بل بوتے پر وہ تمام قوانین جو ہندوستان کی زمین پر دوسرے مذاہب سے بسنے والوں کو ہندوستانی قرار دیتی ہے اسے جڑ سے ختم کرنے کے درپے ہیں۔
ابھی کچھ وقت پہلے کی بات ہے جب مودی سرکار نے سب سے پہلے اپنے ہندو دھرم کے ماننے والوں میں اس بات کا واویلا شروع کیا تھا کہ ''گھونگھٹ ہٹاؤ'' یہ دراصل وہی تحریک تھی جو آج کے مسلمانوں میں حجاب ہٹاؤ اور یونیفارم میں آجاؤ والی تحریک ہے۔ گھونگھٹ گاڑھے کا عمل بہت سے ہندو گھرانوں میں صدیوں سے رائج ہے خاص کر راجستھان میں ایک لڑکی جو میڈیسن کی تعلیم بھی حاصل کر رہی ہے تو اپنی روایت کا خاص خیال رکھے گی یعنی گھونگھٹ میں رہے گی، صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی ایسے بہت سے قبائل ہیں جو اسی طرز پر قائم ہیں۔
ہندو برادری میں گھونگھٹ کی قدیم روایت مسلمانوں کی مانند الگ تو نہیں ہے لیکن ہر اس ریت رواج کو موجودہ بھارتی سرکار مسخ کردینا چاہتی ہے جس کا اثر بھی مسلمانوں سے چھو کر گزرا ہو۔ ان کی اسی طرح کی حاسدانہ حرکتوں سے بھارت میں طبقات اس نظریے پر متحد ہو رہے ہیں کہ یہ صورتحال ایک اور آزادی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اسے سکھوں کے خالصتان کی آزادی کہیں یا ہماچل کے مزاحمت کاروں کی آزادی کشمیر کی آزادی یا حالیہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آزادی۔
یہ الگ بات ہے کہ 1947 کے بعد سے ہی ہندوستان میں ہندو مسلم تعصب صاف نظر آتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اصل جنگ مذہبی بنیاد پر نہیں بلکہ تخریب کی ہے روٹی کی ہے اس بات پر بھی ہندو مسلم تعصب کا نظر آنا کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ حالیہ صورتحال میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ہندوستان میں مودی سرکار نے اپنے دو دفعہ کے پھیروں میں حکومتی اعتبار سے کچھ کیا ہو لیکن عوامی لحاظ سے کچھ نہ کیا بلکہ ہندو مسلم تعصب کو اس حد تک ہوا دی کہ ایک چھوٹی سی معصوم بچی مسکان خان دنیا بھر میں ہندو ازم کے اعلیٰ عروج کے زوال کا نشان بن گئی۔
مسکان خان کے ذکر سے ڈاکٹر عابد حسین مرحوم کی یاد آگئی۔ نواب محسن الملک کے پڑپوتے جن کا خاندانی پس منظر کسی تعارف کا محتاج نہیں ایک بھارتی مسلمان بیورو کریٹ جن کی اہلیہ بھی ہندو ہی تھیں، انتہائی پڑھے لکھے بے باک سفارت کار تھے کہنے کو وہ مغربی انداز کے سیکولر انسان تھے لیکن ہندو کمیونٹی ان سے کبھی خوش نہ رہی جب وہ امریکا میں بھارت کے سفیر تھے بھارت میں کسی مسلمان کا اس وقت اتنے بڑے عہدے پر پہنچنا بڑی بات تھا۔
بھارتی وزارت خارجہ بخوبی ان کی علمی قابلیت اور تجربے سے واقف تھا لیکن ہندو مسلم کا فرق ڈاکٹر عابد حسین کی ساری قابلیت پر پانی پھیر گیا اور انھیں اپنی مدت سے پہلے ہی اس رتبہ سے ہٹا دیا گیا اس وقت بھی باتیں بنائی گئی تھیں کہ وہ تو کامرس منسٹری کے آدمی ہیں اور سفارتی تعلقات میں ان کا کیا کام؟ جب کہ یہ وہی دور تھا جب پاکستان میں کمپیوٹر کے بارے میں کتابوں میں ہی پڑھا جاتا تھا اور ڈاکٹر عابد حسین نے اس میدان میں بھارتی امریکی تعاون میں اضافہ کیا اور سیکڑوں امریکی کمپنیاں اپنے کنٹریکٹ بھارتی چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کو دے رہی تھیں یہ معاہدے کروڑوں ڈالرز کے تھے یوں امریکا میں موجود بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے بھی مواقع پیدا ہوئے جو نہایت کامیاب ثابت ہوئے یہاں تک کہ کویت کی تعمیر نو کے متعدد ٹھیکے امریکا میں موجود بھارتی کمپنیوں کو ملے جب کہ ڈاکٹر عابد حسین پھر بھی مسلمان اور اچھے ذمے دار منتظم نظر ہی نہ آئے۔
اور اپنی مقررہ مدت سے پہلے ہی رخصت کردیے گئے۔ بہرحال حالیہ ہندوستان میں بھی مسلمان، سکھ، عیسائی اور پارسی مذاہب سے تعلق رکھنے والے اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن مودی جی کی سرکار تو بس دو گدھوں کی سیاست سے خائف ہے کہ گدھوں کے ساتھ تو اور جماعتیں بھی تیار ہیں اب کی بار دیکھتے ہیں کہ وقت کیا دکھاتا ہے۔