اقتدار اور عوام
حکومت کے خاتمے کی نئی نئی تاریخیں دیتی ہیں
قیام پاکستان سے لے کر آج تک وطن عزیز میں جمہوری اقدار اور اصولوں کی سیاست کی جتنی مٹی پلید ہوئی ہے، شاید ہی دنیا کے کسی اور جمہوری ملک میں کی گئی ہو۔ معروف رائٹر بینی پرشاد نے اپنی کتاب مدنیات کی الف ب پ (ABC of Civics) میں لکھا ہے کہ '' جمہوریت صرف ایسے معاشرے میں کامیاب ہو سکتی ہے جس میں لوگ اپنے اختلافات اور تعصبات کو ڈبو دینے کی اہلیت اور طاقت رکھتے ہوں اور عوام الناس کے فائدے کے لیے باہمی اعانت اور استبداد کے عزم کے حامل ہوں۔''
ہر صاحب دانش نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر جمہوریت کی تعریف لکھی ہے۔ امریکی صدر ابراہام لنکن نے جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
"Democracy is a Government of the people by the people and for the people."
''جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔''
ابراہام لنکن نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے ، اس کے مطابق عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے نمایندے پارلیمنٹ میں جا کر عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں ، قانون سازی کریں اور عوام کی حکومت عوام کے نمایندوں کے ذریعے ، عوام کے لیے ہونے کی مذکورہ تعریف کو عملی شکل میں ثابت کریں۔ ایک دوسرے دانشور افضل توصیف بنیادی جمہوریتوں کے حوالے سے اپنی کتاب ''الیکشن، جمہوریت اور مارشل لا'' میں جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"Democracy is a Government off the people by the people and far the people."
''جمہوریت عوام کے بغیر حکومت، عوام سے خریدی ہوئی اور عوام سے دور ہوتی ہے۔''
ایک حقیقی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتیں رائے دہندگان کو اپنی امکانی پالیسیوں، منشور میں کیے گئے وعدوں اور دعوؤں سے متاثرکرکے اپنا حمایتی بناتی ہیں۔ اسی بنیاد پر انتخابات جیت کر اقتدارکے ایوانوں میں داخل ہوتی ہیں اور ملک پر حکومت کرتی ہیں۔
ایک امریکی مصنف میک آئیور (MacIver) لکھتا ہے کہ '' سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشورکا باقاعدہ بیان ممکن نہیں۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا۔ آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے اور نہ وہ تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے جماعت سیاسی اقتدار حاصل کرسکے۔''
بچشم غائر دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ ایک مہذب اور باوقار جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سے نہ صرف معاشرے میں سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور جمہوری نظام کو استحکام حاصل ہوتا ہے بلکہ ملک کو سیاسی و جمہوری اور آئینی و قانونی طریقے سے درست سمت میں آگے بڑھا کر ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے میں ان کے مثبت و تعمیری کردارکو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ترقی پذیر معاشروں میں سیاسی جماعتوں کی ضرورت اور اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
کیوں کہ ترقی پذیر ممالک میں ترقی کا سارا دارومدار عوام کی اطمینانیت اور متحرک سیاسی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور بیدار کرکے ان میں آگاہی اور سیاسی سوجھ بوجھ پیدا کرتی ہیں۔
اسی وجہ سے سیاست میں گہما گہمی، نظم و ضبط اور سیاسی ترقی کے سب سے اہم اور لازمی جز یعنی قیادت کا قیام عمل میں آتا ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے نظریات کا تصور، نظم و ضبط، حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی شمولیت، قیادت کا عوام سے تعلق اور قربت، حزب اختلاف کا مثبت و تعمیری کردار اور قیادت کا عروج وغیرہ وہ چند عناصر ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی معاشرے میں وجود پذیر ہوتے ہیں۔
اگر وطن عزیز کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ پاکستان کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ ہے جسے قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسے مہذب، باوقار، بااصول، باکردار اور نظریاتی رہنماؤں کی سرپرستی حاصل تھی۔ مذکورہ دونوں رہنماؤں کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو فلاح و بہبود اور حب الوطنی کے جذبے سے عاری تھے۔ نتیجتاً یہ جماعت بحران در بحران کا شکار ہوتی چلی گئی۔
مسلم لیگ شکست وریخت کے بعد مختلف دھڑوں میں بٹتی گئی اور ہر دھڑا ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی شکل اختیارکرگیا۔ جس سے سیاسی انتشار اور آمرانہ رجحانات کو تقویت ملی ملک کی سیاست جمہوریت کی بجائے آمریت کی راہ پر چل پڑی۔ آج حالت یہ ہے کہ کہیں (ن) لیگ ہے اور کہیں (ق) لیگ، کہیں پگارا لیگ ہے تو کہیں ضیا لیگ اور ہر لیگی قائد اپنی جماعت کا مختار کل ہے۔
نظریہ اور اصولوں کو خاندانی آمریت کی قبر میں دفن کردیا گیا۔ موروثیت غالب آگئی ہے۔ سنجیدہ ، سلجھے ہوئے اور زیرک لوگ پس پردہ چلے گئے۔ جذباتی ، جوشیلے اور ہوش و خرد سے عاری اور جمہوری اصولوں و نظریات سے عاری نوآموز لوگ لیگ پر قابض ہوگئے۔کچھ یہی صورت حال ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے۔ دسمبر 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھی۔ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عام آدمی، غریب، مزدور، کسان اور طالب علموں کی دہلیز تک پہنچایا۔
ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں کردار ادا کیا۔ پھانسی کا پھندا چوم لیا لیکن اصولوں کا سودا نہیں کیا ، لیکن آج پی پی پی کی حالت (ن) لیگ سے مختلف نہیں۔ پیپلز پارٹی بھی بھٹو کے بعد دھڑوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ اس کی قیادت بھی خاندانی وارثوں کے ہاتھ میں ہے۔
سنجیدہ سیاستدان منظر سے غائب ہیں۔ آج کی مسلم لیگ پر مریم نواز اور پیپلز پارٹی پر بلاول بھٹو کا راج ہے اور یہ دونوں جماعتیں اپوزیشن میں ہیں اورگزشتہ ساڑھے تین سال سے برسر اقتدار جماعت تحریک انصاف کے قائد وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے سخت جدوجہد میں مصروف ہیں۔
حکومت کے خاتمے کی نئی نئی تاریخیں دیتی ہیں، لانگ مارچ، دھرنے، استعفیٰ اور تحریک عدم اعتماد کے نعرے لگاتی ہیں ، لیکن ان کا ایک بھی دعویٰ آج تک کامیاب نہ ہو سکا۔ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی سخت سیاسی مخالف اور ناقد ہیں۔ چند ماہ پہلے تک ان کے بیانات ایک دوسرے کے خلاف تھے آج محض اپنے سیاسی فائدے کے لیے اکٹھا ہوگئے ہیں۔ کوئی سیاسی نظریہ نہیں کوئی اصول نہیں، سیاستدانوں کی سیاست اقتدار کے لیے ہے نہ کہ عوام ۔
ہر صاحب دانش نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر جمہوریت کی تعریف لکھی ہے۔ امریکی صدر ابراہام لنکن نے جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
"Democracy is a Government of the people by the people and for the people."
''جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتی ہے۔''
ابراہام لنکن نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے ، اس کے مطابق عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے نمایندے پارلیمنٹ میں جا کر عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں ، قانون سازی کریں اور عوام کی حکومت عوام کے نمایندوں کے ذریعے ، عوام کے لیے ہونے کی مذکورہ تعریف کو عملی شکل میں ثابت کریں۔ ایک دوسرے دانشور افضل توصیف بنیادی جمہوریتوں کے حوالے سے اپنی کتاب ''الیکشن، جمہوریت اور مارشل لا'' میں جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"Democracy is a Government off the people by the people and far the people."
''جمہوریت عوام کے بغیر حکومت، عوام سے خریدی ہوئی اور عوام سے دور ہوتی ہے۔''
ایک حقیقی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا وجود ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتیں رائے دہندگان کو اپنی امکانی پالیسیوں، منشور میں کیے گئے وعدوں اور دعوؤں سے متاثرکرکے اپنا حمایتی بناتی ہیں۔ اسی بنیاد پر انتخابات جیت کر اقتدارکے ایوانوں میں داخل ہوتی ہیں اور ملک پر حکومت کرتی ہیں۔
ایک امریکی مصنف میک آئیور (MacIver) لکھتا ہے کہ '' سیاسی جماعتوں کے بغیر اصول اور منشورکا باقاعدہ بیان ممکن نہیں۔ پالیسی کا بالترتیب ارتقا نہیں ہوگا۔ آئینی طریقے سے پارلیمانی انتخابات منعقد نہیں ہو سکیں گے اور نہ وہ تسلیم شدہ ادارے ہوں گے جن سے جماعت سیاسی اقتدار حاصل کرسکے۔''
بچشم غائر دیکھا جائے تو یہ حقیقت اظہر من الشمس نظر آتی ہے کہ ایک مہذب اور باوقار جمہوری معاشرے میں سیاسی جماعتیں ایک ستون کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان سے نہ صرف معاشرے میں سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور جمہوری نظام کو استحکام حاصل ہوتا ہے بلکہ ملک کو سیاسی و جمہوری اور آئینی و قانونی طریقے سے درست سمت میں آگے بڑھا کر ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن کرنے میں ان کے مثبت و تعمیری کردارکو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ترقی پذیر معاشروں میں سیاسی جماعتوں کی ضرورت اور اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
کیوں کہ ترقی پذیر ممالک میں ترقی کا سارا دارومدار عوام کی اطمینانیت اور متحرک سیاسی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی شعور بیدار کرکے ان میں آگاہی اور سیاسی سوجھ بوجھ پیدا کرتی ہیں۔
اسی وجہ سے سیاست میں گہما گہمی، نظم و ضبط اور سیاسی ترقی کے سب سے اہم اور لازمی جز یعنی قیادت کا قیام عمل میں آتا ہے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے ذریعے نظریات کا تصور، نظم و ضبط، حکومت کی تشکیل، اقتدار میں عوام کی شمولیت، قیادت کا عوام سے تعلق اور قربت، حزب اختلاف کا مثبت و تعمیری کردار اور قیادت کا عروج وغیرہ وہ چند عناصر ہیں جو سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی معاشرے میں وجود پذیر ہوتے ہیں۔
اگر وطن عزیز کی سیاست میں سیاسی جماعتوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تلخ حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ پاکستان کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ ہے جسے قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسے مہذب، باوقار، بااصول، باکردار اور نظریاتی رہنماؤں کی سرپرستی حاصل تھی۔ مذکورہ دونوں رہنماؤں کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جو فلاح و بہبود اور حب الوطنی کے جذبے سے عاری تھے۔ نتیجتاً یہ جماعت بحران در بحران کا شکار ہوتی چلی گئی۔
مسلم لیگ شکست وریخت کے بعد مختلف دھڑوں میں بٹتی گئی اور ہر دھڑا ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی شکل اختیارکرگیا۔ جس سے سیاسی انتشار اور آمرانہ رجحانات کو تقویت ملی ملک کی سیاست جمہوریت کی بجائے آمریت کی راہ پر چل پڑی۔ آج حالت یہ ہے کہ کہیں (ن) لیگ ہے اور کہیں (ق) لیگ، کہیں پگارا لیگ ہے تو کہیں ضیا لیگ اور ہر لیگی قائد اپنی جماعت کا مختار کل ہے۔
نظریہ اور اصولوں کو خاندانی آمریت کی قبر میں دفن کردیا گیا۔ موروثیت غالب آگئی ہے۔ سنجیدہ ، سلجھے ہوئے اور زیرک لوگ پس پردہ چلے گئے۔ جذباتی ، جوشیلے اور ہوش و خرد سے عاری اور جمہوری اصولوں و نظریات سے عاری نوآموز لوگ لیگ پر قابض ہوگئے۔کچھ یہی صورت حال ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی ہے۔ دسمبر 1967 میں ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھی۔ سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عام آدمی، غریب، مزدور، کسان اور طالب علموں کی دہلیز تک پہنچایا۔
ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں کردار ادا کیا۔ پھانسی کا پھندا چوم لیا لیکن اصولوں کا سودا نہیں کیا ، لیکن آج پی پی پی کی حالت (ن) لیگ سے مختلف نہیں۔ پیپلز پارٹی بھی بھٹو کے بعد دھڑوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ اس کی قیادت بھی خاندانی وارثوں کے ہاتھ میں ہے۔
سنجیدہ سیاستدان منظر سے غائب ہیں۔ آج کی مسلم لیگ پر مریم نواز اور پیپلز پارٹی پر بلاول بھٹو کا راج ہے اور یہ دونوں جماعتیں اپوزیشن میں ہیں اورگزشتہ ساڑھے تین سال سے برسر اقتدار جماعت تحریک انصاف کے قائد وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے سخت جدوجہد میں مصروف ہیں۔
حکومت کے خاتمے کی نئی نئی تاریخیں دیتی ہیں، لانگ مارچ، دھرنے، استعفیٰ اور تحریک عدم اعتماد کے نعرے لگاتی ہیں ، لیکن ان کا ایک بھی دعویٰ آج تک کامیاب نہ ہو سکا۔ دونوں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی سخت سیاسی مخالف اور ناقد ہیں۔ چند ماہ پہلے تک ان کے بیانات ایک دوسرے کے خلاف تھے آج محض اپنے سیاسی فائدے کے لیے اکٹھا ہوگئے ہیں۔ کوئی سیاسی نظریہ نہیں کوئی اصول نہیں، سیاستدانوں کی سیاست اقتدار کے لیے ہے نہ کہ عوام ۔