کنن اور پوش پورہ کو بھلانا نہیں

بھارتی افواج کی اس قسم کی حرکتیں کوئی پہلی بار تو ہوئی نہ تھیں

فوٹوفائل

تئیس فروری 1991 کی وہ سرد رات خوف، دہشت اور بربریت کی ایک ایسی داستان لے کر ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگئی ، جب کشمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں کنان جوکہ کشمیرکے ڈسٹرکٹ کیواڑہ میں آتا ہے ، رات کو اندازاً ساڑھے گیارہ بجے کے قریب ایک پراسرار اعلان کیا جاتا ہے کہ گھروں کے سارے مرد باہر آجائیں۔ اس وقت تک یہی سمجھا گیا تھا کہ یہ اعلان اس گاؤں کے مردوں پر ایک عذاب لے کر ٹوٹا ہے لیکن سرسراتی ہوئی پراسرار خوفزدہ سرد ہوائیں تو کچھ اور ہی پیغام سنا رہی تھیں۔

بھارتی افواج کی اس قسم کی حرکتیں کوئی پہلی بار تو ہوئی نہ تھیں جب انسانوں کو دہشت گردی کی آڑ میں بری طرح کوٹ کر رکھ دیا جاتا تھا یا بہت غصہ آیا تو اڑا ہی دیا۔ آج بھی نہ جانے کتنی گمنام قبریں کشمیرکی وادیوں میں اپنے خون کے بدلے کی آس میں کہیں گم ہیں کہ انصاف تو ہوگا اور ضرور ہوگا۔

لیکن اس رات کی اسکیم تو کچھ اور ہی بنی گئی تھی اور پھر وہ ہوا کہ جو اس گاؤں کے لیے اذیت اور رسوائی کا نشان بن گیا۔ بھارتی افواج کے جوان کشمیر کی نہتی، اکیلی ماں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کے گناہ گار بن گئے وہ کہاں کے حفاظت گار تھے وہ تو لٹیرے تھے جو مذہب کی آڑ میں گھناؤنا کھیل کر گئے، ان کے وجود سے شراب کے بھبکے اٹھ رہے تھے اور موت اور وحشت کا رقص شروع ہو گیا۔

ادھر گاؤں کے مرد حضرات کیا بوڑھا اور کیا جوان اذیتوں سے دوچار کردیے گئے وہ درد سے بلبلا رہے تھے اور خونی جشن منا رہے تھے پر ان تکلیفوں سے گزرتے لوگوں کو ہرگز یہ معلوم نہ تھا کہ ادھر ان کے گھروں میں ان کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ کتنا شرم ناک سلوک کیا جا رہا ہے۔

یہ سب کچھ نہ تو کسی ہندی فلم کے لیے شوٹ کیا جا رہا تھا اور نہ ہی وہ کسی ڈاکیومنٹری کے لیے ڈرامہ رچایا جا رہا تھا یہ تو تلخیوں اور کانٹوں سے پر ایک ایسی حقیقت تھی جسے آج اتنے برسوں بعد بھی پڑھ کر دیکھ کر محسوس کر کے آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں، روح تڑپ اٹھتی ہے اور دل سے بے ساختہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ رب العزت کرم کردیں۔

یہ دکھ ، یہ اذیت کشمیر کی ہر بیٹی، ہر خاتون، ہر ماں محسوس کرسکتی ہے کیونکہ آج بھی وہاں کیا ہو رہا ہے ہم نہیں جانتے۔ مذہب کی آڑ میں دہشت گردی کی آڑ میں، قانون کی شقوں کی سلوٹوں میں کہاں کہاں اورکیا کیا ہو رہا ہے ہم نہیں جانتے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا کچھ ہوا اور ساری کارروائی ہونے کے بعد آخر میں یہ نتیجہ نکلا کہ ایسا کچھ یہاں ہوا ہی نہیں جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کنان جیسے دور دراز گاؤں کو جان بوجھ کر اس طرح بربریت کے لیے چنا گیا تھا تاکہ دنیا کو اس خوف ناک سچی کہانی کا علم ہی نہ ہو، اور سرکار اور بھارتی افواج اپنی دہشت کی دھاک بٹھا دے یا ان کے تئیں کسی قسم کا بدلہ ، ساری گواہیاں ، ساری شہادتیں دوڑتے بھاگتے وقت میں اڑانے کی کوشش تو خوب کی گئی لیکن بے گناہوں کی آہیں ، صدائیں اور پکار کیسے چھپ سکتی ہے۔

کشمیر کی جرأت مند خواتین تعلیم کے زیور سے آراستہ جنھوں نے ایک کتاب '' کیا آپ کو کفن پوش پورا یاد ہے'' کے نام سے لکھ کر دنیا کو بتایا کہ گناہ ہوا ہے، گناہ گار اور مجرم موجود ہیں، لیکن ان کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے، تئیس کوکفن اور پھر چوبیس فروری کو پوش پورہ میں یہ لرزہ خیز دل ہلا دینے والی، رونگھٹے کھڑے کر دینے والی، انسانیت کی تذلیل کرنے والی داستان رقم ہو گئی۔

1991 کی فروری کی ان دو تاریخوں میں سو سے زائد خواتین ہی متاثر نہیں ہوئیں بلکہ مردوں کو بھی جسمانی اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اس بدترین اجتماعی زیادتی و اذیت کے شکار افراد اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی مختلف امراض میں مبتلا ہیں وہ رات آج بھی انھیں ایک بھیانک خواب کی طرح تڑپاتی ہے۔

اسی طرح کا ایک اور درد ناک واقعہ اکتیس مئی 2006 کو ایک اسکول کے بچے اور بچیاں گھومنے پھرنے آئے، یہ اڑی کی تحصیل میں دریائے جہلم سوپور کے مقام پر وولر جھیل کے خوبصورت پانیوں کی کشش تھی جو بچوں کو کھینچ لائی تھی، بچے بچیاں کشتی میں سوار تھے۔ بھارتی بحریہ کے درندوں نے اسکول کی بچیوں سے بدتمیزی کی کوشش کی جس سے کشتی ڈگمگانے لگی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے 23 بچے اور بچیاں پانی کی نذر ہوگئے۔

بھارت میں کیا ہو رہا ہے؟ ایک نئے الیکشن کی تیاریاں جہاں '' لو جہاد '' کے نام پر قوانین بنا کر اشتہارات چلائے جا رہے ہیں اور نام ہو رہا ہے مودی سرکار کی حکومت کی مہم کا۔ دراصل بھارت میں آج جو ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف مذہب کے نام پر ایک بار پھر پرانا سکہ جو کھوٹا ہی تھا اسے چمکانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

دکھ کی بات تو یہ ہے کہ وہاں پہلے کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہوا تھا اب وہ پورے بھارت میں پھیل چکا ہے، یہ مودی کی خام خیالی ہے کہ صدیوں سے جس خطے پر مسلمانوں نے حکومت کی اس کے لگائے ہوئے درختوں کو وہ باآسانی کاٹ کر نئے زہریلے کانٹے اگا سکیں گے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ پڑھے لکھے ہندو، سکھ ، عیسائی اور پارسی ان کی گندی سیاست کے اکھاڑے کو پہچان چکے ہیں۔

کشمیر میں کنان اور پوش رہ میں ہونے والی اس 23 فروری اور 24 فروری کی رات کو ہمیں بھلانا نہیں ہے بلکہ ان مظلوم خواتین اور مردوں کے لیے انصاف کی آواز اٹھانی چاہیے ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے بہت کچھ فضول مواد دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے ، بے تحاشا پوسٹیں موصول ہوتی ہیں لیکن کیا ہمیں ان مظلوم لوگوں کے لیے دل سے دعا اور انصاف کے لیے دہائی نہیں دینی چاہیے؟ اقوام متحدہ کے انصاف کے میناروں تک کیا یہ سنی جاسکے گی، کیا کچھ ہو سکتا ہے، کیا کیا اورکیا؟
Load Next Story