شاعر انقلاب …جوش
بائیس فروری شاعر انقلاب جوش ملیح آباد ی کا یوم وفات ہے
PESHAWAR:
ہے عجب یہ سرائے دنیا بھی
کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے
بائیس فروری شاعر انقلاب جوش ملیح آباد ی کا یوم وفات ہے ۔ ملیح آباد(اُتر پردیش بھارت) جس کی وجہ شہرت آم ہوا کرتے تھے،جوش ؔ صاحب کی شخصیت نے اُسے چار چاند لگا دیے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح الہ آباد نہ صرف اپنے امرودوں اور عظیم مزاح گوہ اکبرؔ الہ آبادی کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور جالندھر اپنے موتی چُور کے لڈوؤں سے زیادہ عظیم شاعر اور وطن عزیز کے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کے نامِ نامی و اسمِ گرامی کی وجہ سے مشہور رہے گا۔
جوشؔ صاحب کا مزاج بھی ویسا ہی تھا جیسے اُن کا تخلص۔ وہ فطرتاً ہی انقلابی تھے اِس لیے یہ تخلص اُن پر سجتا بھی خوب تھا۔ فطرتی مناظر اور جذبات کی بے مثل عکاسی کی وجہ سے وہ شاعرِ فطرت کہلانے کے بھی بجا طور پر مستحق ہیں۔ان کی خود کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہوا ان کا اپنا ایک شعر اتنا مقبول ہوا کہ زبان زد عوام ہوگیا۔ انھوں نے کہا:
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ، انقلاب و انقلاب و انقلاب
جوشؔ کو بہت سے القاب دیے گئے۔جن میں شاعرِ شباب،مصورِ شباب،شاعرِ رومان،شاعر ِ فطرت قابلِ ذکر ہیں۔دوسری عالمگیر جنگ کے دوران برطانوی سامراج کے خلاف اُن کی بلند آواز میں جرمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا تھا:
خبر لینے بکنگھم کی جو اب کی بار تم جانا
ہمارے نام کا بھی ایک گولا پھینکتے آنا
جوشؔ کا اصلی نام شبیر حسن خاں تھا۔ ان کے اجداد یوسف زئی پٹھان تھے جو افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آ گئے تھے۔ملیح آباد میں سکونت اختیار کر لی تھی اور نوابینِ اودھ کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ان کے والد بشیر احمد خاں کے انتقال کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
اس سے قبل خاندانی روایت کے مطابق انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور عربی و فارسی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگرہ کے سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔کچھ عرصے تک بنگلا زبان کے نوبیل انعام یافتہ شاعر اور دانشور اور موسیقی داں رابندر ناتھ ٹیگور کے منفرد ادارے شانتی نکیتن میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن آگے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور 1925 میں حیدر آباد(دکن) چلے گئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ ترجمہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ جوشؔ نے نو سال کی عمر میں پہلا شعر کہا:
شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ میرا فن خاندانی ہے
انھیں نظام حیدر آباد(دکن)کا رویّہ پسند نہیں آیا تو ان کے خلاف ایک نظم لکھ دی اور نوکری سے برطرف کر دیے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے 'کلیم' نام کا رسالہ نکالنا شروع کیا جس میں انھوں نے انگریزی حکومت کے خلاف مضامین لکھنے شروع کیے تاہم مالی مسائل کے سبب اِسے زیادہ عرصہ تک جاری نہ رکھ سکے اور آزادی کی تحریک کے اہم رکن بن گئے۔
اس زمانے میں ان کی قربت تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں سے ہوئی اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے نزدیکی اتنی بڑھی کہ دوستانہ رشتہ قائم ہو گیا۔
زبان کے معاملے میں جوشؔ نہایت حساس تھے اور کسی قدر معیار کی سطح پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ اردو میں کم ہی ایسے شاعر ہوئے ہیں جنھیں الفاظ کا جادوگر کہا جائے اور جوشؔ ان چند شعراء میں ایک ہیں۔جوشؔ اور اردو کا تعلق لاینفک ہے۔ سچ پوچھیے تو وہ وہ نہ صرف عاشقِ اردو بلکہ محسنِ اردو تھے۔ اردو سے متعلق اُن کے یہ منتخب اشعار اِس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
ان کی بہترین نظموں میں 'شکست زنداں کا خواب، کسان ، وطن ،البیلی صبح ، ایسٹ انڈیا کے فرزندوں سے خطاب ، خاتون مشرق، حسن اور مزدوری، مفلس' وغیرہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاعری کی ہر صنف میں کامیاب طبع آزمائی کی اور غزل، مرثیہ، رباعی وغیرہ میں شاعری کے بہترین نمونے پیش کیے۔سورۃ رحمن کا بہترین منظوم ترجمہ اردو میں کیا۔
جوشؔ صاحب شاعری کے علاوہ صحافت سمیت اور بھی کئی شعبوں سے وابستہ رہے اور انھوں نے خاصے طویل عرصہ تک بھارت کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے زیراہتمام شایع ہونے والے رسالے''آج کل''کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔جوش مادری زبان اردو میں مکمل گرفت رکھتے تھے بلکہ عربی، ہندی، انگریزی اور فارسی پر بھی انھیں عبور حاصل تھا۔
جوشؔ نے عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسواؔ سے، فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی اور انگریزی کی تعلیم ماسٹر گومتی پرشاد ملیح آبادی سے حاصل کی۔ شاعری کی ابتدا میں عزیزؔ لکھنوئی سے اصلاح سخن لی۔ 1954 میں جوشؔ کو پدم بھوشن سے نوازا گیا۔
جوشؔ فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے اور 1943 سے 1948 تک پانچ سال کی مدت میں مختلف فلموں کے گانے لکھے، قیام پاکستان سے قبل چند برس پونا میں ڈبلیو زیڈ احمد کے شالیمار اسٹوڈیوز میں گزارے اور وہاں چند فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں ایک رات، غلامی، شہزادی (آوارہ) اور پرتھوی راج کے علاوہ شہرہ آفاق فلم 'من کی جیت' شامل تھی۔
ہوا سے موتی برس رہے ہیں، فضا ترانے سنا رہی ہے
جگر جگر ہے تمام صحرا، کلی کلی جگمگا رہی ہے
اس نغمے کے خالق جوشؔ ملیح آبادی ہیں۔ 1955 میں جوشؔ پاکستان آ گئے اور انجمن اردو ترقی بورڈ کراچی سے وابستہ ہو گئے تاہم جلد ہی اختلافات کے سبب یہاں سے سبکدوش ہونا پڑا۔ جوشؔ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔پاکستان میں بہت سے فلم سازوں نے اُن سے اپنی فلم کے لیے نغمات لکھنے کے لیے اصرار کیا مگر انھوں نے اپنے دیرینہ دوست ہمایوں مرزا کی فلم کے لیے آٹھ نغمات لکھے ۔ اِن نغمات میں سب سے زیادہ مشہور''اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں ''اور''ہوا سے موتی برس رہے ہیں ''ہیں۔ اس نغمے (ہوا سے موتی برس رہے ہیں) پر انھیں بہترین نغمہ نگار کا نگار ایوارڈ ملا تھا۔
آگ کا دریا کی موسیقی غلام نبی،عبداللطیف نے ترتیب دی تھی۔'قسم اس وقت کی' اس فلم کی موسیقار سہیل رعنا تھے اور جوشؔ صاحب کا جو نغمہ اس فلم کا ٹائٹل سانگ بنا اس کا پہلا مصرع تھا 'قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے'۔ اس کے بعد فلم ساز غلام ناصر خان اور ہدایت کار شور لکھنوی کی فلم 'چاند سورج' میں بھی جوشؔ صاحب کا ایک نغمہ شامل کیاگیا۔ اس فلم کے موسیقار ناشاد تھے اور اس فلم میں جوشؔ صاحب کا جو نغمہ شامل تھا اس کا مکھڑا تھا:
نظر ملا کر چلے گئے ہیں مگر تصور میں آ رہے ہیں
مری نگاہوں سے ہٹ گئے ہیں مگر امنگوں پہ چھا رہے ہیں
چاند سورج جوشؔ صاحب کی زندگی میں بطور فلمی شاعر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی آخری فلم تھی۔ 1972 میں جوشؔ نے اپنی خود نوشت 'یادوں کی برات' مکمل کی اور اس کی اشاعت کراچی سے ہوئی۔ اس خود نوشت کے بعد جوشؔ تنازعات کا شکار ہوگئے اور کم و بیش دس برس تک مسائل اور مشکلات کا شکار رہے۔ 1978 میں ایک متنازعہ انٹرویو کے سبب جوشؔ کو ذرایع ابلاغ میں بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ تاہم جلد ہی ان کی مراعات بحال ہو گئیں۔
جوشؔ صاحب اعلیٰ پائے کے نثر نگار بھی تھے جوشؔ کی نثری کتابوں میں مقالاتِ جوش ، اوراقِ زریں، جذبات فطرت، اشارات اور خود نوشت یادوں کی برات شامل ہیں۔ستر کی دہائی میں جوشؔ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے۔ 22 فروری 1982 کو جوشؔ ملیح آبادی نے وفات پائی اور اسلام آباد میں ہی آسودہ خاک ہوئے۔
ہے عجب یہ سرائے دنیا بھی
کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے
بائیس فروری شاعر انقلاب جوش ملیح آباد ی کا یوم وفات ہے ۔ ملیح آباد(اُتر پردیش بھارت) جس کی وجہ شہرت آم ہوا کرتے تھے،جوش ؔ صاحب کی شخصیت نے اُسے چار چاند لگا دیے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح الہ آباد نہ صرف اپنے امرودوں اور عظیم مزاح گوہ اکبرؔ الہ آبادی کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور جالندھر اپنے موتی چُور کے لڈوؤں سے زیادہ عظیم شاعر اور وطن عزیز کے قومی ترانے کے خالق ابوالاثر حفیظؔ جالندھری کے نامِ نامی و اسمِ گرامی کی وجہ سے مشہور رہے گا۔
جوشؔ صاحب کا مزاج بھی ویسا ہی تھا جیسے اُن کا تخلص۔ وہ فطرتاً ہی انقلابی تھے اِس لیے یہ تخلص اُن پر سجتا بھی خوب تھا۔ فطرتی مناظر اور جذبات کی بے مثل عکاسی کی وجہ سے وہ شاعرِ فطرت کہلانے کے بھی بجا طور پر مستحق ہیں۔ان کی خود کی شخصیت کو اجاگر کرتا ہوا ان کا اپنا ایک شعر اتنا مقبول ہوا کہ زبان زد عوام ہوگیا۔ انھوں نے کہا:
کام ہے میرا تغیر، نام ہے میرا شباب
میرا نعرہ، انقلاب و انقلاب و انقلاب
جوشؔ کو بہت سے القاب دیے گئے۔جن میں شاعرِ شباب،مصورِ شباب،شاعرِ رومان،شاعر ِ فطرت قابلِ ذکر ہیں۔دوسری عالمگیر جنگ کے دوران برطانوی سامراج کے خلاف اُن کی بلند آواز میں جرمنوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا تھا:
خبر لینے بکنگھم کی جو اب کی بار تم جانا
ہمارے نام کا بھی ایک گولا پھینکتے آنا
جوشؔ کا اصلی نام شبیر حسن خاں تھا۔ ان کے اجداد یوسف زئی پٹھان تھے جو افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان آ گئے تھے۔ملیح آباد میں سکونت اختیار کر لی تھی اور نوابینِ اودھ کے دربار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ان کے والد بشیر احمد خاں کے انتقال کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
اس سے قبل خاندانی روایت کے مطابق انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اور عربی و فارسی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آگرہ کے سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔کچھ عرصے تک بنگلا زبان کے نوبیل انعام یافتہ شاعر اور دانشور اور موسیقی داں رابندر ناتھ ٹیگور کے منفرد ادارے شانتی نکیتن میں بھی تعلیم حاصل کی لیکن آگے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور 1925 میں حیدر آباد(دکن) چلے گئے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ ترجمہ میں ملازمت اختیار کر لی۔ جوشؔ نے نو سال کی عمر میں پہلا شعر کہا:
شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ میرا فن خاندانی ہے
انھیں نظام حیدر آباد(دکن)کا رویّہ پسند نہیں آیا تو ان کے خلاف ایک نظم لکھ دی اور نوکری سے برطرف کر دیے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے 'کلیم' نام کا رسالہ نکالنا شروع کیا جس میں انھوں نے انگریزی حکومت کے خلاف مضامین لکھنے شروع کیے تاہم مالی مسائل کے سبب اِسے زیادہ عرصہ تک جاری نہ رکھ سکے اور آزادی کی تحریک کے اہم رکن بن گئے۔
اس زمانے میں ان کی قربت تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں سے ہوئی اور بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سے نزدیکی اتنی بڑھی کہ دوستانہ رشتہ قائم ہو گیا۔
زبان کے معاملے میں جوشؔ نہایت حساس تھے اور کسی قدر معیار کی سطح پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ اردو میں کم ہی ایسے شاعر ہوئے ہیں جنھیں الفاظ کا جادوگر کہا جائے اور جوشؔ ان چند شعراء میں ایک ہیں۔جوشؔ اور اردو کا تعلق لاینفک ہے۔ سچ پوچھیے تو وہ وہ نہ صرف عاشقِ اردو بلکہ محسنِ اردو تھے۔ اردو سے متعلق اُن کے یہ منتخب اشعار اِس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
ان کی بہترین نظموں میں 'شکست زنداں کا خواب، کسان ، وطن ،البیلی صبح ، ایسٹ انڈیا کے فرزندوں سے خطاب ، خاتون مشرق، حسن اور مزدوری، مفلس' وغیرہ بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاعری کی ہر صنف میں کامیاب طبع آزمائی کی اور غزل، مرثیہ، رباعی وغیرہ میں شاعری کے بہترین نمونے پیش کیے۔سورۃ رحمن کا بہترین منظوم ترجمہ اردو میں کیا۔
جوشؔ صاحب شاعری کے علاوہ صحافت سمیت اور بھی کئی شعبوں سے وابستہ رہے اور انھوں نے خاصے طویل عرصہ تک بھارت کی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے زیراہتمام شایع ہونے والے رسالے''آج کل''کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔جوش مادری زبان اردو میں مکمل گرفت رکھتے تھے بلکہ عربی، ہندی، انگریزی اور فارسی پر بھی انھیں عبور حاصل تھا۔
جوشؔ نے عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسواؔ سے، فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی اور انگریزی کی تعلیم ماسٹر گومتی پرشاد ملیح آبادی سے حاصل کی۔ شاعری کی ابتدا میں عزیزؔ لکھنوئی سے اصلاح سخن لی۔ 1954 میں جوشؔ کو پدم بھوشن سے نوازا گیا۔
جوشؔ فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے اور 1943 سے 1948 تک پانچ سال کی مدت میں مختلف فلموں کے گانے لکھے، قیام پاکستان سے قبل چند برس پونا میں ڈبلیو زیڈ احمد کے شالیمار اسٹوڈیوز میں گزارے اور وہاں چند فلموں کے نغمات تحریر کیے جن میں ایک رات، غلامی، شہزادی (آوارہ) اور پرتھوی راج کے علاوہ شہرہ آفاق فلم 'من کی جیت' شامل تھی۔
ہوا سے موتی برس رہے ہیں، فضا ترانے سنا رہی ہے
جگر جگر ہے تمام صحرا، کلی کلی جگمگا رہی ہے
اس نغمے کے خالق جوشؔ ملیح آبادی ہیں۔ 1955 میں جوشؔ پاکستان آ گئے اور انجمن اردو ترقی بورڈ کراچی سے وابستہ ہو گئے تاہم جلد ہی اختلافات کے سبب یہاں سے سبکدوش ہونا پڑا۔ جوشؔ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔پاکستان میں بہت سے فلم سازوں نے اُن سے اپنی فلم کے لیے نغمات لکھنے کے لیے اصرار کیا مگر انھوں نے اپنے دیرینہ دوست ہمایوں مرزا کی فلم کے لیے آٹھ نغمات لکھے ۔ اِن نغمات میں سب سے زیادہ مشہور''اے وطن ہم ہیں تری شمع کے پروانوں میں ''اور''ہوا سے موتی برس رہے ہیں ''ہیں۔ اس نغمے (ہوا سے موتی برس رہے ہیں) پر انھیں بہترین نغمہ نگار کا نگار ایوارڈ ملا تھا۔
آگ کا دریا کی موسیقی غلام نبی،عبداللطیف نے ترتیب دی تھی۔'قسم اس وقت کی' اس فلم کی موسیقار سہیل رعنا تھے اور جوشؔ صاحب کا جو نغمہ اس فلم کا ٹائٹل سانگ بنا اس کا پہلا مصرع تھا 'قسم اس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے'۔ اس کے بعد فلم ساز غلام ناصر خان اور ہدایت کار شور لکھنوی کی فلم 'چاند سورج' میں بھی جوشؔ صاحب کا ایک نغمہ شامل کیاگیا۔ اس فلم کے موسیقار ناشاد تھے اور اس فلم میں جوشؔ صاحب کا جو نغمہ شامل تھا اس کا مکھڑا تھا:
نظر ملا کر چلے گئے ہیں مگر تصور میں آ رہے ہیں
مری نگاہوں سے ہٹ گئے ہیں مگر امنگوں پہ چھا رہے ہیں
چاند سورج جوشؔ صاحب کی زندگی میں بطور فلمی شاعر نمائش کے لیے پیش کی جانے والی آخری فلم تھی۔ 1972 میں جوشؔ نے اپنی خود نوشت 'یادوں کی برات' مکمل کی اور اس کی اشاعت کراچی سے ہوئی۔ اس خود نوشت کے بعد جوشؔ تنازعات کا شکار ہوگئے اور کم و بیش دس برس تک مسائل اور مشکلات کا شکار رہے۔ 1978 میں ایک متنازعہ انٹرویو کے سبب جوشؔ کو ذرایع ابلاغ میں بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ تاہم جلد ہی ان کی مراعات بحال ہو گئیں۔
جوشؔ صاحب اعلیٰ پائے کے نثر نگار بھی تھے جوشؔ کی نثری کتابوں میں مقالاتِ جوش ، اوراقِ زریں، جذبات فطرت، اشارات اور خود نوشت یادوں کی برات شامل ہیں۔ستر کی دہائی میں جوشؔ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے۔ 22 فروری 1982 کو جوشؔ ملیح آبادی نے وفات پائی اور اسلام آباد میں ہی آسودہ خاک ہوئے۔