ورزش سے ڈپریشن میں کمی اور یادداشت میں بہتری ممکن
لاتعداد تحقیقی سروے اور مطالعے بتاتے ہیں کہ ورزش سے دماغی یادداشت کا گوشہ توانا ہوتا ہے اور ڈپریشن میں کمی بھی ہوتی ہے
ورزش کے ان گنت فوائد سامنے آتے رہتے ہیں اور نمودار بھی ہوتے رہیں گے۔ اب 23 تحقیقات کے جائزہ مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ ورزش ہر عمر میں ڈپریشن کم کرتی ہے، دماغ کو توانا بناتی ہے اور یادداشت کو بحال رکھتی ہے۔
اب ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہے ورزش دماغی افعال، اس کے سرکٹ اور خود اس کی ساخت کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ یہاں تک کہ روزانہ کی واک کے فوائد بھی کسی طرح نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔
پہلے مرحلے میں جامعہ مانچسٹر کے ڈاکٹر جوزف فرتھ نے دماغی علاج میں شامل سینکڑوں مریضوں کو ورزش اور واک کا کا مشورہ دیا۔ ان میں سے کچھ نے عمل کیا اور اس سے معلوم ہوا کہ ورزش خواہ کسی بھی شکل میں ہو وہ ڈپریشن کم کرنے میں بہت مدد کرتی ہے۔
دوسری جانب 2016 سے اب تک 23 تحقیق مقالوں اور سروے کی اشاعت کے بعد بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ بسااوقات واک اور ورزش ڈپریشن اور دباؤ میں ایک طرح سے دوا کا کام کرتی ہیں۔
ایک جانب تو ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کم کرنے والی ادویہ بہت دھیر دھیرے اثر کرتی ہیں اور ان کے مثبت نتائج ہفتوں بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ورزش ان کی تاثیر کو تیز کرکے کسی بھی تھراپی یا دوا کو کامیاب بناسکتی ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ورزش سے ڈپریشن کی دوا کے سائیڈ افیکٹ بھی کم ہوجاتے ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق اگر آپ 50 برس کے ہیں اور بقیہ زندگی میں یادداشت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ابھی سے ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کو عادت بنالیں۔ اس سے 60 اور 70 کے عشرے میں مرحلہ وار یا ایپی سوڈل یادداشت بہتر ہوتی ہے۔ دوسری جانب کسی بیماری اور چوٹ کے بعد ڈپریشن اور ذہنی تناؤ بھی ورزش سے کم کیا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں درجنوں مطالعے اور کلینکل ٹرائل کئے گئے ہیں۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ورزش سے 'برین ڈرائیوڈ نیوروٹروفِک فیکٹر( بی ڈی این ایف) بڑھتا ہے۔ اس سے دماغی خلیات بڑھتے ہیں اور ان کا اثر یادداشتی مرکز ہیپوکیمپس پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے دماغ بہتر ہوتا ہے اور ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔
اب ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہے ورزش دماغی افعال، اس کے سرکٹ اور خود اس کی ساخت کو بھی مضبوط کرتی ہے۔ یہاں تک کہ روزانہ کی واک کے فوائد بھی کسی طرح نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔
پہلے مرحلے میں جامعہ مانچسٹر کے ڈاکٹر جوزف فرتھ نے دماغی علاج میں شامل سینکڑوں مریضوں کو ورزش اور واک کا کا مشورہ دیا۔ ان میں سے کچھ نے عمل کیا اور اس سے معلوم ہوا کہ ورزش خواہ کسی بھی شکل میں ہو وہ ڈپریشن کم کرنے میں بہت مدد کرتی ہے۔
دوسری جانب 2016 سے اب تک 23 تحقیق مقالوں اور سروے کی اشاعت کے بعد بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ بسااوقات واک اور ورزش ڈپریشن اور دباؤ میں ایک طرح سے دوا کا کام کرتی ہیں۔
ایک جانب تو ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کم کرنے والی ادویہ بہت دھیر دھیرے اثر کرتی ہیں اور ان کے مثبت نتائج ہفتوں بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن ورزش ان کی تاثیر کو تیز کرکے کسی بھی تھراپی یا دوا کو کامیاب بناسکتی ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ورزش سے ڈپریشن کی دوا کے سائیڈ افیکٹ بھی کم ہوجاتے ہیں۔
ایک اور تحقیق کے مطابق اگر آپ 50 برس کے ہیں اور بقیہ زندگی میں یادداشت بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ابھی سے ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کو عادت بنالیں۔ اس سے 60 اور 70 کے عشرے میں مرحلہ وار یا ایپی سوڈل یادداشت بہتر ہوتی ہے۔ دوسری جانب کسی بیماری اور چوٹ کے بعد ڈپریشن اور ذہنی تناؤ بھی ورزش سے کم کیا جاسکتا ہے۔
اس ضمن میں درجنوں مطالعے اور کلینکل ٹرائل کئے گئے ہیں۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ورزش سے 'برین ڈرائیوڈ نیوروٹروفِک فیکٹر( بی ڈی این ایف) بڑھتا ہے۔ اس سے دماغی خلیات بڑھتے ہیں اور ان کا اثر یادداشتی مرکز ہیپوکیمپس پر بھی ہوتا ہے۔ اس سے دماغ بہتر ہوتا ہے اور ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔