قدر دان بنیں
زندگی سے لطف اندوزہونے کے لئے خودکوملنے والے انعامات پرنظررکھنا، ان پر شکرادا کرنا، ان کی بھرپور قدرکرنا بہت ضروری ہے
ISLAMABAD:
انسان کا وجود اور تمام کائنات ایک نعمت ہے۔ انسان کے لئے یہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز تخلیق کی گئی۔
اس کے فائدے اور استعمال کے لئے یہ سارا نظام بنایا اور سجایا گیا تاکہ وہ اس نظام میں بھرپور طریقے سے زندگی کا لطف اٹھا سکے۔ اگر ہم بطور انسان اپنی تخلیق اور خالق کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے، وہ تعداد میں اس قدر کثیر ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر نعمتیں تو ایسی بھی ہیں کہ جن کا ہمیں شعور و ادراک تک نہیں ہے۔
بنانے والے کی محبت اور حکمت ہے کہ اس نے ہم میں سے ہر ایک کو نہ صرف مکمل اور بھرپور انسان پیدا کیا ہے بلکہ الگ الگ سب کو اپنی اپنی جگہ پر ایسے خصائص سے بھی نوازا ہے ، جو ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔
مقامِ حیرت یہ ہے کہ ہم ان نعمتوں کا شمار تو ایک طرف ان پر تشکر کے جذبات کیا، ان کا احساس بھی نہیں کرتے۔ اپنی بجائے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں ، ان کی معمولی شخصی خوبیوں پر رشک و حسد میں مبتلا ہوتے ہیں اور خود کو دریافت کرنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ ہم میں بذاتِ خود کتنی بہترین چیزیں موجود ہیں۔ خود کو دریافت کرنا ، اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہونا جہاں اہم ہے۔
وہاں اس امر کی بھی شدت سے ضرورت ہے کہ خود کو عطا کردہ نعمتوں کی قدر دانی کریں۔ قدر دانی کا جذبہ نہ صرف آپ کو عطا کردہ اوصاف کو جلا بخشتا ہے بلکہ آپ کو شکر گزاری کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ جب ہم شکر گزار ہوتے ہیں، قدر دان ہوتے ہیں تو ہمارے پاس موجود نعمتوں اور خوبیوں میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ خالق کا قانون یہی ہے کہ وہ شکر کرنے والوں کو مزید نوازتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کے فرمان عظیم الشان کا مفہوم ہے کہ پانچ چیزوں کی قدر کرو اور انہیں غنیمت جانو ۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ، یعنی جوانی جس میں تمام ذہنی و جسمانی صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں ، اسے غنیمت سمجھو اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھاؤ۔ کیوں کہ جب تم پر بڑھاپا آ جائے گا ، تمہاری جسمانی و ذہنی طاقت روبہ زوال ہو جائے گی ، اس وقت تم تمام امور کی انجام دہی میں ضعف و کمزوری محسوس کرنے لگو گے، اس لئے جوانی کے بیش قیمت وقت کی قدر کرو اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اچھائی اور بھلائی کے کام سر انجام دو ۔
بیماری سے پہلے صحت کی قدر کرو، ایمان کے بعد دنیا کی سب سے بڑی نعمت صحت ہے، اس لئے اسے غنیمت سمجھو اور دینی و دنیاوی بھلائی و بہتری کے جو کام کر سکتے ہو ، کر ڈالو ۔کیونکہ بیمار آدمی خواہش تو کرتا ہے لیکن اس میں ہمت اور طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کر سکے ، اس لئے بے بسی کے اس وقت تک پہنچنے سے پہلے صحت و عافیت کے وقت کی قدر دانی کرتے ہوئے اس سے پورا فائدہ اٹھا لو ۔
فقر و افلاس سے پہلے تونگری اور خوشحالی کو غنیمت سمجھ کر اس کی قدر کرو ۔ مال انسان کی آزمائش ہے اور یہ سدا ایک ہی شخص کے پاس نہیں رہتا بلکہ اس کی ملکیت تبدیل ہوتی رہتی ہے ، اس لئے جب تک یہ نعمت تمہیں میسر ہے ، اس کی قدر کرو ، اسے اچھی جگہ پر خرچ کرو ، جس کا تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں فائدہ ہو ۔
مشاغل و تفکرات میں مبتلا ہونے سے پہلے کی فراغت و اطمینان کو ۔ انسان جب مختلف پریشانیوں اور ضروریات کے سلسلے میں مصروف ہو جاتا ہے ، اسے گھڑی بھی سستانے اور زندگی کا لطف اٹھانے کا موقع نہیں ملتا ، تب اسے وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے ، ایسی صورتحال کا شکار ہونے سے پہلے ہی فراغت کے وقت کی قدر کریں اور اس کا مثبت استعمال کر کے اسے اپنے اور دوسروں کے لئے مفید بنائیں ۔
آخری چیز جس کی قدردانی کی تلقین کی ، وہ موت سے پہلے زندگی ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جو ایک دن زندگی اور اس کی تمام رعنائیوں کا خاتمہ کرنے والی ہے ، تمام اچھے برے اعمال کا سلسلہ ختم کرنے والی ہے ۔ اس کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے اور اپنا اعمال نامہ نیکیوں سے مزین کرنا چاہیئے تا کہ ہمیں دنیا سے جاتے وقت کوئی پچھتاوا نہ ہو ۔
دین کی اس بنیادی تعلیم یعنی قدر دانی کے حوالے سے ذرا سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ایک افراتفری کی زندگی گزار رہے ہیں ، ایک ایسی دوڑ میں مگن ہیں جس میں کہیں رک کر اپنے پاس موجود چیزوں اور نعمتوں کا احساس کرنے اور ان کی قدر دانی کا وقت نکالنا نا ممکن ہو چلا ہے ۔
یہ لاپرواہی ہمیں ایسے مستقل خسارے سے دوچار کرتی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا ۔ اس لئے اپنی زندگی، دنیا اور اپنے اردگرد موجود لوگوں اور چیزوں کی قدر شناسی کرنے والے بنیں، تا کہ زندگی میں آپ کو پچھتاوا دامن گیر نہ ہو ۔ وہ چیزیں اور رشتے جن کا احساس کرنا اور قدر کرنا بے حد اہم ہے ، ان میں یہ تین '' و '' بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔
وقت
دنیا میں سب سے قیمتی اور اہم چیز وقت ہے ، ہر کھوئی اور گزری چیز واپس آ سکتی ہے، دوبارہ مل سکتی ہے ، لیکن وقت وہ واحد خزانہ ہے جس کی ایک گزری گھڑی بھی واپس نہیں ہو سکتی ، یہ وہ واحد نعمت ہے جو بس آگے اور آگے بھاگ رہی ہے ، نہ رک رہی ہے اور نہ مڑ سکتی ہے ۔ موت وہ تلخ حقیقت ہے جو اسے روک دے گی ، جب ہمارا دنیا میں وقت ختم ہوگا تب ہماری قسمت کی گھڑی کی سوئیاں بھی رک جائیں گی ۔ اس لئے اس بیش قیمت تحفے کی قدر کریں ، اس کی ایک ایک گھڑی کو غنیمت سمجھیں اور تعمیری کاموں میں صرف کریں ۔ اسے فالتو اور بے مقصد امور میں ضائع نہ ہونے دیں ، اس کے ہر لمحے کو بامقصد اور یادگار بنائیں تا کہ جب آپ کا وقت ختم ہو تو آپ کو یقین ہو کہ آپ نے اسے ضائع نہیں کیا ۔
والدین
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت والدین ہیں ، وہ ہستیاں جو ہمارے وجود اور زندگی کا سبب ہیں ، جن کی وجہ سے بطور انسان ہماری شناخت ہے ، جن کی محبت و شفقت اور بے لوث قربانیاں نہ ہوں تو ہم اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکیں ۔ جن کی پرورش، تربیت کے بغیر ہمیں اپنے انسان ہونے کے مرتبے سے آگاہی نہ ہو ۔ یہ دنیا کا واحد رشتہ ہے جو اپنی اولاد کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار رہتا ہے ۔ اپنا سکون ، آرام ، خوشی ، خواہش سب کچھ اولاد کی خاطر تج دینے کی ہمت رکھتا ہے ۔
اس مخلص ، بے غرض اور بے لوث رشتے کا ہونا نعمت ِ عظیم ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ ان کے مقام و مرتبے کو پہچانا جائے اور قدر کی جائے ، جنہوں نے اپنی جوانی اولاد کے مستقبل کو خوبصورت بنانے میں خرچ کر دی ، بہترین توانائیاں اولاد کو پر تعیش زندگی دینے کی محنت میں صرف کر دیں ۔ اولاد کا فرض ہے کہ ان کی بڑھاپے میں قدر کرے ، ان کے وجود کو باعثِ برکت جانے اور ادب سے ان کے سامنے اپنا پہلو جھکا دے ، انھیں ' اف ' تک نہ کہے اور ان کے لئے ہر وقت دعاگو رہے ، کیونکہ ان رشتوں کی موجودگی ہی سب سے بڑی طاقت ہے ، آپ کی زندگی کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے ، اس لئے ان کی قدر کریں ۔
وابستگان
اللہ تعالیٰ کی یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے انسان کو دنیا میں اکیلا نہیں رہنے دیا ، بلکہ اسے قسم قسم کے خوبصورت رشتوں اور تعلقات سے نوازا ہے ۔ انسان ان رشتوں کے بغیر ادھورا ہے اور اس کی زندگی اپنے جیسے انسانوں کی صحبت کے بناء ادھوری اور بے رنگ ہے ۔ رشتے دار، دوست احباب بے رنگ زندگی کے کینوس پر رنگ بھرتے ہیں ، اسے خوش رنگ اور دیدہ زیب بناتے ہیں ۔ دکھ سکھ ، پریشانی اور مشکل میں ساتھ دیتے ہیں ، آپ کو تنہا نہیں رہنے دیتے ، مل کر تکالیف اور خوشیاں بانٹتے ہیں ، جس سے زندگی آسان اور سہل ہو جاتی ہے ۔ اس لئے خود سے وابستہ ان تمام رشتوں اور دوستوں کی قدر کرنی چاہیے تا کہ ان کا ساتھ اور صحبت سلامت رہے ۔
نعمتوں کی قدر دانی اس وقت ممکن ہے جب ہمیں ان نعمتوں کا احساس ہو ۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکو گے ۔ یعنی وہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ تم شمار کرتے تھک جاؤ گے لیکن وہ پوری گنی نہیں جائیں گی ۔ اللہ رب العزت کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے ؟ جب وہ فرما رہا ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمتیں انسان کے احاطہ شمار سے باہر ہیں تو بلا شبہ ایسا ہی ہے ۔ مسئلہ صرف انسان کی ناشکری ، حرص اور دوسروں کے ساتھ بلاوجہ خود کا مقابلہ کرنا ہے ۔
جیسے ہر انسان کی آزمائش مختلف ہوتی ہے ، ویسے ہی ہر ایک کو عطاشدہ نعمتیں بھی مختلف ہوتی ہیں ۔ اس لئے سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ خود کو ملنے والے انعامات پر نظر رکھی جائے ۔ ان پر شکر ادا کیا جائے اور ان کی بھرپور قدر دانی کی جائے تاکہ ہم زندگی سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں ۔
انسان کا وجود اور تمام کائنات ایک نعمت ہے۔ انسان کے لئے یہ کائنات اور اس میں موجود ہر چیز تخلیق کی گئی۔
اس کے فائدے اور استعمال کے لئے یہ سارا نظام بنایا اور سجایا گیا تاکہ وہ اس نظام میں بھرپور طریقے سے زندگی کا لطف اٹھا سکے۔ اگر ہم بطور انسان اپنی تخلیق اور خالق کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے، وہ تعداد میں اس قدر کثیر ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے اکثر نعمتیں تو ایسی بھی ہیں کہ جن کا ہمیں شعور و ادراک تک نہیں ہے۔
بنانے والے کی محبت اور حکمت ہے کہ اس نے ہم میں سے ہر ایک کو نہ صرف مکمل اور بھرپور انسان پیدا کیا ہے بلکہ الگ الگ سب کو اپنی اپنی جگہ پر ایسے خصائص سے بھی نوازا ہے ، جو ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔
مقامِ حیرت یہ ہے کہ ہم ان نعمتوں کا شمار تو ایک طرف ان پر تشکر کے جذبات کیا، ان کا احساس بھی نہیں کرتے۔ اپنی بجائے دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں ، ان کی معمولی شخصی خوبیوں پر رشک و حسد میں مبتلا ہوتے ہیں اور خود کو دریافت کرنے کی زحمت تک نہیں کرتے کہ ہم میں بذاتِ خود کتنی بہترین چیزیں موجود ہیں۔ خود کو دریافت کرنا ، اپنی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہونا جہاں اہم ہے۔
وہاں اس امر کی بھی شدت سے ضرورت ہے کہ خود کو عطا کردہ نعمتوں کی قدر دانی کریں۔ قدر دانی کا جذبہ نہ صرف آپ کو عطا کردہ اوصاف کو جلا بخشتا ہے بلکہ آپ کو شکر گزاری کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ جب ہم شکر گزار ہوتے ہیں، قدر دان ہوتے ہیں تو ہمارے پاس موجود نعمتوں اور خوبیوں میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ خالق کا قانون یہی ہے کہ وہ شکر کرنے والوں کو مزید نوازتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کے فرمان عظیم الشان کا مفہوم ہے کہ پانچ چیزوں کی قدر کرو اور انہیں غنیمت جانو ۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ، یعنی جوانی جس میں تمام ذہنی و جسمانی صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں ، اسے غنیمت سمجھو اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھاؤ۔ کیوں کہ جب تم پر بڑھاپا آ جائے گا ، تمہاری جسمانی و ذہنی طاقت روبہ زوال ہو جائے گی ، اس وقت تم تمام امور کی انجام دہی میں ضعف و کمزوری محسوس کرنے لگو گے، اس لئے جوانی کے بیش قیمت وقت کی قدر کرو اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اچھائی اور بھلائی کے کام سر انجام دو ۔
بیماری سے پہلے صحت کی قدر کرو، ایمان کے بعد دنیا کی سب سے بڑی نعمت صحت ہے، اس لئے اسے غنیمت سمجھو اور دینی و دنیاوی بھلائی و بہتری کے جو کام کر سکتے ہو ، کر ڈالو ۔کیونکہ بیمار آدمی خواہش تو کرتا ہے لیکن اس میں ہمت اور طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کر سکے ، اس لئے بے بسی کے اس وقت تک پہنچنے سے پہلے صحت و عافیت کے وقت کی قدر دانی کرتے ہوئے اس سے پورا فائدہ اٹھا لو ۔
فقر و افلاس سے پہلے تونگری اور خوشحالی کو غنیمت سمجھ کر اس کی قدر کرو ۔ مال انسان کی آزمائش ہے اور یہ سدا ایک ہی شخص کے پاس نہیں رہتا بلکہ اس کی ملکیت تبدیل ہوتی رہتی ہے ، اس لئے جب تک یہ نعمت تمہیں میسر ہے ، اس کی قدر کرو ، اسے اچھی جگہ پر خرچ کرو ، جس کا تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں فائدہ ہو ۔
مشاغل و تفکرات میں مبتلا ہونے سے پہلے کی فراغت و اطمینان کو ۔ انسان جب مختلف پریشانیوں اور ضروریات کے سلسلے میں مصروف ہو جاتا ہے ، اسے گھڑی بھی سستانے اور زندگی کا لطف اٹھانے کا موقع نہیں ملتا ، تب اسے وقت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے ، ایسی صورتحال کا شکار ہونے سے پہلے ہی فراغت کے وقت کی قدر کریں اور اس کا مثبت استعمال کر کے اسے اپنے اور دوسروں کے لئے مفید بنائیں ۔
آخری چیز جس کی قدردانی کی تلقین کی ، وہ موت سے پہلے زندگی ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جو ایک دن زندگی اور اس کی تمام رعنائیوں کا خاتمہ کرنے والی ہے ، تمام اچھے برے اعمال کا سلسلہ ختم کرنے والی ہے ۔ اس کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے اور اپنا اعمال نامہ نیکیوں سے مزین کرنا چاہیئے تا کہ ہمیں دنیا سے جاتے وقت کوئی پچھتاوا نہ ہو ۔
دین کی اس بنیادی تعلیم یعنی قدر دانی کے حوالے سے ذرا سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ایک افراتفری کی زندگی گزار رہے ہیں ، ایک ایسی دوڑ میں مگن ہیں جس میں کہیں رک کر اپنے پاس موجود چیزوں اور نعمتوں کا احساس کرنے اور ان کی قدر دانی کا وقت نکالنا نا ممکن ہو چلا ہے ۔
یہ لاپرواہی ہمیں ایسے مستقل خسارے سے دوچار کرتی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا ۔ اس لئے اپنی زندگی، دنیا اور اپنے اردگرد موجود لوگوں اور چیزوں کی قدر شناسی کرنے والے بنیں، تا کہ زندگی میں آپ کو پچھتاوا دامن گیر نہ ہو ۔ وہ چیزیں اور رشتے جن کا احساس کرنا اور قدر کرنا بے حد اہم ہے ، ان میں یہ تین '' و '' بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔
وقت
دنیا میں سب سے قیمتی اور اہم چیز وقت ہے ، ہر کھوئی اور گزری چیز واپس آ سکتی ہے، دوبارہ مل سکتی ہے ، لیکن وقت وہ واحد خزانہ ہے جس کی ایک گزری گھڑی بھی واپس نہیں ہو سکتی ، یہ وہ واحد نعمت ہے جو بس آگے اور آگے بھاگ رہی ہے ، نہ رک رہی ہے اور نہ مڑ سکتی ہے ۔ موت وہ تلخ حقیقت ہے جو اسے روک دے گی ، جب ہمارا دنیا میں وقت ختم ہوگا تب ہماری قسمت کی گھڑی کی سوئیاں بھی رک جائیں گی ۔ اس لئے اس بیش قیمت تحفے کی قدر کریں ، اس کی ایک ایک گھڑی کو غنیمت سمجھیں اور تعمیری کاموں میں صرف کریں ۔ اسے فالتو اور بے مقصد امور میں ضائع نہ ہونے دیں ، اس کے ہر لمحے کو بامقصد اور یادگار بنائیں تا کہ جب آپ کا وقت ختم ہو تو آپ کو یقین ہو کہ آپ نے اسے ضائع نہیں کیا ۔
والدین
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ سب سے بڑی نعمت والدین ہیں ، وہ ہستیاں جو ہمارے وجود اور زندگی کا سبب ہیں ، جن کی وجہ سے بطور انسان ہماری شناخت ہے ، جن کی محبت و شفقت اور بے لوث قربانیاں نہ ہوں تو ہم اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکیں ۔ جن کی پرورش، تربیت کے بغیر ہمیں اپنے انسان ہونے کے مرتبے سے آگاہی نہ ہو ۔ یہ دنیا کا واحد رشتہ ہے جو اپنی اولاد کے لئے سب کچھ کرنے کو تیار رہتا ہے ۔ اپنا سکون ، آرام ، خوشی ، خواہش سب کچھ اولاد کی خاطر تج دینے کی ہمت رکھتا ہے ۔
اس مخلص ، بے غرض اور بے لوث رشتے کا ہونا نعمت ِ عظیم ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ ان کے مقام و مرتبے کو پہچانا جائے اور قدر کی جائے ، جنہوں نے اپنی جوانی اولاد کے مستقبل کو خوبصورت بنانے میں خرچ کر دی ، بہترین توانائیاں اولاد کو پر تعیش زندگی دینے کی محنت میں صرف کر دیں ۔ اولاد کا فرض ہے کہ ان کی بڑھاپے میں قدر کرے ، ان کے وجود کو باعثِ برکت جانے اور ادب سے ان کے سامنے اپنا پہلو جھکا دے ، انھیں ' اف ' تک نہ کہے اور ان کے لئے ہر وقت دعاگو رہے ، کیونکہ ان رشتوں کی موجودگی ہی سب سے بڑی طاقت ہے ، آپ کی زندگی کا سب سے بیش قیمت سرمایہ ہے ، اس لئے ان کی قدر کریں ۔
وابستگان
اللہ تعالیٰ کی یہ بھی بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے انسان کو دنیا میں اکیلا نہیں رہنے دیا ، بلکہ اسے قسم قسم کے خوبصورت رشتوں اور تعلقات سے نوازا ہے ۔ انسان ان رشتوں کے بغیر ادھورا ہے اور اس کی زندگی اپنے جیسے انسانوں کی صحبت کے بناء ادھوری اور بے رنگ ہے ۔ رشتے دار، دوست احباب بے رنگ زندگی کے کینوس پر رنگ بھرتے ہیں ، اسے خوش رنگ اور دیدہ زیب بناتے ہیں ۔ دکھ سکھ ، پریشانی اور مشکل میں ساتھ دیتے ہیں ، آپ کو تنہا نہیں رہنے دیتے ، مل کر تکالیف اور خوشیاں بانٹتے ہیں ، جس سے زندگی آسان اور سہل ہو جاتی ہے ۔ اس لئے خود سے وابستہ ان تمام رشتوں اور دوستوں کی قدر کرنی چاہیے تا کہ ان کا ساتھ اور صحبت سلامت رہے ۔
نعمتوں کی قدر دانی اس وقت ممکن ہے جب ہمیں ان نعمتوں کا احساس ہو ۔ اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اگر تم میری نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکو گے ۔ یعنی وہ نعمتیں اس قدر زیادہ ہیں کہ تم شمار کرتے تھک جاؤ گے لیکن وہ پوری گنی نہیں جائیں گی ۔ اللہ رب العزت کی بات سے بڑھ کر سچی بات اور کس کی ہو سکتی ہے ؟ جب وہ فرما رہا ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمتیں انسان کے احاطہ شمار سے باہر ہیں تو بلا شبہ ایسا ہی ہے ۔ مسئلہ صرف انسان کی ناشکری ، حرص اور دوسروں کے ساتھ بلاوجہ خود کا مقابلہ کرنا ہے ۔
جیسے ہر انسان کی آزمائش مختلف ہوتی ہے ، ویسے ہی ہر ایک کو عطاشدہ نعمتیں بھی مختلف ہوتی ہیں ۔ اس لئے سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ خود کو ملنے والے انعامات پر نظر رکھی جائے ۔ ان پر شکر ادا کیا جائے اور ان کی بھرپور قدر دانی کی جائے تاکہ ہم زندگی سے حقیقی معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں ۔