بُک شیلف

70 برس پرانے ’مغالطے‘ کی تردید!

فوٹو: فائل

 

70 برس پرانے 'مغالطے' کی تردید!



بہت سے مفروضے محض 'سنی سنائی' کی بنیاد پر ایسے قابلِ قبول، بلکہ یوں کہیے کہ مقبول چلے آتے ہیں کہ کوئی ان کی حقیقت کھوجنے یا انھیں جانچنے کا بندوبست ہی نہیں کرتا، کہ دراصل یہ مفروضہ نہیں، بلکہ صد فی صد مغالطہ ہے۔۔۔! معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں تحقیق کی مشقت کا رواج اب بہت کم رہ گیا ہے۔

اب ڈھنگ سے کچھ لکھنے والے بھی خال خال ہو چلے ہیں، اب کسے اتنی فرصت ہے کہ اپنے سر پر 'محقق' کا بارِ گراں سجائے۔۔۔ ایک ایسے سماج میں جہاں مطالعے اور کتاب سے رغبت کا برا حال ہے، وہاں نقل کر کے اور مکھی پر مکھی مار کر 'صاحبِ کتاب' ہونے کا تاج ہر کوئی سجانا چاہتا ہے، اچھی کتاب اور معیاری تصنیف سے بہت کم لوگوں کو کوئی علاقہ ہوتا ہے۔۔۔ ایسے میں سماج کے گنے چُنے اور 'سر پھرے' محققین کا دَم غنیمت ہے، جو تاریخ اور زبان وبیان سے لے کر بہت سے 'طے شدہ' خیالات کو ٹھوک بجا کر دیکھنے کا جگرا رکھتے ہیں اور پھر انھیں قدردان اور باذوق قارئین کی نذر بھی کر دیتے ہیں۔

کچھ ایسا ہی کارنامہ جناب عابد علی بیگ نے انجام دیا ہے کہ وہ جو ہم سب بچپن سے پڑھتے پڑھاتے آئے ہیں کہ پاکستان کا قومی ترانہ فارسی زبان میں ہے۔ اسے انھوں نے 292 صفحاتی اِس تحقیقی دستاویز کے ذریعے رد کیا ہے۔ اب آپ سوچیے کہ ڈیڑھ منٹ کے قومی ترانے سے متعلق اس مغالطے کا استرداد ایک بھرپور مضمون کے ذریعے بھی کیا جا سکتا تھا، لیکن اگر اس کے لیے ایک ضخیم کتاب رقم کی گئی ہے، تو مان لیجیے کہ بات اتمام حجت سے بھی اگلی منزل پر پہنچانے کی سعی کی گئی ہے۔

اس کتاب میں قومی ترانے کے 40 الفاظ کو چالیس مضامین میں بہت مفصل طریقے سے باقاعدہ اسناد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ الفاظ اردو میں بہت بھرپور طریقے سے استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ فارسی سمجھے جانے والے قومی ترانے کے 60 فی صد الفاظ کی اصل عربی ہے، 37.5 فی صد الفاظ کی جڑیں فارسی، جب کہ 2.5 فی صد کا سِرا سنسکرت کی جانب نکلتا ہے۔ ہائی لائیٹ پرنٹ ایڈورٹائزنگ (0447400609867) سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 900 روپے ہے۔

ایک 'کثیرالسمتی' خودنوشت



'آزاد سوچ'۔ بہت سی فلسفیانہ گتھی سلجھاتی ہوئی، افسانوی اور علامتی انداز لی ہوئی اور کہیں کہانی اور داستان ہوتی ہوئی یہ جیون کتھا اپنے آپ میں ایک کثیرالجہت یا کثیرالسمت تصنیف کہی جا سکتی ہے، کیوں کہ یہ صرف ایک خودنوشت نہیں، بلکہ بہت سے تجربات کا نچوڑ اور نفسیات، سماجیات، اخلاقیات، ادب اور اِبلاغیات وغیرہ پر ایک حوالہ بھی ہے اور ان موضوعات کے طالب علموں کو بھی اس میں بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اِس کتاب کو ہم محض خود نوشت قرار نہیں دے سکتے۔۔۔ اس میں عام زندگی کے عمیق مشاہدات بھی خوب در آتے ہیں اور بہت سی جگہوں پر ماضی کی بہت سی دل فریب یادوں کا ایک پورا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے، اور گاہے گاہے ان پر مصنف کی رائے بھی شامل ہوتی چلی جاتی ہے۔۔۔ گزرے ہوئے زمانے کے بہت سے کردار ان صفحات پر افسانوی سا رنگ بھرے دیتے ہیں، یوں سمجھیے کہ یہ کتاب اپنے آپ میں بہت سی جگہوں پر 'افسانوی' راہوں پر بھی رواں دواں ہے، لیکن بالآخر ہے تو ایک حقیقی بپتا اور اسی کی منظر کشی۔۔۔ باقی اب یہ تقاضا قاری کی ذہانت سے ہے کہ وہ حقیقت اور افسانے کو کس طرح الگ کرتا ہے اور کہاں پر اسے جھٹ دوزانو ہو کر کسی طالب علم کے روپ میں تلمذ طے کرنا ہے۔

شاید یہی کچھ مختصر خلاصہ ہے، 260 صفحاتی اس کتاب کے مندرجات کا، جو اُسے کسی بھی عام خودنوشت سے کافی حد تک ممتاز ومنفرد بناتا ہے۔ اشاعت فضلی سنز (0335-3252374، 021-32629724) سے کی گئی ہے، جب کہ قیمت 500 روپے ہے۔

'کیا قافلہ جاتا ہے'



نصر اللہ خان نے خاکوں کا یہ مجموعہ مشفق خواجہ کی نذر کیا ہے اور محض چار سال کے عرصے میں شایع ہونے والا یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ اس کتاب میں برصغیر پاک وہند کی 52 شخصیات کے خاکے کھینچے گئے ہیں۔۔۔ جن میں سید عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالسلام نیازی، بابائے اردو مولوی عبدالحق، خواجہ حسن نظامی، عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت، قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی، سید فخر الدین ماتری، سیماب اکبر آبادی، اختر شیرانی، احسان دانش، آغا اشرف، شاہد احمد دہلوی، ذوالفقار علی بخاری، سعادت حسن منٹو، حمید نظامی، شورش کاشمیری، ڈاکٹر رشید جہاں، محمد حسن عسکری، سلیم احمد، مجید لاہوری، ابن انشا، ابراہیم جلیس، خواجہ معین الدین، چوہدری خلیق الزماں، استاد بندو خان اور دیگر شامل ہیں۔

خاکوں میں شخصیاتی اٹھان اور ان کے ظاہری خدوخال کے ساتھ متعلقہ شخصیات سے جڑے ہوئے بہت سے اہم واقعات، بعضے مشاہدات اور تجربات بھی دست یاب ہیں۔ تاریخی حوالوں کی خصوصیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے، باقی نصر اللہ خان کی کالم نگاری میں جو زبان دانی کا مرتبہ تھا، وہ ظاہر ہے یہاں بھی ہمیں خوب دکھائی دیتا ہے۔ راشد اشرف کی 'زندہ کتابیں' کے تحت شایع شدہ 312 صفحاتی کتاب کی قیمت 500 روپے، جب کہ ناشر فضلی سنز (0335-3252374، 021-32629724) ہے۔

'مشکلوں' کو بہ آسانی کہنے کا فن



نیند اپنی نہیں رہی کامیؔ

خواب بھی دوسرے کا آیا ہے

''قدیم'' کامی شاہ کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔ 2008ء میں پہلا مجموعہ بہ عنوان 'تجھ بن ذات ادھوری ہے' آچکا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب سہل ممتنع اور مختصر بحروں میں رواں کلام ہے، جیسے مختصر نثر لکھنا آسان نہیں، بعینہٖ چھوٹی بحر میں اپنے خیال کو سمونا بھی سہل نہیں رہتا ہوگا۔۔۔ لیکن کامی شاہ نے اکثر چھوٹی بحروں میں ہی اپنا خیال مکمل کیا ہے؎

اس سے پہلے نہیں تھا ایسا ہوا

اس کے چھونے سے جو اجالا ہوا

256صفحاتی اس کتاب میں حمدونعت اور سلام کے بعد 'غزلیات' کا ایک طویل سلسلہ آراستہ ہے، اِن غزلوں میں بھی جا بہ جا نماز، امام، تلاوت، صحیفہ اور عبادت وغیرہ جیسی تشبیہات کو ذریعہ اظہار بنایا ہے، جیسے؎

ترے رخ کی تلاوت کر رہا ہوں

بہت اعلیٰ عبادت کر رہا ہوں

اگر موضوعات کی بات کی جائے تو غزل کے صرف روایتی موضوعات نہیں، بلکہ اس میں دل کی بے چینیاں اور تخیل کی کارفرمائیاں بھی دکھائی دیتی ہیں، کہیں آذر ہے، تو کہیں انکار، کہیں راضی با رضا ہیں، تو کہیں دبے دبے سے کچھ شکوے سنائی دیتے ہیں؎

دیے کی لو بڑھاتی ہوئی ہوا بھی ملی

فقط دیے کا سہارا نہیں ملا مجھ کو

شاعر کے بارے میں عفت نوید صاحبہ نے ایک مضمون باندھا ہے، جب کہ فلیپ پر علی زریون کی جانب سے آزاد نظم کامی شاہ کی نذر کی گئی ہے۔ سامیہ پبلی کیشنز (0333-2267532) سے شایع شدہ یہ کتاب 500 روپے میں دست یاب ہے۔


برصغیر کے ایک بڑے مذہبی تنازع کا بیان



'تحریک تحفظِ ختم نبوت' 1931ء تا 1946ء (جلد اول) میں اس عرصے میں 'ختم نبوت' کے حوالے سے پیش آنے والے تمام واقعات مع حوالہ مذکور کیے گئے ہیں۔ جس میں برصغیر پاک وہند میں برپا اس فتنے کے رد کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو مکمل حوالوں کے ساتھ جمع کیا گیا ہے۔

اس لیے بہتیرے مقام پر تاریخی طور پر بہت سے انکشاف بھی ہوتے ہیں، جس سے یہ صرف ایک مذہبی دستاویز نہیں، بلکہ اس میں ہماری تاریخ کے بہت سے اوجھل حقائق بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ 570 سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں 400 سے زائد چھوٹے چھوٹے واقعات ومضامین کو جگہ دی گئی ہے، یعنی موضوع سے متعلق تمام تفصیلات کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے، جس سے قاری کے لیے متن کی خواندگی بھی آسان ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ کتاب میں شامل تمام تفصیلات چھوٹی چھوٹی سرخیوں کی شکل میں بھی سامنے آجاتی ہے۔

کتاب کی تالیف ڈاکٹر عمر فاروق نے کی ہے، جب کہ اشاعت کا اہتمام مجلس احرار اسلام، پاکستان کی جانب سے کیا گیا ہے، جس میں مولانا عطا اللہ شاہ بخاری جیسے علما سے لے کر شورش کاشمیری جیسی شخصیات اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے سیاست دان بھی شامل رہے۔ کتاب کی اگلی جلد میں اسی موضوع پر 1947ء تا2020ء واقعات کا جائزہ پیش کیا جائے گا۔ کتاب مکتبہ احرار، وحدت روڈ لاہور (0300-4037315) میں دست یاب ہے۔

صحافتی تحریروں کی تصنیف



'رخ شناسائی' سیدہ بابرہ رضوی کی مختلف صحافتی تحریروں کا مجموعہ ہے، جو مختلف روزناموں سے وابستگی کے دوران منصہ شہود پر آئیں۔ اس کتاب میں مضامین کے ساتھ ساتھ مختلف شخصیات کے مختصر انٹرویو اور تعارف یا ان میں سے انتخاب بھی شامل کیا گیا ہے، جن میں عبدالستار ایدھی، بلقیس ایدھی، احمد فراز، حامد میر، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، گوہر ایوب، نیلوفر بختیار، عاصمہ شیرازی، زبیدہ جلال، کلثوم نواز، مریم صفدر، فوزیہ وہاب، فرزانہ راجا، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، عطا اللہ عیسیٰ خیلوی، جواد احمد اور دیگر شامل ہیں۔

کتاب میں بہت سی جگہوں پر پروف کی غلطیوں کے ساتھ زمانۂ اشاعت کے اعتبار سے حال کا صیغہ برتا گیا ہے، جو بہت سی جگہوں پر درست کیے جانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ اب یہ کسی روزنامے کے بہ جائے ایک کتاب میں شامل کی جا رہی ہیں۔ بابرہ رضوی نے آخری تحریر وفات سے 22 روز قبل عمران خان پر لکھی، جو 28 ستمبر 2018ء کو 'جناح' میں شایع ہوئی، پھر 20 اکتوبر 2018ء کو وہ اس دنیا سے چلی گئیں۔ 304 صفحاتی اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے۔ اشاعت کا اہتمام رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز (051-5531610،051-5551519) راول پنڈی سے کیا گیا ہے۔

Journey of an Explorer



یہ کتاب سنیئر صحافی عظمت انصاری کی اردو کتاب 'یادوں کے دریچے' کا انگریزی ترجمہ ہے، لیکن یہ بات سرورق پر بھی رقم کر دی گئی ہے کہ یہ محض ترجمہ نہیں، بلکہ ایک اضافہ شدہ اور الگ کتاب ہے، اردو یاد داشتوں میں بہت سے واقعات اور شخصیات کے تذکرے شامل ہونے سے رہ گئے تھے، اس لیے یوں سمجھا جائے کہ دراصل Journey of an Explorer میں عظمت انصاری کی اردو کتاب بھی شامل ہے، جسے 2020ء میں 'غیر فکشن زمرے' میں 'یو بی ایل لیٹریری ایوارڈ' بھی دیا گیا۔

عظمت انصاری 1943ء میں عبداللہ پور (ہریانہ) میں پیدا ہوئے۔ اُن کا آبائی وطن مارہرہ ہے، جہاں سے یادداشتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جب کہ ان کا ننھیال سہسوان (یوپی) سے ہے۔ وہ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں قید ہونے والے پاکستانی فوجیوں کے ساتھ الہ آباد میں 22 ماہ اسیر بھی رہے۔ وہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں بطور فلائٹ لیفٹننٹ، 'آئی ایس پی آر' کا حصہ بنے۔

اس دوران وہ مشرقی پاکستان گئے، جہاں ہتھیار ڈالے جانے کے بعد وہ ہندوستان کے 90 ہزار قیدیوں میں شامل ہو گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کی کتاب 'یادوں کے دریچے' شایع ہونے کے بعد ان کے بہت سے رشتے داروں نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اردو پڑھنے سے قاصر ہیں، اس لیے وہ اپنی کتاب انگریزی میں بھی لائیں! نیز ان کی اردو کی یادداشتوں میں زمانی ترتیب کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا، جب کہ اس تصنیف میں زیادہ اچھی طرح اس امر کو یقینی بنایا گیا ہے کہ تمام واقعات تاریخ وار جمع ہوں۔

اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنے والد رؤف انصاری مرحوم، چھوٹے بھائی ہمایوں انصاری مرحوم اور صاحب زادے دانش کی نذر کیا ہے۔ 340 صفحاتی اس مجلد کتاب میں ان کی زندگی کے نشیب وفراز اور اندرون و بیرون ملک کا سفری احوال بھی رقم کیا ہے، جو ان کے آبائی وطن سے شروع ہوتا ہے اور پھر مشرقی پاکستان اور یورپ وامریکا وغیرہ تک دراز ہوتا جاتا ہے۔ اِس کتاب کی اشاعت کا اہتمام مصنف (0333-2140598) نے خود کیا ہے، قیمت 1000 روپے ہے۔

دریا کوئی گیت گا رہا ہے



یہ عصمت درانی کی کُلیات بہ عنوان 'دریا کوئی گیت گا رہا ہے' کا تذکرہ ہے، جس میں ان کے چار عدد شعری مجموعے سمائے ہوئے ہیں۔ آئینے میں چراغ، دھوپ کی آواز، نرسلوں میں ہوا اور 'انگاروں میں پھول'۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج کے شاعر نے اپنے کلام اور قاری کے درمیان ابہام کی ایک اونچی دیوار کھڑی کر دی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پڑھنے والے شاعری سے دور ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عصمت درانی نے اپنے خیالات کو آسان لفظوں اور کھلے ڈلے انداز میں قارئین کے سامنے پیش کیا ہے، بلکہ اس کلیات کا عنوان بھی بہت سادہ اور آسان رکھا ہے۔ ان کی شاعری کے اس مجموعے میں ہر کتاب کو الگ الگ شامل کیا گیا ہے۔ جس میں حمد ونعت سے لے کر غزلیات اور آزاد وپابند نظموں سے لے کر چند ایک جگہ اشعار بھی آراستہ دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر وہ اپنے مشاہدات اور خیالات کو بھی بلا کم وکاست قارئین کے روبرو رکھ دیتے ہیں؎

نہ کوئی وضع نجابت، نہ کوئی عزت نفس

امیرِ شہر کے خدمت گزار ہیں سب لوگ

متذکرہ اردو کلیات کے علاوہ عصمت درانی کی چار مجموعے پشتو شاعری کے بھی آچکے ہیں، جب کہ پانچویں جلد میں ان چاروں پشتو مجموعوں کو یک جا کیا گیا ہے۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ عصمت درانی ماہر امراضِ اطفال ہیں، 656 صفحات کی یہ ضخیم کتاب قلات پبلشر (081-2827252، 0333-3033980) نے شایع کی ہے، قیمت 500 روپے ہے۔

'سب کچھ بدل گیا'



بابرہ رضوی نے 1999ء میں صحافت شروع کی اور 2018ء میں وہ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر اس جہاں سے گزر گئیں، زیرِ تبصرہ ان کی شاعرانہ تصنیف ہے، جس میں ان کا مختلف موضوعات پر منظوم اظہارخیال شامل ہے، بہت سی آزاد نظمیں بھی اس مجموعے 'انکشاف' کا حصہ ہیں۔

یہ کتاب اُن کے دنیا سے جانے کے بعد منظر عام پر آئی، کتاب میں کلام حمد ونعت وغیرہ کے بعد زندگی اور اس سے جڑے ہوئے مختلف موضوعات کا احاطہ کرتا ہے، جس کے بعد کے زمروں میں بہت سے موضوعات کا تعلق براہ راست خبروں سے بھی ہے اور بہت سے خیالات اظہارِرائے کے مرتبے پر بھی پائے جاتے ہیں۔ پسِ ورق پر شایع شدہ اس قطعے سے متعلق کتاب بھیجنے والی خاتون (جو غالباً مصنفہ کی بہن ہیں) نے قلم سے لکھا ہے کہ وہ محض زندگی کے آخری پانچ روز قبل لکھا؎

پھولوں کا ایک موسم تھا میں بھی گلاب تھی

رنگوں کا اک غبار تھا، میں گلال تھی

طوفان ایسا آیا کہ سب کچھ بدل گیا

مٹی میں مٹی مل گئی میں بھی تو خاک تھی

کتاب کی اشاعت کا اہتمام رمیل ہاؤس آف پبلی کیشنز (051-5531610،051-5551519) راول پنڈی سے کیا گیا ہے، صفحات 240 اور قیمت 500 روپے ہے۔
Load Next Story