ماڈل قبرستان کیونکہ سکون تو صرف قبر میں ہے
حکومت کا وژن ہے کہ ہر پاکستانی کو مرنے کی سہولت دی جائے کیونکہ سکون صرف قبر میں ہی ہے
WASHINGTON/BEIJING:
ہمارے پیارے وطن میں بننے والے اور شروع ہونے والے عجوبہ روزگار منصوبوں میں سے ایک ماڈل قبرستان کا منصوبہ بھی ہے۔ یہ بھی دوسرے بہت سے منصوبوں اور سہولیات جیسے کہ پناہ گاہ، لنگرخانے، مرغی اور کٹے پال اسکیموں کے صرف شاندار افتتاح کی طرح ایک اور زبردست افتتاح ہے، جس میں اہل عنان حکومت کو اپنے مخالفین کی گالیوں سے درگت بنانے کا ایک اور موقع ملے گا۔
ایک درست اندازے کے مطابق ایسے جلسے منعقد کرائے ہی اسی مقصد کےلیے جاتے ہیں کی اپنی کارکردگی کو گالم گلوچ میں چھپا لیا جائے۔ یہ ایک تحریک کے بیان کردہ بیانیہ کے عین مطابق ہے کہ سکون تو قبر میں ہی ہے۔ انسان جتنا بھی اس دنیا میں بھاگ لے، جتنی دولت کما لے، کہیں بھی ٹھکانہ بنا لے، پہاڑوں کی چٹانوں پر یا قصر سلطانی کے گنبد پر، اس کا آخری ٹھکانہ قبر ہی ہے۔
اسی سادہ اور معصوم سے اور نظریہ فلاح عوام کے فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانیوں کےلیے اب ماڈل قبرستان کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ اس شاندار منصوبے کا آغاز شاہینوں کے شہر سے کردیا گیا ہے۔ حکومت نے ماڈل قبرستان کی سہولت سب سے پہلے سیالکوٹ کے متحرک تحریکیوں کو میسر کی ہے۔ مجاجن کو ناچنے کےلیے بلانے کے بجائے اب موصوف بلو والے بھائی سکون کی تلاش میں سیدھا قبرستان لے جائیں گے اور اپنے اسکالر ٹائپ رہنما کے فلسفہ سکون کی عملی مثال بنیں گے۔ لگے ہاتھوں خواجہ آصف کو بھی مبارک باد کہ انہیں بھی ایسا ارفع منصوبہ دیکھنے کو ملے گا۔ لیڈر سے ڈاکٹر صاحبہ کے لاکھ اختلافات کے باوجود آخر وہی ان کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئی ہیں اور بڑی خوشی سے اس دائمی ثواب دارین کے ذریعے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہی ہیں جو اپنے لیڈر کی اصلی پیروکار ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی وزارت کے دوران کی گئی باتوں کو سچ ثابت کردیا۔ ہم اہل وطن اہل وفات قابل ہی ایسے منصوبوں کے ہیں۔
کتنی عمدہ اور اعلیٰ سوچ ہے کہ زندوں کے بجائے مر جانے والوں کا خیال رکھا جائے۔ انہیں تپتی زمین کی دوزخ جیسی گرمی سے بچانے کےلیے قبروں پر پنکھے لگوانے کا انتظام کیا جائے گا اور جو زیادہ گہری آگ میں ہوگا شائد اس کی قبر پر اے سی کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ اس طرح تحریکیوں کے مردے بلا خوف و خطر زندوں کی دنیا سے دور رہ کر بھی وہی سہولیات استعمال کرسکیں گے۔ اگر یوں کہا جائے کہ سہولتیں اب زندوں کے بجائے مردوں کو ہی دستیاب ہوں گی کہ مہنگائی نے زندوں کو آخر اسی ماڈل قبرستان کی طرف ہی دھکا دے دیا ہے۔
ماڈل قبرستان کا نام سنتے ہی کچھ ایسے خیالات ذہن میں آتے ہیں کہ وہاں سیکیورٹی کی سہولت کے ساتھ ساتھ بلیوارڈ بھی ہوگا۔ وائی فائی اور انٹرنیٹ کی سہولت مفت میں ملے گی۔ تمام اراکین کو ٹیب اور اسمارٹ فون فری دیے جائیں گے۔ موت اب آسان قسطوں میں بھی مل سکے گی۔ ایڈوانس کی رقم بھی نہیں بھرنی پڑے گی۔ قبرستان سے باہر رہنے والوں کو کوئی بھی سہولت درکار ہوگی تو انہیں بس زندگی کے پل سے گزر کر قبر کے نیچے جانا پڑے گا۔ اور پھر وہاں سکون ہی سکون ہوگا۔ نہ کوئی مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوگا اور نہ ہی کوئی وہاں گھبرائے گا۔ اپنا ماڈل قبرستان ہوگا جس میں ہر پارٹی اس کا پارٹ ہوگی اور شہید ذوالفقار بھٹو کے مشہور جملے کہ یہ میری پارٹی نہیں آپ سب کی پارٹی ہے۔ لازمی طور پر یہاں ہر پاکستانی کو مرنے کی سہولت دی جائے گی۔ یہ ہوتا ہے وژن، یہ ہوتا ہے لیڈر اور یہ ہوتی ہے ترقی!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ہمارے پیارے وطن میں بننے والے اور شروع ہونے والے عجوبہ روزگار منصوبوں میں سے ایک ماڈل قبرستان کا منصوبہ بھی ہے۔ یہ بھی دوسرے بہت سے منصوبوں اور سہولیات جیسے کہ پناہ گاہ، لنگرخانے، مرغی اور کٹے پال اسکیموں کے صرف شاندار افتتاح کی طرح ایک اور زبردست افتتاح ہے، جس میں اہل عنان حکومت کو اپنے مخالفین کی گالیوں سے درگت بنانے کا ایک اور موقع ملے گا۔
ایک درست اندازے کے مطابق ایسے جلسے منعقد کرائے ہی اسی مقصد کےلیے جاتے ہیں کی اپنی کارکردگی کو گالم گلوچ میں چھپا لیا جائے۔ یہ ایک تحریک کے بیان کردہ بیانیہ کے عین مطابق ہے کہ سکون تو قبر میں ہی ہے۔ انسان جتنا بھی اس دنیا میں بھاگ لے، جتنی دولت کما لے، کہیں بھی ٹھکانہ بنا لے، پہاڑوں کی چٹانوں پر یا قصر سلطانی کے گنبد پر، اس کا آخری ٹھکانہ قبر ہی ہے۔
اسی سادہ اور معصوم سے اور نظریہ فلاح عوام کے فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانیوں کےلیے اب ماڈل قبرستان کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ اس شاندار منصوبے کا آغاز شاہینوں کے شہر سے کردیا گیا ہے۔ حکومت نے ماڈل قبرستان کی سہولت سب سے پہلے سیالکوٹ کے متحرک تحریکیوں کو میسر کی ہے۔ مجاجن کو ناچنے کےلیے بلانے کے بجائے اب موصوف بلو والے بھائی سکون کی تلاش میں سیدھا قبرستان لے جائیں گے اور اپنے اسکالر ٹائپ رہنما کے فلسفہ سکون کی عملی مثال بنیں گے۔ لگے ہاتھوں خواجہ آصف کو بھی مبارک باد کہ انہیں بھی ایسا ارفع منصوبہ دیکھنے کو ملے گا۔ لیڈر سے ڈاکٹر صاحبہ کے لاکھ اختلافات کے باوجود آخر وہی ان کے ویژن کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئی ہیں اور بڑی خوشی سے اس دائمی ثواب دارین کے ذریعے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہی ہیں جو اپنے لیڈر کی اصلی پیروکار ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی وزارت کے دوران کی گئی باتوں کو سچ ثابت کردیا۔ ہم اہل وطن اہل وفات قابل ہی ایسے منصوبوں کے ہیں۔
کتنی عمدہ اور اعلیٰ سوچ ہے کہ زندوں کے بجائے مر جانے والوں کا خیال رکھا جائے۔ انہیں تپتی زمین کی دوزخ جیسی گرمی سے بچانے کےلیے قبروں پر پنکھے لگوانے کا انتظام کیا جائے گا اور جو زیادہ گہری آگ میں ہوگا شائد اس کی قبر پر اے سی کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ اس طرح تحریکیوں کے مردے بلا خوف و خطر زندوں کی دنیا سے دور رہ کر بھی وہی سہولیات استعمال کرسکیں گے۔ اگر یوں کہا جائے کہ سہولتیں اب زندوں کے بجائے مردوں کو ہی دستیاب ہوں گی کہ مہنگائی نے زندوں کو آخر اسی ماڈل قبرستان کی طرف ہی دھکا دے دیا ہے۔
ماڈل قبرستان کا نام سنتے ہی کچھ ایسے خیالات ذہن میں آتے ہیں کہ وہاں سیکیورٹی کی سہولت کے ساتھ ساتھ بلیوارڈ بھی ہوگا۔ وائی فائی اور انٹرنیٹ کی سہولت مفت میں ملے گی۔ تمام اراکین کو ٹیب اور اسمارٹ فون فری دیے جائیں گے۔ موت اب آسان قسطوں میں بھی مل سکے گی۔ ایڈوانس کی رقم بھی نہیں بھرنی پڑے گی۔ قبرستان سے باہر رہنے والوں کو کوئی بھی سہولت درکار ہوگی تو انہیں بس زندگی کے پل سے گزر کر قبر کے نیچے جانا پڑے گا۔ اور پھر وہاں سکون ہی سکون ہوگا۔ نہ کوئی مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوگا اور نہ ہی کوئی وہاں گھبرائے گا۔ اپنا ماڈل قبرستان ہوگا جس میں ہر پارٹی اس کا پارٹ ہوگی اور شہید ذوالفقار بھٹو کے مشہور جملے کہ یہ میری پارٹی نہیں آپ سب کی پارٹی ہے۔ لازمی طور پر یہاں ہر پاکستانی کو مرنے کی سہولت دی جائے گی۔ یہ ہوتا ہے وژن، یہ ہوتا ہے لیڈر اور یہ ہوتی ہے ترقی!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔