رواداری کی سیاست
اب تک تحریک انصاف کے رہنماؤں کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی
صحافی محسن بیگ کی ایک ٹاک شو میں قابل اعتراض گفتگو پر مراد سعید نے ایف آئی اے کو درخواست دی۔ حکومت نے ٹی وی چینل کو بند کردیا۔ ایف آئی اے کے اہلکاروں نے محسن بیگ کے گھر پر دھاوا بول دیا اور انھیں گرفتار کر لیا۔ صحافتی تنظیموں نے ان کی گرفتاری کو بنیادی حقوق پر حملہ قرار دیا۔
2013 کے انتخابی نتائج کو تحریک انصاف نے قبول نہیں کیا، یوں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے جارحانہ بیانیہ اختیار کیا۔ پاناما اسکینڈل کے افشا ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اوپن ہارٹ سرجری کے لیے برطانیہ گئے تو تحریک انصاف کی قیادت نے میاں نواز شریف کے بارے میں منفی مہم شروع کی۔ عمران خان اور دیگر رہنماؤں نے بار بار یہ کہنا شروع کیا کہ نواز شریف دل کے عارضہ میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ سیاسی صورتحال سے بچنے کے لیے لندن گئے ہیں اور وہاں کی کسی ڈسپنسری میں چھپے ہوئے ہیں۔
جب لندن میں دنیا کے دل کے امراض کے بڑے اسپتال میں میاں صاحب کا اوپن ہارٹ سرجری کا آپریشن ہوا تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے مجاہدین نے اس اسپتال کی تصاویر وائرل کیں اور یہ بیانیہ اختیار کیا کہ یہ اسپتال اوپن ہارٹ سرجری کا اسپتال نہیں ہے۔
یورپ اور خاص طور پر برطانیہ میں صحت کے بارے میں ضابطہ اخلاق بہت سخت ہیں۔ وہاں کوئی ڈاکٹر خاص طور پر انگریز ڈاکٹر غلط سرٹیفکیٹ دینے پر تیار نہیں ہوتا مگر تحریک انصاف کے مجاہدین نے جارحانہ مہم جاری رکھی۔ میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں۔ وہ علاج کے لیے لندن کے کینسر کے بڑے اسپتال میں داخل ہوئیں اور ان کی سرجری ہوئی اور کینسر کے مرض کو روکنے کے لیے کمیو تھراپی اور ریڈیو تھراپی ہوئی۔ ڈاکٹروں نے آخری حربہ کے طور پر کینسر کے درد کو کم کرنے کے لیے مدافعتی انجکشن لگائے۔
شریف خاندان کے لیے یہ ایک بدترین وقت تھا۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو احتساب عدالت نے سزا دیدی۔ میاں صاحب واپس آئے اور اڈیالہ جیل میں مقید ہوئے مگر یہ مہم جاری رہی۔ بدقسمتی سے صرف سوشل ایکٹوسٹ ہی نہیں تحریک انصاف کی قیادت بھی اس مہم میں شامل رہی۔ پیپلز پارٹی کے ترقی پسند رہنما بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن مہم میں شریک رہے۔ کلثوم نواز زندگی کی جنگ ہار گئیں۔ صرف بیرسٹر اعتزاز احسن کو شرمندگی ہوئی ، انھوں نے اپنے غلط بیان پر شریف خاندان سے معذرت کی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کی شہرت مخالفین سے غیر مہذب جملوں کی ہے۔ انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے انتہائی افسوس ناک ریمارکس دیے تھے۔
وہ اس وقت میاں نواز شریف کی قیادت میں تھے مگر میاں نواز شریف نے بھی شیخ رشید کی مذمت نہیں کی۔ شیخ رشید نے بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں ذومعنی ریمارکس دیے تھے۔ جب مسلم لیگ ن برسر اقتدار تھی تو وفاقی وزراء نے خاص طور پر مخالف سیاسی خواتین کے لیے غیر مہذب ریمارکس دیے تھے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر تحریک انصاف کی منتخب رکن ڈاکٹر شیریں مزاری کا مذاق اڑایا تھا۔ ان کے ریمارکس پر قومی اسمبلی میں کئی دن ہنگامہ رہا تھا۔ مسلم لیگ ن کی منتخب خواتین بھی شرمندگی کا شکار ہوئی تھیں مگر خواجہ آصف نے معذرت نہیں کی۔
گزشتہ اسمبلی میں کچھ اچھی روایات بھی شروع ہوئی تھیں۔ قومی اسمبلی کے آخری اجلاس کے آخری دن عابد شیر علی نے خاص طور پر ڈاکٹر شیریں مزاری سے اپنے پانچ برسوں کے رویہ پر معذرت کی تھی۔ ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے والے ادارہ پیمرا کا ایک ضابطہ اخلاق موجود ہے'کئی ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی بھی کی گئی اور نشریات بھی بند ہوئیں' پیمرا کے قوانین کے تحت یہ انتہائی اقدام آخری مرحلہ کے لیے ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے متعلقہ فرد جس پر الزام ہو اس کو اور چینل کو نوٹس دیا جائے۔ نوٹس کے جواب کا قانونی ماہرین کو جائزہ لینا چاہیے، اگر یہ محسوس ہوکہ جواب تسلی بخش نہ ہو تو صرف متعلقہ شخص کو بلیک لسٹ کرنا چاہیے ، اگر متاثرہ فریق یہ محسوس کرتا ہے کہ متعلقہ شخص کو بلیک لسٹ کرنے کی سزا ناکافی ہے تو پھر متاثرہ فریق کو ہتک عزت کے قانون کے مطابق عدالتی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ حکومت کو کسی صورت فریق نہیں بننا چاہیے۔ صحافتی تنظیموں کا یہ متفقہ مؤقف ہے کہ جب کوئی چینل بند کیا جاتا ہے تو سیکڑوں افراد کا روزگار ختم ہوجاتا ہے۔ ان سیکڑوں افراد میں سے 90فیصد کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، صحافتی تنظیموں کو چینل کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
وزیر مواصلات مراد سعید نے اس پوری صورتحال پر اپنے مؤقف کو بیان کیا ہے۔ مراد سعید کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی سیاست دان کی توہین نہیں کی، صرف بلاول بھٹو زرداری کے لیے فرزند زرداری کے الفاظ استعمال کیے ہیں مگر مراد سعید نے اس وضاحت میں یہ بات فراموش کردی کہ وہ مسلسل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کو بدعنوان اور چور جیسے القاب سے نوازتے رہتے ہیں۔
ایسے بیانات وزیر اعظم اور دیگر رہنما بھی دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک تحریک انصاف کے رہنماؤں کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی۔ شہزاد اکبر شریف خاندان کو سزا دلوانے کا ہدف پورا نہ کرنے پر مستعفی ہوئے۔ شہباز شریف کے خلاف الزامات برطانوی میڈیا میں شائع اور نشر ہوئے اور شہباز شریف لندن کی عدالتوں میں ہتک عزت کے تمام مقدمات جیت گئے۔ لندن میں دیکھے جانے والے پاکستانی چینل کو جس نے شہزاد اکبر کی فراہم کردہ معلومات نشر کیں جرمانہ کے ساتھ معافی نامہ اپنے مرکزی بلیٹن میں نشر کرنا پڑا تھا۔ اس چینل کی نشریات پر برطانیہ میں اب بھی پابندی ہے۔
جو خواتین سیاست میں آئیں مخالفین کے رکیک حملوں کا زیادہ شکار ہوئیں۔ 1977 کے انتخابات میں اور پھر 1988 کے انتخابات میں بیگم نصرت بھٹو کی سابق امریکی صدر فورڈ کے ساتھ رقص کی تصاویر پر مشتمل پوسٹر تقسیم کیے گئے ۔ بیگم نصرت بھٹو اپنے شوہر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ امریکا کے سرکاری دورہ کے دوران واشنگٹن میں سابق امریکی صدر فورڈ کے عشائیہ میں شریک تھیں اور بیگم نصرت بھٹو کی یہ تصویر اس وقت کے ڈپلومیٹک پروٹوکول کی ضروریات کے مطابق تھی۔
بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری کے ساتھ شادی ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے اسلامی روایات کے مطابق اپنے والد کا نام اپنے ساتھ رکھا مگر دائیں بازو کے بعض صحافیوں اور مسلم لیگ کے اس وقت کے رہنما بے نظیر بھٹو کے نام کو بگاڑ کر انھیں بے نظیر زرداری یا مسز زرداری کے نام سے مخاطب کرکے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے۔ مریم نواز نے بھی شادی کے بعد اپنے والد کا نام اپنے ساتھ منسوب رکھا۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے بعض رہنما مریم نواز کو مریم صفدر کہہ کر اپنے منفی جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔
برصغیر میں سیاسی رواداری پر مبنی کلچر میں مخالفین کے انتقال یا ان کے قریبی عزیزوں کے انتقال پر تعزیت کے لیے متعلقہ فرد کے گھرجانا یا اخباری بیان کے ذریعے تعزیت کرنا معمول کی روایت تھی۔ مہاتما گاندھی اور بانی پاکستان کے درمیان سیاسی معرکہ آرائی کی تاریخ سے ہر طالب علم واقف ہے مگر جس دن مہاتما گاندھی کا انتقال ہوا ، قائد نے صرف تعزیتی بیان جاری کرنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ پاکستان میں ایک دن کی تعطیل اور قومی پرچم سرنگوں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق کی والدہ کا انتقال ہوا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کے ارکان سے تعزیت کی روایت پر عمل کرتے ہوئے تعزیتی بیان جاری کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس روایت کو توڑا ہے، مگر انھوں نے تعزیتی بیان تک جاری نہ کرنے کی انوکھی روایت قائم کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے مراد سعید سے معافی مانگ کر رواداری کی ایک نئی روایت قائم کی ہے ، اب حکمراں جماعت کو آگے آنا چاہیے۔
2013 کے انتخابی نتائج کو تحریک انصاف نے قبول نہیں کیا، یوں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے جارحانہ بیانیہ اختیار کیا۔ پاناما اسکینڈل کے افشا ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اوپن ہارٹ سرجری کے لیے برطانیہ گئے تو تحریک انصاف کی قیادت نے میاں نواز شریف کے بارے میں منفی مہم شروع کی۔ عمران خان اور دیگر رہنماؤں نے بار بار یہ کہنا شروع کیا کہ نواز شریف دل کے عارضہ میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ سیاسی صورتحال سے بچنے کے لیے لندن گئے ہیں اور وہاں کی کسی ڈسپنسری میں چھپے ہوئے ہیں۔
جب لندن میں دنیا کے دل کے امراض کے بڑے اسپتال میں میاں صاحب کا اوپن ہارٹ سرجری کا آپریشن ہوا تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کے مجاہدین نے اس اسپتال کی تصاویر وائرل کیں اور یہ بیانیہ اختیار کیا کہ یہ اسپتال اوپن ہارٹ سرجری کا اسپتال نہیں ہے۔
یورپ اور خاص طور پر برطانیہ میں صحت کے بارے میں ضابطہ اخلاق بہت سخت ہیں۔ وہاں کوئی ڈاکٹر خاص طور پر انگریز ڈاکٹر غلط سرٹیفکیٹ دینے پر تیار نہیں ہوتا مگر تحریک انصاف کے مجاہدین نے جارحانہ مہم جاری رکھی۔ میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں۔ وہ علاج کے لیے لندن کے کینسر کے بڑے اسپتال میں داخل ہوئیں اور ان کی سرجری ہوئی اور کینسر کے مرض کو روکنے کے لیے کمیو تھراپی اور ریڈیو تھراپی ہوئی۔ ڈاکٹروں نے آخری حربہ کے طور پر کینسر کے درد کو کم کرنے کے لیے مدافعتی انجکشن لگائے۔
شریف خاندان کے لیے یہ ایک بدترین وقت تھا۔ میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو احتساب عدالت نے سزا دیدی۔ میاں صاحب واپس آئے اور اڈیالہ جیل میں مقید ہوئے مگر یہ مہم جاری رہی۔ بدقسمتی سے صرف سوشل ایکٹوسٹ ہی نہیں تحریک انصاف کی قیادت بھی اس مہم میں شامل رہی۔ پیپلز پارٹی کے ترقی پسند رہنما بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن مہم میں شریک رہے۔ کلثوم نواز زندگی کی جنگ ہار گئیں۔ صرف بیرسٹر اعتزاز احسن کو شرمندگی ہوئی ، انھوں نے اپنے غلط بیان پر شریف خاندان سے معذرت کی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کی شہرت مخالفین سے غیر مہذب جملوں کی ہے۔ انھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے انتہائی افسوس ناک ریمارکس دیے تھے۔
وہ اس وقت میاں نواز شریف کی قیادت میں تھے مگر میاں نواز شریف نے بھی شیخ رشید کی مذمت نہیں کی۔ شیخ رشید نے بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں ذومعنی ریمارکس دیے تھے۔ جب مسلم لیگ ن برسر اقتدار تھی تو وفاقی وزراء نے خاص طور پر مخالف سیاسی خواتین کے لیے غیر مہذب ریمارکس دیے تھے۔ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے فلور پر تحریک انصاف کی منتخب رکن ڈاکٹر شیریں مزاری کا مذاق اڑایا تھا۔ ان کے ریمارکس پر قومی اسمبلی میں کئی دن ہنگامہ رہا تھا۔ مسلم لیگ ن کی منتخب خواتین بھی شرمندگی کا شکار ہوئی تھیں مگر خواجہ آصف نے معذرت نہیں کی۔
گزشتہ اسمبلی میں کچھ اچھی روایات بھی شروع ہوئی تھیں۔ قومی اسمبلی کے آخری اجلاس کے آخری دن عابد شیر علی نے خاص طور پر ڈاکٹر شیریں مزاری سے اپنے پانچ برسوں کے رویہ پر معذرت کی تھی۔ ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے والے ادارہ پیمرا کا ایک ضابطہ اخلاق موجود ہے'کئی ٹی وی چینلز کے خلاف کارروائی بھی کی گئی اور نشریات بھی بند ہوئیں' پیمرا کے قوانین کے تحت یہ انتہائی اقدام آخری مرحلہ کے لیے ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے متعلقہ فرد جس پر الزام ہو اس کو اور چینل کو نوٹس دیا جائے۔ نوٹس کے جواب کا قانونی ماہرین کو جائزہ لینا چاہیے، اگر یہ محسوس ہوکہ جواب تسلی بخش نہ ہو تو صرف متعلقہ شخص کو بلیک لسٹ کرنا چاہیے ، اگر متاثرہ فریق یہ محسوس کرتا ہے کہ متعلقہ شخص کو بلیک لسٹ کرنے کی سزا ناکافی ہے تو پھر متاثرہ فریق کو ہتک عزت کے قانون کے مطابق عدالتی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ حکومت کو کسی صورت فریق نہیں بننا چاہیے۔ صحافتی تنظیموں کا یہ متفقہ مؤقف ہے کہ جب کوئی چینل بند کیا جاتا ہے تو سیکڑوں افراد کا روزگار ختم ہوجاتا ہے۔ ان سیکڑوں افراد میں سے 90فیصد کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، صحافتی تنظیموں کو چینل کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
وزیر مواصلات مراد سعید نے اس پوری صورتحال پر اپنے مؤقف کو بیان کیا ہے۔ مراد سعید کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی سیاست دان کی توہین نہیں کی، صرف بلاول بھٹو زرداری کے لیے فرزند زرداری کے الفاظ استعمال کیے ہیں مگر مراد سعید نے اس وضاحت میں یہ بات فراموش کردی کہ وہ مسلسل مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کو بدعنوان اور چور جیسے القاب سے نوازتے رہتے ہیں۔
ایسے بیانات وزیر اعظم اور دیگر رہنما بھی دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک تحریک انصاف کے رہنماؤں کو کسی عدالت نے سزا نہیں دی۔ شہزاد اکبر شریف خاندان کو سزا دلوانے کا ہدف پورا نہ کرنے پر مستعفی ہوئے۔ شہباز شریف کے خلاف الزامات برطانوی میڈیا میں شائع اور نشر ہوئے اور شہباز شریف لندن کی عدالتوں میں ہتک عزت کے تمام مقدمات جیت گئے۔ لندن میں دیکھے جانے والے پاکستانی چینل کو جس نے شہزاد اکبر کی فراہم کردہ معلومات نشر کیں جرمانہ کے ساتھ معافی نامہ اپنے مرکزی بلیٹن میں نشر کرنا پڑا تھا۔ اس چینل کی نشریات پر برطانیہ میں اب بھی پابندی ہے۔
جو خواتین سیاست میں آئیں مخالفین کے رکیک حملوں کا زیادہ شکار ہوئیں۔ 1977 کے انتخابات میں اور پھر 1988 کے انتخابات میں بیگم نصرت بھٹو کی سابق امریکی صدر فورڈ کے ساتھ رقص کی تصاویر پر مشتمل پوسٹر تقسیم کیے گئے ۔ بیگم نصرت بھٹو اپنے شوہر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ امریکا کے سرکاری دورہ کے دوران واشنگٹن میں سابق امریکی صدر فورڈ کے عشائیہ میں شریک تھیں اور بیگم نصرت بھٹو کی یہ تصویر اس وقت کے ڈپلومیٹک پروٹوکول کی ضروریات کے مطابق تھی۔
بے نظیر بھٹو کی آصف زرداری کے ساتھ شادی ہوئی۔ بے نظیر بھٹو نے اسلامی روایات کے مطابق اپنے والد کا نام اپنے ساتھ رکھا مگر دائیں بازو کے بعض صحافیوں اور مسلم لیگ کے اس وقت کے رہنما بے نظیر بھٹو کے نام کو بگاڑ کر انھیں بے نظیر زرداری یا مسز زرداری کے نام سے مخاطب کرکے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہے۔ مریم نواز نے بھی شادی کے بعد اپنے والد کا نام اپنے ساتھ منسوب رکھا۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف کے بعض رہنما مریم نواز کو مریم صفدر کہہ کر اپنے منفی جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔
برصغیر میں سیاسی رواداری پر مبنی کلچر میں مخالفین کے انتقال یا ان کے قریبی عزیزوں کے انتقال پر تعزیت کے لیے متعلقہ فرد کے گھرجانا یا اخباری بیان کے ذریعے تعزیت کرنا معمول کی روایت تھی۔ مہاتما گاندھی اور بانی پاکستان کے درمیان سیاسی معرکہ آرائی کی تاریخ سے ہر طالب علم واقف ہے مگر جس دن مہاتما گاندھی کا انتقال ہوا ، قائد نے صرف تعزیتی بیان جاری کرنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ پاکستان میں ایک دن کی تعطیل اور قومی پرچم سرنگوں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
جب بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں تو رکن قومی اسمبلی اعجاز الحق کی والدہ کا انتقال ہوا۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کے ارکان سے تعزیت کی روایت پر عمل کرتے ہوئے تعزیتی بیان جاری کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس روایت کو توڑا ہے، مگر انھوں نے تعزیتی بیان تک جاری نہ کرنے کی انوکھی روایت قائم کی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید لطیف نے مراد سعید سے معافی مانگ کر رواداری کی ایک نئی روایت قائم کی ہے ، اب حکمراں جماعت کو آگے آنا چاہیے۔