یہ لوح و قلم‘ یہ طبل و علم۔۔۔۔
یہ ملک جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا اب اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بندر کے ہاتھ ناریل کا لگ جانا۔۔۔
ISLAMABAD:
آج کل اکثر قارئین جو حلقہ احباب میں بھی شامل ہیں۔ شکایت کرتے ہیں کہ انھیں ایسا لگتا ہے جیسے کالم میں سے کچھ سطریں یا الفاظ کہیں کھو گئے ہیں۔ ان سب کا شکوہ غلط نہیں ہے۔ ۔۔۔۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
فی الحال تو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ قارئین آج کل استعاروں اور علامتوں کا مطالعہ شروع کردیں۔ اس طرح نہ صرف ان کا ذخیرہ الفاظ بڑھے گا بلکہ علامتوں اور استعاروں کی زبان بھی سمجھ میں آنے لگے گی۔ علامتیں کیوں وجود میں آتی ہیں۔ سیدھی سچی بات کہنے والا استعاروں، تشبیہوں اور علامتوں کے گورکھ دھندے میں کیوں پناہ لے لیتا ہے۔
ادیب اور شاعر ہی نہیں بلکہ فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے تعلق رکھنے والے بات کہنے کا ڈھنگ اپنے اپنے طریقے سے دریافت کر ہی لیتے ہیں۔ مصور اپنی تصویروں اور رنگوں کے ذریعے، رقاص اپنے رقص کے ذریعے بہروپیے دوسروں کی نقل کرکے اور طنز نگار اپنے کاٹ دار جملوں کے ذریعے۔۔۔۔ مقصد سب کا ایک ہی ہوتا ہے کہ اپنی بات کو عوام تک پہنچانا۔ خواہ اس کے لیے کتھک کرنے والا بریک ڈانسر بن جائے یا مغل منی ایچر بنانے والے کو تجریدی آرٹ کا سہارا لینا پڑے۔
اقبال نے ایک نظم ''شاعر'' کے عنوان سے اپنے پہلے مجموعے ''بانگ درا'' میں لکھی جس کے دو شعر پیش خدمت ہیں:
محفل نظم حکومت' چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو' روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
گویا شاعر نہ صرف اپنے زمانے بلکہ ماضی و حال کی صورت حال کو بھی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ سمجھدار قارئین کو چاہیے کہ وہ غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کا مطالعہ ضرور کریں۔ اس طرح وہ میرے کالموں کی گمشدہ سطریں اور جملے ڈھونڈ پائیں گے۔ کیوں نہ میں خود چند اشعار اپنی پسند کے پیش کردوں؟
غالب کہتے ہیں:
درد دل لکھوں کب تک' جاؤں ان کو دکھلادوں
انگلیاں فگار اپنی' خامہ خونچکاں اپنا
٭٭
لوح و قلم کی حرمت کی سلامتی کے لیے فیض نے کہا:
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے' رقم کرتے رہیں گے
ہاں' تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں' اہل ستم' مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم' ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
شاعری سے ہٹ کر ذرا حقیقت کی اس سنگین دنیا میں بھی آجایے۔ جہاں موت کے سوداگر اب جعلی دواؤں اور انجکشنوں کے علاوہ تیزاب سے دھلی ادرک اٹھارہ گھنٹے پانی میں بھگونے کے بعد فروخت کر رہے ہیں۔ منافع خوروں نے متعلقہ افسران کو ''نذرانہ'' پیش کرکے ''صحت مند ادرک'' کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا۔ گزشتہ چار پانچ سال سے جو ادرک کراچی میں فروخت ہو رہی ہے وہ بے حد وزنی اور پانی سے شرابور ہوتی ہے۔ جس پر وقفے وقفے سے خود سبزی فروش بھی پانی کے چھینٹے مارتا جاتا ہے۔ اس ادرک کو اگر آپ یوں ہی فریج میں یا باہر رکھ دیں تو دو دن بعد مرجھاکر بدبودار ہوجاتی ہے۔ خاص کر نہاری اور حلیم کے اوپر باریک باریک کتر کے نہیں ڈالی جاسکتی۔ ادرک کی اپنی مہک کہیں غائب ہوگئی ہے۔ کچھ سالوں پہلے تک مٹی لگی ادرک بکتی تھی جو ایک ایک مہینہ رکھنے پر بھی بدبودار نہیں ہوتی تھی۔ نہ ہی مرجھاتی تھی۔ لیکن اب معاملہ بہت تشویش ناک ہے۔ آپ کو کسی بھی بازار میں خشک ادرک نہیں ملے گی۔ توڑنے پر اندر سے ہرا رنگ جگہ جگہ نظر آتا ہے جو تیزابی عمل کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح چھلا ہوا لہسن بھی کیمیکل میں دھویا جاتا ہے تاکہ پانی سے وزن بڑھ سکے اور چھلکا آسانی سے اتر سکے۔ چلیے لہسن کا تدارک تو ہوسکتا ہے کہ وہ خواتین جنھیں اپنے خاندان کی صحت عزیز ہو ، وہ چھلکے والا لہسن خود چھیل کر استعمال کرسکتی ہیں۔ لیکن ادرک کا کیا کیا جائے۔ اس کا نعم البدل کیا ہو؟
کیا ہمارے نہایت قابل احترام ارکان اسمبلی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ غذائی صورت حال کا نوٹس لیں۔ فہرست تو ان کے جرائم کی بہت لمبی ہے۔ فی الحال اگر صرف دو مسائل کی طرف بھی توجہ دے لی جائے تو یہ موجودہ حکومت کا احسان عظیم ہوگا۔ نمبر ایک لہسن اور ادرک کو تیزاب سے دھونے کا عمل رکوا کر۔ سبزی منڈی کے تاجروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ آیندہ سے کھیت میں سے نکالی ہوئی ادرک جس کے اوپر مٹی لگی ہوتی ہے بیچنے کے پابند ہوں۔ اور دوم منرل واٹر کے نام پر جو مذموم کاروبار عروج پر ہے اس کی روک تھام کی جائے۔ منرل واٹر کے نام پر صرف پھٹکری سے صاف کیا ہوا پانی بوتلوں میں بک رہا ہے۔ جگہ جگہ بڑی بڑی ٹنکیاں رکھی ہیں۔ جن میں پائپ کے ذریعے پانی بھرا جا رہا ہے۔ چند گھنٹوں بعد جب گندگی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے تو اسے بوتلوں میں بند کرکے مہنگے داموں بیچ دیا جاتا ہے۔
لیکن مجھے امید نہیں ہے کہ کوئی سرکاری اہل کار ان لایعنی باتوں کی طرف توجہ دے گا۔ کسی وزیر باتدبیر کے بارے میں تو سوچنا بھی گناہ ہے کیونکہ حکمرانوں کا کھانا پینا عوام سے بالکل الگ ہے۔ ان کے لیے بیرون ملک کا صحت افزا پانی ہی نہیں، بلکہ تمام تر غذائی اشیا، دوائیں، مشروبات اور سوفٹ ڈرنک سب یورپ اور امریکا سے درآمد کیے جاتے ہوں۔ وہاں تیزابی ادرک لہسن کے فروخت کے عمل کو بھلا کون روکے گا۔
یہ ملک جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا اب اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بندر کے ہاتھ ناریل کا لگ جانا۔ جس نے پہلی بار ناریل دیکھا ہو، اور اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ پہلے اس کے بال نوچے؟ خول توڑے۔۔۔پانی پیے۔۔۔یا گودا کھائے ۔۔۔۔؟ یا سب ایک ساتھ کھا جائے؟
آج کل اکثر قارئین جو حلقہ احباب میں بھی شامل ہیں۔ شکایت کرتے ہیں کہ انھیں ایسا لگتا ہے جیسے کالم میں سے کچھ سطریں یا الفاظ کہیں کھو گئے ہیں۔ ان سب کا شکوہ غلط نہیں ہے۔ ۔۔۔۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
فی الحال تو یہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ قارئین آج کل استعاروں اور علامتوں کا مطالعہ شروع کردیں۔ اس طرح نہ صرف ان کا ذخیرہ الفاظ بڑھے گا بلکہ علامتوں اور استعاروں کی زبان بھی سمجھ میں آنے لگے گی۔ علامتیں کیوں وجود میں آتی ہیں۔ سیدھی سچی بات کہنے والا استعاروں، تشبیہوں اور علامتوں کے گورکھ دھندے میں کیوں پناہ لے لیتا ہے۔
ادیب اور شاعر ہی نہیں بلکہ فنون لطیفہ کی کسی بھی شاخ سے تعلق رکھنے والے بات کہنے کا ڈھنگ اپنے اپنے طریقے سے دریافت کر ہی لیتے ہیں۔ مصور اپنی تصویروں اور رنگوں کے ذریعے، رقاص اپنے رقص کے ذریعے بہروپیے دوسروں کی نقل کرکے اور طنز نگار اپنے کاٹ دار جملوں کے ذریعے۔۔۔۔ مقصد سب کا ایک ہی ہوتا ہے کہ اپنی بات کو عوام تک پہنچانا۔ خواہ اس کے لیے کتھک کرنے والا بریک ڈانسر بن جائے یا مغل منی ایچر بنانے والے کو تجریدی آرٹ کا سہارا لینا پڑے۔
اقبال نے ایک نظم ''شاعر'' کے عنوان سے اپنے پہلے مجموعے ''بانگ درا'' میں لکھی جس کے دو شعر پیش خدمت ہیں:
محفل نظم حکومت' چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو' روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
گویا شاعر نہ صرف اپنے زمانے بلکہ ماضی و حال کی صورت حال کو بھی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ سمجھدار قارئین کو چاہیے کہ وہ غالب، فیض اور اقبال کی شاعری کا مطالعہ ضرور کریں۔ اس طرح وہ میرے کالموں کی گمشدہ سطریں اور جملے ڈھونڈ پائیں گے۔ کیوں نہ میں خود چند اشعار اپنی پسند کے پیش کردوں؟
غالب کہتے ہیں:
درد دل لکھوں کب تک' جاؤں ان کو دکھلادوں
انگلیاں فگار اپنی' خامہ خونچکاں اپنا
٭٭
لوح و قلم کی حرمت کی سلامتی کے لیے فیض نے کہا:
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے' رقم کرتے رہیں گے
ہاں' تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں' اہل ستم' مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم' ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
شاعری سے ہٹ کر ذرا حقیقت کی اس سنگین دنیا میں بھی آجایے۔ جہاں موت کے سوداگر اب جعلی دواؤں اور انجکشنوں کے علاوہ تیزاب سے دھلی ادرک اٹھارہ گھنٹے پانی میں بھگونے کے بعد فروخت کر رہے ہیں۔ منافع خوروں نے متعلقہ افسران کو ''نذرانہ'' پیش کرکے ''صحت مند ادرک'' کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کرلیا۔ گزشتہ چار پانچ سال سے جو ادرک کراچی میں فروخت ہو رہی ہے وہ بے حد وزنی اور پانی سے شرابور ہوتی ہے۔ جس پر وقفے وقفے سے خود سبزی فروش بھی پانی کے چھینٹے مارتا جاتا ہے۔ اس ادرک کو اگر آپ یوں ہی فریج میں یا باہر رکھ دیں تو دو دن بعد مرجھاکر بدبودار ہوجاتی ہے۔ خاص کر نہاری اور حلیم کے اوپر باریک باریک کتر کے نہیں ڈالی جاسکتی۔ ادرک کی اپنی مہک کہیں غائب ہوگئی ہے۔ کچھ سالوں پہلے تک مٹی لگی ادرک بکتی تھی جو ایک ایک مہینہ رکھنے پر بھی بدبودار نہیں ہوتی تھی۔ نہ ہی مرجھاتی تھی۔ لیکن اب معاملہ بہت تشویش ناک ہے۔ آپ کو کسی بھی بازار میں خشک ادرک نہیں ملے گی۔ توڑنے پر اندر سے ہرا رنگ جگہ جگہ نظر آتا ہے جو تیزابی عمل کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح چھلا ہوا لہسن بھی کیمیکل میں دھویا جاتا ہے تاکہ پانی سے وزن بڑھ سکے اور چھلکا آسانی سے اتر سکے۔ چلیے لہسن کا تدارک تو ہوسکتا ہے کہ وہ خواتین جنھیں اپنے خاندان کی صحت عزیز ہو ، وہ چھلکے والا لہسن خود چھیل کر استعمال کرسکتی ہیں۔ لیکن ادرک کا کیا کیا جائے۔ اس کا نعم البدل کیا ہو؟
کیا ہمارے نہایت قابل احترام ارکان اسمبلی کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ غذائی صورت حال کا نوٹس لیں۔ فہرست تو ان کے جرائم کی بہت لمبی ہے۔ فی الحال اگر صرف دو مسائل کی طرف بھی توجہ دے لی جائے تو یہ موجودہ حکومت کا احسان عظیم ہوگا۔ نمبر ایک لہسن اور ادرک کو تیزاب سے دھونے کا عمل رکوا کر۔ سبزی منڈی کے تاجروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ آیندہ سے کھیت میں سے نکالی ہوئی ادرک جس کے اوپر مٹی لگی ہوتی ہے بیچنے کے پابند ہوں۔ اور دوم منرل واٹر کے نام پر جو مذموم کاروبار عروج پر ہے اس کی روک تھام کی جائے۔ منرل واٹر کے نام پر صرف پھٹکری سے صاف کیا ہوا پانی بوتلوں میں بک رہا ہے۔ جگہ جگہ بڑی بڑی ٹنکیاں رکھی ہیں۔ جن میں پائپ کے ذریعے پانی بھرا جا رہا ہے۔ چند گھنٹوں بعد جب گندگی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے تو اسے بوتلوں میں بند کرکے مہنگے داموں بیچ دیا جاتا ہے۔
لیکن مجھے امید نہیں ہے کہ کوئی سرکاری اہل کار ان لایعنی باتوں کی طرف توجہ دے گا۔ کسی وزیر باتدبیر کے بارے میں تو سوچنا بھی گناہ ہے کیونکہ حکمرانوں کا کھانا پینا عوام سے بالکل الگ ہے۔ ان کے لیے بیرون ملک کا صحت افزا پانی ہی نہیں، بلکہ تمام تر غذائی اشیا، دوائیں، مشروبات اور سوفٹ ڈرنک سب یورپ اور امریکا سے درآمد کیے جاتے ہوں۔ وہاں تیزابی ادرک لہسن کے فروخت کے عمل کو بھلا کون روکے گا۔
یہ ملک جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا اب اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بندر کے ہاتھ ناریل کا لگ جانا۔ جس نے پہلی بار ناریل دیکھا ہو، اور اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ پہلے اس کے بال نوچے؟ خول توڑے۔۔۔پانی پیے۔۔۔یا گودا کھائے ۔۔۔۔؟ یا سب ایک ساتھ کھا جائے؟