سماعت سے محروم افراد کا منفرد ’ابے کھاؤ‘ موبائل ریسٹورینٹ دنیا میں مشہور
یہ صرف موبائل ریسٹورینٹ نہیں بلکہ عام اور سماعت سے محروم افراد میں رابطے کا ایک ذریعہ بھی ہے
کراچی:
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 11 فور میں ایک نجی کالج کے سامنے زرد رنگ کا موبائل ریسٹورینٹ 'ابے کھاؤ!' بہت منفرد ہے۔
اس پر اشاروں کی زبان میں آرڈر کرنے کا طریقہ لکھا ہے کیونکہ اس کے مالکان اور یہاں کام کرنے والے تمام افراد سماعت سے محروم ہیں۔
'ابے کھاؤ! فوڈ ٹرک' نامی اس موبائل ریسٹورینٹ کا خیال اسلام آباد کی عائشہ رضا کو کچھ عرصہ پہلے آیا، جن کے والد، والدہ اور دو بھائی جزوی یا مکمل طور پر سماعت سے محروم ہیں۔
عائشہ نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے بھائیوں کےلیے کسی ایسے کاروبار کا انتظام کیا جائے جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہو۔
اسی خیال کے تحت انہوں نے ایک ایسے موبائل ریسٹورینٹ پر کام شروع کردیا جس میں نہ صرف یہ کہ سارا عملہ سماعت سے محروم ہوگا بلکہ اس پر اشاروں کی زبان میں مینیو بھی لکھا ہوگا تاکہ وہاں آنے والے گاہکوں کےلیے آرڈر دینا آسان رہے۔
''پاکستان میں سماعت سے محروم نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہے اور انہیں زبان، عدم مساوات اور حقارت جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے،'' عائشہ نے کہا۔
''ابے کھاؤ فوڈ ٹرک کے گاہکوں کو سماعت سے محروم افراد کا ماحول سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اپنے آرڈرز بھی اشاروں کی زبان ہی دینا ہوتے ہیں۔''
ریسٹورینٹ مینیو میں تحریر کے ساتھ اشاروں کی زبان میں اشارے بھی بنے ہوئے ہیں تاکہ گاہک بھی اسی انداز میں اپنے ہاتھوں سے اشارے بنا کر آرڈر متعلقہ مینیو آئٹم آرڈر کرسکیں۔
یہ صرف موبائل ریسٹورینٹ نہیں بلکہ عام اور سماعت سے محروم افراد میں رابطے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
''ہمیں اپنا راستہ خود بنانا چاہیے، خواہ وہ کسی بہت چھوٹے اور معمولی کاروبار کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو،'' عائشہ کے بھائی، شیخ فیضان نے اشاروں کی زبان میں بتایا، ''کیونکہ آزاد و خودمختار انسانوں کی حیثیت سے ہمارا وقار ہمارے لیے سب سے بڑھ کر ہے۔''
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 11 فور میں ایک نجی کالج کے سامنے زرد رنگ کا موبائل ریسٹورینٹ 'ابے کھاؤ!' بہت منفرد ہے۔
اس پر اشاروں کی زبان میں آرڈر کرنے کا طریقہ لکھا ہے کیونکہ اس کے مالکان اور یہاں کام کرنے والے تمام افراد سماعت سے محروم ہیں۔
'ابے کھاؤ! فوڈ ٹرک' نامی اس موبائل ریسٹورینٹ کا خیال اسلام آباد کی عائشہ رضا کو کچھ عرصہ پہلے آیا، جن کے والد، والدہ اور دو بھائی جزوی یا مکمل طور پر سماعت سے محروم ہیں۔
عائشہ نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے بھائیوں کےلیے کسی ایسے کاروبار کا انتظام کیا جائے جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہو۔
اسی خیال کے تحت انہوں نے ایک ایسے موبائل ریسٹورینٹ پر کام شروع کردیا جس میں نہ صرف یہ کہ سارا عملہ سماعت سے محروم ہوگا بلکہ اس پر اشاروں کی زبان میں مینیو بھی لکھا ہوگا تاکہ وہاں آنے والے گاہکوں کےلیے آرڈر دینا آسان رہے۔
''پاکستان میں سماعت سے محروم نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہے اور انہیں زبان، عدم مساوات اور حقارت جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے،'' عائشہ نے کہا۔
''ابے کھاؤ فوڈ ٹرک کے گاہکوں کو سماعت سے محروم افراد کا ماحول سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اپنے آرڈرز بھی اشاروں کی زبان ہی دینا ہوتے ہیں۔''
ریسٹورینٹ مینیو میں تحریر کے ساتھ اشاروں کی زبان میں اشارے بھی بنے ہوئے ہیں تاکہ گاہک بھی اسی انداز میں اپنے ہاتھوں سے اشارے بنا کر آرڈر متعلقہ مینیو آئٹم آرڈر کرسکیں۔
یہ صرف موبائل ریسٹورینٹ نہیں بلکہ عام اور سماعت سے محروم افراد میں رابطے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔
''ہمیں اپنا راستہ خود بنانا چاہیے، خواہ وہ کسی بہت چھوٹے اور معمولی کاروبار کی صورت ہی میں کیوں نہ ہو،'' عائشہ کے بھائی، شیخ فیضان نے اشاروں کی زبان میں بتایا، ''کیونکہ آزاد و خودمختار انسانوں کی حیثیت سے ہمارا وقار ہمارے لیے سب سے بڑھ کر ہے۔''