چارکتابیں اور میں
نسائی شعور یا نسائیت کی تحریک دراصل عورت کی اس شخصیت کی تلاش ہے جو معاشرتی رویوں میں کہیں گم ہوگئی ہے
کئی دنوں سے میں بہت سی کتابوں کے حصار میں ہوں ، انھی میں ممتاز شاعرہ اورکئی علمی و ادبی اداروں سے وابستہ فاطمہ حسن جن کی دوکتابیں بھی شامل ہیں۔ عنوانات ہیں '' اردو اب خواب ہوئی'' بقیہ دو کتابوں کا تذکرہ انشاء اللہ دوسرے کالم میں کروں گی۔ فاطمہ حسن کا شعری مجموعہ ''اردو شاعرات اور نسائی شعور'' اپنی ضخامت کے اعتبار سے 277 صفحات کا احاطہ کرتا ہے ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس کتاب میں خواتین شاعرات کا تعارف اور ان کی شاعری کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
1920 سے 2020 تک کی شاعری درج ہے۔ چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ز۔ خ ۔ش، رابعہ پنہاں، بلقیس جمال، خورشید بانو شمع، ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، پروین فضا سید، سحاب قزلباش وغیرہ۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ فاطمہ نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ یہاں یہ بھی ذکر ضروری ہے کہ ضمیر علی بدایونی نے 2000 میں شایع ہونے والی میری کہانیوں کی کتاب '' کہانیاں گم ہو جاتی ہیں'' کے ابتدائیے میں واضح طور پر لکھا تھا۔ نسائی شعور یا نسائیت کی تحریک دراصل عورت کی اس شخصیت کی تلاش ہے جو معاشرتی رویوں میں کہیں گم ہوگئی ہے۔ سماجی رویوں میں گم اس عورت کی تلاش مجھے تحقیق کی جانب لے گئی۔
میں نے 2000 میں ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگرانی میں اردو رسائل میں شایع ہونے والی شاعرات کے موضوع پر تحقیق کا کام شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ ز۔خ۔ش (زاہدہ خاتون شروانیہ) کی ادبی قد و قامت ان کے ہم عصروں سے کسی طور پر کم نہیں۔ ان کے کام پر روایتی سماج نے جو پردہ 100برس پہلے ڈال دیا تھا وہ 2000 میں بھی موجود ہے، جب میں نے ان کی شاعری پر تحقیق کی تو ان کے خاندان تک رسائی حاصل کرلی۔ اس طرح مجھے ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ مضامین اور ڈائری کے اوراق بھی مل گئے۔ یہ اتنا مواد تھا کہ میرے استاد ڈاکٹر اسلم فرخی اور اس وقت کے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے میرے موضوع بدلنے کی درخواست کو منظور کرلیا پھر میں نے اردو رسائل میں چھپنے والی شاعرات کے بجائے اولین اہم شاعرہ زاہدہ خاتون شروانیہ پر مکمل تحقیق کرکے انھیں تاریخ اردو ادب کا حصہ بنادیا۔''
شاعر و ادیب افضال احمد سید نے فاطمہ حسن کے تخلیقی اور تحقیقی کام پر بھرپور مضمون قلم بند کیا ہے۔ عنوان ہے۔ '' فاطمہ حسن اور نسائی شعور'' لکھتے ہیں۔
''مجھے خوشی ہے کہ فاطمہ حسن نے اپنی ادبی کاوشوں کو شاعری اور افسانہ نگاری تک محدود نہیں رکھا بلکہ تنقید کے میدان میں بھی قدم جمائے، فاطمہ حسن کی خوبی یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے اردو ادبی منظرنامے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس کتاب کا باب دوم پاکستانی نظم نگار شاعرات کے بارے میں ہے، فاطمہ حسن کی اردو شاعری فکشن اور تنقید پرگہری نظرکی بدولت ہی ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ نہ صرف شاعرات کی بڑی تعداد کو متعارف کرائیں بلکہ نسائی شعورکے متنوع موضوعات کو ان کی شاعری سے منتخب کرکے ان کے تجزیے بھی پیش کریں۔''
فاطمہ حسن نے اپنے مضمون '' نظم نگار شاعرات '' میں لکھا ہے کہ ''یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک صدی نظم نگار خواتین کے حوالے سے بہت اہم ہے ، کیونکہ اس ایک صدی ہی میں ان شاعرات کا سراغ ملتا ہے۔ جنھوں نے مرد ہم عصروں کی طرح اعلیٰ سطح کی نظمیں تخلیق کیں اس صدی کو نظم نگاری میں تجربے کی صدی بھی کہا جاسکتا ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے ز۔خ۔ش (زاہدہ خاتون شروانیہ) کا تعارف کروایا گیا ہے۔''
تجزیہ نگار نے اپنی تحقیق کے مطابق لکھا ہے کہ وہ پہلی شاعرہ ہیں جن کی توانا فکر اور طرز اظہار کی وجہ سے انھیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے ''آئینہ حرم'' کے عنوان سے 60 بند کی مسدس علامہ اقبال کی نظم ''شکوہ'' کے طرز پر لکھی ہے۔ اس مسدس سے چار بند:
میں نے مانا کہ خموشی ہے بیاں سے بہتر
لب پیوستہ شہرِ فشاں سے بہتر
صبر شیون سے' شکیبائی فغاں سے بہتر
دل ہے اسرار کے رہنے کو زباں سے بہتر
پر ہر ایک شے کے لیے حد ہے معین لوگو
ضابطہ درد ہو کب تک جگر زن لوگو
دوسری شاعرہ رابعہ پنہاں اور بلقیس جمال جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئیں جن کی شاعری کو نہ صرف یہ کہ سراہا گیا بلکہ ان کے کلام کی بازیافت بھی کی گئی، رابعہ پنہاں کا اصل نام پہرآرا خاتون تھا، بریلی کے ایک ممتاز خانوادہ علم و ادب کی چشم و چراغ تھیں وہ7 اگست 1906 کو سہارنپور میں پیدا ہوئیں۔ شعر و ادب کے میدان میں رابعہ پنہاں کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ رابعہ پنہاں کی دوسری دو بہنیں بلقیس جمال اور فردوس انجم بھی شاعری سے شغف رکھتی تھیں لیکن بلقیس جمال نے شعر و سخن میں کمال حاصل کیا انھیں نظم نگاری پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ ان کا مجموعہ کلام آئینہ جمال اور ''کلیات بلقیس جمال'' کے عنوان سے شایع ہو چکی ہے۔ ان کی نظم کا ایک بند نذر قارئین:
میں شاعرہ ہوں شعر ہوں
میں نکہتِ شراب ہوں
میں عفت شباب ہوں
نقاب صد حجاب ہوں
میں جوشِ حباب ہوں
ترنم رباب ہوں
میں عشق موج و آب ہوں
کتاب میں ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، پروین فنا سید کی خوبصورت شاعری اور مجموعہ کلام کا ذکر ملتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے فاطمہ حسن نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے مختصر تحریر میں بہت سی معلومات پنہاں ہیں۔
زہرہ نگاہ کی شاعری کی پاکیزگی، ندرت بیان، ذات کا اظہار اور الفاظ کا برمحل استعمال اور ان کی اعلیٰ فکر کی خوشبو ان کے کلام میں رچ بس گئی ہے، نظم ''سمجھوتا'' ملاحظہ فرمائیے:
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے
کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں
کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے
نہ خوش ہوگے، نہ پژمردہ رہو گے
اسی کو تان کر بن جائے گا گھر
بچھا لیں گے تو کھل اٹھے گا آنگن
اٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن
پروین شاکر کا نام اور کام باد صبا کی مانند ہے ان کی شاعری نے دور دور تک کا سفر کیا۔ فاطمہ نے پروین شاکر کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ''پروین شاکر کی شاعری میں عشق کی سرشاری، ہجرت کی وحشت، غرض تمام مضامین پوری شدت کے ساتھ ملتے ہیں۔
شاہدہ حسن، تنویر انجم، یاسمین حمید، نجمہ عثمان، ثروت زہرا، حجاب عباسی، نسیم نازش، نرجس افروز زیدی، رخسانہ صبا کے ساتھ موجودہ دور کی شاعرات کا ذکر فاطمہ حسن نے تجزیاتی اسلوب کے رنگ میں خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ تذکرہ و تبصرہ کے ساتھ اشعار کا انتخاب بھی بہت خوب ہے۔
''یادیں بھی خواب ہوئیں'' کے عنوان سے فاطمہ حسن کا شعری مجموعہ ہے جو کئی برس قبل شایع ہوا تھا۔ قاری پر ایک سوز وگداز کی کیفیت پیدا کرتا ہے احساسات و جذبات کی قندیلیں نظموں کی شکل میں روشن ہیں، بہت موثر کلام جو تادیر دل و دماغ پر اثر انگیزی رکھتا ہے۔ نعت کا ایک شعر ہے:
طلوع صبح اور چوکھٹ نبیؐ کی
میں کب سے منتظر تھی اس گھڑی کی
مناظر خوبصورت میں، یہ ایک تاثراتی نظم ہے۔ نرم سبزہ، پھول، خوشبو کا احساس ہر مصرعہ میں جذب ہو گیا ہے۔ ''ایک نظم ماں کے لیے'' مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اس نظم میں قاری اپنی ماں کو پاتا ہے۔ فاطمہ کی شاعری میں کیف و آگہی کے لمس اور بہت سے جذبوں سے آشنا کرتی ہے وہ جذبے جو انسان کے باطن میں پوشیدہ ہوتے ہیں، وہ جاگ جاتے ہیں کبھی مناظر میں کھو جاتے تو کبھی منظر ان میں کھو جاتا ہے، شعورکی روشنی میں بہت سے وہ راستے نظر آتے ہیں جو راستی کے ہیں، مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
(جاری ہے۔)
1920 سے 2020 تک کی شاعری درج ہے۔ چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ ز۔ خ ۔ش، رابعہ پنہاں، بلقیس جمال، خورشید بانو شمع، ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، پروین فضا سید، سحاب قزلباش وغیرہ۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ فاطمہ نے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ یہاں یہ بھی ذکر ضروری ہے کہ ضمیر علی بدایونی نے 2000 میں شایع ہونے والی میری کہانیوں کی کتاب '' کہانیاں گم ہو جاتی ہیں'' کے ابتدائیے میں واضح طور پر لکھا تھا۔ نسائی شعور یا نسائیت کی تحریک دراصل عورت کی اس شخصیت کی تلاش ہے جو معاشرتی رویوں میں کہیں گم ہوگئی ہے۔ سماجی رویوں میں گم اس عورت کی تلاش مجھے تحقیق کی جانب لے گئی۔
میں نے 2000 میں ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگرانی میں اردو رسائل میں شایع ہونے والی شاعرات کے موضوع پر تحقیق کا کام شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ ز۔خ۔ش (زاہدہ خاتون شروانیہ) کی ادبی قد و قامت ان کے ہم عصروں سے کسی طور پر کم نہیں۔ ان کے کام پر روایتی سماج نے جو پردہ 100برس پہلے ڈال دیا تھا وہ 2000 میں بھی موجود ہے، جب میں نے ان کی شاعری پر تحقیق کی تو ان کے خاندان تک رسائی حاصل کرلی۔ اس طرح مجھے ان کی شاعری کے ساتھ ساتھ مضامین اور ڈائری کے اوراق بھی مل گئے۔ یہ اتنا مواد تھا کہ میرے استاد ڈاکٹر اسلم فرخی اور اس وقت کے جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے میرے موضوع بدلنے کی درخواست کو منظور کرلیا پھر میں نے اردو رسائل میں چھپنے والی شاعرات کے بجائے اولین اہم شاعرہ زاہدہ خاتون شروانیہ پر مکمل تحقیق کرکے انھیں تاریخ اردو ادب کا حصہ بنادیا۔''
شاعر و ادیب افضال احمد سید نے فاطمہ حسن کے تخلیقی اور تحقیقی کام پر بھرپور مضمون قلم بند کیا ہے۔ عنوان ہے۔ '' فاطمہ حسن اور نسائی شعور'' لکھتے ہیں۔
''مجھے خوشی ہے کہ فاطمہ حسن نے اپنی ادبی کاوشوں کو شاعری اور افسانہ نگاری تک محدود نہیں رکھا بلکہ تنقید کے میدان میں بھی قدم جمائے، فاطمہ حسن کی خوبی یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے اردو ادبی منظرنامے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس کتاب کا باب دوم پاکستانی نظم نگار شاعرات کے بارے میں ہے، فاطمہ حسن کی اردو شاعری فکشن اور تنقید پرگہری نظرکی بدولت ہی ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ نہ صرف شاعرات کی بڑی تعداد کو متعارف کرائیں بلکہ نسائی شعورکے متنوع موضوعات کو ان کی شاعری سے منتخب کرکے ان کے تجزیے بھی پیش کریں۔''
فاطمہ حسن نے اپنے مضمون '' نظم نگار شاعرات '' میں لکھا ہے کہ ''یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک صدی نظم نگار خواتین کے حوالے سے بہت اہم ہے ، کیونکہ اس ایک صدی ہی میں ان شاعرات کا سراغ ملتا ہے۔ جنھوں نے مرد ہم عصروں کی طرح اعلیٰ سطح کی نظمیں تخلیق کیں اس صدی کو نظم نگاری میں تجربے کی صدی بھی کہا جاسکتا ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے ز۔خ۔ش (زاہدہ خاتون شروانیہ) کا تعارف کروایا گیا ہے۔''
تجزیہ نگار نے اپنی تحقیق کے مطابق لکھا ہے کہ وہ پہلی شاعرہ ہیں جن کی توانا فکر اور طرز اظہار کی وجہ سے انھیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے ''آئینہ حرم'' کے عنوان سے 60 بند کی مسدس علامہ اقبال کی نظم ''شکوہ'' کے طرز پر لکھی ہے۔ اس مسدس سے چار بند:
میں نے مانا کہ خموشی ہے بیاں سے بہتر
لب پیوستہ شہرِ فشاں سے بہتر
صبر شیون سے' شکیبائی فغاں سے بہتر
دل ہے اسرار کے رہنے کو زباں سے بہتر
پر ہر ایک شے کے لیے حد ہے معین لوگو
ضابطہ درد ہو کب تک جگر زن لوگو
دوسری شاعرہ رابعہ پنہاں اور بلقیس جمال جو ہندوستان سے ہجرت کرکے آئیں جن کی شاعری کو نہ صرف یہ کہ سراہا گیا بلکہ ان کے کلام کی بازیافت بھی کی گئی، رابعہ پنہاں کا اصل نام پہرآرا خاتون تھا، بریلی کے ایک ممتاز خانوادہ علم و ادب کی چشم و چراغ تھیں وہ7 اگست 1906 کو سہارنپور میں پیدا ہوئیں۔ شعر و ادب کے میدان میں رابعہ پنہاں کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ رابعہ پنہاں کی دوسری دو بہنیں بلقیس جمال اور فردوس انجم بھی شاعری سے شغف رکھتی تھیں لیکن بلقیس جمال نے شعر و سخن میں کمال حاصل کیا انھیں نظم نگاری پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ ان کا مجموعہ کلام آئینہ جمال اور ''کلیات بلقیس جمال'' کے عنوان سے شایع ہو چکی ہے۔ ان کی نظم کا ایک بند نذر قارئین:
میں شاعرہ ہوں شعر ہوں
میں نکہتِ شراب ہوں
میں عفت شباب ہوں
نقاب صد حجاب ہوں
میں جوشِ حباب ہوں
ترنم رباب ہوں
میں عشق موج و آب ہوں
کتاب میں ادا جعفری، زہرہ نگاہ، فہمیدہ ریاض، پروین فنا سید کی خوبصورت شاعری اور مجموعہ کلام کا ذکر ملتا ہے، یوں لگتا ہے جیسے فاطمہ حسن نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے مختصر تحریر میں بہت سی معلومات پنہاں ہیں۔
زہرہ نگاہ کی شاعری کی پاکیزگی، ندرت بیان، ذات کا اظہار اور الفاظ کا برمحل استعمال اور ان کی اعلیٰ فکر کی خوشبو ان کے کلام میں رچ بس گئی ہے، نظم ''سمجھوتا'' ملاحظہ فرمائیے:
ملائم گرم سمجھوتے کی چادر
یہ چادر میں نے برسوں میں بنی ہے
کہیں بھی سچ کے گل بوٹے نہیں ہیں
کسی بھی جھوٹ کا ٹانکا نہیں ہے
اسی سے میں بھی تن ڈھک لوں گی اپنا
اسی سے تم بھی آسودہ رہو گے
نہ خوش ہوگے، نہ پژمردہ رہو گے
اسی کو تان کر بن جائے گا گھر
بچھا لیں گے تو کھل اٹھے گا آنگن
اٹھا لیں گے تو گر جائے گی چلمن
پروین شاکر کا نام اور کام باد صبا کی مانند ہے ان کی شاعری نے دور دور تک کا سفر کیا۔ فاطمہ نے پروین شاکر کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ''پروین شاکر کی شاعری میں عشق کی سرشاری، ہجرت کی وحشت، غرض تمام مضامین پوری شدت کے ساتھ ملتے ہیں۔
شاہدہ حسن، تنویر انجم، یاسمین حمید، نجمہ عثمان، ثروت زہرا، حجاب عباسی، نسیم نازش، نرجس افروز زیدی، رخسانہ صبا کے ساتھ موجودہ دور کی شاعرات کا ذکر فاطمہ حسن نے تجزیاتی اسلوب کے رنگ میں خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ تذکرہ و تبصرہ کے ساتھ اشعار کا انتخاب بھی بہت خوب ہے۔
''یادیں بھی خواب ہوئیں'' کے عنوان سے فاطمہ حسن کا شعری مجموعہ ہے جو کئی برس قبل شایع ہوا تھا۔ قاری پر ایک سوز وگداز کی کیفیت پیدا کرتا ہے احساسات و جذبات کی قندیلیں نظموں کی شکل میں روشن ہیں، بہت موثر کلام جو تادیر دل و دماغ پر اثر انگیزی رکھتا ہے۔ نعت کا ایک شعر ہے:
طلوع صبح اور چوکھٹ نبیؐ کی
میں کب سے منتظر تھی اس گھڑی کی
مناظر خوبصورت میں، یہ ایک تاثراتی نظم ہے۔ نرم سبزہ، پھول، خوشبو کا احساس ہر مصرعہ میں جذب ہو گیا ہے۔ ''ایک نظم ماں کے لیے'' مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اس نظم میں قاری اپنی ماں کو پاتا ہے۔ فاطمہ کی شاعری میں کیف و آگہی کے لمس اور بہت سے جذبوں سے آشنا کرتی ہے وہ جذبے جو انسان کے باطن میں پوشیدہ ہوتے ہیں، وہ جاگ جاتے ہیں کبھی مناظر میں کھو جاتے تو کبھی منظر ان میں کھو جاتا ہے، شعورکی روشنی میں بہت سے وہ راستے نظر آتے ہیں جو راستی کے ہیں، مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
(جاری ہے۔)