انصاف کی ناانصافیاں

ہمار ملک میں انصاف کے انتظار میں نسلیں دنیا سے گزر جاتی ہیں

تیز ترین انصاف کےلیے عدالتی اصلاحات نافذ کی جائیں۔ (فوٹو: فائل)

لاہور:
سننے میں آیا ہے کہ 24 فروری 2022 کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ہمارے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل و حرکت سے متعلق کیس کی سماعت کرے گا۔

کیا ستم ظریفی ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس سماعت سے نصف سال قبل ہی 10 اکتوبر 2021 کو عالم بالا رخصت ہوچکے ہیں اور اب منتظر ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ ان کی نقل و حرکت کے متعلق فیصلہ فرمائے اور وہ جنت کے بالا خانوں کی سیر فرماسکیں جہاں کی نعمتیں ان کی منتظر ہیں۔ ہوسکتا ہے عالم بالا سے ہی کسی نے سفارش کی ہوگی اور کیس سماعت کےلیے مقرر کیا گیا ہوگا وگرنہ تو ہمارے ہاں لوگوں کے مرنے کے دو تین سال کے بعد تک فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب خوش نصیب ہیں کہ ان کی رخصتی کے صرف چھ ماہ بعد ہی ان کا کیس سماعت کےلیے مقرر ہوگیا۔

واضح رہے کہ ایسا عام طور پر لاچار اور بے بس پاکستانیوں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ صاحبِ اقتدار اور صاحب حیثیت افراد تو اگر زندہ بھی ہوں تو نہ صرف ان کے کیس کی باری آجاتی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جاتی ہے بلکہ بعض اوقات تو قابل صد احترم جج صاحبان چھٹی کے دن بھی عدالت لگا کر کیس نمٹا دیتے ہیں۔

شائد یہی وجہ ہے کہ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کی عدلیہ دنیا بھر میں عدلیہ کی درجہ بندی میں 124/117 نمبر پر آتی ہے، اور یہ وہی عدلیہ ہے جس کے ججز قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ماہانہ لاکھوں میں تنخواہ بمع مراعات وصول کرتے ہیں۔ مگر انصاف کی حالت یہ ہے کہ انصاف کے انتظار میں نسلیں دنیا سے گزر جاتی ہیں۔ لوگ عرش سے فرش پر آجاتے ہیں، بچے بوڑھے ہوجاتے ہیں مگر ہمارا نظام عدل ٹس سے مس نہیں ہوتا۔

ضرورت اس امر کی ہے اعلیٰ عدلیہ اپنے گھر کو درست کرنے کی فکر کرتے ہوئے زیر التوا 21 لاکھ سے زائد کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹائے تاکہ مُردوں کے ساتھ زندوں کو بھی انصاف میسر آسکے۔ اس سلسلے میں انتہائی ادب کے ساتھ چند گزارشات پیش خدمت ہیں:

تیز ترین انصاف کےلیے عدالتی اصلاحات نافذ کی جائیں۔

ججز کی 1000 سے زائد خالی آسامیوں کو ترجیحی بنیادوں پر پورا کیا جائے۔


ججز کی بھرتی کا طریقہ کار تبدیل کرتے ہوئے انہیں بھی مقابلے کے امتحانات کے ذریعے بھرتی کیا جائے تاکہ نااہل، نکمے اور سفارشی لوگوں کے بجائے صرف قابل اور ایماندار لوگ ہی نظام عدل کا حصہ بن سکیں۔

کیسز کا جلد ازجلد فیصلہ نہ کرنے والے ججز کے متعلق قانون پر 100 فیصد عمل کیا جائے۔

کرپٹ ججز کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔

وکلا میں موجود کالی بھیڑوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

جھوٹی گواہی، جھوٹے کیسز کرنے والوں سے نہ صرف ہرجانہ کی وصولی کو یقینی بنایا جائے بلکہ انہیں پابند سلاسل کیا جائے۔

آج سے چند سال قبل ہندوستان کے ایک ٹی وی پروگرام میں مسلم رکن اسمبلی سے سوال کیا گیا کہ قرآن کا قانون اچھا ہے یا ہندوستان کا قانون؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہندوستان کی عدالتوں میں تین کروڑ سے زائد کیسز زیر التوا ہیں، جن کے خاتمے کےلیے کئی سال درکار ہیں۔ آپ صرف ایک سال کےلیے قرآن کا نظام نافذ کریں پھر دیکھیں ان کیسز کا خاتمہ کیسے ہوتا ہے اور آپ کو معلوم بھی ہوجائے گا کہ ہندوستان کا قانون اچھا یا قرآن کا قانون۔

ہندوستان میں تو ایسا ممکن نہیں کہ قرآن کا قانون نافذ ہوجائے مگر اسلام کے نام پر بننے والے ملک یعنی پاکستان میں تو ہم قرآن کا قانون نافذ کرسکتے ہیں۔ یقینی طور پر ایسا ممکن ہے تو پھر دیر کس بات کی؟ زیر التوا کیسز نمٹانے کےلیے صرف ایک سال کےلیے قرآن کا قانون نافذ کرکے دیکھیے اور پھر رزلٹ دیکھیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story