پارلیمانی جمہوری نظام میں ایسا نہیں ہوتا
ترمیمی آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے پر پانچ سال تک سزا دی جاسکے گی
صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔
ادھر ملک بھر کی تمام صحافتی تنظیموں نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہے' ملک کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے بھی صدارتی آرڈیننس پر شدید تنقید کی ہے' میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے پر پانچ سال تک سزا دی جاسکے گی۔
صدر مملکت نے اسی روز الیکشن ایکٹ میں بھی ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کسی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی انتخابی مہم چلاسکیں گے اور انتخابی حلقوں کا دورہ کرسکیں گے۔اس سے پہلے حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اس قانون کے خدوخال بیان کیے اور میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے رہے۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کی ڈرافٹنگ خود انھوں نے کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے یہ قانون ضروری تھا کیونکہ جھوٹی خبر معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اگر معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر رکھ دی جائے تو کیا بنے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے لیکن کچھ لوگ ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا تنقید کرنے میں آزاد ہے لیکن جھوٹی خبر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قانون میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اب جعلی خبروں پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ جعلی خبر پر تین سال کے بجائے پانچ سال تک سزا ہوسکے گی اور جعلی خبر دینے والے کی ضمانت بھی نہیں ہوگی۔
فیک نیوز پر مقدمے کا چھ ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔ چھ ماہ میں فیصلہ نہیں ہوتا تو ہائیکورٹ متعلقہ جج سے پوچھے گی۔ پیکا ترمیمی آرڈیننس میں ''شخص'' کی تعریف میں اداروں کو بھی شامل کیا گیا ہے، ترمیمی آڈیننس کے تحت شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی بھی شامل ہیں۔ ہتک عزت قانون کے سیکشن 20 میں ترمیم کے بعد کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملہ کی صورت میں قید تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔ شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمایندہ یا گارڈین ہوگا۔
صدرمملکت نے اسی روز الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بھی آرڈیننس جاری کردیا ہے جو بابر اعوان نے ڈرافٹ کیا ہے، اس آرڈیننس کے تحت تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور مقامی حکومتوں کے ارکان الیکشن مہم کے دوران تقاریر کر سکیں گے، کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر اور منتخب نمایندے حلقے کا دورہ کرسکیں گے۔
صحافتی تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائم ایکٹ (PECA) میں اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے دی گئی تجاویز کو نظر انداز کرکے صدارتی آر ڈیننس کے ذریعے کی گئی ترامیم کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے تنقیدی اور تعمیری آوازوں کو دبانے کا قانون قرار دیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایسی کوئی بھی ترمیم ، قانون یا آرڈیننس جس میں آزادیٔ اظہار، میڈیا کی آزادی یا حکومت کے خلاف اُٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کی جائے گی، اس کی ہر فورم پر مخالفت کی جائے گی۔
میڈیا تنظیموں کی طرف سے گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں دی گئی میڈیا کی آزادی یا آزادیٔ اظہارکو دبانے کے لیے جو بھی کوشش کی جائے گی، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام قانونی راستے اختیارکیے جائیں گے۔ تمام میڈیا تنظیمیں بھی آزادیٔ اظہار اور لوگوں کی اطلاعات تک رسائی کے حق کے دفاع کے لیے متحد ہیں۔
ادھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مجوزہ پیکا قانون اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں اس ترمیمی آرڈیننس کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے تمام سرکاری اور ریاستی حکام کو یاد دلایا ہے کہ وہ شہریوں کو جوابدہ ہیں۔تنقید برداشت کرنا ان کی نوکری کا حصہ ہے۔
پاکستان میں جھوٹی خبر یا فیک نیوز کے تدارک کے لیے پہلے ہی قانون موجود ہے۔ سرکاری ادارے بھی موجود ہیں جو میڈیا پر نظر رکھتے ہیں، پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا کوئی بھی کونٹینٹ انتہائی چھان پھٹک اور ذمے داری سے شایع کرتا ہے، البتہ سوشل میڈیا میں ایڈیٹوریل چیک نہ ہونے کی بنا پر غیر ذمے داری کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا لیکن یہاں بھی سائبر کرائمز ایکٹ موجود ہے۔
ویسے بھی دنیا کے جمہوری اور مہذب ملکوں میں حکومت کی پالیسیوں اور حکمرانوں پر تنقید ہوتی رہتی ہے، امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں سوشل میڈیا پر کیا کچھ نہ کہا گیا، موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن پر بھی تنقید ہوتی ہے،انگلینڈ میں شاہی خاندان تک پر تنقید کی جاتی ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید بھی ہوتی ہے اور ان کا مذاق بھی بنایا جاتا ہے لیکن ان ملکوں میں تنقید کرنے والوں کو گرفتار کرکے فوراً جیلوں میں نہیں ڈالا جاتا۔
گرفتاری اس وقت ہوتی ہے جب کورٹ ٹرائل میں جرم ثابت ہوجائے لیکن پاکستان میں جیسے ہی کسی پر ایف آئی آر درج ہوتی ہے ، اسے سب سے پہلے گرفتار کرکے حوالات میں بند کیا جاتا اور پھر جیل بھیجا جاتا ہے ،آخر میں جب مقدمہ اختتام پذیر ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوا۔اب اس کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے والے ، اسے گرفتار کرکے جیل بھجوانے والے اورمقدمے کی تفتیش کرکے چالان عدالت میں پیش کرنے والے سرکاری اہلکارکا احتساب کرنے پر قانون خاموش ہوجاتا ہے، یہی اصل خرابی کی جڑ ہے۔
اگر کسی نے جھوٹی، غلط خبر دی یا کسی پر بہتان باندھا ، تو اس پر ہتک عزت قوانین کے تحت قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ مہذب ملکوں میں قانون سازی کرتے ہوئے انصاف کی کسوٹی سخت ہوتی ہے۔قانون نقائص اور ابہام سے پاک ہوتا ہے، قانون میں ریاست، حکومت ، ادارے یا کسی بالادست کو یکطرفہ سہولت نہیں دی جاتی لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، پاکستان میں متعدد ایسے قوانین موجود ہیں اور اب بھی بنائے جارہے ہیں، جن میں جان بوجھ کر ابہام رکھا جاتا ہے، ریاست، حکومت ، اداروں کو یکطرفہ اختیارات اور سہولتیں قانون کے ذریعے فراہم کردی جاتی ہیں۔
ویسے بھی پارلیمانی جمہوری نظام میں منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے۔ آئین کی تشکیل ہو یا روٹین کی قانون سازی' پارلیمنٹ میں ہی انجام پذیر ہوتی ہے اور یہی اس کا فرض منصبی ہے۔
جنگ یا کسی آسمانی آفت وغیرہ کے نتیجے میں رونما ہونے والی ہنگامی صورت حال میں جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہورہا ہو اور اسے طلب کرنا بھی ممکن نہ ہو تو حکومت آئین میں متعین مدت کے لیے صدارتی فرمان کے ذریعے وقتی طور پر قانون سازی کرسکتی ہے لیکن مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے متعلقہ صدارتی آرڈیننس کا پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا لازمی ہوتا ہے اور پھر یہ عوامی نمایندوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ صدارتی فرمان کو بعینہ منظور کرلیں ، مکمل طور پر مسترد کردیں یا اس میں ترامیم کرکے مستقل قانون کی شکل دیں۔
لیکن موجودہ دور میں قانون سازی کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر اور عموماً بلاجواز طور پر صدارتی فرامین کا سہارا لیا جارہا ہے وہ جمہوری اصولوں اور روایات کی رو سے کسی طور قابل اطمینان نہیں۔ موجودہ حکومت کے ساڑھے تین برسوں میں 63 صدارتی آرڈیننس اور چھ صدارتی آرڈر جاری کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر معاملات میں براہ راست پارلیمنٹ میں قانون سازی ممکن تھی۔اہم قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے صدارتی آرڈی نینس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، جمہوری روایات اور پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کرنا ہے۔
سینیٹ کے اجلاس کے دو دن بعد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اچانک منسوخ کردینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت انتہائی عجلت اور جلدی میں آرڈی نینس لانا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ نہ صرف ملک وقوم بلکہ خود اس کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی جمہوری روایات کو کمزور کرنے کے بجائے اسے مستحکم کرنا بہتر ہے۔
پارلیمنٹ کو آئین کے مطابق حقیقی مقام اور اختیارات دے کر ہی قومی یکجہتی اور اتحاد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جب کہ غیرجمہوری طور طریقے انتشار اور خلفشار کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔
وفاقی حکومت نے ہفتے کو وفاقی کابینہ کو قوانین کے ترمیمی مسودے ارسال کیے تھے' ذرایع ابلاغ میں یہ بات سامنے آئی کہ حکومت ان قوانین کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرنا چاہتی اور امکان یہی ہے کہ اس حوالے سے صدارتی آرڈیننس جاری کیے جائیں گے اور یہ بات درست ثابت ہوئی اور صدر مملکت نے آرڈیننس جاری کر دیے۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعے کچھ مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے' حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر یہ مسودہ قوانین پارلیمنٹ میں لائے گئے تو اپوزیشن کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا' اسی لیے ترمیمی قوانین کے نفاذ کے لیے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا گیا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت کو معاملات کا انتہائی سنجیدگی، بردباری اور ذہانت سے جائزہ لینا چاہیے۔
ادھر ملک بھر کی تمام صحافتی تنظیموں نے اس قانون کو مسترد کر دیا ہے' ملک کی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے بھی صدارتی آرڈیننس پر شدید تنقید کی ہے' میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس ترمیمی آرڈیننس کے تحت جعلی خبر دینے پر پانچ سال تک سزا دی جاسکے گی۔
صدر مملکت نے اسی روز الیکشن ایکٹ میں بھی ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کسی انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار کی انتخابی مہم چلاسکیں گے اور انتخابی حلقوں کا دورہ کرسکیں گے۔اس سے پہلے حکومتی وزراء اور ارکان پارلیمنٹ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اس قانون کے خدوخال بیان کیے اور میڈیا کے سوالات کا جواب دیتے رہے۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کی ڈرافٹنگ خود انھوں نے کی ہے، ان کا کہنا تھا کہ جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے یہ قانون ضروری تھا کیونکہ جھوٹی خبر معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اگر معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر رکھ دی جائے تو کیا بنے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے لیکن کچھ لوگ ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا تنقید کرنے میں آزاد ہے لیکن جھوٹی خبر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قانون میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ اب جعلی خبروں پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔ جعلی خبر پر تین سال کے بجائے پانچ سال تک سزا ہوسکے گی اور جعلی خبر دینے والے کی ضمانت بھی نہیں ہوگی۔
فیک نیوز پر مقدمے کا چھ ماہ کے اندر فیصلہ کیا جائے گا۔ چھ ماہ میں فیصلہ نہیں ہوتا تو ہائیکورٹ متعلقہ جج سے پوچھے گی۔ پیکا ترمیمی آرڈیننس میں ''شخص'' کی تعریف میں اداروں کو بھی شامل کیا گیا ہے، ترمیمی آڈیننس کے تحت شخص میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی بھی شامل ہیں۔ ہتک عزت قانون کے سیکشن 20 میں ترمیم کے بعد کسی بھی فرد کے تشخص کے خلاف حملہ کی صورت میں قید تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔ شکایت درج کرانے والا شخص متاثرہ فریق، اس کا نمایندہ یا گارڈین ہوگا۔
صدرمملکت نے اسی روز الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بھی آرڈیننس جاری کردیا ہے جو بابر اعوان نے ڈرافٹ کیا ہے، اس آرڈیننس کے تحت تمام اسمبلیوں، سینیٹ اور مقامی حکومتوں کے ارکان الیکشن مہم کے دوران تقاریر کر سکیں گے، کوئی بھی پبلک آفس ہولڈر اور منتخب نمایندے حلقے کا دورہ کرسکیں گے۔
صحافتی تنظیموں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائم ایکٹ (PECA) میں اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے دی گئی تجاویز کو نظر انداز کرکے صدارتی آر ڈیننس کے ذریعے کی گئی ترامیم کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے تنقیدی اور تعمیری آوازوں کو دبانے کا قانون قرار دیا ہے اور اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ایسی کوئی بھی ترمیم ، قانون یا آرڈیننس جس میں آزادیٔ اظہار، میڈیا کی آزادی یا حکومت کے خلاف اُٹھنے والی آواز کو دبانے کی کوشش کی جائے گی، اس کی ہر فورم پر مخالفت کی جائے گی۔
میڈیا تنظیموں کی طرف سے گزشتہ روز جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں دی گئی میڈیا کی آزادی یا آزادیٔ اظہارکو دبانے کے لیے جو بھی کوشش کی جائے گی، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام قانونی راستے اختیارکیے جائیں گے۔ تمام میڈیا تنظیمیں بھی آزادیٔ اظہار اور لوگوں کی اطلاعات تک رسائی کے حق کے دفاع کے لیے متحد ہیں۔
ادھر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے مجوزہ پیکا قانون اور الیکشن ایکٹ میں ترمیم کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے اپنے بیان میں اس ترمیمی آرڈیننس کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے تمام سرکاری اور ریاستی حکام کو یاد دلایا ہے کہ وہ شہریوں کو جوابدہ ہیں۔تنقید برداشت کرنا ان کی نوکری کا حصہ ہے۔
پاکستان میں جھوٹی خبر یا فیک نیوز کے تدارک کے لیے پہلے ہی قانون موجود ہے۔ سرکاری ادارے بھی موجود ہیں جو میڈیا پر نظر رکھتے ہیں، پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا کوئی بھی کونٹینٹ انتہائی چھان پھٹک اور ذمے داری سے شایع کرتا ہے، البتہ سوشل میڈیا میں ایڈیٹوریل چیک نہ ہونے کی بنا پر غیر ذمے داری کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا لیکن یہاں بھی سائبر کرائمز ایکٹ موجود ہے۔
ویسے بھی دنیا کے جمہوری اور مہذب ملکوں میں حکومت کی پالیسیوں اور حکمرانوں پر تنقید ہوتی رہتی ہے، امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں سوشل میڈیا پر کیا کچھ نہ کہا گیا، موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن پر بھی تنقید ہوتی ہے،انگلینڈ میں شاہی خاندان تک پر تنقید کی جاتی ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید بھی ہوتی ہے اور ان کا مذاق بھی بنایا جاتا ہے لیکن ان ملکوں میں تنقید کرنے والوں کو گرفتار کرکے فوراً جیلوں میں نہیں ڈالا جاتا۔
گرفتاری اس وقت ہوتی ہے جب کورٹ ٹرائل میں جرم ثابت ہوجائے لیکن پاکستان میں جیسے ہی کسی پر ایف آئی آر درج ہوتی ہے ، اسے سب سے پہلے گرفتار کرکے حوالات میں بند کیا جاتا اور پھر جیل بھیجا جاتا ہے ،آخر میں جب مقدمہ اختتام پذیر ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ملزم پر جرم ثابت نہیں ہوا۔اب اس کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے والے ، اسے گرفتار کرکے جیل بھجوانے والے اورمقدمے کی تفتیش کرکے چالان عدالت میں پیش کرنے والے سرکاری اہلکارکا احتساب کرنے پر قانون خاموش ہوجاتا ہے، یہی اصل خرابی کی جڑ ہے۔
اگر کسی نے جھوٹی، غلط خبر دی یا کسی پر بہتان باندھا ، تو اس پر ہتک عزت قوانین کے تحت قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ مہذب ملکوں میں قانون سازی کرتے ہوئے انصاف کی کسوٹی سخت ہوتی ہے۔قانون نقائص اور ابہام سے پاک ہوتا ہے، قانون میں ریاست، حکومت ، ادارے یا کسی بالادست کو یکطرفہ سہولت نہیں دی جاتی لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا، پاکستان میں متعدد ایسے قوانین موجود ہیں اور اب بھی بنائے جارہے ہیں، جن میں جان بوجھ کر ابہام رکھا جاتا ہے، ریاست، حکومت ، اداروں کو یکطرفہ اختیارات اور سہولتیں قانون کے ذریعے فراہم کردی جاتی ہیں۔
ویسے بھی پارلیمانی جمہوری نظام میں منتخب نمایندوں پر مشتمل پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے۔ آئین کی تشکیل ہو یا روٹین کی قانون سازی' پارلیمنٹ میں ہی انجام پذیر ہوتی ہے اور یہی اس کا فرض منصبی ہے۔
جنگ یا کسی آسمانی آفت وغیرہ کے نتیجے میں رونما ہونے والی ہنگامی صورت حال میں جب پارلیمنٹ کا اجلاس نہ ہورہا ہو اور اسے طلب کرنا بھی ممکن نہ ہو تو حکومت آئین میں متعین مدت کے لیے صدارتی فرمان کے ذریعے وقتی طور پر قانون سازی کرسکتی ہے لیکن مقررہ مدت ختم ہونے سے پہلے متعلقہ صدارتی آرڈیننس کا پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا لازمی ہوتا ہے اور پھر یہ عوامی نمایندوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ صدارتی فرمان کو بعینہ منظور کرلیں ، مکمل طور پر مسترد کردیں یا اس میں ترامیم کرکے مستقل قانون کی شکل دیں۔
لیکن موجودہ دور میں قانون سازی کے لیے جتنے بڑے پیمانے پر اور عموماً بلاجواز طور پر صدارتی فرامین کا سہارا لیا جارہا ہے وہ جمہوری اصولوں اور روایات کی رو سے کسی طور قابل اطمینان نہیں۔ موجودہ حکومت کے ساڑھے تین برسوں میں 63 صدارتی آرڈیننس اور چھ صدارتی آرڈر جاری کیے گئے ہیں جن میں سے بیشتر معاملات میں براہ راست پارلیمنٹ میں قانون سازی ممکن تھی۔اہم قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کو نظرانداز کرکے صدارتی آرڈی نینس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا، جمہوری روایات اور پارلیمنٹ پر عدم اعتماد کرنا ہے۔
سینیٹ کے اجلاس کے دو دن بعد اور قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اچانک منسوخ کردینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت انتہائی عجلت اور جلدی میں آرڈی نینس لانا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ نہ صرف ملک وقوم بلکہ خود اس کے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے بھی جمہوری روایات کو کمزور کرنے کے بجائے اسے مستحکم کرنا بہتر ہے۔
پارلیمنٹ کو آئین کے مطابق حقیقی مقام اور اختیارات دے کر ہی قومی یکجہتی اور اتحاد کو یقینی بنایا جاسکتا ہے جب کہ غیرجمہوری طور طریقے انتشار اور خلفشار کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔
وفاقی حکومت نے ہفتے کو وفاقی کابینہ کو قوانین کے ترمیمی مسودے ارسال کیے تھے' ذرایع ابلاغ میں یہ بات سامنے آئی کہ حکومت ان قوانین کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرنا چاہتی اور امکان یہی ہے کہ اس حوالے سے صدارتی آرڈیننس جاری کیے جائیں گے اور یہ بات درست ثابت ہوئی اور صدر مملکت نے آرڈیننس جاری کر دیے۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت اس قانون کے ذریعے کچھ مخصوص مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے' حکومت کو خدشہ تھا کہ اگر یہ مسودہ قوانین پارلیمنٹ میں لائے گئے تو اپوزیشن کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا' اسی لیے ترمیمی قوانین کے نفاذ کے لیے صدارتی آرڈیننس کا سہارا لیا گیا۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت کو معاملات کا انتہائی سنجیدگی، بردباری اور ذہانت سے جائزہ لینا چاہیے۔