طلبہ یونین کی بحالی ایک مثبت اقدام
قانون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہر سال اپنے نمایندوں کا انتخاب کریں گے
ترقی پسند طلبہ، سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی 40سال کی جدوجہد رنگ لائی، پیپلز پارٹی نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ سندھ اسمبلی نے طلبہ یونین کی بحالی کا قانون منظور کیا۔ یہ بل 2019میں صوبائی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل ہوا اور اب قانون کی شکل اختیار کرگیا۔
اب تینوں صوبوں کے طلبہ اس بات کے منتظر ہیں کہ وفاق اور ان کے صوبوں میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی کب ہوگی۔ اس قانون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہر سال اپنے نمایندوں کا انتخاب کریں گے۔
طلبہ یونین7سے 11عہدیداروں پر مشتمل ہوگی اور صوبہ سندھ کی حدود میں قائم سرکاری کالجوں، سرکاری یونیورسٹیوں،پرائیوٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں، کنٹونمنٹ بورڈ، وزارت دفاع اور دیگر وزارتوں کے تحت کام کرنے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس قانون کا اطلاق ہوگا۔ ہر یونیورسٹی کے اداروں یعنی سنڈیکیٹ، سینیٹ یا گورننگ باڈی میں طلبہ کے کم از کم ایک نمایندہ کو رکن بنایا جائے گا۔
اس قانون کی شق 6 کے تحت ہر ادارہ میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی تدارک کے لیے کمیٹی قائم ہوگی، اس کمیٹی میں صنفی تناسب کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس قانون کے تحت منتخب نمایندوں کو طلبہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے جدوجہد کا حق ہوگا ۔ منتخب یونین کے عہدیداروں کا فرض ہوگا کہ یہ سماجی، ثقافتی اور دانش وارانہ سرگرمیوں کا انعقاد کرے اور ہم نصابی سرگرمیاں منعقد کرے۔
اس قانون میں یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ طلبہ یونین تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، عملے اور طلبہ کے درمیان خوش گوار تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس قانون کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبہ یونین ملک بھر کی منتخب طلبہ یونینز کے ساتھ روابط قائم کرسکے گی۔ حکومت سندھ اس قانون کے قواعد و ضوابط تیا رکرے گی پھر اس قانون پر عملدرآمد ممکن ہوسکے گا۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آتے ہی 90دن میں عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا، وقت گزرنے کے ساتھ جنرل ضیاء الحق نے قیامت تک اقتدار کے منصب پر سوار رہنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار میں توسیع کے لیے جمہوری کلچر کی جڑیں کھودنے کی حکمت عملی اختیار کی اور ایک دن تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی، اخبارات پر پری سنسر شپ عائد ہوئی، مخالف اخبارات پر پابندی لگادی گئی۔
فوجی حکومت کی مخالفت میں لکھنے والے صحافیوں ، دانشوروں کو ریڈیو اور ٹی وی پر بلیک لسٹ کیا گیا۔ کچھ منحرف صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ سینئر صحافی حسین نقی کو لاہور کے شاہی قلعہ لے جایا گیا، ہزاروں سیاسی کارکنوں کو قید کیا گیا، مزدور تنظیموں کو غیر فعال کردیا گیا۔
پہلے اندرون سندھ طلبہ یونین کے انتخابات کو ملتوی کیا گیا اور پھر 1984میں طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی گئی۔ طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں تحریک شروع ہوئی۔ ابھی تحریک چل رہی تھی کہ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے جنرل ضیاء الحق سے ملاقا ت کی۔ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم تحریک سے علیحدہ ہوئی۔ اس تنظیم کے عہدیداروں کے لیے یونیورسٹیوں میں ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔
فوجی عدالتوں نے ترقی پسند طلبہ رہنماؤں کو قید اور کوڑوں کی سزائیں دیں۔ 1990 میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم شبیر احمد نے طلبہ یونین پر پابندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ معزز چیف جسٹس نے طلبہ یونین کی بحالی اور انتخابات کرانے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا۔ چیف جسٹس صاحب نے ایک تفصیلی فیصلہ تحریر کیا تھا جو شاید کسی فائل میں کھوگیا۔
پیپلز پارٹی 1988سے 1999 تک دو دفعہ برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں طلبہ یونین کی بحالی کا عہد کیا تھا مگر یہ عہد عملی شکل اختیار نہ کرسکا۔ مسلم لیگ ن کو دو دفعہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
انھیں پہلی دفعہ جمہوریت کی اہمیت اور جمہوری کلچر کا احساس ہوا۔ پنجاب میں ایک دفعہ طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے، بعدازاں یہ معاملہ لاپتہ ہوا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں حکومتیں قائم کیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ، خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی اورپیپلزپارٹی کا اتحاد حکومت میں آیا، بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے حکومت بنائی۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا بھی ذکر کیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ سابق طالب علم رہنما اور نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو جو بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے، ایوان میں طلبہ یونین کی بحالی کا نکتہ اٹھایا۔
چیئرمین رضا ربانی نے قانونی مشاورت کے لیے اٹارنی جنرل کو مدعو کیا۔ معزز اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کا تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ ایوان میں پیش کیا۔ اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ چیف جسٹس ٰ نے اس فیصلہ میں طلبہ یونین پر پابندی ختم کردی تھی، شاید اسٹبلشمنٹ کو یہ فیصلہ قبو ل نہیں تھا ،اس بناء پر یہ فیصلہ منظرعام پر نہ آیا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ انسانی حقوق اور بنیادی جمہوری آزادیوں کے لیے سرگرداں وکلاء نے اس فیصلہ پر توجہ نہ دی مگر اٹارنی جنرل کے اس بیان سے واضح ہوا کہ طلبہ یونین کی بحالی پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔
ہانگ کانگ میں مقیم سابق طالب علم رہنما بصیر نوید نے طلبہ یونین بحالی کی عرضداشت سابق صدر ممنون حسین کو ارسال کی۔ ایوان صدر نے یہ عرضداشت قانونی رائے کے لیے وزارت قانون کو بھجوادی۔ وزارت قانون کے ایک دانا افسر نے واضح طور پر رائے دی کہ مارشل لاء کے دور میں عائد کردہ تمام پابندیاں مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد ختم ہوگئیں۔ یوں اب واضح ہوا کہ طلبہ یونین کے ادارہ کی بحالی پر کوئی پابندی نہیں ہے، مگر طلبہ یونین کاادارہ بحال نہ ہوسکا۔
2019 میں ترقی پسند طلبہ کے اتحاد نے پورے ملک میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے مارچ منعقد کیے۔ طلبہ یونین کی بحالی کا مسئلہ ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بنا، اس فضا سے وزیر اعظم عمران خان بھی متاثر ہوئے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کا پرجوش اعلان کیا۔ وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے اس بارے میں قانون سازی کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی مگر سندھ اسمبلی میں دو سال کی تگ و دو کے بعد یہ قانون منظور ہوا۔
اب حکومت سندھ کا پھر امتحان ہے، اگر فوری طور پر قواعد و ضوابط تیار کرلیے گئے تو اس سیشن میں طلبہ یونین بحال ہوسکے گی۔ 80ء کی دہائی میں یونیورسٹیوں میں فائرنگ، طلبہ کی ہلاکت اور طلبہ یونین کے انتظامیہ کو یرغمال بنانے کے واقعات بڑھے تھے۔
ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت یہ بیانیہ عام ہوا کہ طلبہ یونین کے ذریعے تشدد بڑھ سکتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے طے شدہ حکمت عملی کے تحت منتخب طلبہ یونین کو توکالعدم قرار دیا تھا لیکن اپنی حامی طلبہ تنظیموں کو اسلحہ کے ساتھ متحرک ہونے کی اجازت دی تھی۔
اب بھی بڑے مدبر سیاستدان،اساتذہ، سیاسی رہنما اور صحافی منتخب طلبہ یونین اور طلبہ تنظیم میں فرق محسوس نہیں کرتے۔ طلبہ یونین پر پابندی کے باوجود یونیورسٹیوں میں تشدد کے واقعات نہیں رکے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ اسلحہ کی فراہمی روکے۔ ہر شہر کی انتظامیہ اس بات کی پابند ہے کہ اسلحہ کی نمائش نہ ہو، اگر کوئی طالب علم مسلح ہو کر کسی تعلیمی ادارے میں داخل ہوتا ہے تو پولیس فوری کارروائی کرے۔
اسلحہ کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ملزموں کو طویل مدت کی سزائیں دی جائیں، اگر ریاست کی ترجیحات میں شہروں اور تعلیمی اداروں میں امن کو مستحکم کرنا ہوگا تو پھر امن رہے گا۔ طلبہ یونین نوجوانوں میں برداشت سکھاتی ہے۔ انتظامی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقعے فراہم کرتی ہے اور جمہوری کلچر کو مستحکم کرتی ہے، اس کا ارتقاء انتہائی ضروری ہے۔
اب تینوں صوبوں کے طلبہ اس بات کے منتظر ہیں کہ وفاق اور ان کے صوبوں میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے قانون سازی کب ہوگی۔ اس قانون کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہر سال اپنے نمایندوں کا انتخاب کریں گے۔
طلبہ یونین7سے 11عہدیداروں پر مشتمل ہوگی اور صوبہ سندھ کی حدود میں قائم سرکاری کالجوں، سرکاری یونیورسٹیوں،پرائیوٹ کالجوں اور یونیورسٹیوں، کنٹونمنٹ بورڈ، وزارت دفاع اور دیگر وزارتوں کے تحت کام کرنے والے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس قانون کا اطلاق ہوگا۔ ہر یونیورسٹی کے اداروں یعنی سنڈیکیٹ، سینیٹ یا گورننگ باڈی میں طلبہ کے کم از کم ایک نمایندہ کو رکن بنایا جائے گا۔
اس قانون کی شق 6 کے تحت ہر ادارہ میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی تدارک کے لیے کمیٹی قائم ہوگی، اس کمیٹی میں صنفی تناسب کو برقرار رکھا جائے گا۔ اس قانون کے تحت منتخب نمایندوں کو طلبہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے جدوجہد کا حق ہوگا ۔ منتخب یونین کے عہدیداروں کا فرض ہوگا کہ یہ سماجی، ثقافتی اور دانش وارانہ سرگرمیوں کا انعقاد کرے اور ہم نصابی سرگرمیاں منعقد کرے۔
اس قانون میں یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ طلبہ یونین تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، عملے اور طلبہ کے درمیان خوش گوار تعلقات کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ اس قانون کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبہ یونین ملک بھر کی منتخب طلبہ یونینز کے ساتھ روابط قائم کرسکے گی۔ حکومت سندھ اس قانون کے قواعد و ضوابط تیا رکرے گی پھر اس قانون پر عملدرآمد ممکن ہوسکے گا۔
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آتے ہی 90دن میں عام انتخابات کے انعقاد کا وعدہ کیا، وقت گزرنے کے ساتھ جنرل ضیاء الحق نے قیامت تک اقتدار کے منصب پر سوار رہنے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے اقتدار میں توسیع کے لیے جمہوری کلچر کی جڑیں کھودنے کی حکمت عملی اختیار کی اور ایک دن تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی گئی، اخبارات پر پری سنسر شپ عائد ہوئی، مخالف اخبارات پر پابندی لگادی گئی۔
فوجی حکومت کی مخالفت میں لکھنے والے صحافیوں ، دانشوروں کو ریڈیو اور ٹی وی پر بلیک لسٹ کیا گیا۔ کچھ منحرف صحافیوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ سینئر صحافی حسین نقی کو لاہور کے شاہی قلعہ لے جایا گیا، ہزاروں سیاسی کارکنوں کو قید کیا گیا، مزدور تنظیموں کو غیر فعال کردیا گیا۔
پہلے اندرون سندھ طلبہ یونین کے انتخابات کو ملتوی کیا گیا اور پھر 1984میں طلبہ یونین پر پابندی عائد کردی گئی۔ طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں تحریک شروع ہوئی۔ ابھی تحریک چل رہی تھی کہ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے جنرل ضیاء الحق سے ملاقا ت کی۔ دائیں بازو کی طلبہ تنظیم تحریک سے علیحدہ ہوئی۔ اس تنظیم کے عہدیداروں کے لیے یونیورسٹیوں میں ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔
فوجی عدالتوں نے ترقی پسند طلبہ رہنماؤں کو قید اور کوڑوں کی سزائیں دیں۔ 1990 میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم شبیر احمد نے طلبہ یونین پر پابندی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ معزز چیف جسٹس نے طلبہ یونین کی بحالی اور انتخابات کرانے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا۔ چیف جسٹس صاحب نے ایک تفصیلی فیصلہ تحریر کیا تھا جو شاید کسی فائل میں کھوگیا۔
پیپلز پارٹی 1988سے 1999 تک دو دفعہ برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں طلبہ یونین کی بحالی کا عہد کیا تھا مگر یہ عہد عملی شکل اختیار نہ کرسکا۔ مسلم لیگ ن کو دو دفعہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔
انھیں پہلی دفعہ جمہوریت کی اہمیت اور جمہوری کلچر کا احساس ہوا۔ پنجاب میں ایک دفعہ طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے، بعدازاں یہ معاملہ لاپتہ ہوا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی نے وفاق اور سندھ میں حکومتیں قائم کیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ، خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی اورپیپلزپارٹی کا اتحاد حکومت میں آیا، بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور اتحادی جماعتوں نے حکومت بنائی۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا بھی ذکر کیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ سابق طالب علم رہنما اور نیشنل پارٹی کے صدر میر حاصل بزنجو جو بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہوئے تھے، ایوان میں طلبہ یونین کی بحالی کا نکتہ اٹھایا۔
چیئرمین رضا ربانی نے قانونی مشاورت کے لیے اٹارنی جنرل کو مدعو کیا۔ معزز اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کا تحریر کردہ تفصیلی فیصلہ ایوان میں پیش کیا۔ اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ چیف جسٹس ٰ نے اس فیصلہ میں طلبہ یونین پر پابندی ختم کردی تھی، شاید اسٹبلشمنٹ کو یہ فیصلہ قبو ل نہیں تھا ،اس بناء پر یہ فیصلہ منظرعام پر نہ آیا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ انسانی حقوق اور بنیادی جمہوری آزادیوں کے لیے سرگرداں وکلاء نے اس فیصلہ پر توجہ نہ دی مگر اٹارنی جنرل کے اس بیان سے واضح ہوا کہ طلبہ یونین کی بحالی پر کوئی قانونی قدغن نہیں ہے۔
ہانگ کانگ میں مقیم سابق طالب علم رہنما بصیر نوید نے طلبہ یونین بحالی کی عرضداشت سابق صدر ممنون حسین کو ارسال کی۔ ایوان صدر نے یہ عرضداشت قانونی رائے کے لیے وزارت قانون کو بھجوادی۔ وزارت قانون کے ایک دانا افسر نے واضح طور پر رائے دی کہ مارشل لاء کے دور میں عائد کردہ تمام پابندیاں مارشل لاء کے خاتمہ کے بعد ختم ہوگئیں۔ یوں اب واضح ہوا کہ طلبہ یونین کے ادارہ کی بحالی پر کوئی پابندی نہیں ہے، مگر طلبہ یونین کاادارہ بحال نہ ہوسکا۔
2019 میں ترقی پسند طلبہ کے اتحاد نے پورے ملک میں طلبہ یونین کی بحالی کے لیے مارچ منعقد کیے۔ طلبہ یونین کی بحالی کا مسئلہ ٹی وی ٹاک شوز کا موضوع بنا، اس فضا سے وزیر اعظم عمران خان بھی متاثر ہوئے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی کا پرجوش اعلان کیا۔ وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں نے اس بارے میں قانون سازی کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی مگر سندھ اسمبلی میں دو سال کی تگ و دو کے بعد یہ قانون منظور ہوا۔
اب حکومت سندھ کا پھر امتحان ہے، اگر فوری طور پر قواعد و ضوابط تیار کرلیے گئے تو اس سیشن میں طلبہ یونین بحال ہوسکے گی۔ 80ء کی دہائی میں یونیورسٹیوں میں فائرنگ، طلبہ کی ہلاکت اور طلبہ یونین کے انتظامیہ کو یرغمال بنانے کے واقعات بڑھے تھے۔
ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت یہ بیانیہ عام ہوا کہ طلبہ یونین کے ذریعے تشدد بڑھ سکتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے طے شدہ حکمت عملی کے تحت منتخب طلبہ یونین کو توکالعدم قرار دیا تھا لیکن اپنی حامی طلبہ تنظیموں کو اسلحہ کے ساتھ متحرک ہونے کی اجازت دی تھی۔
اب بھی بڑے مدبر سیاستدان،اساتذہ، سیاسی رہنما اور صحافی منتخب طلبہ یونین اور طلبہ تنظیم میں فرق محسوس نہیں کرتے۔ طلبہ یونین پر پابندی کے باوجود یونیورسٹیوں میں تشدد کے واقعات نہیں رکے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ اسلحہ کی فراہمی روکے۔ ہر شہر کی انتظامیہ اس بات کی پابند ہے کہ اسلحہ کی نمائش نہ ہو، اگر کوئی طالب علم مسلح ہو کر کسی تعلیمی ادارے میں داخل ہوتا ہے تو پولیس فوری کارروائی کرے۔
اسلحہ کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ملزموں کو طویل مدت کی سزائیں دی جائیں، اگر ریاست کی ترجیحات میں شہروں اور تعلیمی اداروں میں امن کو مستحکم کرنا ہوگا تو پھر امن رہے گا۔ طلبہ یونین نوجوانوں میں برداشت سکھاتی ہے۔ انتظامی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے مواقعے فراہم کرتی ہے اور جمہوری کلچر کو مستحکم کرتی ہے، اس کا ارتقاء انتہائی ضروری ہے۔