بلدیاتی الیکشن سندھ میں حد بندیوں کے 2 متوازی نظام رائج کردیے گئے سپریم کورٹ

صوبے تاخیرکریں تو انتخابات نہیں ہوسکتے،نائب تحصیل دارجسے چاہے شہری یادیہی علاقہ بنا دے، آبزرویشن

عوامی نمائندگی ایکٹ کا اطلاق لوکل باڈیزپر نہیں ہوتا، اٹارنی جنرل، اختیار دیں توحدبندیاں کرانے کو تیار ہیں، وکیل الیکشن کمیشن۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ سندھ میں حد بندیوں کے2 متوازی نظام رائج کردیے گئے ہیں، اب نائب تحصیلدار کی مرضی ہے کہ جس علاقے کو چاہے شہری اورجس کو چاہے دیہی بنا دے ۔

بلدیاتی حد بندیاں ختم کرنے کے لاہور اور سندھ ہائیکورٹ کے فیصلوںکیخلاف دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے اس قدر ابہام ہے کہ اگرصوبائی حکومتیں حد بندیوں میں تاخیرکریں تو الیکشن کمیشن انتخابات کرانے کا آئینی اختیار پھر بھی استعمال نہیں کرسکتا۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے موقف اختیارکیاکہ ووٹ سول حق ہے اور لوکل باڈیزسیاسی نہیں انتظامی یونٹ ہوتے ہیں،انھوں نے کہا کہ حد بندیوں کا اختیارصوبائی حکومت کوحاصل ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ حدبندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس نہیں ہے لیکن یہ اختیارکمیشن کودیا جا سکتاہ ے، الیکشن کمیشن کے وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ اگرقانونی اختیاردیا جائے توکمیشن حد بندیاں کرانے کوتیار ہیں،ان کا موقف تھا کہ بلدیاتی ادارے سیاسی یونٹ ہوتے ہیں کیونکہ چیئرمین کا انتخاب الیکٹرول کالج کرتا ہے جو براہ راست عوام کی منتخب کردہ باڈی ہے ۔


اٹارنی جنرل نے کہاکہ عوامی نمائندگی ایکٹ کا اطلاق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی طرح لوکل باڈیز پرنہیں ہوتا ۔ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بدھ کوکیس کی سماعت کی تواٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ،جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والے الیکشن کمیشن کی اپیل میں اکرم شیخ بطور وکیل پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں آئین کے آرٹیکل 2A کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ الیکشن کسی بھی سطح کے ہوں ووٹ دینے کا حق بنیادی ہے،آئین میں قومی ، صوبائی یا مقامی حکومتوں کی کوئی تخصیص نہیں کی گئی۔ ان کا موقف تھا کہ جمہوریت کا بنیادی یونٹ بلدیاتی باڈی ہے،جمہوریت پیراشوٹ کے ذریعے اوپر سے نازل نہیں کی جاسکتی بلکہ نیچے سے اوپرکی طرف جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں کوئی ایساآرٹیکل موجود ہے جو مقامی سطح کے انتخابات میں حدبندیوں کااختیار الیکشن کمیشن کودیتا ہو تو اکرم شیخ نے کہاکہ الیکشن کمیشن کے پاس شفاف انتخابات کرانے کا اختیار ہے اور اس اختیارکووسعت دی جاسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ حد بندیوں کے لیے نیا قانون بنانے کے بجائے آسان حل یہ تھا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ میں ہی اس حوالے سے ترمیم کرلی جاتی، انھوں نے فاضل وکیل سے استفسارکیاکہ آرٹیکل 140Aکو آئین میں شامل کرنے کا مقصد کیا تھا تو اکرم شیخ نے کہاکہ اس کا بنیادی مقصد اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنا تھا تاکہ آئین اور سیاسی انصاف کے فوائد نچلی سطح تک جائیں جس پرچیف جسٹس نے کہاکہ ایک طرف اختیارات نچلی سطح تک منتقل کررہے ہیں تو دوسری طرف الیکشن کرانے کا اختیار وفاقی ادارے الیکشن کمیشن کودے دیا گیا ہے ۔اکرم شیخ نے کہاکہ آرٹیکل 140Aکے ذریعے سیاسی،انتظامی اور مالی اختیارات مقامی حکومتوں کو دیے گئے اور الیکشن الیکشن کمیشن کے ذریعے کرانے کا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا تھا ۔

انھوں نے کہاکہ حد بندیوں کا مکمل اختیار صوبائی حکومتوں کے پاس ہے جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ایک صوبائی حکومت حد بندیوں میں تاخیرکرے تو الیکشن کمیشن اپنا آئینی اختیار استعمال ہی نہیں کرسکتا ۔ اکرم شیخ نے کہاکہ حد بندیوں سے متعلق آئینی اختیار الیکشن کمیشن کو دیں شفاف الیکشن کرادے گا ۔اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی معاون مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکیا تاہم وقت کی کمی کے باعث عدالت نے انھیں آج جمعرات کو دلائل جاری رکھنے کا کہا اور سماعت ملتوی کردی ۔سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی معاونین کے بعد جوابی دلائل بھی دیں گے کیونکہ بعض نئے آئینی نکات سامنے آئے ہیں۔
Load Next Story